مندرجات کا رخ کریں

"حضانت" کے نسخوں کے درمیان فرق

226 بائٹ کا اضافہ ،  2 نومبر 2018ء
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 28: سطر 28:
فقہاء کے [[فتوا|فتوے]] کے مطابق ماں اس وقت تک بچے کی سرپرستی اور حضانت کر سکتی ہے جب تک وہ کسی اور مرد سے شادی نہ کرے۔<ref>محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۲۹۰؛ نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۱، ص۲۹۲۔</ref> [[محمد حسن نجفی|صاحب‌ جواہر]] لکھتے ہیں کہ اس سلسلے میں فقہاء کا [[اجماع]] ہے اور کوئی اختلاف نہیں ہے۔<ref>نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۱، ص۲۹۲۔</ref> اس سلسلے میں ایک اور نکتہ یہ ہے کہ ماں بچے کی سرپرستی اور حضانت کے بدلے بچے کے باپ سے اجرت بھی لے سکتی ہے۔<ref>سیستانی، منہاج الصالحین، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۱۲۲۔</ref>
فقہاء کے [[فتوا|فتوے]] کے مطابق ماں اس وقت تک بچے کی سرپرستی اور حضانت کر سکتی ہے جب تک وہ کسی اور مرد سے شادی نہ کرے۔<ref>محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۲۹۰؛ نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۱، ص۲۹۲۔</ref> [[محمد حسن نجفی|صاحب‌ جواہر]] لکھتے ہیں کہ اس سلسلے میں فقہاء کا [[اجماع]] ہے اور کوئی اختلاف نہیں ہے۔<ref>نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۱، ص۲۹۲۔</ref> اس سلسلے میں ایک اور نکتہ یہ ہے کہ ماں بچے کی سرپرستی اور حضانت کے بدلے بچے کے باپ سے اجرت بھی لے سکتی ہے۔<ref>سیستانی، منہاج الصالحین، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۱۲۲۔</ref>


== یتیم بچے کی حضانت ==<!--
== یتیم بچے کی حضانت ==
اگر ہریک از پدر یا مادر کودک فوت کنند، حق حضانت او، بہ دیگری منتقل می‌شود۔<ref>نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۱، ص۲۹۳۔</ref> در صورت فقدان ہردو، سرپرستی بہ جد پدری کودک می‌رسد۔<ref>نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۱، ص۲۹۵۔</ref> در صورت نبود وی، بہ باور برخی از فقہا حق حضانت بہ سایر بستگان براساس رتبہ آنہا در [[ارث]] منتقل می‌شود؛ اما برخی دیگر  چون  [[یوسف بن احمد بحرانی|یوسف بَحرانی]] از فقیہان قرن دوازہم قمری و  [[صاحب‌جواہر]] می‌گویند: حق حضانت در اختیار خاندان پدری باقی می‌ماند۔<ref>نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۱، ص۲۹۵و۲۹۶؛ بحرانی، الحدائق الناظرہ، ۱۴۰۵ق، ج۲۵، ص۹۷</ref>
کسی بچے کے والدین میں سے جو بھی اس دنیا سے فوت ہو جائے تو اس بچے کی حضانت اور سرپرستی دوسرے کی طرف منتقل ہو جائے گی جو زندہ ہے۔<ref>نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۱، ص۲۹۳۔</ref> لیکن اگر والدین میں سے دونوں فوت ہو جائے تو اس بچے کی سرپرستی اس کے جد پدری کی طرف منتقل ہو جائے گی۔<ref>نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۱، ص۲۹۵۔</ref> اگر جد پدری بهی نہ ہو تو بعض فقہا کے نزدیک حق حضانت باقی رشتہ داروں کی طرف [[ارث]] کے رتبے کو مد نظر رکھتے ہوئے منتقل ہو جائے گا؛ لیکن بعض فقہاء مانند [[یوسف بن احمد بحرانی|یوسف بَحرانی]] اور [[صاحب‌ جواہر]] کہتے ہیں: حق حضانت والد کے خاندان میں باقی رہتا ہے۔<ref>نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۱، ص۲۹۵و۲۹۶؛ بحرانی، الحدائق الناظرہ، ۱۴۰۵ق، ج۲۵، ص۹۷</ref>


بَحرانی در کتاب [[الحدائق الناظرہ]] نوشتہ است:‌ در صورت نبودن جد پدری، [[حاکم شرع]] با استفادہ از اموال کودک، برای او سرپرستی تعیین خواہد کرد و اگر کودکْ مالی نداشتہ باشد، حضانت او بر مسلمانان، [[واجب کفایی|واجب کِفایی]] است۔<ref>بحرانی، الحدائق الناظرہ، ۱۴۰۵ق، ج۲۵، ص۹۷۔</ref>
بَحرانی کتاب [[الحدائق الناظرہ]] میں لکھتے ہیں:‌ جد پدری کے نہ ہونے کی صورت میں [[حاکم شرع]] بچے کے اموال سے اس کیلئے ایک سرپرست معین کرے گا لیکن اگر بچے کا کوئی مال نہ ہو تو اس بچے کی حضانت اور سرپرستی تمام مسلمانوں پر بطور [[واجب کفایی|واجب کِفایی]] واجب ہے۔<ref>بحرانی، الحدائق الناظرہ، ۱۴۰۵ق، ج۲۵، ص۹۷۔</ref>


== حضانت کودک نامشروع ==
== نامشروع بچے کی حضانت ==<!--
بہ [[فتوا|فتوای]] فقیہان سرپرستی کودکی کہ از راہ نامشروع متولد شدہ است، بر عہدہ پدر و مادر واقعی او است۔<ref>بہجت، استفتائات، ۱۴۳۰ق، ج۴، ص۱۳۳؛ فیاض، رسالہ توضیح المسائل، ۱۴۲۶ق، ص۵۶۳؛ مکارم شیرازی، استفتاءات جدید، ۱۴۲۷ق، ج۱، ص۳۶۴۔</ref> البتہ فقہا معتقدند [[زنا|زنازادہ]] از از والدینش [[ارث]] نمی‌برد۔<ref>مکارم شیرازی، استفتاءات جدید، ۱۴۲۷ق، ج۱، ص۳۶۴؛ بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ۱۴۲۴ق، ج۲، ص۷۵۲، ۷۶۳؛ گلپایگانی، مجمع المسائل، ۱۴۰۹ق، ص۵۵۱۔</ref> بہ نوشتہ [[صاحب‌جواہر]] فقیہان در این مسئلہ [[اجماع]] دارند۔<ref>نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۸، ص۲۷۴۔</ref>
بہ [[فتوا|فتوای]] فقیہان سرپرستی کودکی کہ از راہ نامشروع متولد شدہ است، بر عہدہ پدر و مادر واقعی او است۔<ref>بہجت، استفتائات، ۱۴۳۰ق، ج۴، ص۱۳۳؛ فیاض، رسالہ توضیح المسائل، ۱۴۲۶ق، ص۵۶۳؛ مکارم شیرازی، استفتاءات جدید، ۱۴۲۷ق، ج۱، ص۳۶۴۔</ref> البتہ فقہا معتقدند [[زنا|زنازادہ]] از از والدینش [[ارث]] نمی‌برد۔<ref>مکارم شیرازی، استفتاءات جدید، ۱۴۲۷ق، ج۱، ص۳۶۴؛ بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ۱۴۲۴ق، ج۲، ص۷۵۲، ۷۶۳؛ گلپایگانی، مجمع المسائل، ۱۴۰۹ق، ص۵۵۱۔</ref> بہ نوشتہ [[صاحب‌جواہر]] فقیہان در این مسئلہ [[اجماع]] دارند۔<ref>نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۸، ص۲۷۴۔</ref>


confirmed، templateeditor
9,292

ترامیم