مندرجات کا رخ کریں

"نفس لوامہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

1,462 بائٹ کا اضافہ ،  25 دسمبر 2020ء
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
{{اخلاق-عمودی}}
{{اخلاق-عمودی}}
'''نَفْسِ لَوَّامہ'''، ٹوکنے والے، سرزنش کرنے والے اور ملامت کرنے والے نفس کے معنی میں ہے۔ اور یہ ایسی حالت ہے جس میں انسان اپنی غلطیوں کی وجہ سے خود ہی اپنی سرزنش کرتا ہے۔ یہ اصطلاح، سورہ قیامت کی دوسری آیت سے لی گئی ہے۔ مسلمان علماء نے اس آیت کے ذیل میں نفس لوامہ کی مختلف تفسیریں پیش کی ہیں۔
'''نَفْسِ لَوَّامہ'''، ٹوکنے والے، سرزنش کرنے والے اور ملامت کرنے والے نفس کے معنی میں ہے۔ اور یہ ایسی حالت ہے جس میں انسان اپنی غلطیوں کی وجہ سے خود ہی اپنی سرزنش کرتا ہے۔ یہ اصطلاح، [[سورہ قیامت]] کی دوسری آیت سے لی گئی ہے۔ مسلمان علماء نے اس آیت کے ذیل میں نفس لوامہ کی مختلف تفسیریں پیش کی ہیں۔
   
   
نفس لوامہ کے مقابل میں نفس امارہ اور نفس مطمئنہ آتے ہیں۔ مسلمان علماء کے مطابق، انسان کی صرف ایک حقیقت ہے۔ وہی جب عقل کی پیروی کرتی ہے تو اسے نفس لوامہ کہا جاتا ہے اور جب عقل کے خلاف حکم کرتی ہے تو اسی کو نفس امارہ کہتے ہیں۔ اور جب اس کو روحانی سکون مل جاتا ہے تو اسی کو نفس مطمئنہ کہا جاتا ہے۔
نفس لوامہ کے مقابل میں [[نفس امارہ]] اور [[نفس مطمئنہ]] آتے ہیں۔ مسلمان علماء کے مطابق، انسان کی صرف ایک حقیقت ہے۔ وہی جب عقل کی پیروی کرتی ہے تو اسے نفس لوامہ کہا جاتا ہے اور جب عقل کے خلاف حکم کرتی ہے تو اسی کو نفس امارہ کہتے ہیں۔ اور جب اس کو روحانی سکون مل جاتا ہے تو اسی کو نفس مطمئنہ کہا جاتا ہے۔


==نفس لوامہ کا مفہوم==
==نفس لوامہ کا مفہوم==


نَفْسِ لَوَّامہ، ٹوکنے والے، سرزنش کرنے والے اور ملامت کرنے والے نفس کے معنی میں ہے۔ شہید مطہری کے بقول یہ نفس کا وہ مقام ہے جو نفس امارہ سے اوپر اور نفس مطمئنہ سے نیچے ہے۔<ref>مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۸۹ش، ج۳، ص۵۹۵-۵۹۶.</ref> [[محمد تقی مصباح یزدی]] نے بھی کہا ہے کہ یہ نفس کی وہ حالت ہے جس میں انسان اپنی غلطیوں پر پشیمان ہوتا ہے اور اپنی ملامت کرتا ہے۔<ref>مصباح یزدی، آیین پرواز، ۱۳۹۹ش، ص۲۶.</ref> یہ اصطلاح، [[سورہ قیامت]] استعمال ہوئی ہے: {{عربی|«وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ}}: اور قسم ہے ملامت کرنے والے نفس کی»۔
نَفْسِ لَوَّامہ، ٹوکنے والے، سرزنش کرنے والے اور ملامت کرنے والے نفس کے معنی میں ہے۔ [[مرتضی مطہری]] کے بقول یہ نفس کا وہ مقام ہے جو نفس امارہ سے اوپر اور نفس مطمئنہ سے نیچے ہے۔<ref>مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۸۹ش، ج۳، ص۵۹۵-۵۹۶.</ref> [[محمد تقی مصباح یزدی]] نے بھی کہا ہے کہ یہ نفس کی وہ حالت ہے جس میں انسان اپنی غلطیوں پر پشیمان ہوتا ہے اور اپنی ملامت کرتا ہے۔<ref>مصباح یزدی، آیین پرواز، ۱۳۹۹ش، ص۲۶.</ref> یہ اصطلاح، [[سورہ قیامت]] استعمال ہوئی ہے: {{عربی|«وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ}}: اور قسم ہے ملامت کرنے والے نفس کی»۔


کہتے ہیں کہ نفس لوامہ وہی ضمیر ہے جو گناہ کے بعد انسان کو ملامت کرتا ہے اور اس کو اندرونی طور پر بے چین کردیتا ہے۔<ref>محفوظی، «نفس لوامہ»، ص۱۲.</ref>
کہتے ہیں کہ نفس لوامہ وہی ضمیر ہے جو گناہ کے بعد انسان کو ملامت کرتا ہے اور اس کو اندرونی طور پر بے چین کردیتا ہے۔<ref>محفوظی، «نفس لوامہ»، ص۱۲.</ref>
===نفس امارہ اور نفس مطمئنہ کا فرق===
===نفس امارہ اور نفس مطمئنہ کا فرق===
نفس لوامہ در حقیقت، [[نفس امارہ|نفس اَمّارہ]] اور [[نفس مطمئنہ]] کے مقابل میں ہے۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۶۷، ص۳۷؛ مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۸۹ش، ج۳، ص۵۹۵-۵۹۶؛ مصباح یزدی، آیین پرواز، ۱۳۹۹ش، ص۲۶-۲۷.</ref> نفس امارہ، نفس کی وہ حالت ہے جس میں انسان اپنی عقل کی نہیں سنتا ہے اور گناہ کرنے لگتا ہے۔<ref>مصباح یزدی، آیین پرواز، ۱۳۹۹ش، ص۲۷؛ مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۸۹ش، ج۳، ص۵۹۵-۵۹۶.</ref> نفس مطمئنہ وہ حالت ہے جس میں انسان، مسلسل عقل کی طرف توجہ دینے اور اس کی سننے کے سبب اس کام کو اپنی ایک عادت اور ملکہ بنا لیتا ہے اور انسان کو سکون و اطمینان حاصل ہوجاتا ہے۔<ref>مصباح یزدی، آیین پرواز، ۱۳۹۹ش، ص۲۷.</ref>


نفس لوامہ در حقیقت، نفس اَمّارہ اور نفس مطمئنہ کے مقابل میں ہے۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۶۷، ص۳۷؛ مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۸۹ش، ج۳، ص۵۹۵-۵۹۶؛ مصباح یزدی، آیین پرواز، ۱۳۹۹ش، ص۲۶-۲۷.</ref> نفس امارہ، نفس کی وہ حالت ہے جس میں انسان اپنی عقل کی نہیں سنتا ہے اور گناہ کرنے لگتا ہے۔<ref>مصباح یزدی، آیین پرواز، ۱۳۹۹ش، ص۲۷؛ مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۸۹ش، ج۳، ص۵۹۵-۵۹۶.</ref> نفس مطمئنہ وہ حالت ہے جس میں انسان، مسلسل عقل کی طرف توجہ دینے اور اس کی سننے کے سبب اس کام کو اپنی ایک عادت اور ملکہ بنا لیتا ہے اور انسان کو سکون و اطمینان حاصل ہوجاتا ہے۔<ref>مصباح یزدی، آیین پرواز، ۱۳۹۹ش، ص۲۷.</ref>
==  انسان کی حقیقت کے ایک ہونے اور نفسوں کے متعدد ہونے میں منافات نہ ہونا==
==  انسان کی حقیقت کے ایک ہونے اور نفسوں کے متعدد ہونے میں منافات نہ ہونا==
مسلمان علما کے اعتبار سے اس میں کوئی منافات نہیں ہے کہ انسان کی حقیقت تو ایک ہے لیکن اس کے نفس مختلف ہیں جیسے نفس امارہ ہے، نفس لوامہ ہے، اور نفس مطمئنہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انسان کی ایک سے زیادہ حقیقت نہیں ہے اور انسان کا نفس بھی ایک ہی ہے اور یہ جو تین اصطلاحات ہیں یہ درحقیقت انسان کے نفس کی مختلف حالتیں ہیں۔<ref> مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۶۷، ص۳۶-۳۷؛ مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۸۹ش، ج۳، ص۵۹۵؛ مصباح یزدی، «اخلاق و عرفان اسلامی»، ص۸.</ref>
مسلمان علما کے اعتبار سے اس میں کوئی منافات نہیں ہے کہ انسان کی حقیقت تو ایک ہے لیکن اس کے نفس مختلف ہیں جیسے نفس امارہ ہے، نفس لوامہ ہے، اور نفس مطمئنہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انسان کی ایک سے زیادہ حقیقت نہیں ہے اور انسان کا نفس بھی ایک ہی ہے اور یہ جو تین اصطلاحات ہیں یہ درحقیقت انسان کے نفس کی مختلف حالتیں ہیں۔<ref> مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۶۷، ص۳۶-۳۷؛ مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۸۹ش، ج۳، ص۵۹۵؛ مصباح یزدی، «اخلاق و عرفان اسلامی»، ص۸.</ref>


محمد تقی مصباح یزدی نے لکھا ہے کہ کبھی نفس برے کاموں کا حکم دیتا ہے اور اس کو نفس امارہ کہتے ہیں اور کبھی کبھی نفس خود اپنے آپ کی ملامت کرتا ہے تو ایسی حالت میں اس کو نفس لوامہ کہتے ہیں۔<ref>مصباح یزدی، «اخلاق و عرفان اسلامی»، ص۸.</ref>
[[محمد تقی مصباح یزدی]] نے لکھا ہے کہ کبھی نفس برے کاموں کا حکم دیتا ہے اور اس کو نفس امارہ کہتے ہیں اور کبھی کبھی نفس خود اپنے آپ کی ملامت کرتا ہے تو ایسی حالت میں اس کو نفس لوامہ کہتے ہیں۔<ref>مصباح یزدی، «اخلاق و عرفان اسلامی»، ص۸.</ref> [[مرتضی مطہری]] کے بقول، انسان کے اندر دو "میں" یا دو "خود" نہیں ہوتے ہیں۔ بلکہ ایک ہی "خود" ہوتا ہے لیکن اس کے درجے الگ الگ ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی وہ نیچے درجہ پر پہنچ جاتا ہے، ایسے موقع پر وہ عقل کی نہیں سنتا، یہ اس کا نفس امارہ ہے، اس سے بالاتر مقام پر ذرا ہوش مند ہے، اور اگر غلط کام کرتا ہے تو خود ہی اپنے اوپر مقدمہ چلاتا ہے اور اس کو نفس لوامہ کہتے ہیں۔<ref>مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۸۹ش، ج۳، ص۵۹۴-۵۹۶.</ref>
شہید مطہری کے بقول، انسان کے اندر دو "میں" یا دو "خود" نہیں ہوتے ہیں۔ بلکہ ایک ہی "خود" ہوتا ہے لیکن اس کے درجے الگ الگ ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی وہ نیچے درجہ پر پہنچ جاتا ہے، ایسے موقع پر وہ عقل کی نہیں سنتا، یہ اس کا نفس امارہ ہے، اس سے بالاتر مقام پر ذرا ہوش مند ہے، اور اگر غلط کام کرتا ہے تو خود ہی اپنے اوپر مقدمہ چلاتا ہے اور اس کو نفس لوامہ کہتے ہیں۔<ref>مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۸۹ش، ج۳، ص۵۹۴-۵۹۶.</ref>


== تفسیر کی کتابوں میں نفس لوامہ ==
== تفسیر کی کتابوں میں نفس لوامہ ==
قرآن کی تفسیر کی کتابوں میں نفس لوامہ کے سلسلے سے کئی طرح کے نظریہ پیش کئے گئے ہیں جن میں سے چند اس طرح سے ہیں:
[[قرآن]] کی تفسیر کی کتابوں میں نفس لوامہ کے سلسلے سے کئی طرح کے نظریہ پیش کئے گئے ہیں جن میں سے چند اس طرح سے ہیں:
* نفس امارہ سے مراد، مومن انسان کا نفس ہے جو گناہوں کی وجہ سے یا نیکی کرنے میں سستی کرنے کی وجہ سے اپنی ملامت کرتا ہے۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۸ھ، ج۲۰، ص۱۰۳؛ فخررازی، مفاتیح‌الغیب، ۱۴۲۰ھ، ج۳۰، ص۷۲۰.</ref> علامہ طباطبائی نے اس نظریہ کو قبول کیا ہے <ref> طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۸ھ، ج۲۰، ص۱۰۳.</ref>
* نفس امارہ سے مراد، مومن انسان کا نفس ہے جو [[گناہ|گناہوں]] کی وجہ سے یا نیکی کرنے میں سستی کرنے کی وجہ سے اپنی ملامت کرتا ہے۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۸ھ، ج۲۰، ص۱۰۳؛ فخررازی، مفاتیح‌الغیب، ۱۴۲۰ھ، ج۳۰، ص۷۲۰.</ref> علامہ طباطبائی نے اس نظریہ کو قبول کیا ہے <ref> طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۸ھ، ج۲۰، ص۱۰۳.</ref>
* نفس لوامہ سے مراد تمام انسانوں کا نفس ہے، چاہے وہ نیک ہوں چاہے وہ برے ہوں۔ اور اس میں قیامت کا منظر مدنظر ہے کیونکہ قیامت میں جو برے ہوں گے وہ اس لئے اپنی ملامت کریں گے کہ انہوں نے دنیا میں تقوی اختیار نہیں کیا اور نیک لوگ اس وجہ سے اپنی ملامت کریں گے کہ اور زیادہ عبادتیں کیوں نہیں کیں۔ اس نظریہ کی نسبت عبداللہ ابن عباس کی طرح دی جاتی ہے.  
* نفس لوامہ سے مراد تمام انسانوں کا نفس ہے، چاہے وہ نیک ہوں چاہے وہ برے ہوں۔ اور اس میں [[قیامت]] کا منظر مدنظر ہے کیونکہ قیامت میں جو برے ہوں گے وہ اس لئے اپنی ملامت کریں گے کہ انہوں نے دنیا میں تقوی اختیار نہیں کیا اور نیک لوگ اس وجہ سے اپنی ملامت کریں گے کہ اور زیادہ عبادتیں کیوں نہیں کیں۔ اس نظریہ کی نسبت عبداللہ ابن عباس کی طرح دی جاتی ہے.  
* نفس امارہ سے مراد، قیامت میں صرف گنہگاروں کا نفس ہے کیونکہ وہی لوگ ہوں گے جو گناہ کی وجہ سے قیامت۔ اپنی ملامت کر رہے ہوں گے.
* نفس امارہ سے مراد، قیامت میں صرف گنہگاروں کا نفس ہے کیونکہ وہی لوگ ہوں گے جو گناہ کی وجہ سے قیامت۔ اپنی ملامت کر رہے ہوں گے.
* اس سے مراد باتقوی اور پرہیز گار لوگ ہیں کہ یہ لوگ قیامت میں گنہگاروں کی ملامت کریں گے.<ref>فخررازی، مفاتیح‌الغیب، ۱۴۲۰ھ، ج۳۰، ص۷۲۰-۷۲۱.</ref>
* اس سے مراد باتقوی اور پرہیز گار لوگ ہیں کہ یہ لوگ قیامت میں گنہگاروں کی ملامت کریں گے.<ref>فخررازی، مفاتیح‌الغیب، ۱۴۲۰ھ، ج۳۰، ص۷۲۰-۷۲۱.</ref>
سطر 42: سطر 41:
{{فضائل اخلاقی}}
{{فضائل اخلاقی}}
[[fa:نفس لوامه]]
[[fa:نفس لوامه]]
[[Category:قرآنی اصطلاحات]]
[[Category:اخلاقی اصطلاحات]]
[[Category:تصحیح شدہ مقالے]]
[[Category:قرآنی اصطلاحات]]
[[Category:اخلاقی اصطلاحات]]
[[Category:تصحیح شدہ مقالے]]
[[Category:قرآنی اصطلاحات]]
[[Category:اخلاقی اصطلاحات]]
[[Category:تصحیح شدہ مقالے]]
[[Category:قرآنی اصطلاحات]]
[[Category:اخلاقی اصطلاحات]]
[[Category:تصحیح شدہ مقالے]]
[[Category:قرآنی اصطلاحات]]
[[Category:اخلاقی اصطلاحات]]
[[Category:تصحیح شدہ مقالے]]
[[Category:قرآنی اصطلاحات]]
[[Category:اخلاقی اصطلاحات]]
[[Category:تصحیح شدہ مقالے]]
[[Category:قرآنی اصطلاحات]]
[[Category:اخلاقی اصطلاحات]]
[[Category:تصحیح شدہ مقالے]]
[[Category:قرآنی اصطلاحات]]
[[Category:اخلاقی اصطلاحات]]
[[Category:تصحیح شدہ مقالے]]
[[Category:قرآنی اصطلاحات]]
[[Category:اخلاقی اصطلاحات]]
[[Category:تصحیح شدہ مقالے]]
[[Category:قرآنی اصطلاحات]]
[[Category:اخلاقی اصطلاحات]]
[[Category:تصحیح شدہ مقالے]]
[[Category:قرآنی اصطلاحات]]
[[Category:اخلاقی اصطلاحات]]
[[Category:تصحیح شدہ مقالے]]


[[زمرہ:قرآنی اصطلاحات]]
[[زمرہ:قرآنی اصطلاحات]]
[[زمرہ:اخلاقی اصطلاحات]]
[[زمرہ:اخلاقی اصطلاحات]]
[[زمرہ:تصحیح شدہ مقالے]]
[[زمرہ:تصحیح شدہ مقالے]]
confirmed، Moderators، منتظمین، templateeditor
21

ترامیم