مندرجات کا رخ کریں

"حضرت نوح" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 54: سطر 54:
#ایران کے شہر ہمدان میں نہاوند کے مقام پر: ایک تحقیق جس کا عنوان "نوح اور نوحاوند" ہے کے مطابق حضرت نوح کی قبر اور ان کی کشتی زمین پر بیٹھنے کی جگہ نہاوند ہے۔<ref>افراسیاب‌پور، «نوح و نوحاوند (؟)»، در مجلہ فرہنگان، ش ۵، صص ۱۱۸-۱۴۲۔</ref>
#ایران کے شہر ہمدان میں نہاوند کے مقام پر: ایک تحقیق جس کا عنوان "نوح اور نوحاوند" ہے کے مطابق حضرت نوح کی قبر اور ان کی کشتی زمین پر بیٹھنے کی جگہ نہاوند ہے۔<ref>افراسیاب‌پور، «نوح و نوحاوند (؟)»، در مجلہ فرہنگان، ش ۵، صص ۱۱۸-۱۴۲۔</ref>


==نبوت==<!--
==نبوت==
حضرت نوح بعد از [[حضرت آدم]]، [[شیث]] و [[ادریس]]، چہارمین پیامبر دانستہ شدہ است۔<ref>بیومی مہران، بررسی تاریخی قصص قرآن، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۳؛ النجار، قصص الانبیاء، ۱۴۰۶ق، ص۳۰۔</ref> وی ہمچنین بر اساس آنچہ در آیہ ہفتم [[سورہ احزاب]] و آیہ ۱۳ [[سورہ شوری]] آمدہ، اولین پیامبر [[اولوالعزم]] می‌باشد۔ بسیاری از مفسران معتقدند کہ پنج پیامبر مذکور در این دو آیہ، مقام رفیعی دارند؛ چرا کہ آنان پیامبران اولوالعزم، صاحب [[شریعت]] و کتاب ہستند۔<ref>ماتریدی، تأویلات أہل السنۃ، ۱۴۲۶ق، ج۸، ص۳۵۹؛ ثعلبی، الكشف و البیان المعروف تفسیر الثعلبی‌، ۱۴۲۲ق، ج۸، ص۱۰؛ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج‌ ۱۶، ص۲۷۸؛ الفرقان فی تفسیر القرآن بالقرآن و السنہ، ج‌ ۲۴، ص۴۶؛ صادقی، الفرقان فی تفسیر القرآن بالقرآن و السنہ، ۱۴۰۶ق، ج‌ ۲۴، ص۴۶۔</ref>  
حضرت نوح کو [[حضرت آدم]]، [[شیث]] اور [[ادریس]] کے بعد چوتھا پیغمبر جانا جاتا ہے۔<ref>بیومی مہران، بررسی تاریخی قصص قرآن، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۳؛ النجار، قصص الانبیاء، ۱۴۰۶ق، ص۳۰۔</ref> [[سورہ احزاب]] کی آیت نمبر 7 اور [[سورہ شوری]] کی آیت نمبر 13 کے مطابق آپ پہلے  [[اولوالعزم]] پیغمبر ہیں۔ بہت سارے مفسرین معتقد ہیں کہ ان دو مذکورہ آیات میں مذکور انبیاء خاص مقام و منصب پر فائز ہیں کیونکہ یہ اولوالعزم اور صاحب کتاب و [[شریعت]] ہستیاں ہیں۔<ref>ماتریدی، تأویلات أہل السنۃ، ۱۴۲۶ق، ج۸، ص۳۵۹؛ ثعلبی، الكشف و البیان المعروف تفسیر الثعلبی‌، ۱۴۲۲ق، ج۸، ص۱۰؛ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج‌ ۱۶، ص۲۷۸؛ الفرقان فی تفسیر القرآن بالقرآن و السنہ، ج‌ ۲۴، ص۴۶؛ صادقی، الفرقان فی تفسیر القرآن بالقرآن و السنہ، ۱۴۰۶ق، ج‌ ۲۴، ص۴۶۔</ref>  


در مورد زمان مبعوث شدن نوح نیز اختلاف است۔<ref>رک: جدول بخش عمر۔</ref>بنابر آیات قرآن کریم، نوح (ع) در طول مدت پیامبری خود قبل از [[طوفان نوح|طوفان]]، قوم خود را بہ پرستش خدای یکتا دعوت می‌کرد۔<ref>سورہ نوح، آیہ ۵-۱۰۔</ref> بر اساس آیہ ۲۳ [[سورہ نوح]]، قوم نوح، [[بت‌|بت‌ہایی]] با نام‌ہای «ود»، «سواع»، «یغوث»، «یعوق» و «نسر» را می‌پرستیدند۔<ref>سورہ نوح، آیہ ۲۳۔</ref>  نوح برای ہدایت قومش تلاش زیادی کرد اما در نہایت تعداد کمی بہ او ایمان آوردند۔<ref>سورہ نوح، آیہ ۵-۱۵۔</ref>
حضرت نوح کے مبعوث برسالت ہونے کی تاریخ کے بارے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔<ref>رک: جدول بخش عمر۔</ref> قرآن کریم کے مطابق حضرت نوحؑ نے اپنی نبوت کے دوران [[طوفان نوح|طوفان]] سے پہلے اپنی قوم کو یکتا پرستی کی طرف دعوت دی۔<ref>سورہ نوح، آیہ ۵-۱۰۔</ref> [[سورہ نوح]] کی آیت نمبر 23 کے مطابق قوم نوح [[بت‌]] پرست تھے اور "ود"، "سواع"، "یغوث"، "یعوق" اور "نسر" نامی مختلف بتوں کی پوجا کرتے تھے۔<ref>سورہ نوح، آیہ ۲۳۔</ref>  حضرت نوح نے اپنی قوم کی ہدایت کیلئے بہت کوششیں کیں لیکن آخر کار بہت قلیل تعداد میں لوگوں نے ان پر ایمان لے آئے۔<ref>سورہ نوح، آیہ ۵-۱۵۔</ref>


بہ نظر اکثر علمای شیعہ و بر اساس [[روایات]] [[اہل بیت (ع)]] دعوت و پیامبری نوح جہانی بودہ است۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ۱۰، ص۱۰۲ و ۲۶۰۔</ref> با این حال برخی از علمای [[اہل سنت]] معتقدند کہ دعوت نوح جہانی نبودہ و فقط برای قوم خود یعنی قوم کلدہ و آشور کہ در [[فلسطین]]، [[شامات]] و [[عراق]] سکونت داشتند، مبعوث شدہ بود۔<ref>ندایی، تاریخ انبیاء از آدم تا خاتم، ۱۳۸۹ش، ص۴۸؛ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ۱۰، ص۲۶۰-۲۶۲۔</ref>   
اکثر شیعہ علماء کے مطابق [[اہل بیتؑ]] سے منقول [[روایات]] سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت نوح کی نبوت اور رسالت بھی جہانی تھی۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ۱۰، ص۱۰۲ و ۲۶۰۔</ref> لیکن بعض [[اہل سنت]] علماء معتقد ہیں کہ ان کی دعوت جہانی نہیں بلکہ فقط اپنی قوم کلدہ اور آشور کے ساتھ مختص تھی جو [[فلسطین]]، [[شامات]] اور [[عراق]] میں سکونت پذیر تھے۔<ref>ندایی، تاریخ انبیاء از آدم تا خاتم، ۱۳۸۹ش، ص۴۸؛ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ۱۰، ص۲۶۰-۲۶۲۔</ref>   


[[علامہ طباطبایی]] در تفسیر آیات ۱۹ تا ۳۵ [[سورہ ہود]] با بیان برخی از انذارہای حضرت نوح(مانند انذار از شرک و بت پرستی) و ہمچنین دلایل مشرکان برای رد دعوت او (مانند بشر بودن پیامبر مانند آنہا، اتہام دروغگویی بہ پیامبر) و پاسخ‌ہای او (عدم دریافت مال و پول در ازاء ہدایت و پیامبری)، بہ مشابہت و ہمانندی انذارہا و احتجاجات نوح (ع) با قوم خود، با انذارہا و احتجاجات پیغمبر  اسلام (ص) با مشركین زمان خود اشارہ کردہ است۔ او معتقد است چون حجت‌ہا و انذارہای این دو پیامبر یکی بود، خداوند در قرآن کریم داستان پیامبر و اتہاماتی کہ مشرکان مکہ بہ او می‌زدند را عطف بہ داستان حضرت نوح مطرح کردہ است۔ <ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۰، ص۲۱۰-۲۱۹۔</ref> این مشابہت و ہمانندی را مفسران و پژوہشگران دیگر نیز تایید کردہ‌اند۔<ref>بیومی مہران، بررسی تاریخی قصص قرآن، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۹-۱۶۔</ref>  
[[علامہ طباطبایی]] [[سورہ ہود]] کی آیت 19 سے 35 کی تفسیر کے دوران حضرت نوحؑ کی بعض وعظ و نصائح(مانند شرک اور بت پرستی سے منع کرنا) نیز ان کی دعوت کے رد میں مشرکین کی طرف سے پیش کرنے والے دلائل(جیسے نوح کا ان کی طرح بشر ہونا اور جھوٹ کا الزام) اسی طرح حضرت نوح کی طرف سے ان کو دئے گئے جوابات(نبوت اور رسالت کے عوض کوئی مزدوری وغیره کا دریافت نہ کرنا) وغیره بہت زیادہ مشابہت رکھتے ہیں ہمارے نبی حضرت محمدؐ کے ساتھ، ان کے بقول چونکہ ان دو پیغمبروں کے احتجاجات اور وعظ و نصائح تقریبا ایک جیسے ہیں نیز خدا نے بھی حضرت محمدؐ پر مشرکین مکہ کی طرف سے لگائے الزامات کو حضرت نوح کی داستان میں ان پر لگائے گئے الزامات پر عطف کیا ہے۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۰، ص۲۱۰-۲۱۹۔</ref> اسی مشابہت اور ہمانندی کو دوسرے مفسرین اور محققین نے بھی تائید کی ہیں۔<ref>بیومی مہران، بررسی تاریخی قصص قرآن، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۹-۱۶۔</ref>  


==عمر طولانی==
==طولانی عمر==<!--
[[قرآن|قرآن کریم]] در آیہ ۱۴ [[سورہ عنکبوت]]، مدت زندگی حضرت نوح قبل از [[طوفان نوح|طوفان]] را ۹۵۰ سال دانستہ و چون سخنی از کل عمر نوح بہ میان نیامدہ‌، در خصوص سن او اختلاف است۔<ref>ابن‌کثیر، قصص الانبیاء، ص۶۵۔</ref> مدت عمر نوح بہ عنوان شیخ‌الانبیاء از ۹۳۰ سال تا ۲۵۰۰ سال در منابع تاریخ از جملہ تورات مطرح شدہ است۔ در مورد اتفاقات دیگری زندگی نوح مانند زمان مبعوث شدن، مدت زمانی زندگی او بعد از طوفان و ۔۔۔ ہمچون مدت زمان عمر او اختلاف فراوانی وجود دارد۔ ۔<ref>قطب راوندی، قصص الانبیاء (ع)، ۱۴۳۰ق،ج۱، ص۲۵۷-۲۵۹؛ جزایری، النور المبین فی قصص الأنبیاء و المرسلین، (قصص قرآن)، ۱۳۸۱، ص۱۱۱؛ طبری، تاریخ طبری، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۱۱۷؛ كاتب واقدی، الطبقات‌ الكبری، ۱۳۷۴ش ،ج‌۱،ص ۲۵؛ مستوفی قزوینی، تاریخ‌ گزیدہ،۱۳۶۴ ش، ص۲۴؛ بن‌کثیر، قصص الانبیاء، ص۹۲؛ مقدسی، آفرینش و تاریخ، ۱۳۷۴ش، ج۱، ص۴۲۳۔</ref>   
[[قرآن|قرآن کریم]] در آیہ ۱۴ [[سورہ عنکبوت]]، مدت زندگی حضرت نوح قبل از [[طوفان نوح|طوفان]] را ۹۵۰ سال دانستہ و چون سخنی از کل عمر نوح بہ میان نیامدہ‌، در خصوص سن او اختلاف است۔<ref>ابن‌کثیر، قصص الانبیاء، ص۶۵۔</ref> مدت عمر نوح بہ عنوان شیخ‌الانبیاء از ۹۳۰ سال تا ۲۵۰۰ سال در منابع تاریخ از جملہ تورات مطرح شدہ است۔ در مورد اتفاقات دیگری زندگی نوح مانند زمان مبعوث شدن، مدت زمانی زندگی او بعد از طوفان و ۔۔۔ ہمچون مدت زمان عمر او اختلاف فراوانی وجود دارد۔ ۔<ref>قطب راوندی، قصص الانبیاء (ع)، ۱۴۳۰ق،ج۱، ص۲۵۷-۲۵۹؛ جزایری، النور المبین فی قصص الأنبیاء و المرسلین، (قصص قرآن)، ۱۳۸۱، ص۱۱۱؛ طبری، تاریخ طبری، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۱۱۷؛ كاتب واقدی، الطبقات‌ الكبری، ۱۳۷۴ش ،ج‌۱،ص ۲۵؛ مستوفی قزوینی، تاریخ‌ گزیدہ،۱۳۶۴ ش، ص۲۴؛ بن‌کثیر، قصص الانبیاء، ص۹۲؛ مقدسی، آفرینش و تاریخ، ۱۳۷۴ش، ج۱، ص۴۲۳۔</ref>   


confirmed، templateeditor
7,304

ترامیم