"تابعین" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) م (←تعداد) |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 27: | سطر 27: | ||
تابعین کی تعداد بہت زیادہ اور قابل شمارش نہیں ہے کیونکہ رسول خداؐ کی رحلت کے وقت کم از کم ایک لاکھ چودہ ہزار صحابی<ref> ابن کثیر، اختصار علوم الحدیث، ص۱۲۸ بہ نقل از ابوزُرْعہ رازی </ref> دنیا کے مختلف ممالک اور شہروں میں پھیلے ہوئے تھے اور تابعی صدق آنے کیلئے صرف کسی صحابہ سے ملاقات کرنا کافی سمجھا جاتا ہے۔ اس بنا پر تابعین کی تعداد کو دقیق مشخص کرنا آسان کام نہیں ہے۔<ref> خطیب، ص۴۱۱</ref> خاص طور پر اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ بعض صحابہ حتی پہلی صدی ہجری کی اواخر تک زندہ تھے<ref> ابن کثیر، اختصار علوم الحدیث، ص۱۲۸ـ۱۳۱</ref> اور تابعین میں سے آخری شخص سنہ 180 ہجری قمری کو اس دنیا سے رحلت کر گیا ہے۔<ref> مامقانی، ج۳، ص۳۱۳.</ref> | تابعین کی تعداد بہت زیادہ اور قابل شمارش نہیں ہے کیونکہ رسول خداؐ کی رحلت کے وقت کم از کم ایک لاکھ چودہ ہزار صحابی<ref> ابن کثیر، اختصار علوم الحدیث، ص۱۲۸ بہ نقل از ابوزُرْعہ رازی </ref> دنیا کے مختلف ممالک اور شہروں میں پھیلے ہوئے تھے اور تابعی صدق آنے کیلئے صرف کسی صحابہ سے ملاقات کرنا کافی سمجھا جاتا ہے۔ اس بنا پر تابعین کی تعداد کو دقیق مشخص کرنا آسان کام نہیں ہے۔<ref> خطیب، ص۴۱۱</ref> خاص طور پر اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ بعض صحابہ حتی پہلی صدی ہجری کی اواخر تک زندہ تھے<ref> ابن کثیر، اختصار علوم الحدیث، ص۱۲۸ـ۱۳۱</ref> اور تابعین میں سے آخری شخص سنہ 180 ہجری قمری کو اس دنیا سے رحلت کر گیا ہے۔<ref> مامقانی، ج۳، ص۳۱۳.</ref> | ||
== | ==طبقات == | ||
=== | === ابن حبان کا نظریہ === | ||
ابن حبّان تمام تابعین کو کسی صحابہ سے ملاقات کرنے کی حیثیت سے ایک جیسا سمجھتے ہیں اور اس حوالے سے ان کو ایک ہی گروہ اور طبقہ شمار کرتے ہیں۔<ref> ابوشہبہ، ص۵۴۲.</ref> | |||
=== | === مسلم اور ابن سعد کا نظریہ=== | ||
مسلم تابعین | مسلم تابعین کو تین جبکہ [[محمدبن سعد]] انہیں چار گروہ اور طبقوں میں تقسیم کرتے ہیں۔<ref> سخاوی؛ سیوطی، تدریب الراوی؛ ابوشہبہ، ص۵۴۲.</ref> | ||
البتہ ابن سعد نے تابعین کو ان کے شہر اور وطن کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک اور طبقہ بندی میں بھی تقسیم کیا ہے اس بنا پر تابعین بصری، مدنی اور کوفی وغیرہ میں تقسیم ہوتے ہیں۔<ref> ابوشہبہ، ص۵۴۷. </ref> | |||
=== | === حاکم نیشابوری کا نظریہ=== | ||
[[حاکم نیشابوری]] تابعین | [[حاکم نیشابوری]] تابعین کو پندرہ(15) طبقوں میں تقیسم کرتے ہیں۔ ان کے مطابق تابعین کا پہلا طبقہ ان افراد پر مشتمل ہے جنہوں نے پیغمبر اکرمؐ کے ان اصحاب کے ساتھ ملاقات کی ہیں جن کو آپؐ نے بہشت کی بشارت دی تھی۔ اس طبقے میں من جملہ [[سعید بن مسیب|سعید بن مُسَیب]]، [[قیس بن ابی حازم|قَیس بن ابی حازم]]، [[ابو عثمان نہدی|ابوعثمان نَہدی]]، [[قیس بن عباد|قَیس بن عُباد]] و [[حصین بن منذر|حُصَین بن مُنذر]] شامل ہیں۔<ref> ص۵۲.</ref> | ||
اکثر | اکثر محدثین نے حاکم نیشابوری کے اس نظریے کو رد کیا ہے کیونکہ انہوں نے اس طبقے میں جن افراد کا نام لیا ہے ان میں سوائے [[قیس بن ابی حازم]] کے باقی افراد نے مذکورہ تمام اصحاب سے روایت نہیں کی ہیں؛<ref> نووی، ص۲۰۰؛ طیبی، ص۱۲۷؛ ابن کثیر، اختصار علوم الحدیث، ص۱۳۲ـ۱۳۳؛ سخاوی، ج۳، ص۱۲۵ـ۱۲۶</ref> چنانچہ [[سعید بن مسیب]] جو [[عمر]] کی خلافت کے دوران پیدا ہوا ہے نے فقط [[سعد بن ابی وقاص]] سے روایت کی ہے۔<ref> ابن صلاح، ص۱۸۰؛ ابوشہبہ، ص۵۴۳.</ref> | ||
حاکم نیشابوری | حاکم نیشابوری نے تابعین کے دوسرے اور تیسرے طبقے سے بھی بعض افراد کا نام لیا ہے لیکن اس کے بعد والے طبقات کو ذکر کئے بغیر کہتے ہیں کہ تابعین کا آخری طبقہ ان افراد کو شامل کرتا ہے جنہوں نے [[انس بن مالک|اَنَس بن مالک]]، [[عبداللّه بن أبی أوفی]]، [[سائب بن یزید]]، [[عبداللّه بن حارث بن جَزء]] اور [[ابوامامہ باہلی]] وغیرہ سے ملاقت کی ہیں<ref> ص۵۳؛ ابوشہبہ، ص۵۴۷</ref> اور مذکورہ افراد پیغمبر اکرمؐ کے صحابہ میں سب سے عمر رسیدہ افراد تھے۔ | ||
=== | === دوسرے نظریات ===<!-- | ||
به عقیده برخی از محققان، تابعین را به «کبار و متوسطین و صغار» نیز میتوان طبقه بندی کرد. طبقه کبار از بزرگان صحابه روایت نقل کردهاند، متوسطین علاوه بر درک صحابه، راوی برخی از بزرگان تابعین نیز بودهاند و صغار راویان صحابة خردسال بودهاند که معمولاً تاریخ وفاتشان متأخر از دیگر اصحاب است.<ref> عتر، ص۱۴۸.</ref> | به عقیده برخی از محققان، تابعین را به «کبار و متوسطین و صغار» نیز میتوان طبقه بندی کرد. طبقه کبار از بزرگان صحابه روایت نقل کردهاند، متوسطین علاوه بر درک صحابه، راوی برخی از بزرگان تابعین نیز بودهاند و صغار راویان صحابة خردسال بودهاند که معمولاً تاریخ وفاتشان متأخر از دیگر اصحاب است.<ref> عتر، ص۱۴۸.</ref> | ||