مندرجات کا رخ کریں

"سنگسار" کے نسخوں کے درمیان فرق

244 بائٹ کا اضافہ ،  27 اپريل 2019ء
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(←‏سنگسار کے حکم میں تبدیلی: اضافہ نمودن بخش سنگسار اسلام سے پہلے)
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 2: سطر 2:
{{فقہی توصیفی مقالہ}}  
{{فقہی توصیفی مقالہ}}  
{{احکام}}
{{احکام}}
'''سَنگْسار''' یا '''رَجْم''' ایک سزا ہے جس میں مجرم کو کمر یا سینے تک زمین میں دفن کیا جاتا ہے اور پھر اس پر پتھر مارے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ مر جائے۔ سنگسار حدود میں شمار ہوتا ہے اور زناء محصن یعنی شادی شدہ مرد یا عورت کا زنا کرنے کی سزا ہے۔ اسی طرح اگر حاکم کی تشخیص کے مطابق لواط کی بھی سزا ہوسکتی ہے۔ سنگسار ثابت ہونے اور اس کو عملیاتی کرنے کی کچھ شرائط ہیں؛ ان میں سے ایک یہ ہے کہ شریک حیات ہو اور زنا کرنے والے کے لیے زنا کے وقت اس کے ساتھ ہمبستری کا امکان بھی ہو۔
'''سَنگْسار''' یا '''رَجْم''' ایک سزا ہے جس میں مجرم کو کمر یا سینے تک زمین میں دفن کیا جاتا ہے اور پھر اس پر پتھر مارے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ مر جائے۔ سنگسار [[حدد|حدود]] میں شمار ہوتا ہے اور [[زناء محصنہ]] یعنی [[شادی بیاه|شادی]] شدہ مرد یا عورت کا زنا کرنے کی سزا ہے۔ اسی طرح اگر حاکم کی تشخیص کے مطابق [[لواط]] کی بھی سزا ہوسکتی ہے۔ سنگسار ثابت ہونے اور اس کو عملیاتی کرنے کی کچھ شرائط ہیں؛ ان میں سے ایک یہ ہے کہ شریک حیات ہو اور زنا کرنے والے کے لیے زنا کے وقت اس کے ساتھ [[جماع|ہمبستری]] کا امکان بھی ہو۔


بعض مراجع تقلید نے سنگسار کے اجرا کو آج کل اسلام کے مصلحت میں نہیں سمجھتے ہوئے اس کی جگہ دوسری سزاؤں کے بارے میں فتوا دیا ہے۔
بعض [[مرجع تقلید|مراجع تقلید]] نے سنگسار کے اجرا کو آج کل [[اسلام]] کے مصلحت میں نہیں سمجھتے ہوئے اس کی جگہ دوسری سزاؤں کے بارے میں [[فتوا]] دیا ہے۔
اسی طرح تورات میں بعض دیگر جرائم جیسے بتوں کے لیے بچوں کی قربانی، جادو، کفرگوئی، ہفتہ کے دن کی توہین اور زنا کے لیے سنگسار کی سزا قرار دی گئی ہے۔
اسی طرح [[تورات]] میں بعض دیگر جرائم جیسے بتوں کے لیے بچوں کی [[قربانی]]، جادو، کفرگوئی، ہفتہ کے دن کی توہین اور زنا کے لیے سنگسار کی سزا قرار دی گئی ہے۔
==مفہوم‌ شناسی اور اجرا کا طریقہ==
==مفہوم‌ شناسی اور اجرا کا طریقہ==
اسلامی فقہ میں سنگسار یا رَجْم سزاؤں اور حدود میں شمار ہوتی ہے اور خاص شرائط کے ساتھ زنا جیسے بعض جرائم کے ساتھ مخصوص ہے۔<ref>محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۱۴۱و۱۴۲.</ref> سنگسار میں مجرم کو کمر یا سینہ تک زمین میں گاڑا جاتا ہے اور پھر اس پر پتھر مارا جاتا ہے تاکہ مرجائے۔<ref>مؤسسہ دایرۃالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۷۱.</ref>
اسلامی فقہ میں سنگسار یا رَجْم سزاؤں اور حدود میں شمار ہوتی ہے اور خاص شرائط کے ساتھ زنا جیسے بعض جرائم کے ساتھ مخصوص ہے۔<ref>محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۱۴۱و۱۴۲.</ref> سنگسار میں مجرم کو کمر یا سینہ تک زمین میں گاڑا جاتا ہے اور پھر اس پر پتھر مارا جاتا ہے تاکہ مرجائے۔<ref>مؤسسہ دایرۃالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۷۱.</ref>


[[محقق حلی]] کا کہنا ہے کہ سنگسار میں مرد کو کمر تک اور عورت کو سینے تک دفنایا جاتا ہے۔ اگر سنگسار کا جرم گواہی سے ثابت ہوچکا ہو تو واجب ہے کہ پتھر مارنے کو سب سے پہلے گواہ شروع کریں۔ اور اگر اقرار کے ذریعے سے ثابت ہوچکا ہو تو حاکم شرع شروع کرے۔<ref>محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۱۴۳و۱۴۴.</ref>
[[محقق حلی]] کا کہنا ہے کہ سنگسار میں مرد کو کمر تک اور عورت کو سینے تک دفنایا جاتا ہے۔ اگر سنگسار کا جرم گواہی سے ثابت ہوچکا ہو تو [[واجب]] ہے کہ پتھر مارنے کو سب سے پہلے گواہ شروع کریں۔ اور اگر اقرار کے ذریعے سے ثابت ہوچکا ہو تو حاکم شرع شروع کرے۔<ref>محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۱۴۳و۱۴۴.</ref>


اگر سنگسار کے دوران مجرم بھاگ جائے اور جرم اقرار سے ثابت ہوچکا ہو تو اسے معاف کیا جائے گا اور دوبارہ سنگسار نہیں ہوگا؛ لیکن اگر گواہی کے ذریعے ثابت ہوچکا ہو تو دوبارہ سنگسار کیا جائے گا۔<ref>محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۱۴۴.</ref>
اگر سنگسار کے دوران مجرم بھاگ جائے اور جرم [[اقرار]] سے ثابت ہوچکا ہو تو اسے معاف کیا جائے گا اور دوبارہ سنگسار نہیں ہوگا؛ لیکن اگر گواہی کے ذریعے ثابت ہوچکا ہو تو دوبارہ سنگسار کیا جائے گا۔<ref>محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۱۴۴.</ref>
==سنگسار والے جرائم==
==سنگسار والے جرائم==
فقہا کے فتوؤں کے مطابق زنائے محصنہ کی سزا سنگسار است؛<ref>مراجعہ کریں: محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۱۴۱و۱۴۲؛ نجفی، جواهرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۴۱، ص۳۸۱.</ref>یعنی شادی شدہ مرد اگر زنا کرے؛ یا شادی شدہ عورت زنا کرے تو اس کی سزا سنگسار ہے۔ [[لواط]] میں بھی سنگسار کا تذکرہ ہوتا ہے لیکن سنگسار کی سزا یقینی نہیں ہے اور حاکم شرع کو یہ اختیار حاصل ہے کہ سنگسار یا قتل کے دوسرے طریقوں میں سے کسی ایک کو انتخاب کرے۔<ref>محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۱۴۷؛ نجفی، جواهرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۴۱، ص۳۸۱.</ref>
[[مجتہد|فقہا]] کے فتوؤں کے مطابق زنائے محصنہ کی سزا سنگسار است؛<ref>مراجعہ کریں: محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۱۴۱و۱۴۲؛ نجفی، جواهرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۴۱، ص۳۸۱.</ref>یعنی شادی شدہ مرد اگر زنا کرے؛ یا شادی شدہ عورت زنا کرے تو اس کی سزا سنگسار ہے۔ [[لواط]] میں بھی سنگسار کا تذکرہ ہوتا ہے لیکن سنگسار کی سزا یقینی نہیں ہے اور حاکم شرع کو یہ اختیار حاصل ہے کہ سنگسار یا قتل کے دوسرے طریقوں میں سے کسی ایک کو انتخاب کرے۔<ref>محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۱۴۷؛ نجفی، جواهرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۴۱، ص۳۸۱.</ref>


عہد قدیم کے مطابق بعض جرائم جیسے؛ بچوں کو بتوں کے لئے قربان کرنا،<ref> [http://www.iranjewish.com/Torah/Vaeeghra_F20.htm کتاب مقدس، لاویان، ۲۰ :۲].</ref> جادوگری،<ref> [http://www.iranjewish.com/Torah/Vaeeghra_F20.htm کتاب مقدس، لاویان، ۲۰ :۲۷].</ref> [[کفر|کفرگویی]]،<ref> [http://www.iranjewish.com/Torah/Vaeeghra_F24.htm کتاب مقدس، لاویان، ۲۴ :۱۶].</ref> ہفتہ کے دن کی حرمت‌ پامال کرنا،<ref>کتاب مقدس، اعداد، ۱۵: ۳۵-۳۶، .</ref> بت پرستی کی دعوت<ref>[http://www.iranjewish.com/Torah/Devarim_F13.htm کتاب مقدس، تثنیه، ۱۳: ۱۱].</ref> اور [[زنا]].<ref>[http://www.iranjewish.com/Torah/Devarim_F22.htm کتاب مقدس، تثنیه، ۲۲: ۲۱ و ۲۴].</ref> کی سزا سنگسار ہے۔
عہد قدیم کے مطابق بعض جرائم جیسے؛ بچوں کو بتوں کے لئے قربان کرنا،<ref> [http://www.iranjewish.com/Torah/Vaeeghra_F20.htm کتاب مقدس، لاویان، ۲۰ :۲].</ref> جادوگری،<ref> [http://www.iranjewish.com/Torah/Vaeeghra_F20.htm کتاب مقدس، لاویان، ۲۰ :۲۷].</ref> [[کفر|کفرگویی]]،<ref> [http://www.iranjewish.com/Torah/Vaeeghra_F24.htm کتاب مقدس، لاویان، ۲۴ :۱۶].</ref> ہفتہ کے دن کی حرمت‌ پامال کرنا،<ref>کتاب مقدس، اعداد، ۱۵: ۳۵-۳۶، .</ref> بت پرستی کی دعوت<ref>[http://www.iranjewish.com/Torah/Devarim_F13.htm کتاب مقدس، تثنیه، ۱۳: ۱۱].</ref> اور [[زنا]].<ref>[http://www.iranjewish.com/Torah/Devarim_F22.htm کتاب مقدس، تثنیه، ۲۲: ۲۱ و ۲۴].</ref> کی سزا سنگسار ہے۔
سطر 21: سطر 21:
عہد قدیم کے مطابق بعض جرائم جیسے؛ بچوں کو بتوں کے لئے قربان کرنا،<ref> [http://www.iranjewish.com/Torah/Vaeeghra_F20.htm کتاب مقدس، لاویان، ۲۰ :۲].</ref> جادوگری،<ref> [http://www.iranjewish.com/Torah/Vaeeghra_F20.htm کتاب مقدس، لاویان، ۲۰ :۲۷].</ref> [[کفر|کفرگویی]]،<ref> [http://www.iranjewish.com/Torah/Vaeeghra_F24.htm کتاب مقدس، لاویان، ۲۴ :۱۶].</ref> ہفتہ کے دن کی حرمت‌ پامال کرنا،<ref>کتاب مقدس، اعداد، ۱۵: ۳۵-۳۶، .</ref> بت پرستی کی دعوت<ref>[http://www.iranjewish.com/Torah/Devarim_F13.htm کتاب مقدس، تثنیه، ۱۳: ۱۱].</ref> اور [[زنا]].<ref>[http://www.iranjewish.com/Torah/Devarim_F22.htm کتاب مقدس، تثنیه، ۲۲: ۲۱ و ۲۴].</ref> کی سزا سنگسار ہے۔
عہد قدیم کے مطابق بعض جرائم جیسے؛ بچوں کو بتوں کے لئے قربان کرنا،<ref> [http://www.iranjewish.com/Torah/Vaeeghra_F20.htm کتاب مقدس، لاویان، ۲۰ :۲].</ref> جادوگری،<ref> [http://www.iranjewish.com/Torah/Vaeeghra_F20.htm کتاب مقدس، لاویان، ۲۰ :۲۷].</ref> [[کفر|کفرگویی]]،<ref> [http://www.iranjewish.com/Torah/Vaeeghra_F24.htm کتاب مقدس، لاویان، ۲۴ :۱۶].</ref> ہفتہ کے دن کی حرمت‌ پامال کرنا،<ref>کتاب مقدس، اعداد، ۱۵: ۳۵-۳۶، .</ref> بت پرستی کی دعوت<ref>[http://www.iranjewish.com/Torah/Devarim_F13.htm کتاب مقدس، تثنیه، ۱۳: ۱۱].</ref> اور [[زنا]].<ref>[http://www.iranjewish.com/Torah/Devarim_F22.htm کتاب مقدس، تثنیه، ۲۲: ۲۱ و ۲۴].</ref> کی سزا سنگسار ہے۔
==سنگسار کی شرعی دلیلیں==
==سنگسار کی شرعی دلیلیں==
سنگسار کے بارے میں بہت ساری روایات پائی جاتی ہیں۔<ref>ایروانی، دروس تمهیدیه، ۱۴۲۷ق، ج۳، ص۲۷۲؛ تبریزی، اُسَس الحدود و التعزیرات، ۱۴۱۷ق، ص۱۰۷.</ref>ان میں سے ایک [[ابوبصیر]] کی روایت ہے [[امام صادقؑ]] سے کہ جس میں سنگسار کو اللہ تعالی کی عظیم [[حد]] قرار دیا ہے اور جو شخص زنائے محصنہ کا مرتکب ہو وہ سنگسار ہو جاتا ہے۔<ref>حرعاملی، وسایل الشیعه، ج۲۸، ۱۴۰۹ق، ص۶۱.</ref>اسی طرح [[امام باقرؑ]] کی روایت میں ذکر ہوتا ہے کہ [[امام علیؑ]] کے فیصلوں میں زنائے محصنہ میں سنگسار کا حکم دیتے تھے۔<ref>حرعاملی، وسایل الشیعه، ج۲۸، ۱۴۰۹ق، ص۶۱.</ref>
سنگسار کے بارے میں بہت ساری روایات پائی جاتی ہیں۔<ref>ایروانی، دروس تمهیدیه، ۱۴۲۷ق، ج۳، ص۲۷۲؛ تبریزی، اُسَس الحدود و التعزیرات، ۱۴۱۷ق، ص۱۰۷.</ref>ان میں سے ایک [[ابوبصیر]] کی روایت ہے [[امام صادقؑ]] سے کہ جس میں سنگسار کو اللہ تعالی کی عظیم [[حد]] قرار دیا ہے اور جو شخص زنائے محصنہ کا مرتکب ہو وہ سنگسار ہو جاتا ہے۔<ref>حرعاملی، وسایل الشیعه، ج۲۸، ۱۴۰۹ق، ص۶۱.</ref>اسی طرح [[امام باقرؑ]] کی [[حدیث|روایت]] میں ذکر ہوتا ہے کہ [[امام علیؑ]] کے فیصلوں میں زنائے محصنہ میں سنگسار کا حکم دیتے تھے۔<ref>حرعاملی، وسایل الشیعه، ج۲۸، ۱۴۰۹ق، ص۶۱.</ref>


فقہا کے پاس سنگسار کی دلیلوں میں سے ایک [[اجماع]] ہے۔<ref>مراجعہ کریں: شیخ طوسی، الخلاف، ۱۴۰۷ق، ج۵، ص۳۶۵؛‌ تبریزی، اُسَس الحدود و التعزیرات، ۱۴۱۷ق، ص۱۰۷؛ نجفی، جواهرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۴۱، ص۳۱۸.</ref> [[شیخ طوسی]] اپنی کتاب [[الخلاف]] میں لکھتے ہیں: تمام اسلامی فقہا سنگسار کو مانتے ہیں لیکن [[خوارج]] یہ کہہ کر نہیں مانتے ہیں کہ اس کا ذکر قرآن مجید اور متواترہ احادیث میں نہیں آیا ہے۔<ref>شیخ طوسی، الخلاف، ۱۴۰۷ق، ج۵، ص۳۶۵.</ref>
فقہا کے پاس سنگسار کی دلیلوں میں سے ایک [[اجماع]] ہے۔<ref>مراجعہ کریں: شیخ طوسی، الخلاف، ۱۴۰۷ق، ج۵، ص۳۶۵؛‌ تبریزی، اُسَس الحدود و التعزیرات، ۱۴۱۷ق، ص۱۰۷؛ نجفی، جواهرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۴۱، ص۳۱۸.</ref> [[شیخ طوسی]] اپنی کتاب [[الخلاف]] میں لکھتے ہیں: تمام اسلامی فقہا سنگسار کو مانتے ہیں لیکن [[خوارج]] یہ کہہ کر نہیں مانتے ہیں کہ اس کا ذکر قرآن مجید اور متواترہ احادیث میں نہیں آیا ہے۔<ref>شیخ طوسی، الخلاف، ۱۴۰۷ق، ج۵، ص۳۶۵.</ref>
===سنگسار قرآن کی نظر میں===
===سنگسار قرآن کی نظر میں===
شیعہ علما کا کہنا ہے کہ قرآن میں سنگسار کے بارے میں کوئی آیت موجود نہیں ہے<ref>مراجعہ کریں: موسوی اردبیلی، فقه الحدود و التعزیرات، ۱۴۲۷ق، ج۱، ص۴۳۹؛ خویی، البیان، ۱۴۰۱ق، ص۲۰۲.</ref>اور اس کا حکم احادیث اور اجماع سے اخذ کیا گیا ہے؛<ref>برای نمونه نگاه کنید به تبریزی، اسس الحدود و التعزیرات، ص۱۰۷؛ موسوی اردبیلی، فقه الحدود و التعزیرات، ۱۴۲۷ق، ج۱، ص۴۳۹.</ref> لیکن اہل سنت کے بہت سارے اصولی فقہا معتقد ہیں کہ قرآن مجید میں سنگسار کے بارے میں آیت موجود تھی۔<ref>کردی، کنکاشی فقهی و حقوقی در مجازات اعدام، ص۲۴۲.</ref> اس گروہ کی دلیل بعض ایسی روایات ہیں جو اہل سنت و الجماعت کے روائی مآخذ میں ذکر ہوئی ہیں۔<ref>کردی، کنکاشی فقهی و حقوقی در مجازات اعدام، ص۲۴۲.</ref>
شیعہ علما کا کہنا ہے کہ قرآن میں سنگسار کے بارے میں کوئی آیت موجود نہیں ہے<ref>مراجعہ کریں: موسوی اردبیلی، فقه الحدود و التعزیرات، ۱۴۲۷ق، ج۱، ص۴۳۹؛ خویی، البیان، ۱۴۰۱ق، ص۲۰۲.</ref>اور اس کا حکم احادیث اور اجماع سے اخذ کیا گیا ہے؛<ref>برای نمونه نگاه کنید به تبریزی، اسس الحدود و التعزیرات، ص۱۰۷؛ موسوی اردبیلی، فقه الحدود و التعزیرات، ۱۴۲۷ق، ج۱، ص۴۳۹.</ref> لیکن اہل سنت کے بہت سارے اصولی فقہا معتقد ہیں کہ قرآن مجید میں سنگسار کے بارے میں آیت موجود تھی۔<ref>کردی، کنکاشی فقهی و حقوقی در مجازات اعدام، ص۲۴۲.</ref> اس گروہ کی دلیل بعض ایسی روایات ہیں جو [[اہل سنت و الجماعت]] کے روائی مآخذ میں ذکر ہوئی ہیں۔<ref>کردی، کنکاشی فقهی و حقوقی در مجازات اعدام، ص۲۴۲.</ref>


منجملہ [[صحیح البخاری (کتاب)|صحیح بخاری]] میں [[عمر بن خطاب]] سے منقول ہے کہ ان کا کہنا ہے کہ مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ لوگوں پر ایسا زمانہ آئے کہ کہا جائے کہ قرآن میں سنگسار کا ذکر نہیں ہوا ہے اور لوگ اللہ تعالی کی طرف سے نازل ہونے والے واجب کو ترک کر کے گمراہ ہوجائیں۔<ref>[http://lib.efatwa.ir/42174/8/168 بخاری، صحیح بخاری، ۱۴۲۲ق، ج۸، ص۱۶۸].</ref> اسی طرح [[مالک بن انس|مالک بن اَنَس]] خلیفہ دوم سے نقل کرتے ہیں: خبردار! کہیں ایسا نہ ہو کہ آیت سنگسار سے اس وجہ سے غفلت برتیں کہ قرآن میں نہیں ہے؛ کیونکہ پیغمبر اکرمؐ سنگسار کرتے تھے اور ہم بھی سنگسار کیا کرتے تھے۔ یہ آیت قرآن میں تھی اور میں نے یہ آیت اس لئے نہیں لکھی کہ لوگ یہ نہیں کہیں کہ میں نے اپںی طرف سے کوئی چیز قرآن میں درج کیا ہے۔<ref>مالک بن انس، موطأ ابن مالک، ۱۴۰۶ق، ج۲، ص۸۲۴.</ref>
منجملہ [[صحیح بخاری (کتاب)|صحیح بخاری]] میں [[عمر بن خطاب]] سے منقول ہے کہ ان کا کہنا ہے کہ مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ لوگوں پر ایسا زمانہ آئے کہ کہا جائے کہ [[قرآن کریم|قرآن]] میں سنگسار کا ذکر نہیں ہوا ہے اور لوگ [[توحید|اللہ تعالی]] کی طرف سے نازل ہونے والے واجب کو ترک کر کے گمراہ ہوجائیں۔<ref>[http://lib.efatwa.ir/42174/8/168 بخاری، صحیح بخاری، ۱۴۲۲ق، ج۸، ص۱۶۸].</ref> اسی طرح [[مالک بن انس|مالک بن اَنَس]] خلیفہ دوم سے نقل کرتے ہیں: خبردار! کہیں ایسا نہ ہو کہ آیت سنگسار سے اس وجہ سے غفلت برتیں کہ قرآن میں نہیں ہے؛ کیونکہ [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] سنگسار کرتے تھے اور ہم بھی سنگسار کیا کرتے تھے۔ یہ آیت قرآن میں تھی اور میں نے یہ آیت اس لئے نہیں لکھی کہ لوگ یہ نہیں کہیں کہ میں نے اپںی طرف سے کوئی چیز قرآن میں درج کیا ہے۔<ref>مالک بن انس، موطأ ابن مالک، ۱۴۰۶ق، ج۲، ص۸۲۴.</ref>
عمر بن خطاب کے مطابق سنگسار کی آیت یوں تھی:{{عربی|«إذا زَنىٰ الشَيخُ و الشَيخَة فَارْجُمُوهما اَلبَتَّة»}}<ref>مالک بن انس، موطأ ابن مالک، ۱۴۰۶ق، ج۲، ص۸۲۴؛ خویی، البیان، ۱۴۰۱ق، ص۲۰۲.</ref> (اگر بوڑھا مرد یا بوڑھی عورت زنا کرے تو اسے حتماً اسے سنگسار کریں)۔<ref> کردی، کنکاشی فقهی و حقوقی در مجازات اعدام، ص۲۴۳.</ref>
عمر بن خطاب کے مطابق سنگسار کی آیت یوں تھی:{{عربی|«إذا زَنىٰ الشَيخُ و الشَيخَة فَارْجُمُوهما اَلبَتَّة»}}<ref>مالک بن انس، موطأ ابن مالک، ۱۴۰۶ق، ج۲، ص۸۲۴؛ خویی، البیان، ۱۴۰۱ق، ص۲۰۲.</ref> (اگر بوڑھا مرد یا بوڑھی عورت زنا کرے تو اسے حتماً اسے سنگسار کریں)۔<ref> کردی، کنکاشی فقهی و حقوقی در مجازات اعدام، ص۲۴۳.</ref>


اہل سنت کے بعض علماء منجملہ ابوبکر باقلانی اور اکثر [[معتزلہ]] منجملہ ابومسلم اصفہانی اس بات کو نہیں مانتے ہیں۔<ref>کردی، کنکاشی فقهی و حقوقی در مجازات اعدام، ص۲۴۳و۲۴۴.</ref>ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ عبارت قرآن کی ہوتی تو عمر بن خطاب لازمی طور پر اسے قرآن میں شامل کردیتے اور لوگوں کی وجہ سے اسے ترک نہ کرتے۔ اسی طرح اس عبارت کو عربی ادب کے تناظر میں دیکھا جائے تو بھی بلاغت کے اعتبار سے قرآنی ادبیات سے سازگار نہیں ہے۔<ref>کردی، کنکاشی فقهی و حقوقی در مجازات اعدام، ص۲۴۴.</ref>
[[اہل سنت و الجماعت|اہل سنت]] کے بعض علماء منجملہ ابوبکر باقلانی اور اکثر [[معتزلہ]] منجملہ ابومسلم اصفہانی اس بات کو نہیں مانتے ہیں۔<ref>کردی، کنکاشی فقهی و حقوقی در مجازات اعدام، ص۲۴۳و۲۴۴.</ref>ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ عبارت قرآن کی ہوتی تو عمر بن خطاب لازمی طور پر اسے قرآن میں شامل کردیتے اور لوگوں کی وجہ سے اسے ترک نہ کرتے۔ اسی طرح اس عبارت کو عربی ادب کے تناظر میں دیکھا جائے تو بھی بلاغت کے اعتبار سے قرآنی ادبیات سے سازگار نہیں ہے۔<ref>کردی، کنکاشی فقهی و حقوقی در مجازات اعدام، ص۲۴۴.</ref>


معاصر شیعہ فقیہ [[سید ابوالقاسم خویی|آیت‌الله خویی]] اپنی کتاب [[البیان فی تفسیر القرآن (کتاب)|البیان]] میں لکھتے ہیں: اگر یہ روایت صحیح ہو تو کہنا پڑے گا کہ قرآن سے ایک آیت حذف ہوگئی ہے<ref>خویی، البیان، ۱۴۰۱ق، ص۲۱۹.</ref> اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ قرآن مجید میں تحریف ہوچکی ہے۔<ref>خویی، البیان، ۱۴۰۱ق، ص۲۰۲.</ref>
معاصر شیعہ فقیہ [[سید ابوالقاسم خویی|آیت‌الله خویی]] اپنی کتاب البیان میں لکھتے ہیں: اگر یہ روایت صحیح ہو تو کہنا پڑے گا کہ قرآن سے ایک آیت حذف ہوگئی ہے<ref>خویی، البیان، ۱۴۰۱ق، ص۲۱۹.</ref> اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ قرآن مجید میں تحریف ہوچکی ہے۔<ref>خویی، البیان، ۱۴۰۱ق، ص۲۰۲.</ref>
==سنگسار کے شرائط==
==سنگسار کے شرائط==
فقہا کی نظر میں سنگسار کے لیے [[احصان|اِحصان]] کا ہونا شرط ہے؛ یعنی جو سنگسار ہوتا ہے اس میں مندرجہ ذیل شرائط کا ہونا ضروری ہے:
فقہا کی نظر میں سنگسار کے لیے [[احصان|اِحصان]] کا ہونا شرط ہے؛ یعنی جو سنگسار ہوتا ہے اس میں مندرجہ ذیل شرائط کا ہونا ضروری ہے:
* دائمی نکاح والی بیوی یا کنیز ہو
* [[شادی بیاه|دائمی نکاح]] والی بیوی یا کنیز ہو
* بیوی یا کنیز کے ساتھ ہمبستری ممکن ہو
* بیوی یا کنیز کے ساتھ [[جماع|ہمبستری]] ممکن ہو
* مجرم غلام یا کنیز نہ ہو
* مجرم غلام یا کنیز نہ ہو
* [[بلوغ]]
* [[بلوغ]]
سطر 42: سطر 42:


==سنگسار اور انسانی حقوق==
==سنگسار اور انسانی حقوق==
سنگسار کے حکم پر بعض انتقادات ہوئی ہیں؛ کہا گیا ہے کہ سنگسار ایک غیر عقلائی اور انسانی حقوق کے منافی حکم ہے۔<ref>کدخدایی و باقرزاده،‌ «بررسی حکم سنگسار از منظر فقه و حقوق بشر»، ۱۳۹۰ش، ص۴۱.</ref>اسی طرح سنگسار میں جرم اور سزا میں تناسب نہیں پایا جاتا ہے؛ کیونکہ جو شخص جنسی خواہشات کے دباؤ میں ایک لمحے کے لیے پھسل گیا ہو اس کے لیے  یہ سزا یہت سخت ہے کیونکہ اس کے عمل میں مفسدہ نہیں ہے اور کسی کو نقصان بھی نہیں پہنچاتا ہے۔<ref>کدخدایی و باقرزاده،‌ «بررسی حکم سنگسار از منظر فقه و حقوق بشر»، ۱۳۹۰ش، ص۶۰.</ref>
سنگسار کے حکم پر بعض انتقادات ہوئی ہیں؛ کہا گیا ہے کہ سنگسار ایک غیر عقلائی اور انسانی حقوق کے منافی حکم ہے۔<ref>کدخدایی و باقرزاده،‌ «بررسی حکم سنگسار از منظر فقه و حقوق بشر»، ۱۳۹۰ش، ص۴۱.</ref>اسی طرح سنگسار میں جرم اور سزا میں تناسب نہیں پایا جاتا ہے؛ کیونکہ جو شخص جنسی خواہشات کے دباؤ میں ایک لمحے کے لیے پھسل گیا ہو اس کے لیے  یہ سزا بہت سخت ہے کیونکہ اس کے عمل میں مفسدہ نہیں ہے اور کسی کو نقصان بھی نہیں پہنچاتا ہے۔<ref>کدخدایی و باقرزاده،‌ «بررسی حکم سنگسار از منظر فقه و حقوق بشر»، ۱۳۹۰ش، ص۶۰.</ref>


اس اشکال کے جواب میں کہا گیا ہے کہ اسلام جرم کو ثابت کرنے اور ثابت ہونے کے بعد اس سزا کو اجرا کرنے میں بہت سختی سے کام لیتا ہے؛ اور یہ حکم ایک قسم کی دھمکی اور تہدید ہے اور بہت کم ہی انجام پاتا ہے۔<ref>کدخدایی و باقرزاده،‌ «بررسی حکم سنگسار از منظر فقه و حقوق بشر»، ۱۳۹۰ش، ص۶۲.</ref>دوسرے اشکال کا یوں جواب دیا گیا ہے کہ ایسی سزا کا ہونا زنا کے دنیوی اور اخروی آثار جیسے؛ بےدینی، بے عفتی، جنسی بیماریاں، حرم اولاد، اور گھریلو ناچاکیاں سب اسی جرم کے سبب ہیں۔ لہذا اس جرم اور اس کی سزا میں تناسب پایا جاتا ہے۔<ref>کدخدایی و باقرزاده،‌ «بررسی حکم سنگسار از منظر فقه و حقوق بشر»، ۱۳۹۰ش، ص۶۲و۶۳.</ref>
اس اشکال کے جواب میں کہا گیا ہے کہ اسلام جرم کو ثابت کرنے اور ثابت ہونے کے بعد اس سزا کو اجرا کرنے میں بہت سختی سے کام لیتا ہے؛ اور یہ حکم ایک قسم کی دھمکی اور تہدید ہے اور بہت کم ہی انجام پاتا ہے۔<ref>کدخدایی و باقرزاده،‌ «بررسی حکم سنگسار از منظر فقه و حقوق بشر»، ۱۳۹۰ش، ص۶۲.</ref>دوسرے اشکال کا یوں جواب دیا گیا ہے کہ ایسی سزا کا ہونا زنا کے دنیوی اور [[آخرت|اخروی]] آثار جیسے؛ بےدینی، بے عفتی، جنسی بیماریاں، حرم اولاد، اور گھریلو ناچاکیاں سب اسی جرم کے سبب ہیں۔ لہذا اس جرم اور اس کی سزا میں تناسب پایا جاتا ہے۔<ref>کدخدایی و باقرزاده،‌ «بررسی حکم سنگسار از منظر فقه و حقوق بشر»، ۱۳۹۰ش، ص۶۲و۶۳.</ref>


==سنگسار کے حکم میں تبدیلی==
==سنگسار کے حکم میں تبدیلی==
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869

ترامیم