مندرجات کا رخ کریں

"عصمت انبیاء" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 10: سطر 10:


== اہمیت ==
== اہمیت ==
وحی کے دریافت اور ابلاغ میں انبیاء کے معصوم ہونا تمام ادیان الہی کا مشترکہ عقیدہ مانا جاتا ہے؛[5] اگرچہ اس کی حقیقت اور مراتب کے بارے میں ان کے درمیان اور مسلمان متکلمین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ [6]
وحی کے دریافت اور ابلاغ میں انبیاء کے معصوم ہونا تمام ادیان الہی کا مشترکہ عقیدہ مانا جاتا ہے؛<ref>انواری، نور عصمت بر سیمای نبوت، ۱۳۹۷ش، ص۵۲۔</ref> اگرچہ اس کی حقیقت اور مراتب کے بارے میں ان کے درمیان اور مسلمان متکلمین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔<ref>صادقی اردکانی، عصمت، ۱۳۸۸ش، ص۱۹۔</ref>
بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ انبیاء کی عصمت کا مسئلہ ظہور اسلام کے بعد مسلمانوں میں رائج ہوا ہے۔ مثال کے طور پر کہا جاتا ہے کہ خلیفہ اول نے پیغمبر اسلامؐ کی تجلیل کی خاطر آپ کو خطا سے معصوم قرار دیا ہے۔[7] اسی طرح نقل ہوا ہے کہ امام علیؑ نے انبیا کے مقام و مرتبے کو بیان کرتے وقت عصمت کا لفظ استعمال کیا ہے۔[8] ان تمام باتوں کے باوجود بعض دانشوروں کا عقیدہ ہے کہ عصمت انبیاء کی اصطلاح علم کلام کے دوسرے بہت سارے اصطلاحات کی طرح علم کلام کی پیدائش کے بعد اور امام صادقؑ کی امامت کے دوران وجود میں آیا ہے۔[9]
 
قرآن میں انبیاء کی عصمت کے بارے میں تصریح نہیں آئی ہے؛[10] لیکن مفسرین قرآن کی بعض آیات کی تفسیر میں اس موضوع سے بحث کی ہیں۔ ان آیات میں سورہ بقرہ کی آیت نمیر 36،[11] سورہ اعراف کی آیت نمیر 32 اور سورہ طہ کی آیت نمیر 121 جو حضرت آدم و حوا کی داستان اور ان کا شیطان کے ساتھ برتاؤ کے بارے میں ہے اسی طرح سورہ آل عمران کی آیت نمبر 33 جو بعض انبیاء کے برگزیدہ ہونے کے بارے میں ہے اور سورہ نجم کی آیت نمبر 3 سے 5 جو پیغمبر اسلامؐ کا وحی کے بغیر اپنی ہوا و ہوس سے نطق نہ کرنے سے متعلق ہے، شامل ہیں۔[12]
بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ انبیاء کی عصمت کا مسئلہ ظہور اسلام کے بعد مسلمانوں میں رائج ہوا ہے۔ مثال کے طور پر کہا جاتا ہے کہ خلیفہ اول نے پیغمبر اسلامؐ کی تجلیل کی خاطر آپ کو خطا سے معصوم قرار دیا ہے۔<ref>یوسفیان و شریفی، پژوہشی نو در عصمت معصومان(ع)، ۱۳۸۸ش، ص۲۶۔</ref> اسی طرح نقل ہوا ہے کہ امام علیؑ نے انبیا کے مقام و مرتبے کو بیان کرتے وقت عصمت کا لفظ استعمال کیا ہے۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۴۰۳ق، ج۲۵، ص۲۰۰ و ۱۶۴۔</ref> ان تمام باتوں کے باوجود بعض دانشوروں کا عقیدہ ہے کہ عصمت انبیاء کی اصطلاح علم کلام کے دوسرے بہت سارے اصطلاحات کی طرح علم کلام کی پیدائش کے بعد اور امام صادقؑ کی امامت کے دوران وجود میں آیا ہے۔<ref>سبحانی، بحوث فی الملل و النحل، ج۲، ص۱۱۳-۱۶۷؛ مظفر، دلائل الصدق، ج۱، ص۴۳۲-۵۵۲ بہ نقل از یوسفیان و شریفی، پژوہشی نو در عصمت معصومان(ع)، ۱۳۸۸ش، ص۲۶۔</ref>
 
قرآن میں انبیاء کی عصمت کے بارے میں تصریح نہیں آئی ہے؛<ref>یوسفیان و شریفی، پژوہشی نو در عصمت معصومان(ع)، ۱۳۸۸ش، ص۴۱۔</ref> لیکن مفسرین قرآن کی بعض آیات کی تفسیر میں اس موضوع سے بحث کی ہیں۔ ان آیات میں سورہ بقرہ کی آیت نمیر 36،<ref>مغنیہ، تفسیر الکاشف، ۱۴۲۴ق، ج۱، ص۹۸۔</ref> سورہ اعراف کی آیت نمیر 32 اور سورہ طہ کی آیت نمیر 121 جو حضرت آدم و حوا کی داستان اور ان کا شیطان کے ساتھ برتاؤ کے بارے میں ہے اسی طرح سورہ آل عمران کی آیت نمبر 33 جو بعض انبیاء کے برگزیدہ ہونے کے بارے میں ہے اور سورہ نجم کی آیت نمبر 3 سے 5 جو پیغمبر اسلامؐ کا وحی کے بغیر اپنی ہوا و ہوس سے نطق نہ کرنے سے متعلق ہے، شامل ہیں۔<ref>نقی‌پورفر، پژوہشی پیرامون تدبر در قرآن، ۱۳۸۱ش، ص۳۳۹-۳۴۵۔</ref>
 
== منشأ ==
== منشأ ==
عصمت کے منشاء اور سبب کے بارے میں مختلف نظرات بیان کئے گئے ہیں: شیخ مفید اور سیدِ مرتَضی عصمت انبیاء کو ان کے حق میں خدا کے لطف و کرم کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔[13] سیدِ مرتضی ایک اور قول میں شیخ طوسی اور ابن‌میثم بَحرانی کے ساتھ عصمت انبیا کو ان کے نفسانی مَلَکہ جو ان کے اندر موجود ہوتے ہیں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں جس کی وجہ سے ان سے گناہ سرزد ہونے کی قدرت ہی سلب ہو جاتی ہے اسی بنا پر اس خصوصیت کے ہوتے ہوئے انبیاء سے کبھی بھی گناہ سرزد ¬نہیں ہوتا ہے۔[14] علامہ طباطبایی طاعت اور گناہ سے متعلق انبیاء کے راسخ اور زوال ناپذیر علم کو ان کی عصمت کا منشأ قرار دیتے ہیں، انبیاء کے علم کی خصوصیت یہ ہے کہ پہلی بات تو یہ علم قابل تعلیم نہیں ہی بلکہ خدا کی عطا کردہ ہے دوسری بات یہ کہ یہ علم شہوات سے مغلوب نہیں ہوتا۔[15] ملاصدرا بھی عصمت انبیاء کو خدا کی عطا اور بخشش سمجھتے ہیں جسے خدا اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے عطا فرماتا ہے جس کے ذریعے قوہ واہمہ جو شیطان کے وسوسوں میں آنے کا امکان ہوتا ہے، قوہ عاقلہ کی تسخیر میں چلا جاتا ہے۔[16]
عصمت کے منشاء اور سبب کے بارے میں مختلف نظرات بیان کئے گئے ہیں: شیخ مفید اور سیدِ مرتَضی عصمت انبیاء کو ان کے حق میں خدا کے لطف و کرم کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔[13] سیدِ مرتضی ایک اور قول میں شیخ طوسی اور ابن‌میثم بَحرانی کے ساتھ عصمت انبیا کو ان کے نفسانی مَلَکہ جو ان کے اندر موجود ہوتے ہیں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں جس کی وجہ سے ان سے گناہ سرزد ہونے کی قدرت ہی سلب ہو جاتی ہے اسی بنا پر اس خصوصیت کے ہوتے ہوئے انبیاء سے کبھی بھی گناہ سرزد ¬نہیں ہوتا ہے۔[14] علامہ طباطبایی طاعت اور گناہ سے متعلق انبیاء کے راسخ اور زوال ناپذیر علم کو ان کی عصمت کا منشأ قرار دیتے ہیں، انبیاء کے علم کی خصوصیت یہ ہے کہ پہلی بات تو یہ علم قابل تعلیم نہیں ہی بلکہ خدا کی عطا کردہ ہے دوسری بات یہ کہ یہ علم شہوات سے مغلوب نہیں ہوتا۔[15] ملاصدرا بھی عصمت انبیاء کو خدا کی عطا اور بخشش سمجھتے ہیں جسے خدا اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے عطا فرماتا ہے جس کے ذریعے قوہ واہمہ جو شیطان کے وسوسوں میں آنے کا امکان ہوتا ہے، قوہ عاقلہ کی تسخیر میں چلا جاتا ہے۔[16]
confirmed، templateeditor
9,292

ترامیم