مندرجات کا رخ کریں

"حدیث قرب نوافل" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
م (اضافہ نمودن بخش نام)
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 18: سطر 18:


{{اخلاق-عمودی}}
{{اخلاق-عمودی}}
'''حدیث قُرْب نَوَافِل''' وہ [[حدیث قدسی|حدیثی قُدسی]] ہے جس میں وہ اللہ تعالی کے ہاں تقرب کا وہ مقام بیان ہوا ہے جسے مومن واجبات اور مستحبات کو انجام دیکر حاصل کرتا ہے۔
'''حدیث قُرْب نَوَافِل''' وہ [[حدیث قدسی|حدیث قُدسی]] ہے جس میں اللہ تعالی کے ہاں تقرب کا وہ مقام بیان ہوا ہے جسے مومن واجبات اور مستحبات کو انجام دیکر حاصل کرتا ہے۔
اس حدیث کے ایک فراز میں یوں آیا ہے: مومن بندہ نوافل انجام دیکر قرب الہی پاتا ہے اور اللہ اس کا کان اور آنکھ بن جاتا ہے۔ مسلمان عرفا اس تعبیر کو حقیقی قرار دیتے ہوئے نظریہ وحدت الوجود پر ایک دلیل اور فنا فی اللہ یا صفات الہی میں فنا ہونے کے لیے شاہد قرار دیتے ہیں؛ لیکن محدثین اور فقہا کا کہنا ہے کہ یہ تعبیر مجازی طور پر استعمال ہوئی ہے اور اسے مومن کے لئے الہی مدد پہنچنے کا معنی کرتے ہیں یا کوئی اور معنی۔
اس حدیث کے ایک فراز میں یوں آیا ہے: مومن بندہ نوافل انجام دیکر قرب الہی پاتا ہے اور اللہ اس کا کان اور آنکھ بن جاتا ہے۔ مسلمان عرفا اس تعبیر کو حقیقی قرار دیتے ہوئے نظریہ وحدت الوجود پر ایک دلیل اور فنا فی اللہ یا صفات الہی میں فنا ہونے کے لیے شاہد قرار دیتے ہیں؛ لیکن محدثین اور فقہا کا کہنا ہے کہ یہ تعبیر مجازی طور پر استعمال ہوئی ہے اور اسے مومن کے لئے الہی مدد پہنچنے کا معنی کرتے ہیں یا کوئی اور معنی۔
== نام‌==
== نام‌==
حدیث قرب نوافل حدیث قدسی میں سے ایک ہے کہ جسے اللہ تعالی نے [[معراج]] پر پیغمبر اکرمؐ سے خطاب کیا ہے۔ یہ حدیث پیغمبر اکرمؐ کے ایک سوال کا جواب تھا جس میں رسول خداؐ نے اللہ کے ہاں مومن کے مقام کے بارے میں پوچھا تھا۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۳۵۲.</ref>اور «قرب نوافل» کے نام سے مشہور ہونے کا سبب یہ ہے کہ اس حدیث کے آخر میں مؤمن کا نوافل انجام دینے کو اللہ تعالی کے قرب کا باعث قرار دیا ہے اور مسلمان عرفا نے اسی جملے سے الہام لیتے ہوئے اس مقام کے لئے «قرب نوافل» کے نام استعمال کیا ہے۔<ref>مظفری، «قرب نوافل و فرائض و تطبیق آنہا بر مقامات عرفانی»، ص۷.</ref>
حدیث قرب نوافل حدیث قدسی میں سے ایک ہے کہ جسے اللہ تعالی نے [[معراج]] پر پیغمبر اکرمؐ سے خطاب کیا ہے۔ یہ حدیث پیغمبر اکرمؐ کے ایک سوال کا جواب تھا جس میں رسول خداؐ نے اللہ کے ہاں مومن کے مقام کے بارے میں پوچھا تھا۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۳۵۲.</ref>اور «قرب نوافل» کے نام سے مشہور ہونے کا سبب یہ ہے کہ اس حدیث کے آخر میں مؤمن کا نوافل انجام دینے کو اللہ تعالی کے قرب کا باعث قرار دیا ہے اور مسلمان عرفا نے اسی جملے سے الہام لیتے ہوئے اس مقام کے لئے «قرب نوافل» کے نام استعمال کیا ہے۔<ref>مظفری، «قرب نوافل و فرائض و تطبیق آنہا بر مقامات عرفانی»، ص۷.</ref>
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869

ترامیم