مندرجات کا رخ کریں

"شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید)" کے نسخوں کے درمیان فرق

imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 53: سطر 53:


== کتابیں==
== کتابیں==
ابن ابی الحدید کی شرح نہج البلاغہ پر نقد، خلاصہ یا ترجمہ کرکے بعض کتابیں لکھی گئی ہیں۔ رضا استاد کے کہنے کے مطابق اس کی شرح، ترجمہ اور حاشیہ نویسی پر 20 کتابیں لکھی گئی ہیں۔<ref>استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ۱۳۵۹ش، ص۳۷-۳۹.</ref>
ابن ابی الحدید کی شرح نہج البلاغہ پر نقد، خلاصہ یا ترجمہ کرکے بعض کتابیں لکھی گئی ہیں۔ رضا استادی کے کہنے کے مطابق اس کی شرح، ترجمہ اور حاشیہ نویسی پر 20 کتابیں لکھی گئی ہیں۔<ref>استادی، کتاب نامہ نہج البلاغہ، ۱۳۵۹ش، ص۳۷-۳۹.</ref>


===نقد پر مشتمل کتابیں===
===نقد پر مشتمل کتابیں===
شیعہ علما میں سے بعض نے ابن ابی الحدید کی شرح نہج البلاغہ پر نقد میں بعض کتابیں لکھی ہیں؛ کیونکہ اس کتاب میں بعض ایسے مطالب پائی جاتی ہیں جو امامت اور تاریخی کچھ مسائل کے بارے میں شیعہ عقیدہ سے سازگار نہیں ہیں۔<ref>مثال کے طور پر مشاہدہ کریں:ابن ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، ج۲، ص۵۹.</ref> ان کتابوں میں: شیخ یوسف بحرانی (متوفی 1186ھ) کی کتاب «سلاسل الحدید لتقیید ابن ابی‌الحدید»،<ref>آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، ۱۴۰۸ق، ج۱۲، ص۲۱۰.</ref> [[احمد بن طاووس حلی]] (متوفی ۶۷۳ھ/۱۲۷۴ء) کی کتاب «الروح فی النقض ما ابرمہ ابن ابی‌الحدید»، علی بن حسن بلادی بحرانی (متوفی۱۳۴۰ھ/۱۹۲۲ء) کی کتاب، «الرّد علی ابن ابی‌الحدید»، شیخ یوسف کوفی کی کتاب «سلاسل الحدید فی الرد علی ابن ابی الحدید»، اور «النقد السدید لشرح الخطبۃ الشقشقیہ لابن ابی‌الحدید».<ref>حسینی، مصادر نہج‌البلاغہ، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۲۳۷-۲۳۸؛ استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ۱۳۵۹ش، ص۳۷-۳۹.</ref>
[[شیعہ]] علما میں سے بعض نے ابن ابی الحدید کی شرح نہج البلاغہ پر نقد میں بعض کتابیں لکھی ہیں؛ کیونکہ اس کتاب میں بعض ایسے مطالب پائی جاتی ہیں جو [[امامت]] اور تاریخی کچھ مسائل کے بارے میں شیعہ عقیدہ سے سازگار نہیں ہیں۔<ref>مثال کے طور پر مشاہدہ کریں: ابن ابی‌ الحدید، شرح نہج ‌البلاغہ، ج۲، ص۵۹.</ref> ان کتابوں میں: [[شیخ یوسف بحرانی]] (متوفی 1186ھ) کی کتاب «سلاسل الحدید لتقیید ابن ابی‌ الحدید»،<ref> آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، ۱۴۰۸ق، ج۱۲، ص۲۱۰.</ref> [[احمد بن طاووس حلی]] (متوفی 673ھ/1274ء) کی کتاب «الروح فی النقض ما ابرمہ ابن ابی ‌الحدید»، علی بن حسن بلادی بحرانی (متوفی 1340ھ/1922ء) کی کتاب، «الرّد علی ابن ابی‌ الحدید»، شیخ یوسف کوفی کی کتاب «سلاسل الحدید فی الرد علی ابن ابی الحدید»، اور «النقد السدید لشرح الخطبۃ الشقشقیہ لابن ابی‌ الحدید».<ref>حسینی، مصادر نہج ‌البلاغہ، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۲۳۷-۲۳۸؛ استادی، کتاب نامہ نہج البلاغہ، ۱۳۵۹ش، ص۳۷-۳۹.</ref>


===ترجمے===
===ترجمے===
شرح نہج‌البلاغہ کا فارسی میں ترجمہ ہوا ہے؛ ملاشمس‌الدین بن محمد بن مراد (متوفی ۱۰۱۳ھ) اور نصراللہ بن فتح‌اللہ دزفولی نے اس کا فارسی میں ترجمہ کیا ہے۔<ref>حسینی، مصادر نہج‌البلاغہ، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۲۳۸.</ref> محمود مہدوی‌دامغانی‌ کی کتاب «جلوہ‌ تاریخ‌ در شرح‌ نہج‌البلاغہ‌ ابن‌ابی‌الحدید» اس شرح کا ترجمہ اور ترجمہ اور اس پر حاشیہ آٹھ جلدوں میں جبکہ غلام رضا لایق کا ترجمہ اور بیس جلدوں میں نشر ہوچکا ہے۔ اسی طرح حسین طیبیان کی کتاب «امام علی علیہ‌السلام از دیدگاہ ابن‌ابی‌الحدید معتزلی» بھی اسی شرح نہج البلاغہ سے ماخوذ ہے۔<ref>[http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/2325288 «امام علی علیہ‌السلام از دیدگاہ ابن‌ابی‌الحدید معتزلی/ نگارندہ حسین طیبیان.»]</ref>
شرح نہج ‌البلاغہ کا فارسی میں ترجمہ ہوا ہے؛ ملا شمس‌ الدین بن محمد بن مراد (متوفی 1013ھ) اور نصر اللہ بن فتح ‌اللہ دزفولی نے اس کا فارسی میں ترجمہ کیا ہے۔<ref>حسینی، مصادر نہج‌البلاغہ، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۲۳۸.</ref> محمود مہدوی‌ دامغانی‌ کی کتاب «جلوہ‌ تاریخ‌ در شرح‌ نہج‌ البلاغہ‌ ابن‌ ابی‌ الحدید» اس شرح کا ترجمہ اور ترجمہ اور اس پر حاشیہ آٹھ جلدوں میں جبکہ غلام رضا لایق کا ترجمہ اور بیس جلدوں میں نشر ہو چکا ہے۔ اسی طرح حسین طیبیان کی کتاب «امام علی علیہ‌ السلام از دیدگاہ ابن‌ ابی ‌الحدید معتزلی» بھی اسی شرح نہج البلاغہ سے ماخوذ ہے۔<ref>[http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/2325288 «امام علی علیہ‌السلام از دیدگاہ ابن ‌ابی‌ الحدید معتزلی/ نگارندہ حسین طیبیان.»]</ref>


===خلاصے===
===خلاصے===
شرح نہج البلاغہ کے خلاصے مندرجہ ذیل ہیں:
شرح نہج البلاغہ کے خلاصے مندرجہ ذیل ہیں:
*فخرالدین عبداللہ المؤید باللہ کی کتاب «العقد النضید المستخرج من شرح ابن ابی‌الحدید»<ref>حسینی، مصادر نہج‌البلاغہ، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۲۳۸.</ref>
*فخر الدین عبد اللہ المؤید باللہ کی کتاب «العقد النضید المستخرج من شرح ابن ابی‌ الحدید»<ref>حسینی، مصادر نہج‌البلاغہ، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۲۳۸.</ref>
*سلطان محمود طبسی نے بھی اس کتاب کا خلاصہ کیا ہے اور شیخ محمد قنبرعلی کاظمی نے اپنی کتاب «التقاط الدرر المنتخب» کو شرح نہج البلاغہ سے استخراج کیا ہے۔<ref>حسینی، مصادر نہج‌البلاغہ، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۲۳۸.</ref>  
*سلطان محمود طبسی نے بھی اس کتاب کا خلاصہ کیا ہے اور شیخ محمد قنبر علی کاظمی نے اپنی کتاب «التقاط الدرر المنتخب» کو شرح نہج البلاغہ سے استخراج کیا ہے۔<ref>حسینی، مصادر نہج‌البلاغہ، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۲۳۸.</ref>  


اسی طرح احمد ربیعی کی کتاب «العُذَیق النضید بمصادر ابن ابی‌الحدید فی شرح نہج‌البلاغہ» ان منابع اور مآخذ کے بارے میں لکھی گئی ہے جنہیں ابن ابی الحدید نے استفادہ کیا ہے۔<ref>ربیعی، العُذَیق النضید بمصادر ابن ابی‌الحدید فی شرح نہج‌البلاغہ، مقدمہ، ۱۴۰۷ق، ص ۵-۶.</ref> اس کتاب میں ابن ابی الحدید کی طرف سے استفادہ شدہ 222 کتابوں کا ذکر ہوا ہے۔<ref>سبحانی‌نیا،«شرح نہج‌البلاغہ ابن ابی‌الحدید»، ص۵۹.</ref>
اسی طرح احمد ربیعی کی کتاب «العُذَیق النضید بمصادر ابن ابی‌ الحدید فی شرح نہج‌ البلاغہ» ان منابع اور مآخذ کے بارے میں لکھی گئی ہے جنہیں ابن ابی الحدید نے استفادہ کیا ہے۔<ref>ربیعی، العُذَیق النضید بمصادر ابن ابی‌ الحدید فی شرح نہج‌ البلاغہ، مقدمہ، ۱۴۰۷ق، ص ۵-۶.</ref> اس کتاب میں ابن ابی الحدید کی طرف سے استفادہ شدہ 222 کتابوں کا ذکر ہوا ہے۔<ref>سبحانی‌ نیا،«شرح نہج‌ البلاغہ ابن ابی ‌الحدید»، ص۵۹.</ref>


==طباعت==
==طباعت==
گمنام صارف