"دعائے اللہم کن لولیک" کے نسخوں کے درمیان فرق
←دعا کا متن
سطر 25: | سطر 25: | ||
==دعا کا متن== | ==دعا کا متن== | ||
دعائے اللہم کن لولیک مختلف کتابوں میں الگ الگ تعبیروں کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔ | دعائے اللہم کن لولیک مختلف کتابوں میں الگ الگ تعبیروں کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔ | ||
مثلا «[[مصباح المتہجد|مِصْباحُ الْمُتَہَجِّد]]» میں [[شیخ طوسی]] نے یوں نقل کیا ہے: «اللَّهُمَ کُنْ لِوَلِیکَ فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ فِی هَذِهِ السَّاعَةِ وَ فِی کُلِّ سَاعَةٍ وَلِیاً وَ حَافِظاً وَ قَائِداً وَ نَاصِراً وَ دَلِیلًا وَ عَیناً حَتَّی تُسْکِنَهُ أَرْضَکَ طَوْعاً وَ تُمَتِّعَهُ فِیهَا | مثلا «[[مصباح المتہجد|مِصْباحُ الْمُتَہَجِّد]]» میں [[شیخ طوسی]] نے یوں نقل کیا ہے: {{حدیث|«اللَّهُمَ کُنْ لِوَلِیکَ فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ فِی هَذِهِ السَّاعَةِ وَ فِی کُلِّ سَاعَةٍ وَلِیاً وَ حَافِظاً وَ قَائِداً وَ نَاصِراً وَ دَلِیلًا وَ عَیناً حَتَّی تُسْکِنَهُ أَرْضَکَ طَوْعاً وَ تُمَتِّعَهُ فِیهَا طَوِیلًا}}، خدایا تو اپنے [[ولی]] فلاں بن فلاں کے لئے ان لمحات میں اور ہر وقت ایک سرپرست، حافظ، رہبر، مددگار، رہنما اور نگہبان بننا، تاکہ تو اس کو لوگوں کی رغبت سے اپنی زمین پر آباد کرے اور لمبے وقت تک نعمتوں سے بہرہ مند فرمائے۔<ref>طوسی، مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۶۳۰و۶۳۱۔</ref> یہ دعا کتاب [[اقبال الاعمال]] میں کچھ اضافات کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔<ref>سید بن طاووس، اقبال الاعمال، ۱۴۱۹ق، ج۱، ص۸۵.</ref> | ||
[[تہذیب الاحکام]] میں یہ دعا [[امام باقر علیہ السلام]] اور [[امام صادق علیہ السلام]] سے نقل ہوئی ہے؛<ref>طوسی، تہذیب الاحکام، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۱۰۲و۱۰۳.</ref> لیکن باقی [[منابع]] میں «الصَّالِحِینَ» کی تعبیر ہے اور واضح نہیں ہے کہ کونسے [[امام]] سے نقل ہوئی ہے۔<ref>دیکھئے: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۱۶۲؛ طوسی، مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۶۳۰و۶۳۱؛ ابن مشہدی، المزار الکبیر، ۱۴۱۹ق، ص۶۱۲.</ref> | [[تہذیب الاحکام]] میں یہ دعا [[امام باقر علیہ السلام]] اور [[امام صادق علیہ السلام]] سے نقل ہوئی ہے؛<ref>طوسی، تہذیب الاحکام، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۱۰۲و۱۰۳.</ref> لیکن باقی [[منابع]] میں «الصَّالِحِینَ» کی تعبیر ہے اور واضح نہیں ہے کہ کونسے [[امام]] سے نقل ہوئی ہے۔<ref>دیکھئے: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۱۶۲؛ طوسی، مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۶۳۰و۶۳۱؛ ابن مشہدی، المزار الکبیر، ۱۴۱۹ق، ص۶۱۲.</ref> | ||
جن کتابوں میں یہ دعا نقل ہوئی ہے ان میں سے اکثر میں«فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ» کی تعبیر آئی ہے۔<ref>دیکھئے: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۱۶۲؛ طوسی، تہذیب الاحکام، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۱۰۳؛ طوسی، مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۶۳۰و۶۳۱؛ ابن مشہدی، المزار الکبیر، ۱۴۱۹ق، ص۶۱۲؛ کفعمی، البلد الامین، ۱۴۱۸ق، ص۲۰۳.</ref> چھٹی اور [[ساتویں صدی]] کے شیعہ [[محدث]]، [[سید بن طاووس]] اپنی کتاب [[اقبال الاعمال]] میں فلاں بن فلاں کی جگہ اس طرح لائے ہیں: «اللَّهُمَ کُنْ لِوَلِیکَ الْقَائِمِ بِأَمْرِکِ الْحُجَّةِ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ الْمَهْدِی عَلَیهِ وَ عَلَی آبَائِهِ أَفْضَلُ الصَّلَاةِ وَ السَّلَامِ».<ref>سید بن طاووس، اقبال الاعمال، ۱۴۱۹ق، ج۱، ص۸۵.</ref> کتاب [[مصباح کفعمی]] میں بھی «مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ الْمَہْدِی» ہی آیا ہے<ref>کفعمی، المصباح، ۱۴۰۵ق، ص۵۸۶.</ref> [[گیارہویں صدی]] کے شیعہ [[محدث]] [[محمدتقی مجلسی]] نے کہا ہے کہ دعا کے فقروں کا [[ظاہر]] اس بات کا شاہد ہے کہ فلاں بن فلاں کی جگہ [[امام زمانہ]] [[عجل اللہ تعالیٰ فرجہ]] کا نام لینا جائز ہے البتہ اگر آپ کے [[لقب]] سے استفادہ کریں تو بہتر ہے۔<ref>مجلسی، روضة المتقین، ۱۴۰۶ق، ج۳، ص۴۴۹.</ref> | جن کتابوں میں یہ دعا نقل ہوئی ہے ان میں سے اکثر میں«فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ» کی تعبیر آئی ہے۔<ref>دیکھئے: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۱۶۲؛ طوسی، تہذیب الاحکام، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۱۰۳؛ طوسی، مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۶۳۰و۶۳۱؛ ابن مشہدی، المزار الکبیر، ۱۴۱۹ق، ص۶۱۲؛ کفعمی، البلد الامین، ۱۴۱۸ق، ص۲۰۳.</ref> چھٹی اور [[ساتویں صدی]] کے شیعہ [[محدث]]، [[سید بن طاووس]] اپنی کتاب [[اقبال الاعمال]] میں فلاں بن فلاں کی جگہ اس طرح لائے ہیں: «اللَّهُمَ کُنْ لِوَلِیکَ الْقَائِمِ بِأَمْرِکِ الْحُجَّةِ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ الْمَهْدِی عَلَیهِ وَ عَلَی آبَائِهِ أَفْضَلُ الصَّلَاةِ وَ السَّلَامِ».<ref>سید بن طاووس، اقبال الاعمال، ۱۴۱۹ق، ج۱، ص۸۵.</ref> کتاب [[مصباح کفعمی]] میں بھی «مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ الْمَہْدِی» ہی آیا ہے<ref>کفعمی، المصباح، ۱۴۰۵ق، ص۵۸۶.</ref> [[گیارہویں صدی]] کے شیعہ [[محدث]] [[محمدتقی مجلسی]] نے کہا ہے کہ دعا کے فقروں کا [[ظاہر]] اس بات کا شاہد ہے کہ فلاں بن فلاں کی جگہ [[امام زمانہ]] [[عجل اللہ تعالیٰ فرجہ]] کا نام لینا جائز ہے البتہ اگر آپ کے [[لقب]] سے استفادہ کریں تو بہتر ہے۔<ref>مجلسی، روضة المتقین، ۱۴۰۶ق، ج۳، ص۴۴۹.</ref> |