گمنام صارف
"عصمت انبیاء" کے نسخوں کے درمیان فرق
←انبیاء کی عصمت اور ان کا اختیار
imported>E.musavi (←دائرہ) |
imported>E.musavi |
||
سطر 31: | سطر 31: | ||
== انبیاء کی عصمت اور ان کا اختیار == | == انبیاء کی عصمت اور ان کا اختیار == | ||
ایک گروہ کا خیال ہے کہ [[عصمت]] اور [[اختیار]] ایک دوسرے کے منافی ہیں۔ اسی بنا پر بعض لوگ انبیاء کی عصمت کے منکر ہیں جبکہ بعض، انبیاء کی عصمت کے تو قائل ہیں لیکن اسے ایک اجباری امر قرار دیتے ہیں۔<ref>یوسفیان و شریفی، پژوہشی در عصمت معصومان(ع)، ۱۳۸۸ش، ص۳۹۔</ref> دوسرا گروہ | ایک گروہ کا خیال ہے کہ [[عصمت]] اور [[اختیار]] ایک دوسرے کے منافی ہیں۔ اسی بنا پر بعض لوگ انبیاء کی عصمت کے منکر ہیں جبکہ بعض، انبیاء کی عصمت کے تو قائل ہیں لیکن اسے ایک اجباری امر قرار دیتے ہیں۔<ref>یوسفیان و شریفی، پژوہشی در عصمت معصومان (ع)، ۱۳۸۸ش، ص۳۹۔</ref> دوسرا گروہ کہتا ہے کہ انسان خطا کا پتلا ہے اور گناہ اس کی سرشت میں شامل ہے لہذا وہ لاکھ کوشش کرے پھر بھی کسی نہ کسی خطا میں مبتلا ہو کر ہی رہے گا۔ اس بنا پر کسی انسان کا عصمت کے مقام پر فائز ہونا بیرونی عوامل کی بنا پر ہے اور اس کے اختیار سے خارج ہے۔ یہ گروہ اپنے دعوی کو ثابت کرنے کے لئے [[قرآن]] کی بعض آیات سے بھی تمسک کرتا ہے۔<ref>یوسفیان و شریفی، پژوہشی در عصمت معصومان(ع)، ۱۳۸۸ش، ص۳۹-۴۱۔</ref> | ||
من جملہ ان آیات میں سے ایک [[سورہ ص]] کی آیت نمبر 46 ہے جس میں انبیاء کے بارے میں " | من جملہ ان آیات میں سے ایک [[سورہ ص]] کی آیت نمبر 46 ہے جس میں انبیاء کے بارے میں "اخلصناھم" (ہم نے ان کو مخلص بنایا) کی عبارت استعمال ہوئی ہے۔ اسی طرح [[آیت تطہیر]] ([[سورہ احزاب]] کی آیت نمبر 33) جس کے مطابق خدا نے بعض انسانوں کو گناہوں سے پاک اور منزہ قرار دیا ہے۔<ref>یوسفیان و شریفی، پژوہشی در عصمت معصومان(ع)، ۱۳۸۸ش، ص۳۹-۴۱۔</ref> | ||
اس نظریے کے مقابلے میں [[علامہ طباطبایی]] کہتے ہیں کہ خدا نے انبیاء کو علم عطا کیا ہے جس سے وہ گناہ کے باطن سے بھی باخبر ہوتے ہیں۔ اس بنا پر چونکہ انبیاء گناہ کی پستی اور حقیقت سے آشنا ہوتے ہیں اس کا ارتکاب نہیں کرتے نہ یہ کہ وہ اس کام میں مجبور ہیں۔ علامہ طباطبائی گناہ سے انبیاء کی آگاہی کو کسی کھانے والی زہریلی چیز سے متعلق انسان کی آگاہی سے تشبیہ دیتے ہیں جس کے نتیجے میں انسان اس چیز کو کھانے سے پرہیز | اس نظریے کے مقابلے میں [[علامہ طباطبایی]] کہتے ہیں کہ خدا نے انبیاء کو علم عطا کیا ہے جس سے وہ گناہ کے باطن سے بھی باخبر ہوتے ہیں۔ اس بنا پر چونکہ انبیاء گناہ کی پستی اور حقیقت سے آشنا ہوتے ہیں اس کا ارتکاب نہیں کرتے نہ یہ کہ وہ اس کام میں مجبور ہیں۔ علامہ طباطبائی گناہ سے انبیاء کی آگاہی کو کسی کھانے والی زہریلی چیز سے متعلق انسان کی آگاہی سے تشبیہ دیتے ہیں جس کے نتیجے میں انسان اس چیز کو کھانے سے پرہیز کرتا ہے۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۵، ص۳۵۴۔</ref> | ||
[[آیت اللہ جعفر سبحانی]] لکھتے ہیں کہ مقام عصمت خدا کے ارادے سے نصیب ہوتا ہے اور قرآن کی بعض آیات اس بات پر تاکید کرتی ہیں کہ یہ مقام خدا کی عطا کردہ ہے؛ لیکن عصمت کے مقام کو کسب کرنے کے مقدمات انسان کی کوشش اور نفسانی خواہشات کے ساتھ مقابلہ کرنے کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے۔ اس بنا پر عصمت اختیار کے ساتھ قابل جمع ہے۔<ref>سبحانی، عصمۃ الانبیاء فی القرآن الکریم، ۱۴۲۰ق، ص۲۹؛ مصباح یزدی، آموزش عقاید، ۱۳۶۷ش، ج۲، ص۱۶۱۔</ref> | [[آیت اللہ جعفر سبحانی]] لکھتے ہیں کہ مقام عصمت خدا کے ارادے سے نصیب ہوتا ہے اور قرآن کی بعض آیات اس بات پر تاکید کرتی ہیں کہ یہ مقام خدا کی عطا کردہ ہے؛ لیکن عصمت کے مقام کو کسب کرنے کے مقدمات انسان کی کوشش اور نفسانی خواہشات کے ساتھ مقابلہ کرنے کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے۔ اس بنا پر عصمت اختیار کے ساتھ قابل جمع ہے۔<ref>سبحانی، عصمۃ الانبیاء فی القرآن الکریم، ۱۴۲۰ق، ص۲۹؛ مصباح یزدی، آموزش عقاید، ۱۳۶۷ش، ج۲، ص۱۶۱۔</ref> |