"واقعہ افک" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) («'''واقعۂ اِفک''' تاریخ صدر اسلام کے ایک واقعے کو کہا جاتا ہے جس کی طرف سورہ ن...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا) |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 1: | سطر 1: | ||
'''واقعۂ اِفک''' تاریخ صدر [[اسلام]] کے ایک واقعے کو کہا جاتا ہے جس کی طرف [[سورہ نور]] کی بعض [[آیت|آیات]] (11-26) میں اشارہ ہوا ہے۔ یہ واقعہ [[سنہ 5 ہجری قمری]] کو [[مدینہ]] میں پیش آیا۔ مسلمانوں کے ایک گروہ نے [[پیغمبر اکرمؐ]] کی [[ازواج رسول خدا|زوجات]] میں سے کسی ایک (ظاہرا مشہور یہی ہے کہ یہ واقعہ [[حضرت عایشہ]] کے ساتھ پیش آیا ہے) پر فحاشی کی [[تہمت]] لگائی۔ [[خدا]] نے مذکورہ آیات کے ذریعے تہمت لگانے اور غلط شایعات پھیلانے ولوں کی سرزنش کی ہے۔ [[شیعہ]] منابع میں نقل ہونے والی ایک اور [[روایت]] کے مطابق جس پر یہ تہمت لگائی گئی تھی وہ [[ماریہ قبطیہ]]، زوجہ رسول اکرمؐ اور مادر [[ابراہیم بن رسول خدا|ابراہیم]] تھیں۔ | '''واقعۂ اِفک''' تاریخ صدر [[اسلام]] کے ایک واقعے کو کہا جاتا ہے جس کی طرف [[سورہ نور]] کی بعض [[آیت|آیات]] (11-26) میں اشارہ ہوا ہے۔ یہ واقعہ [[سنہ 5 ہجری قمری]] کو [[مدینہ]] میں پیش آیا۔ مسلمانوں کے ایک گروہ نے [[پیغمبر اکرمؐ]] کی [[ازواج رسول خدا|زوجات]] میں سے کسی ایک (ظاہرا مشہور یہی ہے کہ یہ واقعہ [[حضرت عایشہ]] کے ساتھ پیش آیا ہے) پر فحاشی کی [[تہمت]] لگائی۔ [[خدا]] نے مذکورہ آیات کے ذریعے تہمت لگانے اور غلط شایعات پھیلانے ولوں کی سرزنش کی ہے۔ [[شیعہ]] منابع میں نقل ہونے والی ایک اور [[روایت]] کے مطابق جس پر یہ تہمت لگائی گئی تھی وہ [[ماریہ قبطیہ]]، زوجہ رسول اکرمؐ اور مادر [[ابراہیم بن رسول خدا|ابراہیم]] تھیں۔ | ||
== | ==مفہوم شناسی== | ||
"اِفک" | "اِفک" اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کی اصلی اور طبیعی حالت سے تبدیلی آگئی ہو۔ تہمت اور جھوٹ میں چونکہ حق سے انحراف کیا کر کے کسی واقعے کو اس کی اصلی حالت سے تبدیل کر کے پیش کیا جاتا ہے، افک کہا جاتا ہے۔<ref>قرشی بنایی، قاموس قرآن، ج۱، ص۸۹۔</ref> | ||
==آیات افک== | ==آیات افک== | ||
{{اصلی|آیات افک}} | {{اصلی|آیات افک}} | ||
[[قرآن|قرآن کریم]] | [[قرآن|قرآن کریم]] کی [[سورہ نور]] کی آیت نمبر 11 سے 26 تک میں مذکورہ واقعے میں کسی مسلمان پر لگائی گئی [[تہمت]] کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کام پر سرزنش کی گئی ہے۔ مذکورہ آیات کی [[تفسیر قرآن|تفسیر]] میں مفسرین نے جو [[اسباب نزول|شأن نزول]] بیان کیا ہے اس سے قطع نظر خود آیات سے یہ بات دریافت کیا جا سکتا ہے کہ جس فرد پر یہ تہمت لگائی گئی تھی وہ کوئی معمولی شخصیت نہیں تھی بلکہ ان کا تعلق [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] کے گھرانے سے تھا اور تہمت لگانے والے بھی ایک گروہ تھے نہ ایک یا دو شخص۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۵، ص ۸۹۔</ref> | ||
مذکورہ آیات میں تہمت لگانے والوں کو سخت عذاب کا وعدہ دینے کے ساتھ ساتھ [[ایمان|مومنین]] کو بھی اس قسم کی شایعات کو بغیر کسی تحقیق کے قبول کرنے سے منع کیا گیا ہے۔<ref>مکارم شیرازی، الامثل، ۱۴۲۱ق، ج۱۱، ص ۴۶۔</ref> مذکورہ آیات کے آخری حصے میں [[خدا|خداوندعالم]] نے لوگوں کو کسی [[پاکدامن]] عورت پر فحاشی کی تہمت لگانے سے سختی سے منع کرتے ہوئے پاکدامن عورتوں کو ایسی تہمتوں سی مبراء قرار دیا گیا ہے۔<ref>سورہ نور، آیات ۲۰ تا ۲۶۔</ref> | |||
== | ==تفصیلات== | ||
=== پہلا احتمال === | |||
اکثر [[تفسیر قرآن|مفسرین]] اور مورخین کے مطابق ان آیات میں سنہ 5 ہجری قمری کو پیش آنے والے ایک واقعے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] کے بعض [[صحابہ]]، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ افراد منافقین میں سے تھے، [[حضرت عایشہ]]، [[زوجہ پیغمبرؐ]] پر بے عفتی کی تہمت لگائی یہاں تک کہ [[قرآن|قرآن کریم]] نے مذکورہ [[آیت|آیات]] کے ذریعے اس تہمت کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے پاکدامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانے کو [[گناہ کبیرہ]] میں شمار کیا گیا ہے۔ [[اہل سنت]] حضرت عایشہ کی شان میں ان آیات کے نازل ہونے کو ان کیلئے ایک فضیلت کے طور پر ذکر کرتے ہیں۔<ref>فخررازی، التفسیر الکبیر، بیروت، ج۲۳، ص ۱۷۳؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، بیروت، ج۵، ص۵۰۴۔</ref> | |||
<!-- | |||
ماجرا بر اساس روایت مشہوری کہ از خود عایشہ نقل شدہ و تقریبا در بیشتر منابع تاریخ اسلام بہ شکل مشابہی بازگو شدہ چنین است: در بازگشت از [[غزوہ بنی مصطلق|غزوہ بنی مُصطَلِق]] و ہنگامی کہ کاروانیان برای استراحت توقف کردہ بودند، عایشہ برای قضای حاجت از لشکرگاہ فاصلہ گرفت و چون گردنبد خود را گم کرد، مدتی مشغول یافتن آن شد در حالی کہ لشکریان کہ از غیبت وی اطلاع نداشتند، بہ راہ افتادہ و کجاوہ وی را بہ تصور اینکہ عایشہ در آن است ہمراہ خود بردند۔ عایشہ کہ با بازگشت بہ لشکرگاہ آنجا را خالی یافت در ہمان مکان ماند تا اینکہ فردی بہ نام صفوان بن معطَّل بہ او رسید و شترش را در اختیار عایشہ قرار داد و او را ہمراہ خود بہ لشکریان رساند۔ بر اساس این روایت، عایشہ کہ بعد از بازگشت از این سفر در بستر بیماری بود متوجہ تغییر رفتار [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیامبر(ص]]) با خود شد و بعد از مدتی اطلاع یافت کہ دربارہ ارتباط او با صفوان بن معطل شایعاتی در بین مردم پراکندہ شدہ است۔ پس از مدتی آیات قرآن در سرزنش تہمتزنندگان نازل شد و پیامبر(ص) این آیات را بین مردم قرائت فرمود۔<ref>ابن ہشام، سیرہ النبویہ، بیروت، ج۲، ص ۲۹۷-۳۰۲ واقدی، المغازی، ۱۴۱۴ق، ص۴۲۶-۴۳۵۔ </ref> | ماجرا بر اساس روایت مشہوری کہ از خود عایشہ نقل شدہ و تقریبا در بیشتر منابع تاریخ اسلام بہ شکل مشابہی بازگو شدہ چنین است: در بازگشت از [[غزوہ بنی مصطلق|غزوہ بنی مُصطَلِق]] و ہنگامی کہ کاروانیان برای استراحت توقف کردہ بودند، عایشہ برای قضای حاجت از لشکرگاہ فاصلہ گرفت و چون گردنبد خود را گم کرد، مدتی مشغول یافتن آن شد در حالی کہ لشکریان کہ از غیبت وی اطلاع نداشتند، بہ راہ افتادہ و کجاوہ وی را بہ تصور اینکہ عایشہ در آن است ہمراہ خود بردند۔ عایشہ کہ با بازگشت بہ لشکرگاہ آنجا را خالی یافت در ہمان مکان ماند تا اینکہ فردی بہ نام صفوان بن معطَّل بہ او رسید و شترش را در اختیار عایشہ قرار داد و او را ہمراہ خود بہ لشکریان رساند۔ بر اساس این روایت، عایشہ کہ بعد از بازگشت از این سفر در بستر بیماری بود متوجہ تغییر رفتار [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیامبر(ص]]) با خود شد و بعد از مدتی اطلاع یافت کہ دربارہ ارتباط او با صفوان بن معطل شایعاتی در بین مردم پراکندہ شدہ است۔ پس از مدتی آیات قرآن در سرزنش تہمتزنندگان نازل شد و پیامبر(ص) این آیات را بین مردم قرائت فرمود۔<ref>ابن ہشام، سیرہ النبویہ، بیروت، ج۲، ص ۲۹۷-۳۰۲ واقدی، المغازی، ۱۴۱۴ق، ص۴۲۶-۴۳۵۔ </ref> | ||
سطر 46: | سطر 48: | ||
--> | --> | ||
==حوالہ جات== | ==حوالہ جات== | ||
{{حوالہ جات}} | {{حوالہ جات}} |