مندرجات کا رخ کریں

"مسجد نبوی" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 92: سطر 92:
پیغمبر اکرمؐ شروع میں کھجور کے ایک درخت کے ساتھ ٹیگ لگا کر مسجد نبوی میں خطبہ ارشاد فرماتے تھے۔ ساتویں یا آٹھویں سنہ ہجری میں آپ کیلئے ایک منبر بنایا گیا۔<ref>طبری، تاریخ الطبری، ۱۳۸۷ق، ج۳، ص۲۲۔</ref> حدیثی منابع میں اس منبر کی فضیلت سے متعلق پیغمبر اکرمؐ سے احادیث بھی موجود ہیں۔<ref>بیہقی، دلائل النبوۃ، ۱۳۶۱ش، ص۱۹۷۔</ref> یہ منبر پیغمبر اکرمؐ کی وفات کے بعد سے [[معاویہ]] کے دور خلافت تک مسجد نبوی میں مورد استفادہ رہا۔ معاویہ اپنی خلافت کو شرعی اور قانونی شکل دینے کے لئے اس منبر کو مدینہ سے [[شام]] لے جانا چاہتا تھا لیکن مدینہ کے لوگوں نے اسے اس کام سے منع کیا۔ سنہ 654ھ کو جب مسجد نبوی میں آگ لگ گئی تو اس میں یہ منبر بھی جل گیا۔ سنہ 664ھ میں حاکم مصر کی طرف سے مسجد نبوی کیلئے ایک نیا منبر بھیجا گیا۔ اس کے بعد مختلف ادوار میں مسجد نبوی کی تعمیر کے ساتھ ساتھ اس کا منبر بھی تبدیل ہوتا رہا یہاں تک کہ سنہ 998ھ میں سلطان مراد عثمانی کی طرف سے ایک منبر بھیجا گیا جو اس وقت تک موجود ہے۔<ref>جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۲۱۔</ref>
پیغمبر اکرمؐ شروع میں کھجور کے ایک درخت کے ساتھ ٹیگ لگا کر مسجد نبوی میں خطبہ ارشاد فرماتے تھے۔ ساتویں یا آٹھویں سنہ ہجری میں آپ کیلئے ایک منبر بنایا گیا۔<ref>طبری، تاریخ الطبری، ۱۳۸۷ق، ج۳، ص۲۲۔</ref> حدیثی منابع میں اس منبر کی فضیلت سے متعلق پیغمبر اکرمؐ سے احادیث بھی موجود ہیں۔<ref>بیہقی، دلائل النبوۃ، ۱۳۶۱ش، ص۱۹۷۔</ref> یہ منبر پیغمبر اکرمؐ کی وفات کے بعد سے [[معاویہ]] کے دور خلافت تک مسجد نبوی میں مورد استفادہ رہا۔ معاویہ اپنی خلافت کو شرعی اور قانونی شکل دینے کے لئے اس منبر کو مدینہ سے [[شام]] لے جانا چاہتا تھا لیکن مدینہ کے لوگوں نے اسے اس کام سے منع کیا۔ سنہ 654ھ کو جب مسجد نبوی میں آگ لگ گئی تو اس میں یہ منبر بھی جل گیا۔ سنہ 664ھ میں حاکم مصر کی طرف سے مسجد نبوی کیلئے ایک نیا منبر بھیجا گیا۔ اس کے بعد مختلف ادوار میں مسجد نبوی کی تعمیر کے ساتھ ساتھ اس کا منبر بھی تبدیل ہوتا رہا یہاں تک کہ سنہ 998ھ میں سلطان مراد عثمانی کی طرف سے ایک منبر بھیجا گیا جو اس وقت تک موجود ہے۔<ref>جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۲۱۔</ref>


=== محراب===<!--
=== محراب===
در مسجد النبی چند [[محراب]] وجود داشتہ یا دارد کہ مشہورترین آنہا عبارتند از:
مسجد نبوی کے کئی [[محراب]] تھے اور ہیں جن میں سب سے زیادہ مشہور محرابیں یہ ہیں:
*محراب پیامبر؛ پیامبر در مسجد [[محراب|محرابی]] نداشتہ، اما بعدہا در محلی کہ پیامبر نماز می‌گزارد، محرابی ساختہ شد کہ نزد مسلمانان قداست دارد احترام و قداست این محراب بہ ہمین سبب است۔ این محراب بہ احتمال در زمان [[عمر بن عبدالعزیز]] در ساختہ شدہ است۔<ref>سمہودی، وفاءالوفاء، ۲۰۰۶م، ج۱، ص۲۸۲۔</ref>
*محراب پیغمبر؛ شروع میں پیغمبر اکرمؐ کے لئے مسجد نبوی میں کوئی [[محراب]] نہیں تھی لیکن بعد میں جہاں آپ نماز پڑھا کرتے تھے اسی جگہ ایک محراب تعمیر کی گئی جو مسلمانوں کے یہاں خاص احترام کا حامل ہے اور دیگر محرابوں کا تقدس بھی حقیقت میں اسی محراب کی وجہ سے ہے۔ احتمال قوی یہ ہے کہ یہ محراب [[عمر بن عبدالعزیز]] کے دور میں تعمیر کی گئی تھی۔<ref>سمہودی، وفاءالوفاء، ۲۰۰۶م، ج۱، ص۲۸۲۔</ref>
*محراب تہجّد؛ مکانی در کنار ستون تہجد بودہ است۔ پیامبر اکرم(ص) برای [[نماز شب]]، عبادت و [[احیا|شب زندہ‌داری]] کنار این ستون می‌ایستاد۔ در قرون بعدی، بہ یاد و احترام پیامبر(ص)، محرابی در اینجا ساختند کہ بہ [[محراب تہجد]] شہرت یافت و در دورہ آل سعود، آن را برچیدند۔<ref>نجفی، مدینہ شناسی، ۱۳۶۴ش، ص۱۰۰؛ شیخی، فرہنگ اعلام جغرافیایی، ۱۳۸۳ش، ص۳۳۹۔</ref>
*محراب تہجّد؛ ستون تہجد کے ساتھ وہ مقام جہاں پیغمبر اکرمؐ [[نماز شب]]، عبادت اور [[احیا|شب بیداری]] فرماتے تھے، کی جگہ بعد میں پیغمبر اکرمؐ کے احترام اور آپ کی یاد میں ایک محراب بنایا گیا جو [[محراب تہجد]] کے نام سے مشہور ہو گئی جسے آل سعود کے دور میں خراب کیا گیا۔<ref>نجفی، مدینہ شناسی، ۱۳۶۴ش، ص۱۰۰؛ شیخی، فرہنگ اعلام جغرافیایی، ۱۳۸۳ش، ص۳۳۹۔</ref>
*محراب فاطمہ(س)؛ این محراب در جنوب محراب تہجّد، داخل مقصورہ، یا خانہ حضرت فاطمہ(س) قرار دارد کہ بہ مسجد ملحق شدہ است۔ در روایات از این محراب یاد شدہ است؛ از جملہ [[امام حسن مجتبی علیہ السلام|امام حسن مجتبی(ع)]] فرمودہ است: «مادرم فاطمہ را شب جمعہ‌ای در محرابش دیدم کہ تا صبح ایستاد و نام مردان و زنان مؤمن را بہ زبان آورد و برایشان دعا کرد۔ گفتم: مادر! چرا برای خود دعا نکردی؟ فرمود: پسرم! اوّل ہمسایہ و سپس اہل خانہ۔»<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸۶، ص۳۱۳۔</ref>
*محراب فاطمہ(س)؛ یہ محراب، محراب تہجّد کے جنوب یا حضرت فاطمہ(س) کے دولت سرا میں واقع تھی جو بعد میں مسجد میں شامل کیا گیا۔ احادیث میں اس محراب کا تذکرہ ملتا ہے؛ من جملہ یہ کہ [[امام حسن مجتبی علیہ السلام|امام حسن مجتبیؑ]] فرماتے ہیں: "میری والدہ گرامی حضرت فاطمہ(س) کو ایک دفعہ شب جمعہ کو صبح تک محراب میں کھڑی ہو کر مومن مردوں اور عورتوں کیلئے نام لے کر دعا کرتے ہوئے دیکھا۔ میں نے پوچھا آپ کیوں اپنے لئے دعا نہیں کرتیں؟ اس وقت آپ(س) نے فرمایا: بیٹا پہلے ہمسایوں کیلئے پھر اہل خانہ کے لئے"۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸۶، ص۳۱۳۔</ref>


===گنبد نبوی===
===گنبد نبوی===<!--
در سال ۶۷۸ق نخستین گنبد توسط سلطان قلاوون مملوکی، روی مرقد مطہر بنا شد۔ در سال ۸۸۷ق سلطان قایتبای گنبد را کہ در اثر آتش‌سوزی آسیب دیدہ بود، از نو بنا کرد۔ ہمچنین در سال ۱۲۳۳ق در روزگار سلطان محمود عثمانی، گنبد بازسازی شد۔ در زمان سلطان عبدالحمید عثمانی، رنگ گنبد کہ تا آن زمان کبود بود بہ سبز تغییر پیدا کرد‌ و از آن پس، بہ «[[قُبۃ الخضراء]]» شہرت یافت۔ طبق سنت، ہر از چند سال، رنگی روی رنگ پیشین می‌کشند۔<ref>جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۳۵۔</ref>
در سال ۶۷۸ق نخستین گنبد توسط سلطان قلاوون مملوکی، روی مرقد مطہر بنا شد۔ در سال ۸۸۷ق سلطان قایتبای گنبد را کہ در اثر آتش‌سوزی آسیب دیدہ بود، از نو بنا کرد۔ ہمچنین در سال ۱۲۳۳ق در روزگار سلطان محمود عثمانی، گنبد بازسازی شد۔ در زمان سلطان عبدالحمید عثمانی، رنگ گنبد کہ تا آن زمان کبود بود بہ سبز تغییر پیدا کرد‌ و از آن پس، بہ «[[قُبۃ الخضراء]]» شہرت یافت۔ طبق سنت، ہر از چند سال، رنگی روی رنگ پیشین می‌کشند۔<ref>جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۳۵۔</ref>


==کتاب‌شناسی==
==کتاب‌شناسی==
آثار دربارہ مسجد النبی را می‌توان دو دستہ دانست، آثاری کہ بہ گونہ مستقل بہ معرفی این مسجد پرداختہ‌اند و آثاری کہ ضمن پرداختن بہ موضوعاتی دیگر مانند شہر مدینہ، مباحثی را نیز بہ مسجدالنبی اختصاص دادہ‌اند۔
آثار دربارہ مسجد نبوی را می‌توان دو دستہ دانست، آثاری کہ بہ گونہ مستقل بہ معرفی این مسجد پرداختہ‌اند و آثاری کہ ضمن پرداختن بہ موضوعاتی دیگر مانند شہر مدینہ، مباحثی را نیز بہ مسجدالنبی اختصاص دادہ‌اند۔


* ''اخبار المدینۃ'' نوشتہ ابن زَبالہ(م۔حدود۲۰۰ق۔)، بہ ظاہر، نخستین کتابی است کہ در بخش ہایی بہ معرفی مسجدالنبی پرداختہ است۔ ابن زبالہ در این کتاب، گزارش‌ہایی را از تاریخ مسجد و ساخت و ساز آن نقل کردہ است۔ او ہمچنین مساحت مسجد و شرحی از وضعیت بناہا و خانہ‌ہای پیرامونی آن را نوشتہ است۔
* ''اخبار المدینۃ'' نوشتہ ابن زَبالہ(م۔حدود۲۰۰ق۔)، بہ ظاہر، نخستین کتابی است کہ در بخش ہایی بہ معرفی مسجدالنبی پرداختہ است۔ ابن زبالہ در این کتاب، گزارش‌ہایی را از تاریخ مسجد و ساخت و ساز آن نقل کردہ است۔ او ہمچنین مساحت مسجد و شرحی از وضعیت بناہا و خانہ‌ہای پیرامونی آن را نوشتہ است۔
* ''تاریخ المدینۃ المنورۃ'' نوشتہ ابن شبّہ(م ۲۶۲ق)۔ مؤلف در این کتاب بہ معرفی شہر مدینہ در سہ دورہ حیات پیامبر(ص) ، خلیفہ دوم و خلیفہ سوم پرداختہ است۔<ref>ابن شبّہ، تاریخ مدینہ منورہ، ۱۳۸۰ش، ص۲۔</ref> ابن شبہ در ذیل مباحث مربوط بہ شہر مدینہ، بہ معرفی مسجد النبی و آداب مربوط بہ آن نیز پرداختہ است۔
* ''تاریخ المدینۃ المنورۃ'' نوشتہ ابن شبّہ(م ۲۶۲ق)۔ مؤلف در این کتاب بہ معرفی شہر مدینہ در سہ دورہ حیات پیامبر(ص) ، خلیفہ دوم و خلیفہ سوم پرداختہ است۔<ref>ابن شبّہ، تاریخ مدینہ منورہ، ۱۳۸۰ش، ص۲۔</ref> ابن شبہ در ذیل مباحث مربوط بہ شہر مدینہ، بہ معرفی مسجد نبوی و آداب مربوط بہ آن نیز پرداختہ است۔
*''آثار اسلامی مکہ و مدینہ'' نوشتہ رسول جعفریان۔
*''آثار اسلامی مکہ و مدینہ'' نوشتہ رسول جعفریان۔
*''تاریخ المسجد النبوی الشریف'' نوشتہ محمد الیاس عبدالغنی۔ مؤلف در این کتاب بہ طور مستقل مسجد النبی را مورد بررسی قرار دادہ است۔
*''تاریخ المسجد النبوی الشریف'' نوشتہ محمد الیاس عبدالغنی۔ مؤلف در این کتاب بہ طور مستقل مسجد نبوی را مورد بررسی قرار دادہ است۔
-->
-->


confirmed، templateeditor
8,265

ترامیم