مندرجات کا رخ کریں

"سنگسار" کے نسخوں کے درمیان فرق

4,410 بائٹ کا اضافہ ،  27 اپريل 2019ء
←‏سنگسار کی شرعی دلیلیں: اضافہ نمودن بخش: سنگسار قرآن کی نظر میں
(←‏سنگسار کی شرعی دلیلیں: اضافہ نمودن بخش: سنگسار قرآن کی نظر میں)
سطر 24: سطر 24:


فقہا کے پاس سنگسار کی دلیلوں میں سے ایک [[اجماع]] ہے۔<ref>مراجعہ کریں: شیخ طوسی، الخلاف، ۱۴۰۷ق، ج۵، ص۳۶۵؛‌ تبریزی، اُسَس الحدود و التعزیرات، ۱۴۱۷ق، ص۱۰۷؛ نجفی، جواهرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۴۱، ص۳۱۸.</ref> [[شیخ طوسی]] اپنی کتاب [[الخلاف]] میں لکھتے ہیں: تمام اسلامی فقہا سنگسار کو مانتے ہیں لیکن [[خوارج]] یہ کہہ کر نہیں مانتے ہیں کہ اس کا ذکر قرآن مجید اور متواترہ احادیث میں نہیں آیا ہے۔<ref>شیخ طوسی، الخلاف، ۱۴۰۷ق، ج۵، ص۳۶۵.</ref>
فقہا کے پاس سنگسار کی دلیلوں میں سے ایک [[اجماع]] ہے۔<ref>مراجعہ کریں: شیخ طوسی، الخلاف، ۱۴۰۷ق، ج۵، ص۳۶۵؛‌ تبریزی، اُسَس الحدود و التعزیرات، ۱۴۱۷ق، ص۱۰۷؛ نجفی، جواهرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۴۱، ص۳۱۸.</ref> [[شیخ طوسی]] اپنی کتاب [[الخلاف]] میں لکھتے ہیں: تمام اسلامی فقہا سنگسار کو مانتے ہیں لیکن [[خوارج]] یہ کہہ کر نہیں مانتے ہیں کہ اس کا ذکر قرآن مجید اور متواترہ احادیث میں نہیں آیا ہے۔<ref>شیخ طوسی، الخلاف، ۱۴۰۷ق، ج۵، ص۳۶۵.</ref>
===سنگسار قرآن کی نظر میں===
شیعہ علما کا کہنا ہے کہ قرآن میں سنگسار کے بارے میں کوئی آیت موجود نہیں ہے<ref>مراجعہ کریں: موسوی اردبیلی، فقه الحدود و التعزیرات، ۱۴۲۷ق، ج۱، ص۴۳۹؛ خویی، البیان، ۱۴۰۱ق، ص۲۰۲.</ref>اور اس کا حکم احادیث اور اجماع سے اخذ کیا گیا ہے؛<ref>برای نمونه نگاه کنید به تبریزی، اسس الحدود و التعزیرات، ص۱۰۷؛ موسوی اردبیلی، فقه الحدود و التعزیرات، ۱۴۲۷ق، ج۱، ص۴۳۹.</ref> لیکن اہل سنت کے بہت سارے اصولی فقہا معتقد ہیں کہ قرآن مجید میں سنگسار کے بارے میں آیت موجود تھی۔<ref>کردی، کنکاشی فقهی و حقوقی در مجازات اعدام، ص۲۴۲.</ref> اس گروہ کی دلیل بعض ایسی روایات ہیں جو اہل سنت و الجماعت کے روائی مآخذ میں ذکر ہوئی ہیں۔<ref>کردی، کنکاشی فقهی و حقوقی در مجازات اعدام، ص۲۴۲.</ref>
منجملہ [[صحیح البخاری (کتاب)|صحیح بخاری]] میں [[عمر بن خطاب]] سے منقول ہے کہ ان کا کہنا ہے کہ مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ لوگوں پر ایسا زمانہ آئے کہ کہا جائے کہ قرآن میں سنگسار کا ذکر نہیں ہوا ہے اور لوگ اللہ تعالی کی طرف سے نازل ہونے والے واجب کو ترک کر کے گمراہ ہوجائیں۔<ref>[http://lib.efatwa.ir/42174/8/168 بخاری، صحیح بخاری، ۱۴۲۲ق، ج۸، ص۱۶۸].</ref> اسی طرح [[مالک بن انس|مالک بن اَنَس]] خلیفہ دوم سے نقل کرتے ہیں: خبردار! کہیں ایسا نہ ہو کہ آیت سنگسار سے اس وجہ سے غفلت برتیں کہ قرآن میں نہیں ہے؛ کیونکہ پیغمبر اکرمؐ سنگسار کرتے تھے اور ہم بھی سنگسار کیا کرتے تھے۔ یہ آیت قرآن میں تھی اور میں نے یہ آیت اس لئے نہیں لکھی کہ لوگ یہ نہیں کہیں کہ میں نے اپںی طرف سے کوئی چیز قرآن میں درج کیا ہے۔<ref>مالک بن انس، موطأ ابن مالک، ۱۴۰۶ق، ج۲، ص۸۲۴.</ref>
عمر بن خطاب کے مطابق سنگسار کی آیت یوں تھی:{{عربی|«إذا زَنىٰ الشَيخُ و الشَيخَة فَارْجُمُوهما اَلبَتَّة»}}<ref>مالک بن انس، موطأ ابن مالک، ۱۴۰۶ق، ج۲، ص۸۲۴؛ خویی، البیان، ۱۴۰۱ق، ص۲۰۲.</ref> (اگر بوڑھا مرد یا بوڑھی عورت زنا کرے تو اسے حتماً اسے سنگسار کریں)۔<ref> کردی، کنکاشی فقهی و حقوقی در مجازات اعدام، ص۲۴۳.</ref>
اہل سنت کے بعض علماء منجملہ ابوبکر باقلانی اور اکثر [[معتزلہ]] منجملہ ابومسلم اصفہانی اس بات کو نہیں مانتے ہیں۔<ref>کردی، کنکاشی فقهی و حقوقی در مجازات اعدام، ص۲۴۳و۲۴۴.</ref>ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ عبارت قرآن کی ہوتی تو عمر بن خطاب لازمی طور پر اسے قرآن میں شامل کردیتے اور لوگوں کی وجہ سے اسے ترک نہ کرتے۔ اسی طرح اس عبارت کو عربی ادب کے تناظر میں دیکھا جائے تو بھی بلاغت کے اعتبار سے قرآنی ادبیات سے سازگار نہیں ہے۔<ref>کردی، کنکاشی فقهی و حقوقی در مجازات اعدام، ص۲۴۴.</ref>
معاصر شیعہ فقیہ [[سید ابوالقاسم خویی|آیت‌الله خویی]] اپنی کتاب [[البیان فی تفسیر القرآن (کتاب)|البیان]] میں لکھتے ہیں: اگر یہ روایت صحیح ہو تو کہنا پڑے گا کہ قرآن سے ایک آیت حذف ہوگئی ہے<ref>خویی، البیان، ۱۴۰۱ق، ص۲۱۹.</ref> اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ قرآن مجید میں تحریف ہوچکی ہے۔<ref>خویی، البیان، ۱۴۰۱ق، ص۲۰۲.</ref>


== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869

ترامیم