confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869
ترامیم
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (+زمرہ:احادیث قدسی، +زمرہ:احادیث مشہور، +زمرہ:احادیث نبوی، +زمرہ:اخلاقی احادیث، +زمرہ:تصحیح شدہ مقالے (بذریعہ:[[ویکیپیڈیا:فوری زمر...) |
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) م (لینک دہی) |
||
سطر 18: | سطر 18: | ||
{{اخلاق-عمودی}} | {{اخلاق-عمودی}} | ||
'''حدیث قُرْب نَوَافِل''' وہ [[حدیث قدسی|حدیث قُدسی]] ہے جس میں اللہ تعالی کے ہاں تقرب کا وہ مقام بیان ہوا ہے جسے مومن واجبات اور مستحبات کو انجام دیکر حاصل کرتا ہے۔ | '''حدیث قُرْب نَوَافِل''' وہ [[حدیث قدسی|حدیث قُدسی]] ہے جس میں [[اللہ|اللہ تعالی]] کے ہاں تقرب کا وہ مقام بیان ہوا ہے جسے [[ایمان|مومن]] [[واجب|واجبات]] اور [[مستحب|مستحبات]] کو انجام دیکر حاصل کرتا ہے۔ | ||
اس حدیث کے ایک فراز میں یوں آیا ہے: مومن بندہ نوافل انجام دیکر قرب الہی پاتا ہے اور اللہ اس کا کان اور آنکھ بن جاتا ہے۔ مسلمان عرفا اس تعبیر کو حقیقی قرار دیتے ہوئے نظریہ وحدت الوجود پر ایک دلیل اور فنا فی اللہ یا صفات الہی میں فنا ہونے کے لیے شاہد قرار دیتے ہیں؛ لیکن محدثین اور فقہا کا کہنا ہے کہ یہ تعبیر مجازی طور پر استعمال ہوئی ہے اور اسے مومن کے لئے الہی مدد پہنچنے کا معنی کرتے ہیں یا کوئی اور معنی۔ | اس [[حدیث]] کے ایک فراز میں یوں آیا ہے: مومن بندہ [[مستحب|نوافل]] انجام دیکر قرب الہی پاتا ہے اور اللہ اس کا کان اور آنکھ بن جاتا ہے۔ [[اسلام|مسلمان]] عرفا اس تعبیر کو حقیقی قرار دیتے ہوئے نظریہ [[وحدت الوجود]] پر ایک دلیل اور فنا فی اللہ یا [[صفات الہی]] میں فنا ہونے کے لیے شاہد قرار دیتے ہیں؛ لیکن [[محدث|محدثین]] اور [[مجتہد|فقہا]] کا کہنا ہے کہ یہ تعبیر مجازی طور پر استعمال ہوئی ہے اور اسے مومن کے لئے الہی مدد پہنچنے کا معنی کرتے ہیں یا کوئی اور معنی۔ | ||
== نام== | == نام== | ||
حدیث قرب نوافل حدیث قدسی میں سے ایک ہے کہ جسے اللہ تعالی نے [[معراج]] پر پیغمبر اکرمؐ سے خطاب کیا ہے۔ یہ حدیث پیغمبر اکرمؐ کے ایک سوال کا جواب تھا جس میں رسول خداؐ نے اللہ کے ہاں مومن کے مقام کے بارے میں پوچھا تھا۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۳۵۲.</ref>اور «قرب نوافل» کے نام سے مشہور ہونے کا سبب یہ ہے کہ اس حدیث کے آخر میں مؤمن کا نوافل انجام دینے کو اللہ تعالی کے قرب کا باعث قرار دیا ہے اور مسلمان عرفا نے اسی جملے سے الہام لیتے ہوئے اس مقام کے لئے «قرب نوافل» کے نام | حدیث قرب نوافل حدیث قدسی میں سے ایک ہے کہ جسے اللہ تعالی نے [[معراج]] پر [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] سے خطاب کیا ہے۔ یہ حدیث پیغمبر اکرمؐ کے ایک سوال کا جواب تھا جس میں رسول خداؐ نے اللہ کے ہاں مومن کے مقام کے بارے میں پوچھا تھا۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۳۵۲.</ref>اور «قرب نوافل» کے نام سے مشہور ہونے کا سبب یہ ہے کہ اس حدیث کے آخر میں مؤمن کا نوافل انجام دینے کو اللہ تعالی کے قرب کا باعث قرار دیا ہے اور مسلمان عرفا نے اسی جملے سے الہام لیتے ہوئے اس مقام کے لئے «قرب نوافل» کے نام دیا ہے۔<ref>مظفری، «قرب نوافل و فرائض و تطبیق آنہا بر مقامات عرفانی»، ص۷.</ref> | ||
==حدیث کا مضمون== | ==حدیث کا مضمون== | ||
حدیث قرب نوافل میں اللہ کے | حدیث قرب نوافل میں اللہ کے پسندیدہ بندے کی توہین کو اللہ سے جنگ کے مترادف قرار دیا ہے۔ اللہ تعالی نے حدیث قرب نوافل میں اپنے ولی اور دوست کی مدد کرنے پر ہر چیز سے زیادہ تاکید کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو مومن [[موت]] سے ڈرتا ہے اس کی موت پر جتنی تردید کرتا ہوں کسی اور چیز پر نہیں؛ کیونکہ اسے موت پسند نہیں اور مجھے اس کو ناراض کرنا پسند نہیں۔ اسی طرح اس حدیث میں آیا ہے کہ بعض مومنین کی اصلاح فقر اور غربت سے ہوتی ہے جبکہ بعض کی مالداری اور توانگری سے، اگر ان کی دوسری کوئی حالت ہوجائے تو وہ نابود ہوتے ہیں۔ | ||
حدیث قرب نوافل میں واجبات کی انجام دہی اللہ کے ہاں سب سے زیادہ محبوب عمل اور تقرب الہی کا بہترین وسیلہ قرار دیا گیا ہے۔ نوافل (مستحبات) بھی تقرب کا وسیلہ قرار دئے گئے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی ذکر ہوا ہے کہ جو بھی کسی نافلہ (مستحب) کے ذریعے میرا یعنی اللہ کا تقرب حاصل کرے تو میں اسے چاہتا ہوں اور اس کا کان، | حدیث قرب نوافل میں واجبات کی انجام دہی اللہ کے ہاں سب سے زیادہ محبوب عمل اور تقرب الہی کا بہترین وسیلہ قرار دیا گیا ہے۔ نوافل (مستحبات) بھی تقرب کا وسیلہ قرار دئے گئے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی ذکر ہوا ہے کہ جو بھی کسی نافلہ (مستحب) کے ذریعے میرا یعنی اللہ کا تقرب حاصل کرے تو میں اسے چاہتا ہوں اور اس کا کان، آنکھ، زبان اور ہاتھ بن جاتا ہوں جس کے ذریعے وہ سن سکے اور دیکھ سکے، اس کی بات سنتا ہوں اور جو چاہتا ہے اسے پورا کرتا ہوں۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۳۵۲.</ref> | ||
==تفسیر حدیث == | ==تفسیر حدیث == | ||
سطر 31: | سطر 31: | ||
مسلم عرفا نے اس حدیث کو بعض عرفانی مباحث کے لیے مستند قرار دیا ہے۔<ref>آذرخشی، «جایگاه حدیث قرب نوافل در منابع فریقین و بررسی تطبیقی رویکرد عرفا و محدثان نسبت به آن»، ص۱۸.</ref> [[ابن عربی]] نے اس حدیث کے الفاظ سے ان کا حقیقی معنی مراد لیتے ہوئے اسے وحدت الوجود پر شاہد قرار دیا ہے۔<ref>ابن عربی، الفتوحات المکیه، دارصادر، ج۲، ص۳۲۲-۳۲۳؛ ابن ترکه، شرح فصوص الحکم، ۱۴۲۰ق، ج۱، ص۳۱۹.</ref>ان کے نظرئے کے مطابق اللہ تعالی مومن کی آنکھ اور کان بنے سے مراد انسان کا اللہ تعالی کی صفات میں فنا ہونا ہے۔<ref>قیصرى، شرح فصوص الحکم، ۱۳۷۵ش، ص۳۵۰ و ۳۵۱.</ref> | مسلم عرفا نے اس حدیث کو بعض عرفانی مباحث کے لیے مستند قرار دیا ہے۔<ref>آذرخشی، «جایگاه حدیث قرب نوافل در منابع فریقین و بررسی تطبیقی رویکرد عرفا و محدثان نسبت به آن»، ص۱۸.</ref> [[ابن عربی]] نے اس حدیث کے الفاظ سے ان کا حقیقی معنی مراد لیتے ہوئے اسے وحدت الوجود پر شاہد قرار دیا ہے۔<ref>ابن عربی، الفتوحات المکیه، دارصادر، ج۲، ص۳۲۲-۳۲۳؛ ابن ترکه، شرح فصوص الحکم، ۱۴۲۰ق، ج۱، ص۳۱۹.</ref>ان کے نظرئے کے مطابق اللہ تعالی مومن کی آنکھ اور کان بنے سے مراد انسان کا اللہ تعالی کی صفات میں فنا ہونا ہے۔<ref>قیصرى، شرح فصوص الحکم، ۱۳۷۵ش، ص۳۵۰ و ۳۵۱.</ref> | ||
سید حیدر آملی نے اسے «فنا فی اللہ» اور محبوب اور حبیب کا ایک ہونے پر شاہد لیا ہے۔<ref>آملی، المقدمات من کتاب نص النصوص، ۱۳۵۲ش، ص۲۶۹</ref> عرفا کی نظر میں سیر و | سید حیدر آملی نے اسے «فنا فی اللہ» اور محبوب اور حبیب کا ایک ہونے پر شاہد لیا ہے۔<ref>آملی، المقدمات من کتاب نص النصوص، ۱۳۵۲ش، ص۲۶۹</ref> عرفا کی نظر میں [[سیر و سلوک]]، دو مرحلوں یعنی «قرب فرایض» و «قرب نوافل» میں انجام پاتا ہے۔ [[امام خمینی]]، قرب نوافل کو اللہ کی ذات، صفات اور افعال میں فنا ہونے پر ناظر سمجھتا ہے اور قرب فرائض کو فنا کے بعد والی بقا پر تطبیق دیتا ہے۔<ref>مظفری، «قرب نوافل و فرائض و تطبیق آنها بر مقامات عرفانی»، ص۱۱.</ref> | ||
بعض عرفا قرب فرائض کو قرب نوافل سے مرتبے میں اعلی سمجھتے ہیں۔ ان کی نظر میں قرب فرائض کا نتیجہ اللہ کی ذات میں فنا ہونا ہے اور قرب نوافل کا نتیجہ صفات الہی میں فنا ہونے کا نام ہے۔ اسی طرح ان کے عقیدے کے مطابق قرب فرائض کے مرحلے میں انسان عروج تک پہنچتا ہے لیکن قرب نوافل کے مرحلے میں اللہ تعالی نزول کرتا ہے۔<ref>صمدی آملی، شرح دفتر دل علامه حسن زاده آملی، ۱۳۷۹ش، ج۱، ص۳۴۵ تا ۳۴۸.</ref> | بعض عرفا قرب فرائض کو قرب نوافل سے مرتبے میں اعلی سمجھتے ہیں۔ ان کی نظر میں قرب فرائض کا نتیجہ [[اللہ]] کی ذات میں فنا ہونا ہے اور قرب نوافل کا نتیجہ صفات الہی میں فنا ہونے کا نام ہے۔ اسی طرح ان کے عقیدے کے مطابق قرب فرائض کے مرحلے میں انسان عروج تک پہنچتا ہے لیکن قرب نوافل کے مرحلے میں اللہ تعالی نزول کرتا ہے۔<ref>صمدی آملی، شرح دفتر دل علامه حسن زاده آملی، ۱۳۷۹ش، ج۱، ص۳۴۵ تا ۳۴۸.</ref> | ||
===فقہا اور محدثین کا نظریہ=== | ===فقہا اور محدثین کا نظریہ=== | ||
بعض فقہا اور محدثین کا کہنا ہے کہ حدیث کے یہ الفاظ کنایہ اور مجاز ہیں لہذا ان الفاظ کی اس طرح سے تفسیر کی جائے کہ وحدت الوجود، حلول اور فنا کی بات پیش نہ آئے۔<ref>موحدی، «نردبان عروج؛ گذری بر حدیث قرب نوافل»، ص۱۷۴-۱۷۷؛ غزالی، احیاء العلوم، دارالکتاب العربی، ج۱۴، ص۶۱-۶۲.</ref>اسی لئے حدیث کے ان الفاظ کے لئے مختلف وجوہات پیش کئے ہیں؛<ref>مراجعہ کریں: مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸۴، ص۳۱-۳۲؛ مجلسی، مرآة العقول، ۱۴۰۴ق، ج۱۰، ص۳۹۰-۳۹۳؛ حر عاملی، الفوائد الطوسیه، ۱۴۰۳ق، ص۸۱-۸۲.</ref>منجملہ [[شیخ حر عاملی]] نے مندرجہ ذیل وجوہات ذکر کیا ہے: | بعض فقہا اور محدثین کا کہنا ہے کہ حدیث کے یہ الفاظ کنایہ اور مجاز ہیں لہذا ان الفاظ کی اس طرح سے تفسیر کی جائے کہ وحدت الوجود، حلول اور فنا کی بات پیش نہ آئے۔<ref>موحدی، «نردبان عروج؛ گذری بر حدیث قرب نوافل»، ص۱۷۴-۱۷۷؛ غزالی، احیاء العلوم، دارالکتاب العربی، ج۱۴، ص۶۱-۶۲.</ref>اسی لئے حدیث کے ان الفاظ کے لئے مختلف وجوہات پیش کئے ہیں؛<ref>مراجعہ کریں: مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸۴، ص۳۱-۳۲؛ مجلسی، مرآة العقول، ۱۴۰۴ق، ج۱۰، ص۳۹۰-۳۹۳؛ حر عاملی، الفوائد الطوسیه، ۱۴۰۳ق، ص۸۱-۸۲.</ref>منجملہ [[شیخ حر عاملی]] نے مندرجہ ذیل وجوہات ذکر کیا ہے: |