مندرجات کا رخ کریں

"مصحف عثمانی" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
سطر 52: سطر 52:


==صحابہ اور تابعین کا رد عمل==
==صحابہ اور تابعین کا رد عمل==
مختلف مصحفوں کو یکساں کرنے کے اصل عمل میں تو [[صحابہ]] [[عثمان]] کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں رکھتے تھے۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۳۹۔</ref> لیکن اس کام کے طریقہ کار سے متعلق بھی صرف [[عبداللہ بن مسعود]] کی طرف سے اعتراض سامنے آیا ہے اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ وہ اور عثمان کے درمیان شدید تلخ کلامی ہوئی۔ عبداللہ بن مسعود جن افراد کے ذمے یہ کام لگایا گیا تھا کو ناتجریہ کار سمجھتے ہوئے اپنے پاس موجود مصحف کو ان کے حوالے کرنے سے انکار کیا۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۳۔</ref>
مختلف صحف کو یکساں کرنے کے اصل عمل میں تو تمام [[صحابہ]] [[عثمان]] کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں رکھتے تھے۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۳۹۔</ref> اور اس کام کے طریقہ کار سے متعلق بھی صرف [[عبداللہ بن مسعود]] کی طرف سے اعتراض سامنے آیا ہے اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ وہ اور عثمان کے درمیان شدید تلخ کلامی ہوئی۔ عبداللہ بن مسعود نے جن افراد کے ذمے یہ کام لگایا گیا تھا کو ناتجریہ کار سمجھتے ہوئے اپنے پاس موجود مصحف کو ان کے حوالے کرنے سے انکار کیا۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۳۔</ref>


اسی طرح مصحف عثمانی میں موجود بعض کلمات کے بارے میں بھی صحابہ کے اختلاف رائ رکھنے کے حوالے سے بھی بعض تاریخی شواہد موجود ہیں۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۶۹تا۳۷۳۔</ref> مثال کے طور پر "إنْ ہٰذَانِ لَسَاحِرَان" میں لفظ "ہَذَانِ"(یہ دو)،<ref>سورہ طہ، آیہ ۶۳۔</ref> عربی ادب کے قوعد و ضوابط کے مطابق "ہَذَیْنِ" ہونا چاہئے۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۶۹۔</ref> اس بنا پر بعض صحابہ من جملہ [[عایشہ]] اور [[سعید بن جبیر|سعید بن جُبَیر]] اسے غلط سمجھتے ہوئے "ہٰذَیْنِ" تلفظ کرتے تھے۔<ref>ثعلبی، الکشف و البیان عن تفسیر القرآن، ۱۴۲۲ق، ج۶، ص۲۵۰۔</ref> [[مجمع البیان]] میں [[فضل بن حسن طبرسی|طَبرِسی]] کے مطابق [[قراء سبعہ]] میں سے بعض قاری بھی "ہٰذَیْنِ" پڑھتے تھے۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۷، ص۲۴و۲۵۔</ref> کہا جاتا ہے کہ خود عثمان بھی اسے غلط سمجھتے تھے؛ لیکن چونکہ اس کی وجہ سے کوئی  حلال [[حرام]] یا کوئی حرام‌ [[حلال]] نہیں ہوتا اس وجہ سے اسے تبدیل نہیں کرنے دیا۔<ref>ثعلبی، الکشف و البیان عن تفسیر القرآن، ۱۴۲۲ق، ج۶، ص۲۵۰۔ </ref>
اسی طرح مصحف عثمانی میں موجود بعض کلمات کے بارے میں صحابہ کے اختلاف رائ رکھنے کے حوالے سے بھی بعض تاریخی شواہد موجود ہیں۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۶۹تا۳۷۳۔</ref> مثال کے طور پر "إنْ ہٰذَانِ لَسَاحِرَان" میں لفظ "ہَذَانِ"(یہ دو)،<ref>سورہ طہ، آیہ ۶۳۔</ref> عربی ادب کے قواعد و ضوابط کے مطابق "ہَذَیْنِ" ہونا چاہئے۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۶۹۔</ref> اس بنا پر بعض صحابہ من جملہ [[عایشہ]] اور [[سعید بن جبیر|سعید بن جُبَیر]] اسے غلط سمجھتے ہوئے "ہٰذَیْنِ" تلفظ کرتے تھے۔<ref>ثعلبی، الکشف و البیان عن تفسیر القرآن، ۱۴۲۲ق، ج۶، ص۲۵۰۔</ref> [[مجمع البیان]] میں [[فضل بن حسن طبرسی|طَبرِسی]] کے مطابق [[قراء سبعہ]] میں سے بعض قاری بھی "ہٰذَیْنِ" پڑھتے تھے۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۷، ص۲۴و۲۵۔</ref> کہا جاتا ہے کہ خود عثمان بھی اسے غلط سمجھتے تھے؛ لیکن چونکہ اس کی وجہ سے کوئی  حلال [[حرام]] یا کوئی حرام‌ [[حلال]] نہیں ہوتا اس وجہ سے اسے تبدیل نہیں کرنے دیا۔<ref>ثعلبی، الکشف و البیان عن تفسیر القرآن، ۱۴۲۲ق، ج۶، ص۲۵۰۔ </ref>


جامع البیان میں بھی [[امام علیؑ]] سے نقل ہوئی ہے کہ آپ "طَلْحٍ مَنْضُود"<ref>سورہ واقعہ، آیہ ۲۹۔</ref> (تہہ بہ تہہ کیلے)<ref>ترجمہ محمد حسین نجفی۔</ref> کی اصل تلفظ "طَلْعٍ مَنْضُود" (کھجور کے متراکم خوشے) سمجھتے تھے؛ لیکن اس کے باوجود اسے تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دیئے۔<ref>طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ق، ج۲۷، ص۱۰۴۔</ref>
جامع البیان میں بھی [[امام علیؑ]] سے نقل ہوئی ہے کہ آپؑ "طَلْحٍ مَنْضُود"<ref>سورہ واقعہ، آیہ ۲۹۔</ref> (تہہ بہ تہہ کیلے)<ref>ترجمہ محمد حسین نجفی۔</ref> کی اصل تلفظ "طَلْعٍ مَنْضُود" (کھجور کے متراکم خوشے) سمجھتے تھے؛ لیکن اس کے باوجود اسے تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دی۔<ref>طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ق، ج۲۷، ص۱۰۴۔</ref>


==شیعہ ائمہ کی رائے==
==شیعہ ائمہ کی رائے==
confirmed، templateeditor
8,854

ترامیم