مندرجات کا رخ کریں

"میر شمس الدین عراقی" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>E.musavi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 7: سطر 7:
| لقب/کنیت    =
| لقب/کنیت    =
| نسب  =[[امام موسی کاظمؑ]] کی نسل سے ہیں۔
| نسب  =[[امام موسی کاظمؑ]] کی نسل سے ہیں۔
| تاریخ پیدائش =۸۴۵ ھ
| تاریخ پیدائش =845 ھ
| آبائی شہر    =اراک
| آبائی شہر    =اراک
| آبائی ملک  =ایران
| آبائی ملک  =ایران
| مسکن  =کشمیر
| مسکن  =کشمیر
| تاریخ وفات    =۹۳۲ ھ
| تاریخ وفات    =932 ھ
| مقام وفات =کشمیر
| مقام وفات =کشمیر
| مدفن =خانقاہ ذڑیبل، کشمیر
| مدفن =خانقاہ ذڑیبل، کشمیر
سطر 17: سطر 17:
|پیشرو          =
|پیشرو          =
|جانشین        =
|جانشین        =
| اساتذہ =سید محمد نور بخش
| اساتذہ =[[سید محمد نور بخش]]
| شاگرد         =
| شاگرد         =
| مادر علمی         =
| مادر علمی         =
سطر 31: سطر 31:
| رسمی ویب سائٹ =
| رسمی ویب سائٹ =
}}
}}
'''میر شمس الدین عراقی''' (۸۴۵۔۹۳۲ ھ)، [[امام موسی کاظم (ع)]] کی نسل سے ہیں۔ ان کا شمار [[کشمیر]] اور [[بلتستان]] میں [[تشیع]] کو رواج دینے والوں میں ہوتا ہے۔  
'''میر شمس الدین عراقی''' (845۔932 ھ)، [[امام موسی کاظم (ع)]] کی نسل سے ہیں۔ ان کا شمار [[کشمیر]] اور [[بلتستان]] میں [[تشیع]] کو رواج دینے والوں میں ہوتا ہے۔  


انہوں نے کشمیر میں تشیع کی تبلیغ کی۔ جس کی بنیاد پر وہاں بعض لوگوں نے مذہب [[شیعہ]] کو اختیار کیا۔ اسی طرح سے انہوں نے اس بات کا زمینہ فراہم کیا کہ کشمیر کی [[جامع مسجد]] میں [[نماز جمعہ]] کے خطبوں میں شیعوں کے بارہ اماموں کے نام لئے جائیں۔ ان کے دیگر کارناموں میں کشمیر کے علاقے میں [[مسجد]] و خانقاہ کی تعمیر اور بت خانے کی تخریب شامل ہیں۔
انہوں نے کشمیر میں تشیع کی تبلیغ کی۔ جس کی بنیاد پر وہاں بعض لوگوں نے مذہب [[شیعہ]] کو اختیار کیا۔ اسی طرح سے انہوں نے اس بات کا زمینہ فراہم کیا کہ کشمیر کی [[جامع مسجد]] میں [[نماز جمعہ]] کے خطبوں میں شیعوں کے بارہ اماموں کے نام لئے جائیں۔ ان کے دیگر کارناموں میں کشمیر کے علاقے میں [[مسجد]] و خانقاہ کی تعمیر اور بت خانے کی تخریب شامل ہیں۔
سطر 39: سطر 39:


==سوانح حیات==
==سوانح حیات==
میر شمس الدین عراقی ۸۴۵ ھ میں ایران کے شہر اراک کے مضافات میں ایک قریہ میں پیدا ہوئے۔<ref> ریاحی، «نقش و تأثیر شخصیت‌ہای ایرانی در کشمیر...»، ص۹.</ref> ان کا اصلی نام سید محمد تھا اور ان کا سلسلہ نسب ساتویں [[امام موسی کاظم (ع)]] تک منتہی ہوتا ہے۔<ref> متو، «نقش میرشمس‌الدین عراقی در ترویج تشیع در کشمیر»، ص۱۷۰.</ref> ان کے والد کا نام سید ابراہیم اور والدہ کا تعلق قزوین کے ایک سادات گھرانے سے تھا۔<ref> سہرودی، تاریخ بلتستان، ص۸۸، بہ نقل از متو، «نقش میرشمس‌الدین عراقی در ترویج تشیع در کشمیر»، ص۱۷۰.</ref> عراقی کی نسبت انہیں ایران کے ایک شہر عراق سے تعلق کی وجہ سے دی گئی ہے<ref> متو، «نقش میرشمس‌الدین عراقی در ترویج تشیع در کشمیر»، ص۱۶۹.</ref> جسے آج کل اراک کہا جاتا ہے۔<ref> دیکھیں:‌ سعیدی، «اراک»، ج۷، ص۴۱۷.</ref> اسی سبب سے بعض افراد انہیں اراکی بھی لکھتے ہیں۔<ref> نگاہ کریں: ریاحی، «نقش و تأثیر شخصیت‌ہای ایرانی در کشمیر...»، ص۹.</ref>
میر شمس الدین عراقی 845 ھ میں ایران کے شہر اراک کے مضافات میں ایک قریہ میں پیدا ہوئے۔<ref> ریاحی، «نقش و تأثیر شخصیت‌ہای ایرانی در کشمیر...»، ص۹.</ref> ان کا اصلی نام سید محمد تھا اور ان کا سلسلہ نسب ساتویں [[امام موسی کاظم (ع)]] تک منتہی ہوتا ہے۔<ref> متو، «نقش میرشمس‌الدین عراقی در ترویج تشیع در کشمیر»، ص۱۷۰.</ref> ان کے والد کا نام سید ابراہیم اور والدہ کا تعلق قزوین کے ایک سادات گھرانے سے تھا۔<ref> سہرودی، تاریخ بلتستان، ص۸۸، بہ نقل از متو، «نقش میرشمس‌الدین عراقی در ترویج تشیع در کشمیر»، ص۱۷۰.</ref> عراقی کی نسبت انہیں ایران کے ایک شہر عراق سے تعلق کی وجہ سے دی گئی ہے<ref> متو، «نقش میر شمس‌ الدین عراقی در ترویج تشیع در کشمیر»، ص۱۶۹.</ref> جسے آج کل اراک کہا جاتا ہے۔<ref> دیکھیں:‌ سعیدی، «اراک»، ج۷، ص۴۱۷.</ref> اسی سبب سے بعض افراد انہیں اراکی بھی لکھتے ہیں۔<ref> نگاہ کریں: ریاحی، «نقش و تأثیر شخصیت‌ہای ایرانی در کشمیر...»، ص۹.</ref>


میر شمس الدین کا سال وفات ایک شجرہ کے مطابق ۹۳۲ ھ ذکر ہوا ہے۔<ref> بہارستان‌ شاہی، مقدمہ، ص۸۴؛ ہمدانی، تاریخ شیعیان کشمیر، ص۲۱؛ رضوی، شیعہ در ہند، ص۲۷۹، بہ نقل از متو، «نقش میر شمس‌ الدین عراقی در ترویج تشیع در کشمیر»، ص۱۷۹.</ref> جبکہ بعض محققین کے مطابق بہارستان شاہی، تحفۃ الاحباب و تاریخ ملک حیدر جادورہ جیسے قدیم منابع میں اس بارے میں کوئی تذکرہ نہیں ہوا ہے۔<ref> متو، «نقش میرشمس‌الدین عراقی در ترویج تشیع در کشمیر»، ص۱۷۹.</ref> اس طرح سے اس سلسلہ میں بھی اختلاف ہے کہ ان کی موت طبیعی تھی یا انہیں قتل کیا گیا۔<ref> نگاہ کنید بہ، متو، «نقش میر شمس‌ الدین عراقی در ترویج تشیع در کشمیر»، ص۱۷۹.</ref> علامہ [[محمد باقر مجلسی]] کے بھانجے ملا سعید اشرف کے ایک مرثیہ میں ان کے قتل کی طرف اشارہ ہوا ہے۔<ref> رجوع کریں: متو، «نقش میر شمس‌ الدین عراقی در ترویج تشیع در کشمیر»، ص۱۷۹.</ref> کشمیر کے بعض مولفین نے بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔<ref> کاظمی، چاند میری زمین پہول میرا وطن، ص۱۸؛ موسوی، کحل الجواہر، ص۷، بہ نقل از متو، «نقش میر شمس‌ الدین عراقی در ترویج تشیع در کشمیر»، ص۱۷۹-۱۸۰.</ref>
میر شمس الدین کا سال وفات ایک شجرہ کے مطابق 932 ھ ذکر ہوا ہے۔<ref> بہارستان‌ شاہی، مقدمہ، ص۸۴؛ ہمدانی، تاریخ شیعیان کشمیر، ص۲۱؛ رضوی، شیعہ در ہند، ص۲۷۹، بہ نقل از متو، «نقش میر شمس‌ الدین عراقی در ترویج تشیع در کشمیر»، ص۱۷۹.</ref> جبکہ بعض محققین کے مطابق بہارستان شاہی، تحفۃ الاحباب و تاریخ ملک حیدر جادورہ جیسے قدیم منابع میں اس بارے میں کوئی تذکرہ نہیں ہوا ہے۔<ref> متو، «نقش میر شمس‌ الدین عراقی در ترویج تشیع در کشمیر»، ص۱۷۹.</ref> اس طرح سے اس سلسلہ میں بھی اختلاف ہے کہ ان کی موت طبیعی تھی یا انہیں قتل کیا گیا۔<ref> نگاہ کنید بہ، متو، «نقش میر شمس‌ الدین عراقی در ترویج تشیع در کشمیر»، ص۱۷۹.</ref> علامہ [[محمد باقر مجلسی]] کے بھانجے ملا سعید اشرف کے ایک مرثیہ میں ان کے قتل کی طرف اشارہ ہوا ہے۔<ref> رجوع کریں: متو، «نقش میر شمس‌ الدین عراقی در ترویج تشیع در کشمیر»، ص۱۷۹.</ref> کشمیر کے بعض مولفین نے بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔<ref> کاظمی، چاند میری زمین پہول میرا وطن، ص۱۸؛ موسوی، کحل الجواہر، ص۷، بہ نقل از متو، «نقش میر شمس‌ الدین عراقی در ترویج تشیع در کشمیر»، ص۱۷۹-۱۸۰.</ref>


وہ کشمیر کے دار الحکومت سری نگر کے نزدیک ذڑیبل کی ایک خانقاہ میں مدفون ہیں۔<ref> ریاحی، «نقش و تأثیر شخصیت‌ ہای ایرانی در کشمیر...»، ص۱۰.</ref>
وہ کشمیر کے دار الحکومت سری نگر کے نزدیک ذڑیبل کی ایک خانقاہ میں مدفون ہیں۔<ref> ریاحی، «نقش و تأثیر شخصیت‌ ہای ایرانی در کشمیر...»، ص۱۰.</ref>
سطر 47: سطر 47:
==ثقافتی سرگرمیاں==
==ثقافتی سرگرمیاں==


میر شمس الدین عراقی نے [[کشمیر]] میں ثقافتی فعالیتیں انجام دیں۔ نقل ہوا ہے کہ شاہ میری سلسلہ (۸۷۶۔۸۸۹ ھ) کے شاہ حسن کے دور میں انہیں شیخ الاسلامی کا منصب عطا ہوا۔<ref> ریاحی، «نقش و تأثیر شخصیت‌ہای ایرانی در کشمیر...»، ص۱۰.</ref> انہوں نے زمینہ فراہم کیا جس کے سبب کشمیر کی [[جامع مسجد]] اور دیگر [[مساجد]] میں خطبوں میں [[شیعہ]] [[ائمہ]] (ع) کے اسماء ذکر ہونے لگے۔<ref> بہارستان‌ شاہی، ص۳۵۸، بہ نقل از متو، «نقش میر شمس‌ الدین عراقی در ترویج تشیع در کشمیر»، ص۱۷۶.</ref> کشمیر میں ان کی بعض دیگر فعالیت ذیل میں ذکر کی جا رہی ہیں:
میر شمس الدین عراقی نے [[کشمیر]] میں ثقافتی فعالیتیں انجام دیں۔ نقل ہوا ہے کہ شاہ میری سلسلہ (876۔889 ھ) کے شاہ حسن کے دور میں انہیں شیخ الاسلامی کا منصب عطا ہوا۔<ref> ریاحی، «نقش و تأثیر شخصیت‌ہای ایرانی در کشمیر...»، ص۱۰.</ref> انہوں نے زمینہ فراہم کیا جس کے سبب کشمیر کی [[جامع مسجد]] اور دیگر [[مساجد]] میں خطبوں میں [[شیعہ]] [[ائمہ]] (ع) کے اسماء ذکر ہونے لگے۔<ref> بہارستان‌ شاہی، ص۳۵۸، بہ نقل از متو، «نقش میر شمس‌ الدین عراقی در ترویج تشیع در کشمیر»، ص۱۷۶.</ref> کشمیر میں ان کی بعض دیگر فعالیت ذیل میں ذکر کی جا رہی ہیں:


===کشمیر میں تشیع کی ترویج===
===کشمیر میں تشیع کی ترویج===
میر شمس الدین سن ۸۸۲ ھ میں خراسان کے تیموری سلسلہ کے حاکم سلطان حسین بایقرا (حکومت: ۸۷۵۔۹۱۱ ھ) کے سفیر کے عنوان سے کشمیر گئے اور وہاں ۸ سال قیام کے بعد واپس خراسان آئے۔<ref> قاضی ظہور الحسن، نگارستان کشمیر، ص۲۴۰؛ حسن شاہ، تاریخ حسن، ص۱۲۲.</ref>  
میر شمس الدین سنہ 882 ھ میں خراسان کے تیموری سلسلہ کے حاکم سلطان حسین بایقرا (حکومت: 875۔911 ھ) کے سفیر کے عنوان سے کشمیر گئے اور وہاں 8 سال قیام کے بعد واپس خراسان آئے۔<ref> قاضی ظہور الحسن، نگارستان کشمیر، ص۲۴۰؛ حسن شاہ، تاریخ حسن، ص۱۲۲.</ref>  


اسی طرح سے وہ سن ۹۹۲ ھ میں شاہ قاسم نور بخش کی درخواست پر کشمیر گئے اور عوام کو [[تشیع]] کی دعوت دی۔<ref> ددّمری، واقعیات کشمیر،، ص۱۲۱، بہ نقل از متو، «نقش میر شمس‌ الدین عراقی در ترویج تشیع در کشمیر»، ص۱۷۳.</ref> انہوں نے عوام میں تبلیغ کے بجائے قبائل کے روساء اور صاحب نفوذ افراد پر توجہ کی سیاست پر عمل کیا۔<ref> ہمدانی، تاریخ شیعیان کشمیر، ص۱۹، بہ نقل از متو، «نقش میرشمس‌الدین عراقی در ترویج تشیع در کشمیر»، ص۱۷۳.</ref> [[بابا علی نجار]] اس زمانہ کے برجستہ صوفی نے سب سے پہلے ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔<ref> ہمدانی، تاریخ شیعیان کشمیر، ص۱۹، بہ نقل از متو، «نقش میر شمس‌ الدین عراقی در ترویج تشیع در کشمیر»، ص۱۷۳.</ref> اس کے بعد موسی رینہ وزیر اعظم، کاجی چک و غازی چک (حکومت: ۹۶۲۔۹۷۱ ھ) جیسے حکومت میں صاحب نفوذ افراد نے [[شیعہ]] مذہب کو قبول کیا۔<ref> ہمدانی، تاریخ شیعیان کشمیر، ص۱۹، بہ نقل از متو، «نقش میر شمس‌ الدین عراقی در ترویج تشیع در کشمیر»، ص۱۷۳.</ref> اسی طرح سے منابع نے چک سلسلہ (حکومت ۹۶۲۔۹۹۴ ھ) کے افراد کے جو امامی مذہب تھے اور کشمیر میں ان کی حکومت تھی، شیعہ مذہب اختیار کرنے میں بھی میر شمس الدین کا ہاتھ ذکر کیا ہے۔<ref> معینی‌ نیا، «ظہور و سقوط چکان»، ص۱۳۷-۱۳۸.</ref>  
اسی طرح سے وہ سنہ 992 ھ میں شاہ قاسم نور بخش کی درخواست پر کشمیر گئے اور عوام کو [[تشیع]] کی دعوت دی۔<ref> ددّمری، واقعیات کشمیر،، ص۱۲۱، بہ نقل از متو، «نقش میر شمس‌ الدین عراقی در ترویج تشیع در کشمیر»، ص۱۷۳.</ref> انہوں نے عوام میں تبلیغ کے بجائے قبائل کے روساء اور صاحب نفوذ افراد پر توجہ کی سیاست پر عمل کیا۔<ref> ہمدانی، تاریخ شیعیان کشمیر، ص۱۹، بہ نقل از متو، «نقش میرشمس‌الدین عراقی در ترویج تشیع در کشمیر»، ص۱۷۳.</ref> [[بابا علی نجار]] اس زمانہ کے برجستہ صوفی نے سب سے پہلے ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔<ref> ہمدانی، تاریخ شیعیان کشمیر، ص۱۹، بہ نقل از متو، «نقش میر شمس‌ الدین عراقی در ترویج تشیع در کشمیر»، ص۱۷۳.</ref> اس کے بعد موسی رینہ وزیر اعظم، کاجی چک و غازی چک (حکومت: 962۔971 ھ) جیسے حکومت میں صاحب نفوذ افراد نے [[شیعہ]] مذہب کو قبول کیا۔<ref> ہمدانی، تاریخ شیعیان کشمیر، ص۱۹، بہ نقل از متو، «نقش میر شمس‌ الدین عراقی در ترویج تشیع در کشمیر»، ص۱۷۳.</ref> اسی طرح سے منابع نے چک سلسلہ (حکومت 962۔994 ھ) کے افراد کے جو امامی مذہب تھے اور کشمیر میں ان کی حکومت تھی، شیعہ مذہب اختیار کرنے میں بھی میر شمس الدین کا ہاتھ ذکر کیا ہے۔<ref> معینی‌ نیا، «ظہور و سقوط چکان»، ص۱۳۷-۱۳۸.</ref>  


اسی طرح سے نقل ہوا ہے کہ انہوں نے کشمیر کے وزیر اعظم موسی رینہ کی مدد سے ۲۴ ہزار ہندو گھرانوں کی تشیع کی طرف ہدایت کی<ref> تاریخ ملک حیدر، ص۱۱۷، بہ نقل از متو، «نقش میر شمس‌ الدین عراقی در ترویج تشیع در کشمیر»، ص۱۷۱.</ref> اور  لداخ کے بعض بودھ مذہب کے پیروکاروں کو شیعہ بنایا۔<ref> ضابط، «تشیع در شبہ قارہ ہند»، ص۸۷.</ref>
اسی طرح سے نقل ہوا ہے کہ انہوں نے کشمیر کے وزیر اعظم موسی رینہ کی مدد سے 24 ہزار ہندو گھرانوں کی تشیع کی طرف ہدایت کی<ref> تاریخ ملک حیدر، ص۱۱۷، بہ نقل از متو، «نقش میر شمس‌ الدین عراقی در ترویج تشیع در کشمیر»، ص۱۷۱.</ref> اور  لداخ کے بعض بودھ مذہب کے پیروکاروں کو شیعہ بنایا۔<ref> ضابط، «تشیع در شبہ قارہ ہند»، ص۸۷.</ref>


===تعمیر مسجد و خانقاہ===
===تعمیر مسجد و خانقاہ===
میر شمس الدین نے بت کدوں کو توڑ کر وہاں [[مساجد]] و خانقاہیں تعمیر کرائیں۔ منابع میں ۳۹۴۳ بت کدوں کی طرف اشارہ ہوا ہے جنہیں انہوں نے خراب کیا۔<ref> میر شمس‌ الدین عراقی بت‌ شکن، ص۱۴، بہ نقل از متو، «نقش میر شمس‌ الدین عراقی در ترویج تشیع در کشمیر»، ص۱۷۶.</ref> اسی سبب سے انہیں مکسر الاصنام (بت شکن) کا لقب دیا گیا۔<ref> بہارستان‌ شاہی، ص۴۶، بہ نقل از متو، «نقش میر شمس‌ الدین عراقی در ترویج تشیع در کشمیر»، ص۱۷۶.</ref> ان کے ہاتھوں سے تعمیر شدہ خانقاہوں میں سے ایک ذڑیبل کی خانقاہ ہے جو کشمیر کے دار الحکومت سری نگر سے 8 کیلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔<ref> بہارستان‌شاہی، ص۷۲؛ موسوی، اختر درخشان، ص۲۸، بہ نقل از متو، «نقش میر شمس‌ الدین عراقی در ترویج تشیع در کشمیر»، ص۱۷۴.</ref> اسی طرح سے انہوں نے ایک خانقاہ جسے سلطان سکندر بت شکن (۷۹۶ ھ) نے [[میر سید علی ہمدانی]] کے لئے تعمیر کیا تھا، کی باز سازی کرائی۔<ref> بہارستان‌ شاہی، ص۶۱، بہ نقل از متو، «نقش میر شمس‌ الدین عراقی در ترویج تشیع در کشمیر»، ص۱۷۵.</ref>  
میر شمس الدین نے بت کدوں کو توڑ کر وہاں [[مساجد]] و خانقاہیں تعمیر کرائیں۔ منابع میں 3943 بت کدوں کی طرف اشارہ ہوا ہے جنہیں انہوں نے خراب کیا۔<ref> میر شمس‌ الدین عراقی بت‌ شکن، ص۱۴، بہ نقل از متو، «نقش میر شمس‌ الدین عراقی در ترویج تشیع در کشمیر»، ص۱۷۶.</ref> اسی سبب سے انہیں مکسر الاصنام (بت شکن) کا لقب دیا گیا۔<ref> بہارستان‌ شاہی، ص۴۶، بہ نقل از متو، «نقش میر شمس‌ الدین عراقی در ترویج تشیع در کشمیر»، ص۱۷۶.</ref> ان کے ہاتھوں سے تعمیر شدہ خانقاہوں میں سے ایک ذڑیبل کی خانقاہ ہے جو کشمیر کے دار الحکومت سری نگر سے 8 کیلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔<ref> بہارستان ‌شاہی، ص۷۲؛ موسوی، اختر درخشان، ص۲۸، بہ نقل از متو، «نقش میر شمس‌ الدین عراقی در ترویج تشیع در کشمیر»، ص۱۷۴.</ref> اسی طرح سے انہوں نے ایک خانقاہ جسے سلطان سکندر بت شکن (796 ھ) نے [[میر سید علی ہمدانی]] کے لئے تعمیر کیا تھا، کی باز سازی کرائی۔<ref> بہارستان‌ شاہی، ص۶۱، بہ نقل از متو، «نقش میر شمس‌ الدین عراقی در ترویج تشیع در کشمیر»، ص۱۷۵.</ref>  


دور افتادہ علاقوں میں مبلغین بھیجنا<ref> بہارستان‌ شاہی، ص۱۳۰،۲۵۸، بہ نقل از متو، «نقش میر شمس‌ الدین عراقی در ترویج تشیع در کشمیر»، ص۱۷۷.</ref> اور [[جہاد]] کی ثقافت کو احیا کرنا ان کے دیگر ثقافتی کارنامے ہیں۔<ref> نگاہ کریں بہارستان‌ شاہی، ص۵۶، بہ نقل از متو، «نقش میر شمس‌ الدین عراقی در ترویج تشیع در کشمیر»، ص۱۷۵.</ref>
دور افتادہ علاقوں میں مبلغین بھیجنا<ref> بہارستان‌ شاہی، ص۱۳۰،۲۵۸، بہ نقل از متو، «نقش میر شمس‌ الدین عراقی در ترویج تشیع در کشمیر»، ص۱۷۷.</ref> اور [[جہاد]] کی ثقافت کو احیا کرنا ان کے دیگر ثقافتی کارنامے ہیں۔<ref> نگاہ کریں بہارستان‌ شاہی، ص۵۶، بہ نقل از متو، «نقش میر شمس‌ الدین عراقی در ترویج تشیع در کشمیر»، ص۱۷۵.</ref>
سطر 66: سطر 66:
==مونوگراف==
==مونوگراف==


ان پر تالیف کی گئی کتاب [[تحفۃ الاحباب]] تالیف [[محمد علی کشمیری]] میں ان کی سوانح حیات اور کارنامے ذکر ہوئے ہیں۔<ref> عطایی، «نقش و جایگاہ میر شمس‌ الدین عراقی...»، ص۲۳۰.</ref> یہ کتاب چک بادشاہ سلطان حسین کے دور حکومت (۹۷۱۔۹۷۸ ھ) میں تالیف کی گئی ہے۔<ref> عطایی، «نقش و جایگاہ میر شمس‌ الدین عراقی در گسترش تشیع در کشمیر بر اساس تحفۃ الاحباب»، ص۲۲۹.</ref> جس کا ترجمہ اردو زبان میں بھی ہو چکا ہے۔<ref> عطایی، «نقش و جایگاہ میر شمس‌ الدین عراقی...»، ص۲۳۷.</ref>
ان پر تالیف کی گئی کتاب [[تحفۃ الاحباب]] تالیف [[محمد علی کشمیری]] میں ان کی سوانح حیات اور کارنامے ذکر ہوئے ہیں۔<ref> عطایی، «نقش و جایگاہ میر شمس‌ الدین عراقی...»، ص۲۳۰.</ref> یہ کتاب چک بادشاہ سلطان حسین کے دور حکومت (971۔978 ھ) میں تالیف کی گئی ہے۔<ref> عطایی، «نقش و جایگاہ میر شمس‌ الدین عراقی در گسترش تشیع در کشمیر بر اساس تحفۃ الاحباب»، ص۲۲۹.</ref> جس کا ترجمہ اردو زبان میں بھی ہو چکا ہے۔<ref> عطایی، «نقش و جایگاہ میر شمس‌ الدین عراقی...»، ص۲۳۷.</ref>


==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
سطر 80: سطر 80:
* متو، غلام‌ محمد، «نقش میر شمس‌الدین عراقی در ترویج تشیع در کشمیر»، سخن تاریخ، شمارہ۸، بہار ۱۳۸۹ش.
* متو، غلام‌ محمد، «نقش میر شمس‌الدین عراقی در ترویج تشیع در کشمیر»، سخن تاریخ، شمارہ۸، بہار ۱۳۸۹ش.
* معینی‌ نیا، مریم و عالم‌ زادہ، ہادی، ظہور و سقوط چکان در کشمیر، فصلنامہ تاریخ و تمدن اسلامی، شمارہ ۱۷، بہار و تابستان ۱۳۹۲ش.
* معینی‌ نیا، مریم و عالم‌ زادہ، ہادی، ظہور و سقوط چکان در کشمیر، فصلنامہ تاریخ و تمدن اسلامی، شمارہ ۱۷، بہار و تابستان ۱۳۹۲ش.
{{برصغیر}}
{{برصغیر}}


گمنام صارف