مندرجات کا رخ کریں

"عمرو بن عبدود" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Abbashashmi
imported>Abbashashmi
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 3: سطر 3:
[[مولوی]] کی مثنوی کے ایک شعر میں آیا ہے کہ امام علیؑ کیساتھ جنگ کے دوران جب عمرو بن عبدود نے آپؑ کے چہرے پر تھوکا تو آپؑ چند لمحات کیلئے اس سے الگ ہو گئے، اپنا غصہ ٹھنڈا کیا اور پھر عمرو کو قتل کیا۔ کچھ لوگوں نے اس روایت کو جعلی قرار دیا ہے اس کے باوجود ، [[ابن شھر آشوب ([[588۔488ھ]]) نے اپنی کتاب [[مناقب آل ابی طالب]] میں مذکورہ روایت کو نقل کیا ہے ۔  
[[مولوی]] کی مثنوی کے ایک شعر میں آیا ہے کہ امام علیؑ کیساتھ جنگ کے دوران جب عمرو بن عبدود نے آپؑ کے چہرے پر تھوکا تو آپؑ چند لمحات کیلئے اس سے الگ ہو گئے، اپنا غصہ ٹھنڈا کیا اور پھر عمرو کو قتل کیا۔ کچھ لوگوں نے اس روایت کو جعلی قرار دیا ہے اس کے باوجود ، [[ابن شھر آشوب ([[588۔488ھ]]) نے اپنی کتاب [[مناقب آل ابی طالب]] میں مذکورہ روایت کو نقل کیا ہے ۔  
== جنگ خندق میں قتل ==   
== جنگ خندق میں قتل ==   
عمرو بن عبدود کی ولادت اور زندگی نامے کے بارے میں تاریخی اور روائی منابع میں معلومات موجود نہیں ہیں سوائے اس بات کے کہ وہ [[قریش]]  کی شاخ بنی عامر بن لؤی سے تھا۔ <ref>بطور نمونہ ملاحظہ کیجئے: ابن هشام الحمیری، سیرة النبی، 1383ق، ج3، ص732؛ ابن عساکر، تاریخ مدینة دمشق، 1415ق، ج42، ص78؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، 1385ق، ج2، ص181۔</ref> شیعہ سنی منابع کی نقل کے مطابق [[سنہ پانچ ہجری قمری]] ، کی [[جنگ احزاب]] (خندق) میں اس نے [[عکرمۃ بن ابی جهل، هبیرة بن ابی وهب، نوفل بن عبدالله بن مغیرة  اور ضرار بن خطاب]]  کے ہمراہ مسلمانوں کی کھودی ہوئی خندق بمشکل پار کی۔ <ref> طبری، تاریخ الطبری، 1387ق، ج2، ص573-574؛ شیخ مفید، الإرشاد، 1413ق، ج1، ص100۔</ref> عمرو بن عبدود جو قریش کا تیسرا جنگجو <ref>الحاکم النیسابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1411ق، ج3، ص34، ح4329۔</ref> اور ہزار جنگجوؤں کے برابر سمجھا جاتا تھا۔ <ref>ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی طالب، 1375ق، ج2، ص324۔</ref> مقابلے کیلئے للکارتا رہا اور مسلمانوں کی توہین کرتا رہا یہاں تک کہ کہنے لگا : «و لقد بححت من النداء بجمعهم هل من مبارز»؛ <ref>شیخ مفید، الإرشاد، 1413ق، ج1، ص100۔</ref> یعنی میں نے انہیں مقابلے کیلئے اس قدر للکارا ہے کہ میری آواز بیٹھ گئی ہے۔ <ref>شیخ مفید، ترجمه ارشاد شیخ مفید، 1388ش، ص92۔</ref> ایک نقل کے مطابق [[علی بن ابی طالبؑ]] عمرو بن عبدود کی ہر للکار پر کھڑے ہوتے تھے مگر پیغمبرؐ کے حکم پر بیٹھ جاتے تھے یہاں تک کہ پیغمبرؐ نے [[امام علیؑ]] کو مقابلے کی اجازت دی۔ اپنا [[عمامہ]] آپؑ کے سر پر رکھ دیا اور اپنی تلوار انہیں عطا کی تاکہ عمرو کے ساتھ جنگ کریں۔ <ref>شیخ مفید، الإرشاد، 1413ق، ج1، ص100۔</ref>   
عمرو بن عبدود کی ولادت اور زندگی نامے کے بارے میں تاریخی اور روائی منابع میں معلومات موجود نہیں ہیں سوائے اس بات کے کہ وہ [[قریش]]  کی شاخ بنی عامر بن لؤی سے تھا۔<ref>بطور نمونہ ملاحظہ کیجئے: ابن هشام الحمیری، سیرة النبی، 1383ق، ج3، ص732؛ ابن عساکر، تاریخ مدینة دمشق، 1415ق، ج42، ص78؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، 1385ق، ج2، ص181۔</ref> شیعہ سنی منابع کی نقل کے مطابق [[سنہ پانچ ہجری قمری]] ، کی [[جنگ احزاب]] (خندق) میں اس نے [[عکرمۃ بن ابی جهل، هبیرة بن ابی وهب، نوفل بن عبدالله بن مغیرة  اور ضرار بن خطاب]]  کے ہمراہ مسلمانوں کی کھودی ہوئی خندق بمشکل پار کی۔<ref> طبری، تاریخ الطبری، 1387ق، ج2، ص573-574؛ شیخ مفید، الإرشاد، 1413ق، ج1، ص100۔</ref> عمرو بن عبدود جو قریش کا تیسرا جنگجو<ref>الحاکم النیسابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1411ق، ج3، ص34، ح4329۔</ref> اور ہزار جنگجوؤں کے برابر سمجھا جاتا تھا۔<ref>ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی طالب، 1375ق، ج2، ص324۔</ref> مقابلے کیلئے للکارتا رہا اور مسلمانوں کی توہین کرتا رہا یہاں تک کہ کہنے لگا : «و لقد بححت من النداء بجمعهم هل من مبارز»؛<ref>شیخ مفید، الإرشاد، 1413ق، ج1، ص100۔</ref> یعنی میں نے انہیں مقابلے کیلئے اس قدر للکارا ہے کہ میری آواز بیٹھ گئی ہے۔<ref>شیخ مفید، ترجمه ارشاد شیخ مفید، 1388ش، ص92۔</ref> ایک نقل کے مطابق [[علی بن ابی طالبؑ]] عمرو بن عبدود کی ہر للکار پر کھڑے ہوتے تھے مگر پیغمبرؐ کے حکم پر بیٹھ جاتے تھے یہاں تک کہ پیغمبرؐ نے [[امام علیؑ]] کو مقابلے کی اجازت دی۔ اپنا [[عمامہ]] آپؑ کے سر پر رکھ دیا اور اپنی تلوار انہیں عطا کی تاکہ عمرو کے ساتھ جنگ کریں۔<ref>شیخ مفید، الإرشاد، 1413ق، ج1، ص100۔</ref>   
== امام علیؑ کی ضربت ==  
== امام علیؑ کی ضربت ==  
[[امام علیؑ]] نے پہلے عمرو بن عبدود کو دعوت دی کہ [[خدا کی وحدانیت]]  اور [[محمدؐ کی رسالت]] کی گواہی دے اور جب اس نے قبول نہیں کیا تو اسے کہا کہ گھوڑے سے اتر آؤ اور مقابلہ کرو۔ <ref>شیخ مفید، الإرشاد، 1413ق، ج1، ص100و101۔</ref> [[جابر بن عبد اللہ انصاری]] کی نقل کے مطابق کہ جو [[امام علیؑ]] کے ہمراہ تھے ، علی بن ابی طالب اور عمرو بن عبدود کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی کہ اتنے میں علیؑ کی صدائے تکبیر بلند ہوئی اور مسلمان سمجھ گئے کہ عمرو بن عبدود مارا گیا ہے ۔ <ref>شیخ مفید، الإرشاد، 1413ق، ج1، ص102۔</ref> تاریخی منابع کی بنیاد پر عمرو بن عبدود کے علاوہ اس کا بیٹا حسل بھی امام علیؑ کے ہاتھوں مارا گیا ۔ <ref> عاملی، الصحیح من سیرة النبی الأعظم، 1426ق، ج11، ص160۔</ref>  
[[امام علیؑ]] نے پہلے عمرو بن عبدود کو دعوت دی کہ [[خدا کی وحدانیت]]  اور [[محمدؐ کی رسالت]] کی گواہی دے اور جب اس نے قبول نہیں کیا تو اسے کہا کہ گھوڑے سے اتر آؤ اور مقابلہ کرو۔<ref>شیخ مفید، الإرشاد، 1413ق، ج1، ص100و101۔</ref> [[جابر بن عبد اللہ انصاری]] کی نقل کے مطابق کہ جو [[امام علیؑ]] کے ہمراہ تھے ، علی بن ابی طالب اور عمرو بن عبدود کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی کہ اتنے میں علیؑ کی صدائے تکبیر بلند ہوئی اور مسلمان سمجھ گئے کہ عمرو بن عبدود مارا گیا ہے ۔<ref>شیخ مفید، الإرشاد، 1413ق، ج1، ص102۔</ref> تاریخی منابع کی بنیاد پر عمرو بن عبدود کے علاوہ اس کا بیٹا حسل بھی امام علیؑ کے ہاتھوں مارا گیا ۔<ref> عاملی، الصحیح من سیرة النبی الأعظم، 1426ق، ج11، ص160۔</ref>  
روائی منابع میں [[پیغمبرؐ]] سے نقل ہوا کہ علی ؑ کی [[جنگ خندق]] میں عمرو بن عبدود پر ضربت جن و انس کی عبادت سے زیادہ افضل ہے۔ <ref>علامه حلی، نهج الحق و کشف الصدق، 1982م، ص234۔</ref>   
روائی منابع میں [[پیغمبرؐ]] سے نقل ہوا کہ علی ؑ کی [[جنگ خندق]] میں عمرو بن عبدود پر ضربت جن و انس کی عبادت سے زیادہ افضل ہے۔<ref>علامه حلی، نهج الحق و کشف الصدق، 1982م، ص234۔</ref>   
== عمرو کے وجود میں تشکیک ==  
== عمرو کے وجود میں تشکیک ==  
اہل سنت عالم اور [[سلفی]] تفکر کے بانی [[ابن تیمیہ]] نے عمرو بن عبدود کے وجود میں تشکیک اور تردید ایجاد کی ہے ۔ <ref>ابن تیمیة، منهاج السنة النبویة، 1406ق، ج8، ص105-110۔</ref> اس کے خیال میں [[بدر]] اور [[احد]] اور اسی طرح دیگر [[غزووں]] اور [[سریوں]] میں عمرو بن عبدود کا کوئی نام و نشان نہیں ہے اور اس کے متعلق [[جنگ خندق]] میں جو کچھ نقل کیا گیا ہے ، اس میں سے کچھ بھی صحیحین ، یعنی [[صحیح مسلم]] اور [[صحیح بخاری]] میں نقل نہیں ہوا ہے ۔ <ref> ابن تیمیة، منهاج السنة النبویة، 1406ق، ج8، ص109۔</ref> اس کے باوجود عمرو بن عبدود کی غزوہ خندق میں موجودگی تاریخ طبری <ref> طبری، تاریخ الطبري، 1387ق، ج2، ص573۔</ref> اور ذہبی کی تاریخ الاسلام <ref>ذهبی، تاریخ الإسلام، 1410ق، ج2، ص290۔</ref> جیسے تاریخی منابع میں ذکر کی گئی ہے اور [[اہل سنت]] عالم حاکم نیشاپوری نے کتاب المستدرک علی الصحیحین میں عمرو بن عبدود کی غزوہ [[بدر]] میں موجودگی اور زخمی ہونے کے حوالے سے ایک روایت نقل کی ہے۔ <ref> الحاکم النیسابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1411ق، ج3، ص34، ح4329۔</ref> اسی طرح تاریخی منابع میں صحابی پیغمبرؐ [[حسان بن ثابت]] کے امام علیؑ کے ہاتھوں عمرو کے قتل ہونے سے متعلق کچھ فخریہ اشعار <ref> ابن هشام، السیرة النبویه، دار المعرفه، ص268-269۔</ref> اور اسی طرح عمرو کے ہمراہ خندق پار کرنے والے اس کے ساتھیوں مسافع بن عبد مناف<ref> ابن هشام، السیرة النبویه، دار المعرفه، ج2، ص266-267۔</ref> اور ھبیرہ بن وھب <ref>ابن هشام، السیرة النبویه، دار المعرفه، ج2، ص267-268۔</ref> اور عمرو کی بہن <ref> شیخ مفید، الارشاد، 1413ق، ج1، ص106-109۔</ref> کے اس کے سوگ میں کچھ اشعار نقل کیے گئے ہیں۔  
اہل سنت عالم اور [[سلفی]] تفکر کے بانی [[ابن تیمیہ]] نے عمرو بن عبدود کے وجود میں تشکیک اور تردید ایجاد کی ہے ۔<ref>ابن تیمیة، منهاج السنة النبویة، 1406ق، ج8، ص105-110۔</ref> اس کے خیال میں [[بدر]] اور [[احد]] اور اسی طرح دیگر [[غزووں]] اور [[سریوں]] میں عمرو بن عبدود کا کوئی نام و نشان نہیں ہے اور اس کے متعلق [[جنگ خندق]] میں جو کچھ نقل کیا گیا ہے ، اس میں سے کچھ بھی صحیحین ، یعنی [[صحیح مسلم]] اور [[صحیح بخاری]] میں نقل نہیں ہوا ہے ۔<ref> ابن تیمیة، منهاج السنة النبویة، 1406ق، ج8، ص109۔</ref> اس کے باوجود عمرو بن عبدود کی غزوہ خندق میں موجودگی تاریخ طبری<ref> طبری، تاریخ الطبري، 1387ق، ج2، ص573۔</ref> اور ذہبی کی تاریخ الاسلام<ref>ذهبی، تاریخ الإسلام، 1410ق، ج2، ص290۔</ref> جیسے تاریخی منابع میں ذکر کی گئی ہے اور [[اہل سنت]] عالم حاکم نیشاپوری نے کتاب المستدرک علی الصحیحین میں عمرو بن عبدود کی غزوہ [[بدر]] میں موجودگی اور زخمی ہونے کے حوالے سے ایک روایت نقل کی ہے۔<ref> الحاکم النیسابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1411ق، ج3، ص34، ح4329۔</ref> اسی طرح تاریخی منابع میں صحابی پیغمبرؐ [[حسان بن ثابت]] کے امام علیؑ کے ہاتھوں عمرو کے قتل ہونے سے متعلق کچھ فخریہ اشعار<ref> ابن هشام، السیرة النبویه، دار المعرفه، ص268-269۔</ref> اور اسی طرح عمرو کے ہمراہ خندق پار کرنے والے اس کے ساتھیوں مسافع بن عبد مناف<ref> ابن هشام، السیرة النبویه، دار المعرفه، ج2، ص266-267۔</ref> اور ھبیرہ بن وھب<ref>ابن هشام، السیرة النبویه، دار المعرفه، ج2، ص267-268۔</ref> اور عمرو کی بہن<ref> شیخ مفید، الارشاد، 1413ق، ج1، ص106-109۔</ref> کے اس کے سوگ میں کچھ اشعار نقل کیے گئے ہیں۔  
بعض محققین نے ابن تیمیہ کی تشکیک و تردید کا ہدف [[امام علیؑ]] کے فضائل کا انکار قرار دیا ہے ۔ <ref>
بعض محققین نے ابن تیمیہ کی تشکیک و تردید کا ہدف [[امام علیؑ]] کے فضائل کا انکار قرار دیا ہے ۔<ref>
جمعی از نویسندگان، امام علی(ع)، سازمان حج و زیارت، ج2، ص148۔</ref>  
جمعی از نویسندگان، امام علی(ع)، سازمان حج و زیارت، ج2، ص148۔</ref>  
== قتل عمرو سے پہلے امام علیؑ کی بردباری ==  
== قتل عمرو سے پہلے امام علیؑ کی بردباری ==  
مولوی (متوفی [[672ھ]] ) کی [[مثنوی]] کے دفتر اول میں 120 اشعار پر مشتمل ایک قصیدہ [[امام علیؑ]] کی شان میں آیا ہے کہ جس کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے :  
مولوی (متوفی [[672ھ]] ) کی [[مثنوی]] کے دفتر اول میں 120 اشعار پر مشتمل ایک قصیدہ [[امام علیؑ]] کی شان میں آیا ہے کہ جس کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے :  
از علی آموز اخلاص عمل/ شیر حق را دان منزه از دغل»،
از علی آموز اخلاص عمل/ شیر حق را دان منزه از دغل»،
انہوں نے عمرو بن عبدود کی جانب سے امام علیؑ کے چہرے پر لعاب ڈالنے کا ماجرا بیان کیا ہے کہ اس وجہ سے [[علی بن ابی طالب]] اسے ذاتی غصے میں قتل کرنے سے پرہیز کی خاطر چند لمحات کیلئے لڑائی سے علیٰحدہ ہو جاتے ہیں اور اپنا ذاتی غصہ ٹھنڈا ہونے کے بعد عمرو کو راہ [[خدا]] میں قتل کرتے ہیں ۔ <ref>مهدوی دامغانی، «مأخذ خدو انداختن خصم بر روی حضرت امیرالمومنین علی علیه‌السلام...»، ص61-63۔</ref> مگر [[بدیع الزمان فروزانفر]] کا خیال ہے کہ یہ روایت جس صورت میں مثنوی میں وارد ہوئی ہے کسی اور منبع میں نہیں مل سکی ۔ <ref>فروزانفر، احادیث و قصص مثنوی، 1387ش، ص143۔</ref> اس کے باوجود بعض محققین نے اس روایت کیلئے کچھ منابع کا ذکر کیا ہے منجملہ [[ابن شھر آشوب]] (متوفی [[588ھ]] ) کی کتاب [[مناقب آل ابی طالب]] کہ جس میں مذکورہ روایت نقل کی گئی ہے۔ <ref>مهدوی دامغانی، «مأخذ خدو انداختن خصم بر روی حضرت امیرالمومنین علی علیه‌السلام...»، ص65؛ ابن شهرآشوب، مناقب آل ابی طالب، 1375ق، ج1، ص381۔</ref>  
انہوں نے عمرو بن عبدود کی جانب سے امام علیؑ کے چہرے پر لعاب ڈالنے کا ماجرا بیان کیا ہے کہ اس وجہ سے [[علی بن ابی طالب]] اسے ذاتی غصے میں قتل کرنے سے پرہیز کی خاطر چند لمحات کیلئے لڑائی سے علیٰحدہ ہو جاتے ہیں اور اپنا ذاتی غصہ ٹھنڈا ہونے کے بعد عمرو کو راہ [[خدا]] میں قتل کرتے ہیں ۔<ref>مهدوی دامغانی، «مأخذ خدو انداختن خصم بر روی حضرت امیرالمومنین علی علیه‌السلام...»، ص61-63۔</ref> مگر [[بدیع الزمان فروزانفر]] کا خیال ہے کہ یہ روایت جس صورت میں مثنوی میں وارد ہوئی ہے کسی اور منبع میں نہیں مل سکی ۔<ref>فروزانفر، احادیث و قصص مثنوی، 1387ش، ص143۔</ref> اس کے باوجود بعض محققین نے اس روایت کیلئے کچھ منابع کا ذکر کیا ہے منجملہ [[ابن شھر آشوب]] (متوفی [[588ھ]] ) کی کتاب [[مناقب آل ابی طالب]] کہ جس میں مذکورہ روایت نقل کی گئی ہے۔<ref>مهدوی دامغانی، «مأخذ خدو انداختن خصم بر روی حضرت امیرالمومنین علی علیه‌السلام...»، ص65؛ ابن شهرآشوب، مناقب آل ابی طالب، 1375ق، ج1، ص381۔</ref>  
== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات|2}}
{{حوالہ جات|2}}
گمنام صارف