مندرجات کا رخ کریں

"حرم حضرت زینب" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 5: سطر 5:
==حضرت زینب کے محل دفن میں اختلاف==
==حضرت زینب کے محل دفن میں اختلاف==
حضرت زینب(س) کے محل دفن کے بارے میں تین اقوال موجود ہیں۔ مشہور قول کے مطابق آپ [[شام]] کے شہر [[دمشق]] کے جنوب میں منطقہ زینبیہ میں دفن ہیں۔<ref>شریف القرشی، السیدہ زینب رائدہ الجہاد فی الاسلام عرض وتحليل، بیروت، ۱۴۲۲ق/۲۰۰۱م، ص۲۹۸-۳۰۳؛السابقی، آرامگاہ عقیلہ بنی ہاشم؛ پژوہشی تحلیلی-تاریخی، مترجم حسین طہ نیا، ۱۳۹۴ش۔</ref> بعض مورخین کے مطابق آپ [[مصر]] میں مدفون ہیں اور اس وقت یہ جگہ [[قاہرہ]] میں "منطقہ سیدۃ الزینب" میں [[مقام حضرت زینب (مصر)|مقام السیدۃ زینب]] کے نام سے مشہور ہے۔<ref>[http://www.fahimco.com/ShowArticle.aspx?ID=3803 بررسی تحلیلی سیر مقتل نگاری عاشورا]</ref> تیسرے قول کے مطابق آپ [[مدینہ]] میں [[بقیع|قبرستان بقیع]] میں دفن ہیں۔ [[سید محسن امین]] اس قول کو قبول کرتے ہوئے پہلے والے دو قول کے رد میں دلائل پیش کرتے ہیں۔<ref>امین، اعیان الشیعۃ، ج۷، ص۱۴۰-۱۴۱۔</ref>
حضرت زینب(س) کے محل دفن کے بارے میں تین اقوال موجود ہیں۔ مشہور قول کے مطابق آپ [[شام]] کے شہر [[دمشق]] کے جنوب میں منطقہ زینبیہ میں دفن ہیں۔<ref>شریف القرشی، السیدہ زینب رائدہ الجہاد فی الاسلام عرض وتحليل، بیروت، ۱۴۲۲ق/۲۰۰۱م، ص۲۹۸-۳۰۳؛السابقی، آرامگاہ عقیلہ بنی ہاشم؛ پژوہشی تحلیلی-تاریخی، مترجم حسین طہ نیا، ۱۳۹۴ش۔</ref> بعض مورخین کے مطابق آپ [[مصر]] میں مدفون ہیں اور اس وقت یہ جگہ [[قاہرہ]] میں "منطقہ سیدۃ الزینب" میں [[مقام حضرت زینب (مصر)|مقام السیدۃ زینب]] کے نام سے مشہور ہے۔<ref>[http://www.fahimco.com/ShowArticle.aspx?ID=3803 بررسی تحلیلی سیر مقتل نگاری عاشورا]</ref> تیسرے قول کے مطابق آپ [[مدینہ]] میں [[بقیع|قبرستان بقیع]] میں دفن ہیں۔ [[سید محسن امین]] اس قول کو قبول کرتے ہوئے پہلے والے دو قول کے رد میں دلائل پیش کرتے ہیں۔<ref>امین، اعیان الشیعۃ، ج۷، ص۱۴۰-۱۴۱۔</ref>
==تاریخ کے آئینے میں==<!--
==تاریخ کے آئینے میں==
بر اساس پژوہش‎ہای انجام شدہ تا قرن پنجم ہجری منبعی وجود ندارد کہ نشان دہد در محل دفن [[حضرت زینب(س)]] مقبرہ و گنبدی ایجاد شدہ باشد۔ تنہا منبعی  بہ وجود زیارتگاہ در محل کنونی در قرن دوم ہجری اشارہ داشتہ‎اند۔ بر اساس این گزارش یکی از زنان منسوب بہ خاندان علوی بہ نام [[سیدہ نفیسہ]] بنت حسن الانور از نوادگان [[علی بن ابیطالب (ع)]] در سال ۱۹۳ق در منطقہ راویہ دمشق بہ زیارتگاہ [[حضرت زینب]] رفتہ است۔<ref>احمد فہمی محمد، کریمۃ الدارین الشریفہ الطاہرہ السیدہ نفیسہ بنت الحسن الانور، ص۲۵۔</ref><ref> توفيق أبو عَلَم،السيّدۃ نفيسۃ رضي اللہ عنہا،تحقیق: شوقی محمّد، ص۱۱۴۔</ref> پس از این تاریخ گزارشی مربوط بہ سال ۵۰۰ق وجود دارد کہ در آن آمدہ است فردی از اہالی [[حلب]] در سال ۵۰۰ق در محل زیارتگاہ حرم حضرت زینب مسجدی بنا کردہ است۔<ref>[http://www.farsnews.com/newstext.php?nn=13940213001149 تاريخچہ مزار عقیلہ بنی‎ہاشم]</ref>
تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی تاریخی منابع میں پانچویں صدی ہجری تک حضرت زینب(س) کے مقبرے پر گنبد ہونے کا ذکر نہیں ہے۔ البتہ صرف ایک تاریخی منبع میں حرم کے موجودہ جگہے پر دوسری صدی ہجری میں زیارتگاہ ہونے کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ اس یادداشت کے مطابق  علوی خاندان سے منسوب ایک خانون، [[سیدہ نفیسہ]] بنت حسن الانور جو [[حضرت علیؑ]] کی ذریہ میں سے تھی، نے سنہ 193ھ کو دمشق میں منطقہ راویہ میں [[حضرت زینب(س)]] کی زیارت کے لئے گئی تھی۔<ref>احمد فہمی محمد، کریمۃ الدارین الشریفہ الطاہرہ السیدہ نفیسہ بنت الحسن الانور، ص۲۵، توفيق أبو عَلَم،السيّدۃ نفيسۃ رضي اللہ عنہا،تحقیق: شوقی محمّد، ص۱۱۴۔</ref> اس کے بعد تاریخ میں آیا ہے کہ [[حلب]] کے رہنے والے ایک شخص نے سنہ 500ھ میں حضرت زینب(س) کی زیارتگاہ کی جگہ ایک مسجد تعمیر کی۔<ref>[http://www.farsnews.com/newstext.php?nn=13940213001149 تاريخچہ مزار عقیلہ بنی‎ہاشم]</ref>


اما از قرن ہفتم بہ بعد در این زیارتگاہ گنبد و بارگاہ ساختہ شدہ است۔ بر ہمین اساس ابن‌جبیر(متوفای ۶۱۴ق)٬ جہانگرد معروف جہان اسلام زمانی‌کہ بہ دمشق سفر کردہ از منطقہ راویہ موقعیت فعلی حرم نیز عبور کردہ است۔ وی در گزارش خود نام صاحب مزار را [[ام کلثوم دختر امام علی (ع)]] دانستہ است۔البتہ این احتمال وجود دارد کہ منظور ابن جبیر دختر دوم امام علی(ع) یعنی زینب صغری باشد نہ حضرت زینب(س) کہ بہ زینب کبری معروف است۔<ref>محمد بن أحمد بن جبير كنانی اندلسی، رحلۃ ابن جبیر، ص۲۲۸۔</ref>
لیکن ساتویں صدی ہجری کے بعد اس زیارتگاہ پر گنبد اور بارگاہ تعمیر کی گئی۔ اس کے مطابق عالم اسلام کے معروف سیاح ابن‌جبیر(متوفی 614ھ) دمشق میں منطقہ راویہ جہاں پر اس وقت حرم حضرت زینب(س) واقع ہے، سے عبور کیا ہے۔ انہوں نے اپنی تحریر میں اس مزار کو [[ام کلثوم بنت امام علیؑ]] سے منسوب کیا ہے۔البتہ یہ احتمال ہے کہ ابن جبیر کی مراد امام علیؑ کی چھوٹی بیٹی زینب صغری ہو نہ کہ حضرت زینب(س) جو زینب کبری کے نام سے معروف ہے۔<ref>محمد بن أحمد بن جبير كنانی اندلسی، رحلۃ ابن جبیر، ص۲۲۸۔</ref>
 
ابن جبیر اپنی یادداشت میں دمشق سے ایک فرسخ کے فاصلے پر راویہ نامی گاؤں میں حضرت زینب(س) کے حرم کے واقع ہونے کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: اس پر ایک بہت بڑی مسجد بنائی ہوئی ہے اور اس کے باہر گھر بنائے گئے ہیں جو سب کے سب وقف شدہ ہیں۔ یہاں کے لوگ اس مقبرے کو ام‏‌کلثوم سے منسوب کرتے ہیں۔ اس رپورٹ کے آخر میں انہوں نے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے وہاں قیام کیا ہے اور حرم حضرت زینب(س) کی زیارت کے لئے گئے ہیں۔ ابوبکر ہروی متوفی ۶۱۱ھ نے بھی حرم حضرت زینب(س) کی زیارت کی ہے اور اس حوالے سے انہوں نے بھی اپنی یادداشت تحریر کی ہیں۔<ref>ابوبکر ہروی، الاشارات الی معرفۃ الزیارات، ص۱۲۔</ref>


ابن جبیر در گزارش خود بہ وجود بارگاہ حضرت زینب (س) در روستای راویہ در یک فرسخى شہر [[دمشق]] اشارہ کردہ است و گفتہ: مسجد بزرگى بر آن بنا شدہ و خانہ‏‌ہایى بیرون آن است و داراى موقوفاتى است، مردم این مناطق آن را قبر ام‏‌کلثوم مى‏‌شناسند۔ او در نہایت آوردہ است کہ در آنجا اقامت کردہ و بہ زیارت حرم حضرت زینب(س) رفتہ است۔ ابوبکر ہروی متوفای ۶۱۱ق نیز حرم حضرت زینب(س) را زیارت کردہ و گزارشی در این زمینہ دادہ است۔<ref>ابوبکر ہروی، الاشارات الی معرفۃ الزیارات، ص۱۲۔</ref>
-->
== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات2}}
{{حوالہ جات2}}
confirmed، templateeditor
9,292

ترامیم