مندرجات کا رخ کریں

"اصحاب کہف" کے نسخوں کے درمیان فرق

imported>E.musavi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>E.musavi
سطر 5: سطر 5:


==داستان==
==داستان==
اَصْحابِ کَہْف (غار کے لوگ) [[حضرت عیسی]] کے ماننے والے ان با [[ایمان]] جوانوں کو کہا جاتا ہے جو روم باستان کے حکمران دقیانوس (201-251 ء) کے دور میں زندگی گزارتے تھے۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۴، ص۴۱۱۔</ref> یہ لوگ سوائے ایک چرواہا اور اس کے کتے کے سب کے سب امراء اور حکومت کے درباریوں میں سے تھے جنہوں نے اپنے ایمان کی حفاظت اور  دقیانوس کے مظالم سے بچنے کیلئے ایک غار میں پناہ لئے تھے۔<ref>طبری، ترجمہ تفسیر طبری(جامع البیان)، ۱۳۵۶ش، ج‌۱۵، ص‌۲۲۵۔</ref>  وہاں پہنچ کر تھکاوٹ کی وجہ سے سب پر نیند طاری ہو گئی جو 300 سال طول پکڑ گئی۔<ref>سورہ کہف،آیہ۲۵۔</ref>
اَصْحابِ کَہْف (غار کے لوگ) [[حضرت عیسی]] کے ماننے والے ان با [[ایمان]] افراد کو کہا جاتا ہے جو قدیم روم کے حکمران دقیانوس (201-251 ء) کے دور میں زندگی گزارتے تھے۔<ref>مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۴، ص۴۱۱۔</ref> یہ لوگ سوائے ایک چرواہے اور اس کے کتے کے سب کے سب امراء و اشراف اور حکومت کے درباریوں میں سے تھے جنہوں نے اپنا ایمان مخفی رکھا تھا۔


[[خدا]] نے ان پر ایک ایسی حالت طاری کی تھی کہ جو بھی انہیں دیکھتے وہ یہی گمان کرتے تھے کہ یہ لوگ بیدار ہیں حالانکہ یہ لوگ سوئے ہوئے تھے۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۷۴ش، ج‌۱۳، ص‌۲۵۶۔</ref> اتنی مدت سونے کے بعد جب یہ لوگ بیدار ہوئے تو یہی خیال کرتے تھے کہ وہ چند گھنٹوں سے زیادہ نہیں سوئے ہیں۔<ref>سورہ کہف،آیہ۱۸و۱۹</ref> یہ خیال ان کے ذہن میں اس لئے آیا چونکہ جس وقت یہ لوگ غار میں داخل ہو رہے تھے تو اس وقت دن کا آغاز تھا اور جب بیدار ہوئے تو دن کا آخری پهر تھا۔<ref>طبرسی، جوامع الجامع، ۱۳۷۲ش، ج‌۲، ص‌۳۵۷۔ و مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج‌۱۲، ص‌۳۷۳۔</ref>بیدار ہونے کے بعد انہوں نے ایک کو شہر بھیجا تاکہ کچھ کھانے پینے کا بندوبست کیا جا سکے۔<ref>سورہ کہف،آیات۱۸و۱۹</ref>


کھانہ لینے کیلئے کون گیا تھا اس حوالے سے [[قرآن]] میں کچھ نہیں کہا گیا لیکن بعض [[احادیث]] کے مطابق یملیخا یا تملیخا اس کام کیلئے رضاکارانہ طور پر تیار ہوا تھا۔<ref>بحرانی، البرہان، ۱۳۳۴ش، ج‌۳، ص‌۶۲۴۔</ref> جب وہ شہر میں داخل ہوا تو دیکھا شہر بالکل تبدیل ہو چکا ہے اس لئے وہ بہت حیران و پریشان ہوا۔<ref>بحرانی، البرہان، ۱۳۳۴ش، ج‌۳، ص‌۶۲۴و۶۲۵۔</ref>
انہوں نے دقیانوس کے مظالم سے بچنے کیلئے ایک غار میں پناہ لی تھی۔<ref>طبری، ترجمہ تفسیر طبری (جامع البیان)، ۱۳۵۶ش، ج‌۱۵، ص‌۲۲۵۔</ref> وہاں پہنچ کر سب پر نیند طاری ہو گئی اور وہ لوگ 309 سال تک سوتے رہے۔<ref>سورہ کہف،آیہ۲۵۔</ref> [[خدا]] نے ان پر ایک ایسی حالت طاری کی تھی کہ جو بھی انہیں دیکھتا وہ یہی گمان کرتا تھا کہ وہ لوگ بیدار ہیں حالانکہ وہ سوئے ہوئے تھے۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۷۴ش، ج‌۱۳، ص‌۲۵۶۔</ref> اتنی مدت سونے کے بعد جب یہ لوگ بیدار ہوئے تو یہی خیال کرتے تھے کہ وہ چند گھنٹوں سے زیادہ نہیں سوئے ہیں۔<ref>سورہ کہف، آیہ۱۸و۱۹</ref> یہ خیال بعض افراد کے مطابق ان کے ذہن میں اس لئے آیا چونکہ جس وقت یہ لوگ غار میں داخل ہو رہے تھے تو اس وقت دن کا آغاز تھا اور جب بیدار ہوئے تو دن کا آخری پہر تھا۔<ref>طبرسی، جوامع الجامع، ۱۳۷۲ش، ج‌۲، ص‌۳۵۷۔ و مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج‌۱۲، ص‌۳۷۳۔</ref> بیدار ہونے کے بعد انہوں نے ایک کو شہر بھیجا تاکہ کچھ کھانے پینے کا بندوبست کیا جا سکے۔<ref>سورہ کہف، آیات۱۸و۱۹</ref>
 
کھانے کا سامان لینے کیلئے کون گیا تھا اس حوالے سے [[قرآن]] میں کچھ نہیں کہا گیا لیکن بعض [[احادیث]] کے مطابق یملیخا یا تملیخا اس کام کیلئے رضاکارانہ طور پر تیار ہوا تھا۔<ref>بحرانی، البرہان، ۱۳۳۴ش، ج‌۳، ص‌۶۲۴۔</ref> جب وہ شہر میں داخل ہوا تو دیکھا شہر بالکل تبدیل ہو چکا ہے اس لئے وہ بہت حیران و پریشان ہوا۔<ref>بحرانی، البرہان، ۱۳۳۴ش، ج‌۳، ص‌۶۲۴و۶۲۵۔</ref>


===نام اور تعداد===
===نام اور تعداد===
گمنام صارف