"مصحف عثمانی" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 51: | سطر 51: | ||
[[علوم قرآن]] کے منابع میں مصحف عثمانی کا وہ نسخہ جو [[مدینہ]] موجود تھا، کو مُصحَف الاِمام کہا جاتا ہے؛<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۰۔</ref> لیکن ابنجَزَری کے مطابق مُصحَف امام مدینہ میں موجود عام نسخے کے علاوہ کوئی اور نسخہ تھا جو خود عثمان کے پاس موجود تھا۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۲۔</ref> ابنکثیر کتاب فضائل القرآن میں لکھتے ہیں کہ مصحف عثمانی کے تمام نسخوں کو نسخہ امام کہنا جاتا ہے۔<ref>حجتی، پژوہشی در تاریخ قرآن کریم، ۱۳۶۸ش، ص۴۶۱۔</ref> کتاب [[التمہید]] کے مطابق دوسرے شہروں میں موجود نسخوں میں اختلاف پیدا ہونے کی صورت میں جس نسخے کی طرف رجوع کیا جاتا تھا اسے مصحف امام کہا جاتا تھا۔<ref> معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۰۔</ref> | [[علوم قرآن]] کے منابع میں مصحف عثمانی کا وہ نسخہ جو [[مدینہ]] موجود تھا، کو مُصحَف الاِمام کہا جاتا ہے؛<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۰۔</ref> لیکن ابنجَزَری کے مطابق مُصحَف امام مدینہ میں موجود عام نسخے کے علاوہ کوئی اور نسخہ تھا جو خود عثمان کے پاس موجود تھا۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۲۔</ref> ابنکثیر کتاب فضائل القرآن میں لکھتے ہیں کہ مصحف عثمانی کے تمام نسخوں کو نسخہ امام کہنا جاتا ہے۔<ref>حجتی، پژوہشی در تاریخ قرآن کریم، ۱۳۶۸ش، ص۴۶۱۔</ref> کتاب [[التمہید]] کے مطابق دوسرے شہروں میں موجود نسخوں میں اختلاف پیدا ہونے کی صورت میں جس نسخے کی طرف رجوع کیا جاتا تھا اسے مصحف امام کہا جاتا تھا۔<ref> معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۰۔</ref> | ||
==صحابہ اور تابعین کا رد عمل== | ==صحابہ اور تابعین کا رد عمل== | ||
[[صحابہ]] | مختلف مصحفوں کو یکساں کرنے کے اصل عمل میں تو [[صحابہ]] [[عثمان]] کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں رکھتے تھے۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۳۹۔</ref> لیکن اس کام کے طریقہ کار سے متعلق بھی صرف [[عبداللہ بن مسعود]] کی طرف سے اعتراض سامنے آیا ہے اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ وہ اور عثمان کے درمیان شدید تلخ کلامی ہوئی۔ عبداللہ بن مسعود جن افراد کے ذمے یہ کام لگایا گیا تھا کو ناتجریہ کار سمجھتے ہوئے اپنے پاس موجود مصحف کو ان کے حوالے کرنے سے انکار کیا۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۳۔</ref> | ||
اسی طرح مصحف عثمانی میں موجود بعض کلمات کے بارے میں بھی صحابہ کے اختلاف رائ رکھنے کے حوالے سے بھی بعض تاریخی شواہد موجود ہیں۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۶۹تا۳۷۳۔</ref> مثال کے طور پر "إنْ ہٰذَانِ لَسَاحِرَان" میں لفظ "ہَذَانِ"(یہ دو)،<ref>سورہ طہ، آیہ ۶۳۔</ref> عربی ادب کے قوعد و ضوابط کے مطابق "ہَذَیْنِ" ہونا چاہئے۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۶۹۔</ref> اس بنا پر بعض صحابہ من جملہ [[عایشہ]] اور [[سعید بن جبیر|سعید بن جُبَیر]] اسے غلط سمجھتے ہوئے "ہٰذَیْنِ" تلفظ کرتے تھے۔<ref>ثعلبی، الکشف و البیان عن تفسیر القرآن، ۱۴۲۲ق، ج۶، ص۲۵۰۔</ref> [[مجمع البیان]] میں [[فضل بن حسن طبرسی|طَبرِسی]] کے مطابق [[قراء سبعہ]] میں سے بعض قاری بھی "ہٰذَیْنِ" پڑھتے تھے۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۷، ص۲۴و۲۵۔</ref> کہا جاتا ہے کہ خود عثمان بھی اسے غلط سمجھتے تھے؛ لیکن چونکہ اس کی وجہ سے کوئی حلال [[حرام]] یا کوئی حرام [[حلال]] نہیں ہوتا اس وجہ سے اسے تبدیل نہیں کرنے دیا۔<ref>ثعلبی، الکشف و البیان عن تفسیر القرآن، ۱۴۲۲ق، ج۶، ص۲۵۰۔ </ref> | |||
جامع البیان میں بھی [[امام علیؑ]] سے نقل ہوئی ہے کہ آپ "طَلْحٍ مَنْضُود"<ref>سورہ واقعہ، آیہ ۲۹۔</ref> (تہہ بہ تہہ کیلے)<ref>ترجمہ محمد حسین نجفی۔</ref> کی اصل تلفظ "طَلْعٍ مَنْضُود" (کجھو کے متراکم خوشے) سمجھتے تھے؛ لیکن اس کے باوجود اسے تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دیئے۔<ref>طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ق، ج۲۷، ص۱۰۴۔</ref> | |||
== | ==شیعہ ائمہ کی رائے==<!-- | ||
بہ گفتہ [[محمدہادی معرفت]]، [[امامان شیعہ]] با مُصحَف [[عثمان]] مخالف نبودہاند و ازاینرو [[شیعیان]] ہمگی [[قرآن|قرآنی]] را کہ امروزہ در دست است، درست و کامل میدانند۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۲۔</ref> سیوطی روایتی از [[امام علی (ع)]] آوردہ است کہ طبق آن [[عثمان]] درخصوص تدوین مصحف با او مشورت کردہ و او ہم موافق بودہ است۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۱۔</ref> ہمچنین بر پایہ روایتی کہ در [[وسائل الشیعہ]] نقل شدہ، [[امام صادق(ع)]] شخصی را کہ برخلاف قرائت رسمی، قرآن میخواند، از این کار پرہیز داد۔<ref>حر عاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۸۲۱۔</ref> | بہ گفتہ [[محمدہادی معرفت]]، [[امامان شیعہ]] با مُصحَف [[عثمان]] مخالف نبودہاند و ازاینرو [[شیعیان]] ہمگی [[قرآن|قرآنی]] را کہ امروزہ در دست است، درست و کامل میدانند۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۲۔</ref> سیوطی روایتی از [[امام علی (ع)]] آوردہ است کہ طبق آن [[عثمان]] درخصوص تدوین مصحف با او مشورت کردہ و او ہم موافق بودہ است۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۱۔</ref> ہمچنین بر پایہ روایتی کہ در [[وسائل الشیعہ]] نقل شدہ، [[امام صادق(ع)]] شخصی را کہ برخلاف قرائت رسمی، قرآن میخواند، از این کار پرہیز داد۔<ref>حر عاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۸۲۱۔</ref> | ||