مندرجات کا رخ کریں

"قیام یمانی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حجم میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ،  2 اگست 2018ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 6: سطر 6:
==یمانی کی شخصیت==
==یمانی کی شخصیت==


یمانی وہ شخص ہے جو امام زمانہ کے ظہور سے پہلے قیام کریں گے<ref>نعمانی، الغیبه، ۱۳۹۷ق، ص۲۵۳، ۲۵۲.</ref> اور لوگوں کو امام مہدی کی طرف دعوت دیں گے۔<ref> نعمانی، الغیبه، ۱۳۹۷ق، ص۲۵۵-۲۵۶؛ فتلاوی، رایات الهدی و الضّلال فی عصر الظّهور، ۱۴۲۰ق، ص۱۰۱.</ref>  
یمانی وہ شخص ہے جو امام زمانہ کے ظہور سے پہلے قیام کریں گے<ref>نعمانی، الغیبہ، ۱۳۹۷ق، ص۲۵۳، ۲۵۲.</ref> اور لوگوں کو امام مہدی کی طرف دعوت دیں گے۔<ref> نعمانی، الغیبہ، ۱۳۹۷ق، ص۲۵۵-۲۵۶؛ فتلاوی، رایات الہدی و الضّلال فی عصر الظّہور، ۱۴۲۰ق، ص۱۰۱.</ref>  


یمانی کا نام شیعہ احادیث میں نہیں آیا ہے لیکن انہیں امام حسینؑ کی نسل<ref> صدوق، کمال الدین، ج۱، ۱۳۹۵ق، ص۲۵۱.</ref>یا [[زید بن علی]] کی نسل<ref> ابن طاووس، فلاح السائل،۱۴۰۶ق، ص۱۷۱.</ref>سے قرار دیا گیا ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ بعض [[اہل سنت]] کتابوں میں ان کا نام جہجاہ، حسن یا حسین ذکر ہوا ہے۔<ref> آیتی، «یمانی درفش هدایت»، ص۲۰.</ref>«رایات الهدی و الضّلال فی عصر الظّهور» کے مصنف کا کہنا ہے کہ اگرچہ یمانی کا شجرہ نسب روایات میں ذکر نہیں ہے لیکن قطعی دلیل سے ثابت ہوتا ہے وہ [[اہل بیت]] سے اور [[امام حسینؑ]] کی نسل سے ہیں۔<ref>فتلاوی، رایات الهدی و الضّلال فی عصر الظّهور، ۱۴۲۰ق، ص۱۰۰. </ref>
یمانی کا نام شیعہ احادیث میں نہیں آیا ہے لیکن انہیں امام حسینؑ کی نسل<ref> صدوق، کمال الدین، ج۱، ۱۳۹۵ق، ص۲۵۱.</ref>یا [[زید بن علی]] کی نسل<ref> ابن طاووس، فلاح السائل،۱۴۰۶ق، ص۱۷۱.</ref>سے قرار دیا گیا ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ بعض [[اہل سنت]] کتابوں میں ان کا نام جہجاہ، حسن یا حسین ذکر ہوا ہے۔<ref> آیتی، «یمانی درفش ہدایت»، ص۲۰.</ref>«رایات الہدی و الضّلال فی عصر الظّہور» کے مصنف کا کہنا ہے کہ اگرچہ یمانی کا شجرہ نسب روایات میں ذکر نہیں ہے لیکن قطعی دلیل سے ثابت ہوتا ہے وہ [[اہل بیت]] سے اور [[امام حسینؑ]] کی نسل سے ہیں۔<ref>فتلاوی، رایات الہدی و الضّلال فی عصر الظّہور، ۱۴۲۰ق، ص۱۰۰. </ref>


پیغمبر اکرمؐ سے ایک روایت میں انہیں منصور (جو امام مہدی کی مدد کرتا ہے) کے عنوان سے یاد کیا ہے۔<ref> نعمانی، الغیبه، ۱۳۹۷ق، ص۳۹.</ref>اسی طرح اہل سنت مآخذ میں انہیں قحطانی<ref> ابن حماد، الفتن، دار الکتب العلمیه منشورات محمدعلی بیضون، ص۷۵؛ مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبة الثقافة الدینیة، ج۲، ص۱۸۳.</ref> اور منصور یمانی<ref> ابن حماد، الفتن، دار الکتب العلمیه منشورات محمدعلی بیضون، ص۱۹۹.</ref> کے نام سے بھی ذکر کیا ہے۔ قحطانی، قحطان نامی ایک شخص سے منسوب ہے<ref>ابن منظور، لسان العرب، ۱۴۱۴ق، ج۷، ص۳۷۴.</ref> جس سے یمن کے عربوں کا نسب ملتا ہے۔<ref>ابن کثیر، البدایه و النهایه، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۱۵۶.</ref>
پیغمبر اکرمؐ سے ایک روایت میں انہیں منصور (جو امام مہدی کی مدد کرتا ہے) کے عنوان سے یاد کیا ہے۔<ref> نعمانی، الغیبہ، ۱۳۹۷ق، ص۳۹.</ref>اسی طرح اہل سنت مآخذ میں انہیں قحطانی<ref> ابن حماد، الفتن، دار الکتب العلمیہ منشورات محمدعلی بیضون، ص۷۵؛ مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، ج۲، ص۱۸۳.</ref> اور منصور یمانی<ref> ابن حماد، الفتن، دار الکتب العلمیہ منشورات محمدعلی بیضون، ص۱۹۹.</ref> کے نام سے بھی ذکر کیا ہے۔ قحطانی، قحطان نامی ایک شخص سے منسوب ہے<ref>ابن منظور، لسان العرب، ۱۴۱۴ق، ج۷، ص۳۷۴.</ref> جس سے یمن کے عربوں کا نسب ملتا ہے۔<ref>ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۱۵۶.</ref>


==یمانی کا قیام؛ ظہور کی علامت==
==یمانی کا قیام؛ ظہور کی علامت==


احادیث میں یمانی کے قیام کو ظہور کی علامتوں میں سے شمار کیا ہے۔ [[کمال الدین و تمام النعمة (کتاب)|کمال الدین شیخ صدوق]] میں امام صادقؑ سے منقول ایک روایت میں یمانی کے قیام کو [[صیحه آسمانی]]، [[خروج سفیانی]]، [[قتل نفس زکیه]] اور [[خسف بیداء]] کے ساتھ اسے بھی ظہور کی یقینی علامتوں میں سے قرار دیا ہے۔<ref>صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ج۲، ص۶۵۰، ح۷.</ref>بعض مصنفین کے مطابق یمانی کے قیام کے بارے میں 36 احادیث شیعہ اور سنی مآخذ میں ملتی ہیں۔<ref>مهدوی‌راد، «بررسی تطبیقی روایات یمانی از منظر فریقین»، ص۲۶.</ref>اور ان میں سے اکثر روایات میں یمانی کا قیام، ظہور کی قطعی علامتوں سے ہونے کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں کیا ہے۔<ref>رجوع کریں؛ صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ج۱، ص۳۲۸، ج۲، ص۶۴۹، ح۱؛ نعمانی، الغیبه، ۱۳۹۷ق، ص۲۵۳، ۲۵۲؛ لیثی، عیون الحکم و المواعظ، ۱۳۷۶ش، ص۲۴۴؛ ابن طاووس، فلاح السائل، ۱۴۰۶ق، ص۱۷۱.</ref>اور شیعہ روایات میں سے صرف دو روایتوں میں{{نوٹ|
احادیث میں یمانی کے قیام کو ظہور کی علامتوں میں سے شمار کیا ہے۔ [[کمال الدین و تمام النعمۃ (کتاب)|کمال الدین شیخ صدوق]] میں امام صادقؑ سے منقول ایک روایت میں یمانی کے قیام کو [[صیحہ آسمانی]]، [[خروج سفیانی]]، [[قتل نفس زکیہ]] اور [[خسف بیداء]] کے ساتھ اسے بھی ظہور کی یقینی علامتوں میں سے قرار دیا ہے۔<ref>صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ج۲، ص۶۵۰، ح۷.</ref>بعض مصنفین کے مطابق یمانی کے قیام کے بارے میں 36 احادیث شیعہ اور سنی مآخذ میں ملتی ہیں۔<ref>مہدوی‌راد، «بررسی تطبیقی روایات یمانی از منظر فریقین»، ص۲۶.</ref>اور ان میں سے اکثر روایات میں یمانی کا قیام، ظہور کی قطعی علامتوں سے ہونے کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں کیا ہے۔<ref>رجوع کریں؛ صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ج۱، ص۳۲۸، ج۲، ص۶۴۹، ح۱؛ نعمانی، الغیبہ، ۱۳۹۷ق، ص۲۵۳، ۲۵۲؛ لیثی، عیون الحکم و المواعظ، ۱۳۷۶ش، ص۲۴۴؛ ابن طاووس، فلاح السائل، ۱۴۰۶ق، ص۱۷۱.</ref>اور شیعہ روایات میں سے صرف دو روایتوں میں{{نوٹ|
#قَبْلَ قِيَامِ الْقَائِمِ خَمْسُ عَلَامَاتٍ مَحْتُومَاتٍ الْيَمَانِيُّ وَ السُّفْيَانِيُّ وَ الصَّيْحَةُ وَ قَتْلُ النَّفْسِ الزَّكِيَّةِ وَ الْخَسْفُ بِالْبَيْدَاءِ.(صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ج۲، ص۶۵۰، ح۷)  
#قَبْلَ قِيَامِ الْقَائِمِ خَمْسُ عَلَامَاتٍ مَحْتُومَاتٍ الْيَمَانِيُّ وَ السُّفْيَانِيُّ وَ الصَّيْحَۃُ وَ قَتْلُ النَّفْسِ الزَّكِيَّۃِ وَ الْخَسْفُ بِالْبَيْدَاءِ.(صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ج۲، ص۶۵۰، ح۷)  
# النِّدَاءُ مِنَ الْمَحْتُومِ وَ السُّفْيَانِيُّ مِنَ الْمَحْتُومِ وَ الْيَمَانِيُّ مِنَ الْمَحْتُومِ وَ قَتْلُ النَّفْسِ الزَّكِيَّةِ مِنَ الْمَحْتُومِ وَ كَفٌّ يَطْلُعُ مِنَ السَّمَاءِ مِنَ الْمَحْتُومِ(نعمانی، الغیبه، ۱۳۹۷ق، ص۲۵۲.)}} قطعی علامتوں سے قرار دیا گیا ہے۔<ref>آیتی، «یمانی درفش هدایت»، ص۱۷.</ref>اسی لئے بعض مصنفین نے یمانی کے قیام کو ظہور کی علامت ہونے میں تردید کیا ہے۔<ref>آیتی، «یمانی درفش هدایت»، ص۱۷-۱۹؛ مهدوی‌راد، «بررسی تطبیقی روایات یمانی از منظر فریقین»، ص۲۶.</ref> اور اس بات سے استناد کیا ہے کہ بعض کتابوں میں اس حدیث کے ساتھ قطعی ہونے کی قید ذکر نہیں ہوئی ہے۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۸، ص۳۱۰، ح۴۸۳؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۵۲، ص۲۳۳.</ref>اور احتمال دیا جاتا ہے کہ یہ قید شاید راویوں کی طرف سے روایت میں اضافہ کی گئی ہوگی۔<ref>آیتی، «یمانی درفش هدایت»، ص۱۹.</ref>
# النِّدَاءُ مِنَ الْمَحْتُومِ وَ السُّفْيَانِيُّ مِنَ الْمَحْتُومِ وَ الْيَمَانِيُّ مِنَ الْمَحْتُومِ وَ قَتْلُ النَّفْسِ الزَّكِيَّۃِ مِنَ الْمَحْتُومِ وَ كَفٌّ يَطْلُعُ مِنَ السَّمَاءِ مِنَ الْمَحْتُومِ(نعمانی، الغیبہ، ۱۳۹۷ق، ص۲۵۲.)}} قطعی علامتوں سے قرار دیا گیا ہے۔<ref>آیتی، «یمانی درفش ہدایت»، ص۱۷.</ref>اسی لئے بعض مصنفین نے یمانی کے قیام کو ظہور کی علامت ہونے میں تردید کیا ہے۔<ref>آیتی، «یمانی درفش ہدایت»، ص۱۷-۱۹؛ مہدوی‌راد، «بررسی تطبیقی روایات یمانی از منظر فریقین»، ص۲۶.</ref> اور اس بات سے استناد کیا ہے کہ بعض کتابوں میں اس حدیث کے ساتھ قطعی ہونے کی قید ذکر نہیں ہوئی ہے۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۸، ص۳۱۰، ح۴۸۳؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۵۲، ص۲۳۳.</ref>اور احتمال دیا جاتا ہے کہ یہ قید شاید راویوں کی طرف سے روایت میں اضافہ کی گئی ہوگی۔<ref>آیتی، «یمانی درفش ہدایت»، ص۱۹.</ref>


== قیام کا زمان و مکان==
== قیام کا زمان و مکان==
احادیث کے مطابق یمانی کا قیام [[خروج سفیانی]] کے ساتھ ساتھ ہوگا۔<ref> نعمانی، الغیبه، ۱۳۹۷ق، ص۳۰۵؛ طوسی، الغیبه، ۱۴۱۱ق، ص۴۴۷.</ref>امام باقرؑ کی ایک روایت کے مطابق خروج سفیانی، یمانی کا قیام اور [[سید خراسانی|خراسانی]] کا قیام سب ایک ہی سال، ایک ہی مہینہ اور ایک ہی دن میں ہوگا۔<ref> نعمانی، الغیبه، ۱۳۹۷ق، ص۲۵۵-۲۵۶.</ref> [[امام صادقؑ]] کی ایک روایت میں سفیانی کا خروج [[رجب]] کے مہینے میں قرار دیا ہے۔<ref>صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ج۲، ص۶۵۰.</ref>بعض نے ان دونوں روایت کے تناظر میں یمانی کے قیام کو بھی رجب کے مہینے میں قرار دیا ہے۔<ref> آیتی، «یمانی درفش هدایت»، ص۲۶.</ref>بعض مؤلفین نے ان دونوں واقعات کا ایک ہی دن میں ہونے کو کنایہ سمجھا ہے کیونکہ ان دونوں میں بہت زیادہ باہمی رابطہ پایا جاتا ہے اس لئے اگر ان دونوں میں معمولی فاصلہ ہو تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔<ref>آیتی، «یمانی درفش هدایت»، ص۲۶-۲۷.</ref>
احادیث کے مطابق یمانی کا قیام [[خروج سفیانی]] کے ساتھ ساتھ ہوگا۔<ref> نعمانی، الغیبہ، ۱۳۹۷ق، ص۳۰۵؛ طوسی، الغیبہ، ۱۴۱۱ق، ص۴۴۷.</ref>امام باقرؑ کی ایک روایت کے مطابق خروج سفیانی، یمانی کا قیام اور [[سید خراسانی|خراسانی]] کا قیام سب ایک ہی سال، ایک ہی مہینہ اور ایک ہی دن میں ہوگا۔<ref> نعمانی، الغیبہ، ۱۳۹۷ق، ص۲۵۵-۲۵۶.</ref> [[امام صادقؑ]] کی ایک روایت میں سفیانی کا خروج [[رجب]] کے مہینے میں قرار دیا ہے۔<ref>صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ج۲، ص۶۵۰.</ref>بعض نے ان دونوں روایت کے تناظر میں یمانی کے قیام کو بھی رجب کے مہینے میں قرار دیا ہے۔<ref> آیتی، «یمانی درفش ہدایت»، ص۲۶.</ref>بعض مؤلفین نے ان دونوں واقعات کا ایک ہی دن میں ہونے کو کنایہ سمجھا ہے کیونکہ ان دونوں میں بہت زیادہ باہمی رابطہ پایا جاتا ہے اس لئے اگر ان دونوں میں معمولی فاصلہ ہو تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔<ref>آیتی، «یمانی درفش ہدایت»، ص۲۶-۲۷.</ref>


اسی طرح اہل سنت کے بعض مآخذ میں حضرت عیسی کا آسمان سے اترنا اور اسی وقت دجال کا خروج کرنا<ref> ابن حماد، الفتن، دار الکتب العلمیه منشورات محمدعلی بیضون، ص۲۹۱.</ref> اور مہدیؑ کے بعد دجال کا خروج کرنا ذکر ہوا ہے۔<ref> ابن حماد، الفتن، دار الکتب العلمیه منشورات محمدعلی بیضون، ص۲۸۵؛ مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبة الثقافة الدینیة، ج۲، ص۱۸۴.</ref> شیعہ مؤلفین کے مطابق چونکہ یہ روایات معصوم سے صادر نہیں ہوئی ہیں اس لئے ان پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے۔ <ref> آیتی، «یمانی درفش هدایت»، ص۳۶.</ref>اور جو روایت دجال کا خروج امام مہدی کے قیام کے ذکر کیا ہے یہ روایت اور جس روایت میں یمانی کے قیام کو حضرت مہدی کے قیام کی علامت قرار دیا ہے ان دونوں میں باہمی سازگاری نہیں ہے۔<ref>رجوع کریں؛ صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ج۱، ص۳۲۸، ج۲، ص۶۴۹، ح۱؛ نعمانی، الغیبه، ۱۳۹۷ق، ص۲۵۳، ۲۵۲؛ لیثی، عیون الحکم و المواعظ، ۱۳۷۶ش، ص۲۴۴؛ ابن طاووس، فلاح السائل، ۱۴۰۶ق، ص۱۷۱.</ref>
اسی طرح اہل سنت کے بعض مآخذ میں حضرت عیسی کا آسمان سے اترنا اور اسی وقت دجال کا خروج کرنا<ref> ابن حماد، الفتن، دار الکتب العلمیہ منشورات محمدعلی بیضون، ص۲۹۱.</ref> اور مہدیؑ کے بعد دجال کا خروج کرنا ذکر ہوا ہے۔<ref> ابن حماد، الفتن، دار الکتب العلمیہ منشورات محمدعلی بیضون، ص۲۸۵؛ مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، ج۲، ص۱۸۴.</ref> شیعہ مؤلفین کے مطابق چونکہ یہ روایات معصوم سے صادر نہیں ہوئی ہیں اس لئے ان پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے۔ <ref> آیتی، «یمانی درفش ہدایت»، ص۳۶.</ref>اور جو روایت دجال کا خروج امام مہدی کے قیام کے ذکر کیا ہے یہ روایت اور جس روایت میں یمانی کے قیام کو حضرت مہدی کے قیام کی علامت قرار دیا ہے ان دونوں میں باہمی سازگاری نہیں ہے۔<ref>رجوع کریں؛ صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ج۱، ص۳۲۸، ج۲، ص۶۴۹، ح۱؛ نعمانی، الغیبہ، ۱۳۹۷ق، ص۲۵۳، ۲۵۲؛ لیثی، عیون الحکم و المواعظ، ۱۳۷۶ش، ص۲۴۴؛ ابن طاووس، فلاح السائل، ۱۴۰۶ق، ص۱۷۱.</ref>
احادیث کے مطابق یمانی کا قیام [[یمن]] سے شروع ہوگا<ref> صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ج۱، ص۳۳۱؛ لیثی، عیون الحکم و المواعظ، ۱۳۷۶ش، ص۲۴۴</ref> یمانی کے قیام کے بارے میں موجود روایات میں صَنعا، عَدَن، کِنده اور اَبین کے علاقے کی طرف اشارہ ہوا ہے۔<ref> فتلاوی، رایات الهدی و الضّلال فی عصر الظّهور، ۱۴۲۰ق، ص۱۰۱.</ref>بعض کا کہنا ہے کہ صنعا کے بارے میں موجود روایات [[مستفیض]] ہیں جو [[شیعہ]] اور [[اہل سنت]] دونوں سے نقل ہوئی ہے اور قیام کے مرکز کی طرف اشارہ ہے۔<ref> فتلاوی، رایات الهدی و الضّلال فی عصر الظّهور، ۱۴۲۰ق، ص۱۰۱.</ref>
احادیث کے مطابق یمانی کا قیام [[یمن]] سے شروع ہوگا<ref> صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ج۱، ص۳۳۱؛ لیثی، عیون الحکم و المواعظ، ۱۳۷۶ش، ص۲۴۴</ref> یمانی کے قیام کے بارے میں موجود روایات میں صَنعا، عَدَن، کِندہ اور اَبین کے علاقے کی طرف اشارہ ہوا ہے۔<ref> فتلاوی، رایات الہدی و الضّلال فی عصر الظّہور، ۱۴۲۰ق، ص۱۰۱.</ref>بعض کا کہنا ہے کہ صنعا کے بارے میں موجود روایات [[مستفیض]] ہیں جو [[شیعہ]] اور [[اہل سنت]] دونوں سے نقل ہوئی ہے اور قیام کے مرکز کی طرف اشارہ ہے۔<ref> فتلاوی، رایات الہدی و الضّلال فی عصر الظّہور، ۱۴۲۰ق، ص۱۰۱.</ref>


==یمانی کے اقدامات==  
==یمانی کے اقدامات==  
احادیث میں یمانی کے قیام کی تفصیل ذکر نہیں ہوئی ہے لیکن ان کے بعض اقدامات کا ذکر موجود ہے:
احادیث میں یمانی کے قیام کی تفصیل ذکر نہیں ہوئی ہے لیکن ان کے بعض اقدامات کا ذکر موجود ہے:
* '''حق کی دعوت'''؛ [[امام باقرؑ]] کی ایک روایت کے مطابق یمانی کا قیام برحق، اس کا علم ہدایت دینے والا اور ان کی دعوت صراط مستقیم کی طرف ہوگی اور ان کے قیام سے منسلک ہونے کی بہت تاکید ہوئی ہے۔<ref> نعمانی، الغیبه، ۱۳۹۷ق، ص۲۵۵-۲۵۶.</ref>بعض مؤلفین نے حق کی دعوت کو [[امامت]] کی طرف دعوت سے تعبیر کیا ہے۔<ref>مهدوی‌راد، «بررسی تطبیقی روایات یمانی از منظر فریقین»، ص۵۲.</ref>ایک روایت میں ان کو منصور (یعنی حضرت مہدی کے مددگار) کے نا م سے ذکر ہوا ہے جس کی 70 ہزار لوگ حمایت کر رہے ہونگے۔<ref>نعمانی، الغیبه، ۱۳۹۷ق، ص۳۹.</ref> احادیث کے مطابق جب یمانی قیام کرے گا تو اس وقت اسلحہ بیچنا حرام ہوگا۔<ref> نعمانی، الغیبه، ۱۳۹۷ق، ص۲۵۶.</ref>
* '''حق کی دعوت'''؛ [[امام باقرؑ]] کی ایک روایت کے مطابق یمانی کا قیام برحق، اس کا علم ہدایت دینے والا اور ان کی دعوت صراط مستقیم کی طرف ہوگی اور ان کے قیام سے منسلک ہونے کی بہت تاکید ہوئی ہے۔<ref> نعمانی، الغیبہ، ۱۳۹۷ق، ص۲۵۵-۲۵۶.</ref>بعض مؤلفین نے حق کی دعوت کو [[امامت]] کی طرف دعوت سے تعبیر کیا ہے۔<ref>مہدوی‌راد، «بررسی تطبیقی روایات یمانی از منظر فریقین»، ص۵۲.</ref>ایک روایت میں ان کو منصور (یعنی حضرت مہدی کے مددگار) کے نا م سے ذکر ہوا ہے جس کی 70 ہزار لوگ حمایت کر رہے ہونگے۔<ref>نعمانی، الغیبہ، ۱۳۹۷ق، ص۳۹.</ref> احادیث کے مطابق جب یمانی قیام کرے گا تو اس وقت اسلحہ بیچنا حرام ہوگا۔<ref> نعمانی، الغیبہ، ۱۳۹۷ق، ص۲۵۶.</ref>
* '''سفیانی سے جنگ'''؛ بعض روایات میں یمانی اور سفیانی کی لڑائی کا ذکر ہوا ہے مثال کے طور پر کسی روایت میں آیا ہے کہ جو شخص سفیانی کی آنکھ نکالتا ہے وہ صنعا سے قیام کرے گا۔<ref>نعمانی، الغیبه، ۱۳۹۷ق، ص۲۲۷.</ref> یا کسی اور روایت میں سفیانی سے لڑنے والا پہلا شخص قحطانی ذکر ہوا ہے۔<ref>ازدی نیشابوری، مختصر اثبات الرجعه، ۱۴۱۳ق، ح۹،  ص۲۶۱، به نقل از مهدوی‌راد، «بررسی تطبیقی روایات یمانی از منظر فریقین»، ص۵۳؛ نعمانی، الغیبه، ۱۳۹۷ق، ص۲۲۷.</ref>یمانی اور سفیانی کی جنگ کے بارے میں موجود روایات میں اختلاف پایا جاتا ہے؛ بعض میں یمانی کی کامیابی <ref>ازدی نیشابوری، مختصر اثبات الرجعه، ۱۴۱۳ق، ح۹،  ص۲۶۱، به نقل از مهدوی‌راد، «بررسی تطبیقی روایات یمانی از منظر فریقین»، ص۵۳.</ref> اور بعض دوسری روایات میں یمانی کی شکست<ref> ابن حماد، الفتن، دار الکتب العلمیه منشورات محمدعلی بیضون، ص۱۹۹.</ref> کی خبر دی گئی ہے۔ بعض مؤلفین نے ان دو قسم کی روایات کے اختلاف کو یوں حل کیا ہے کہ ہر روایت الگ الگ زمان اور مکان کی جنگ کی خبر دے رہی ہیں۔<ref> آیتی، «یمانی درفش هدایت»، ص۳۵.</ref> لیکن ان روایات کی سند صحیح ہونے کے بارے میں تردید کیا ہے۔<ref>آیتی، «یمانی درفش هدایت»، ص۳۵؛ مهدوی‌راد، «بررسی تطبیقی روایات یمانی از منظر فریقین»، ص۵۴.</ref> الفتن میں سنی عالم دین ابن حماد نے یوں نقل کیا ہے کہ یمانی، مدینہ میں امام مہدیؑ سے ملحق ہونگے، سفیانی اپنی لشکر مدینہ بھیج دے گا لیکن وہ دونوں مدینہ سے مکہ کی سمت نکلیں گے۔<ref> ابن حماد، الفتن، دار الکتب العلمیه منشورات محمدعلی بیضون، ص۲۲۳.</ref> سفیانی لشکر ان کے تعاقب میں مکہ کی جانب نکلے گا اور [[خسف بیداء|بیداء]] نامی جگہ زمین دھنس کر وہ سب نابود ہونگے۔<ref> ابن حماد، الفتن، دار الکتب العلمیه منشورات محمدعلی بیضون، ص۲۱۲.</ref>
* '''سفیانی سے جنگ'''؛ بعض روایات میں یمانی اور سفیانی کی لڑائی کا ذکر ہوا ہے مثال کے طور پر کسی روایت میں آیا ہے کہ جو شخص سفیانی کی آنکھ نکالتا ہے وہ صنعا سے قیام کرے گا۔<ref>نعمانی، الغیبہ، ۱۳۹۷ق، ص۲۲۷.</ref> یا کسی اور روایت میں سفیانی سے لڑنے والا پہلا شخص قحطانی ذکر ہوا ہے۔<ref>ازدی نیشابوری، مختصر اثبات الرجعہ، ۱۴۱۳ق، ح۹،  ص۲۶۱، بہ نقل از مہدوی‌راد، «بررسی تطبیقی روایات یمانی از منظر فریقین»، ص۵۳؛ نعمانی، الغیبہ، ۱۳۹۷ق، ص۲۲۷.</ref>یمانی اور سفیانی کی جنگ کے بارے میں موجود روایات میں اختلاف پایا جاتا ہے؛ بعض میں یمانی کی کامیابی <ref>ازدی نیشابوری، مختصر اثبات الرجعہ، ۱۴۱۳ق، ح۹،  ص۲۶۱، بہ نقل از مہدوی‌راد، «بررسی تطبیقی روایات یمانی از منظر فریقین»، ص۵۳.</ref> اور بعض دوسری روایات میں یمانی کی شکست<ref> ابن حماد، الفتن، دار الکتب العلمیہ منشورات محمدعلی بیضون، ص۱۹۹.</ref> کی خبر دی گئی ہے۔ بعض مؤلفین نے ان دو قسم کی روایات کے اختلاف کو یوں حل کیا ہے کہ ہر روایت الگ الگ زمان اور مکان کی جنگ کی خبر دے رہی ہیں۔<ref> آیتی، «یمانی درفش ہدایت»، ص۳۵.</ref> لیکن ان روایات کی سند صحیح ہونے کے بارے میں تردید کیا ہے۔<ref>آیتی، «یمانی درفش ہدایت»، ص۳۵؛ مہدوی‌راد، «بررسی تطبیقی روایات یمانی از منظر فریقین»، ص۵۴.</ref> الفتن میں سنی عالم دین ابن حماد نے یوں نقل کیا ہے کہ یمانی، مدینہ میں امام مہدیؑ سے ملحق ہونگے، سفیانی اپنی لشکر مدینہ بھیج دے گا لیکن وہ دونوں مدینہ سے مکہ کی سمت نکلیں گے۔<ref> ابن حماد، الفتن، دار الکتب العلمیہ منشورات محمدعلی بیضون، ص۲۲۳.</ref> سفیانی لشکر ان کے تعاقب میں مکہ کی جانب نکلے گا اور [[خسف بیداء|بیداء]] نامی جگہ زمین دھنس کر وہ سب نابود ہونگے۔<ref> ابن حماد، الفتن، دار الکتب العلمیہ منشورات محمدعلی بیضون، ص۲۱۲.</ref>
* '''فتوحات'''؛ اہل سنت کے بعض مآخذ میں ذکر ہوا ہے کہ یمانی [[قسطنطنیه]] اور [[روم]] کو فتح کرے گا<ref> ابن حماد، الفتن، دار الکتب العلمیه منشورات محمدعلی بیضون، ص۲۹۱.</ref> اور ان کے پرچم کا رنگ سفید ہوگا۔<ref> ابن حماد، الفتن، دار الکتب العلمیه منشورات محمدعلی بیضون، ص۱۹۹.</ref> لیکن شیعہ منابع میں ان علاقوں کی فتح امام زمانہؑ سے منسوب کیا گیا ہے۔<ref>رجوع کریں: نعمانی، الغیبه، ۱۳۹۷ق، ص۳۱۹.</ref>
* '''فتوحات'''؛ اہل سنت کے بعض مآخذ میں ذکر ہوا ہے کہ یمانی [[قسطنطنیہ]] اور [[روم]] کو فتح کرے گا<ref> ابن حماد، الفتن، دار الکتب العلمیہ منشورات محمدعلی بیضون، ص۲۹۱.</ref> اور ان کے پرچم کا رنگ سفید ہوگا۔<ref> ابن حماد، الفتن، دار الکتب العلمیہ منشورات محمدعلی بیضون، ص۱۹۹.</ref> لیکن شیعہ منابع میں ان علاقوں کی فتح امام زمانہؑ سے منسوب کیا گیا ہے۔<ref>رجوع کریں: نعمانی، الغیبہ، ۱۳۹۷ق، ص۳۱۹.</ref>


==یمانی ہونے کے دعویدار==
==یمانی ہونے کے دعویدار==
بعض روایات کے مطابق امام صادقؑ کے دور سے شیعہ، یمانی کا انتظار کر رہے تھے؛ آپؑ نے طالب حق کو یمانی ہونے{{یادداشت|طالب حق لقب عبدالله بن یحیی کندی از بزرگان خوارج بود که در سال ۱۲۹ق علیه امویان در یمن خروج کرد.(خلیفة بن خیاط، تاریخ خلیفه، ۱۴۱۵ق، ص۲۵۰.)}} کو اس لئے رد کیا کہ یمانی علیؑ کا محب ہے اور طالب حق علی سے بیزار ہے۔<ref>طوسی، الامالی، ۱۴۱۴ق، ص۶۶۱.</ref> پہلی صدی ہجری سے ہی بعض لوگوں نے خود کو یمانی سے معرفی کیا ہے ان میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:
بعض روایات کے مطابق امام صادقؑ کے دور سے شیعہ، یمانی کا انتظار کر رہے تھے؛ آپؑ نے طالب حق کو یمانی ہونے{{یادداشت|طالب حق لقب عبداللہ بن یحیی کندی از بزرگان خوارج بود کہ در سال ۱۲۹ق علیہ امویان در یمن خروج کرد.(خلیفۃ بن خیاط، تاریخ خلیفہ، ۱۴۱۵ق، ص۲۵۰.)}} کو اس لئے رد کیا کہ یمانی علیؑ کا محب ہے اور طالب حق علی سے بیزار ہے۔<ref>طوسی، الامالی، ۱۴۱۴ق، ص۶۶۱.</ref> پہلی صدی ہجری سے ہی بعض لوگوں نے خود کو یمانی سے معرفی کیا ہے ان میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:
* [[عبدالرحمن بن محمد بن اشعث]] (م [[سنہ 85 ہجری قمری|85ھ]])؛ اس نے [[عبدالملک بن مروان]] کے دور میں عراق کے حاکم [[حجاج بن یوسف ثقفی]]، کے خلاف بغاوت کیا اور خود کو قحطانی کا نام دیا جس کا یمن والوں کو انتظار تھا۔<ref> مسعودی، التنبیه و الاشراف، دار الصاوی، ص۲۷۲؛ مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبة الثقافة الدینیة، ج۲، ص۱۸۴.</ref> ابن اشعث امویوں کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد سیستان چلا گیا اور وہیں پر وفات پاگیا۔<ref> مسعودی، التنبیه و الاشراف، دار الصاوی، ص۲۷۳.</ref>
* [[عبدالرحمن بن محمد بن اشعث]] (م [[سنہ 85 ہجری قمری|85ھ]])؛ اس نے [[عبدالملک بن مروان]] کے دور میں عراق کے حاکم [[حجاج بن یوسف ثقفی]]، کے خلاف بغاوت کیا اور خود کو قحطانی کا نام دیا جس کا یمن والوں کو انتظار تھا۔<ref> مسعودی، التنبیہ و الاشراف، دار الصاوی، ص۲۷۲؛ مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، ج۲، ص۱۸۴.</ref> ابن اشعث امویوں کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد سیستان چلا گیا اور وہیں پر وفات پاگیا۔<ref> مسعودی، التنبیہ و الاشراف، دار الصاوی، ص۲۷۳.</ref>
* ابن فرس؛ ابن خلدون عبدالرحیم بن عبدالرحمان بن فرس اندلس کے علما میں سے تھا اور ایک دن منصور کے دربار میں سخت لہجے میں بات کی اور اس کے بعد کچھ عرصہ مخفی زندگی کرنے پر مجبور ہوا اور جب منصور مرگیا تو وہ ظاہر ہوا اور وہی قحطانی ہونے کا دعوی کیا جس کے آنے کے بارے میں پیغمبر اکرم نے خبر دی تھی، ناصر بن منصور نے اس کی طرف ایک لشکر بھیجا اور اسی جنگ میں وہ مارا گیا۔<ref>ابن خلدون، دیوان المبتدأ و الخبر، ۱۴۰۸ق، ج۶، ص۳۳۶.</ref>
* ابن فرس؛ ابن خلدون عبدالرحیم بن عبدالرحمان بن فرس اندلس کے علما میں سے تھا اور ایک دن منصور کے دربار میں سخت لہجے میں بات کی اور اس کے بعد کچھ عرصہ مخفی زندگی کرنے پر مجبور ہوا اور جب منصور مرگیا تو وہ ظاہر ہوا اور وہی قحطانی ہونے کا دعوی کیا جس کے آنے کے بارے میں پیغمبر اکرم نے خبر دی تھی، ناصر بن منصور نے اس کی طرف ایک لشکر بھیجا اور اسی جنگ میں وہ مارا گیا۔<ref>ابن خلدون، دیوان المبتدأ و الخبر، ۱۴۰۸ق، ج۶، ص۳۳۶.</ref>


* [[احمد بن اسماعیل بصری]] المعروف احمد الحسن جو خود کو یمانی کہلاتا ہے۔ اور اس کا دعوی ہے کہ وہ یمانی ہیں اور امام زمانہؑ کے ظہور کے لیے موقع فراہم کر رہا ہے اور امام مہدیؑ کے بعد حکومت اسے ملے گی۔<ref>یوسفیان، «بررسی برخی ادله روایی احمد بصری یمانی دروغین»، ص۶۳.</ref> دعوة احمد الحسن بین الحق و الباطل نامی کتاب اس کے دعوں کے رد میں لکھی گئی ہے۔<ref> یوسفیان، «بررسی برخی ادله روایی احمد بصری یمانی دروغین»، ص۶۳.</ref>
* [[احمد بن اسماعیل بصری]] المعروف احمد الحسن جو خود کو یمانی کہلاتا ہے۔ اور اس کا دعوی ہے کہ وہ یمانی ہیں اور امام زمانہؑ کے ظہور کے لیے موقع فراہم کر رہا ہے اور امام مہدیؑ کے بعد حکومت اسے ملے گی۔<ref>یوسفیان، «بررسی برخی ادلہ روایی احمد بصری یمانی دروغین»، ص۶۳.</ref> دعوۃ احمد الحسن بین الحق و الباطل نامی کتاب اس کے دعوں کے رد میں لکھی گئی ہے۔<ref> یوسفیان، «بررسی برخی ادلہ روایی احمد بصری یمانی دروغین»، ص۶۳.</ref>


اسی طرح یزید بن ملہب<ref>[http://lib.efatwa.ir/43695/4/348 فخر رازی، المحصول، ۱۴۱۸ق، ج۴، ۳۴۷-۳۴۸.]</ref> اور عبدالرحمن بن منصور (ہشام بن حکم الموید باللہ کے دور میں)<ref>ابن خلدون، دیوان المبتدأ و الخبر، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۱۹۱.</ref> بھی یمانی ہونے کے دعویداروں میں سے شمار ہوتے ہیں۔
اسی طرح یزید بن ملہب<ref>[http://lib.efatwa.ir/43695/4/348 فخر رازی، المحصول، ۱۴۱۸ق، ج۴، ۳۴۷-۳۴۸.]</ref> اور عبدالرحمن بن منصور (ہشام بن حکم الموید باللہ کے دور میں)<ref>ابن خلدون، دیوان المبتدأ و الخبر، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۱۹۱.</ref> بھی یمانی ہونے کے دعویداروں میں سے شمار ہوتے ہیں۔


==اس بارے میں کتابیں ==
==اس بارے میں کتابیں ==
الیمانی رأیة هدی، نامی کتاب عربی زبان میں یمانی کے قیام کے بارے میں لکھی گئی ہے۔ اس کے مؤلف عراق کے شیعہ عالم دین  سید محمدعلی حلو(متولد 1376ھ) ہیں۔ اس کتاب میں یمانی کا حسب و نسب، قیام کا زمان و مکان کے بارے میں بحث ہوئی ہے۔ مصنف نے یمانی کے قیام کو ظہور کی حتمی نشانیوں میں سے قرار دیا ہے۔<ref>حلو، الیمانی رأیة هدی، ۱۴۱۲۵ق، ص۳۸.</ref>
الیمانی رأیۃ ہدی، نامی کتاب عربی زبان میں یمانی کے قیام کے بارے میں لکھی گئی ہے۔ اس کے مؤلف عراق کے شیعہ عالم دین  سید محمدعلی حلو(متولد 1376ھ) ہیں۔ اس کتاب میں یمانی کا حسب و نسب، قیام کا زمان و مکان کے بارے میں بحث ہوئی ہے۔ مصنف نے یمانی کے قیام کو ظہور کی حتمی نشانیوں میں سے قرار دیا ہے۔<ref>حلو، الیمانی رأیۃ ہدی، ۱۴۱۲۵ق، ص۳۸.</ref>
==مربوط مطالب==
==مربوط مطالب==
* [[شعیب بن صالح]]
* [[شعیب بن صالح]]
سطر 50: سطر 50:


==مآخذ==
==مآخذ==
* [https://www.noormags.ir/view/fa/articlepage/259232 آیتی، نصرت‌الله، یمانی درفش هدایت، مجله مشرق موعود، شماره ۱، سال ۱۳۸۵ش.]
* [https://www.noormags.ir/view/fa/articlepage/259232 آیتی، نصرت‌اللہ، یمانی درفش ہدایت، مجلہ مشرق موعود، شمارہ ۱، سال ۱۳۸۵ش.]
* [https://www.noorlib.ir/View/fa/Book/BookView/Image/22491 ابن حماد، نعیم بن حماد، الفتن، تصحیح: مجدی بن منصور شوری، بیروت، دار الکتب العلمیه منشورات محمدعلی بیضون، بی‌تا.]
* [https://www.noorlib.ir/View/fa/Book/BookView/Image/22491 ابن حماد، نعیم بن حماد، الفتن، تصحیح: مجدی بن منصور شوری، بیروت، دار الکتب العلمیہ منشورات محمدعلی بیضون، بی‌تا.]
* ابن خلدون، عبد الرحمان بن محمد، دیوان المبتدأ و الخبر فی تاریخ العرب و البربر و من عاصرهم من ذوی الشأن الاکبر، تحقیق: خلیل شحادة، بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۸ق/۱۹۸۸م.
* ابن خلدون، عبد الرحمان بن محمد، دیوان المبتدأ و الخبر فی تاریخ العرب و البربر و من عاصرہم من ذوی الشأن الاکبر، تحقیق: خلیل شحادۃ، بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۸ق/۱۹۸۸م.
* ابن طاووس، علی بن موسی، فلاح السائل و نجاح المسائل، قم، بوستان کتاب، ۱۴۰۶ق.
* ابن طاووس، علی بن موسی، فلاح السائل و نجاح المسائل، قم، بوستان کتاب، ۱۴۰۶ق.
* ابن کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایه و النهایه، بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۷ق/۱۹۸۶م.
* ابن کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایہ و النہایہ، بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۷ق/۱۹۸۶م.
* ابن منظور، محمد مکرم، لسان العرب، تصحیح: احمد فارس، بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۴ق.
* ابن منظور، محمد مکرم، لسان العرب، تصحیح: احمد فارس، بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۴ق.
* ازدی نیشابوری، فضل بن شاذان، مختصر اثبات الرجعه، ترجمه: میرلوحی، تحقیق: باسم الهاشمی، بیروت، دار الکرم، ۱۴۱۳ق.
* ازدی نیشابوری، فضل بن شاذان، مختصر اثبات الرجعہ، ترجمہ: میرلوحی، تحقیق: باسم الہاشمی، بیروت، دار الکرم، ۱۴۱۳ق.
* حلو، سید محمدعلی، الیمانی رأیة هدی، نجف، مرکز الدراسات التخصصیه فی الامام المهدی، ۱۴۱۲۵ق.
* حلو، سید محمدعلی، الیمانی رأیۃ ہدی، نجف، مرکز الدراسات التخصصیہ فی الامام المہدی، ۱۴۱۲۵ق.
* خلیفة بن خیاط، تاریخ خلیفه، تحقیق: فواز، بیروت، دار الکتب العلمیة، ۱۹۹۵م/۱۴۱۵ق.
* خلیفۃ بن خیاط، تاریخ خلیفہ، تحقیق: فواز، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، ۱۹۹۵م/۱۴۱۵ق.
* صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمه، تصحبح: علی‌اکبر غفاری، تهران، اسلامیه، ۱۳۹۵ق.
* صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمہ، تصحبح: علی‌اکبر غفاری، تہران، اسلامیہ، ۱۳۹۵ق.
* طوسی، محمد بن حسن، الامالی، تصحیح: مؤسسه البعثة، قم، دار الثقافة، ۱۴۱۴ق.
* طوسی، محمد بن حسن، الامالی، تصحیح: مؤسسہ البعثۃ، قم، دار الثقافۃ، ۱۴۱۴ق.
* طوسی، محمد بن حسن، کتاب الغیبة للحجة، تصحیح: عبادالله تهرانی و علی احمد ناصح، قم، دار المعارف الاسلامیه، ۱۴۱۱ق.
* طوسی، محمد بن حسن، کتاب الغیبۃ للحجۃ، تصحیح: عباداللہ تہرانی و علی احمد ناصح، قم، دار المعارف الاسلامیہ، ۱۴۱۱ق.
* فتلاوی، مهدی، رایات الهدی و الضّلال فی عصر الظّهور، بیروت، دار المحجه البیضاء، ۱۴۲۰ق/۱۹۹۹م.
* فتلاوی، مہدی، رایات الہدی و الضّلال فی عصر الظّہور، بیروت، دار المحجہ البیضاء، ۱۴۲۰ق/۱۹۹۹م.
* فخر رازی، محمد بن عمر، المحصول، تحقیق: طه جابر فیضا العلوانی، مؤسسه الرساله، ۱۴۱۸ق/۱۹۹۷م.
* فخر رازی، محمد بن عمر، المحصول، تحقیق: طہ جابر فیضا العلوانی، مؤسسہ الرسالہ، ۱۴۱۸ق/۱۹۹۷م.
* کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح: علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تهران، دار الکتب الاسلامیه، ۱۴۰۷ق.
* کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح: علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ق.
* لیثی واسطی، علی بن محمد، عیون الحکم و المواعظ، تصحیح: حسین حسنی بیرجندی، قم، دار الحدیث، ۱۳۷۶ش.
* لیثی واسطی، علی بن محمد، عیون الحکم و المواعظ، تصحیح: حسین حسنی بیرجندی، قم، دار الحدیث، ۱۳۷۶ش.
* مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ق.
* مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ق.
* مسعودی، علی بن حسین، التنبیه و الاشراف، تصحیح: عبدالله اسماعیل الصاوی، قاهره، دار الصاوی، بی‌تا.
* مسعودی، علی بن حسین، التنبیہ و الاشراف، تصحیح: عبداللہ اسماعیل الصاوی، قاہرہ، دار الصاوی، بی‌تا.
* مقدسی، مطهر بن طاهر، البدء و التاریخ، بور سعید، مکتبة الثقافة الدینیة، بی‌تا.
* مقدسی، مطہر بن طاہر، البدء و التاریخ، بور سعید، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، بی‌تا.
* نعمانی، محمد بن ابراهیم، الغیبه، تصحیح: علی اکبر غفاری، نشر صدوق، تهران، ۱۳۹۷ق.
* نعمانی، محمد بن ابراہیم، الغیبہ، تصحیح: علی اکبر غفاری، نشر صدوق، تہران، ۱۳۹۷ق.
* [https://www.noormags.ir/view/fa/articlepage/1077103 مهدوی‌راد، محمدعلی و دیگران، بررسی تطبیقی روایات یمانی از منظر فریقین، حدیث‌پژوهی، پاییز و زمستان ۱۳۹۳ش.]
* [https://www.noormags.ir/view/fa/articlepage/1077103 مہدوی‌راد، محمدعلی و دیگران، بررسی تطبیقی روایات یمانی از منظر فریقین، حدیث‌پژوہی، پاییز و زمستان ۱۳۹۳ش.]
* [https://www.noormags.ir/view/fa/articlepage/1002896 یوسفیان، مهدی؛ شهبازیان، محمد، «بررسی برخی ادله روایی احمد بصری یمانی دروغین»، مشرق موعود، شماره۲۷، پاییز ۱۳۹۲ش.]
* [https://www.noormags.ir/view/fa/articlepage/1002896 یوسفیان، مہدی؛ شہبازیان، محمد، «بررسی برخی ادلہ روایی احمد بصری یمانی دروغین»، مشرق موعود، شمارہ۲۷، پاییز ۱۳۹۲ش.]


{{مهدویت}}
{{مہدویت}}


[[رده:نشانه‌های ظهور]]
[[ردہ:نشانہ‌ہای ظہور]]


[[زمرہ:ظہور کی نشانیاں]]
[[زمرہ:ظہور کی نشانیاں]]
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
9,062

ترامیم