"حضرت نوح" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
←تعارف
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) م (←تعارف) |
||
سطر 44: | سطر 44: | ||
حضرت نوح کے مدفن کے بارے میں کئی احتمال دیا جاتا ہے: | حضرت نوح کے مدفن کے بارے میں کئی احتمال دیا جاتا ہے: | ||
#[[موصل]] میں | #[[موصل]] میں کوہ جودى کے قریب [قریہ ثمانین نامی مقام پر | ||
# | #نخجوان | ||
#[[ہندوستان]] میں کوہ بوذ کے مقام پر | #[[ہندوستان]] میں کوہ بوذ کے مقام پر | ||
#[[مکہ]] میں [[زمزم]]، [[رکن]] اور [[مقام ابراہیم|مقام]] درمیان | #[[مکہ]] میں [[زمزم]]، [[رکن]] اور [[مقام ابراہیم|مقام]] درمیان | ||
#[[کوفہ|کوفہ]] | #[[کوفہ|کوفہ]] | ||
#[[لبنان]] کے شہر [[بعلبک]] میں کَرَک کے مقام پر حضرت نوح اور ان کے بیٹے سے منسوب ایک مقبرہ ہے۔ | #[[لبنان]] کے شہر [[بعلبک]] میں کَرَک کے مقام پر حضرت نوح اور ان کے بیٹے سے منسوب ایک مقبرہ ہے۔ | ||
#مغارہ قدس، [[حضرت آدم علیہ السلام|آدم]]، [[سام]]، [[حضرت ابراہیم علیہ السلام|ابراہیم]]، [[اسحاق (پیغمبر)|اسحاق]] اور [[یعقوبؑ]] کے قبر کے نزدیک۔ | #مغارہ قدس، [[حضرت آدم علیہ السلام|آدم]]، [[سام (پیغمبر)|سام]]، [[حضرت ابراہیم علیہ السلام|ابراہیم]]، [[اسحاق (پیغمبر)|اسحاق]] اور [[یعقوبؑ]] کے قبر کے نزدیک۔ | ||
#[[نجف|نجف اشرف]] میں [[حضرت آدم]] اور [[امام علىؑ]] کے قبر مطہر کے نزدیک۔<ref>بیآزار شیرازی، باستانشناسی و جغرافیای تاریخی قصص قرآن، ۱۳۸۰ش، ص۴۶؛ نک: نصر اللہ، تریخ کرک نوح، ۱۴۰۶ ق؛ نک:ابن کثیر، قصص الانبیاء، ۱۴۱۱ق، ص۹۳۔</ref> | #[[نجف|نجف اشرف]] میں [[حضرت آدم]] اور [[امام علىؑ]] کے قبر مطہر کے نزدیک۔<ref>بیآزار شیرازی، باستانشناسی و جغرافیای تاریخی قصص قرآن، ۱۳۸۰ش، ص۴۶؛ نک: نصر اللہ، تریخ کرک نوح، ۱۴۰۶ ق؛ نک:ابن کثیر، قصص الانبیاء، ۱۴۱۱ق، ص۹۳۔</ref> | ||
#ایران کے شہر ہمدان میں نہاوند کے مقام پر: ایک تحقیق جس کا عنوان "نوح اور نوحاوند" ہے کے مطابق حضرت نوح کی قبر اور ان کی کشتی زمین پر بیٹھنے کی جگہ نہاوند ہے۔<ref>افراسیابپور، «نوح و نوحاوند (؟)»، در مجلہ فرہنگان، ش ۵، صص ۱۱۸-۱۴۲۔</ref> | #ایران کے شہر ہمدان میں نہاوند کے مقام پر: ایک تحقیق جس کا عنوان "نوح اور نوحاوند" ہے کے مطابق حضرت نوح کی قبر اور ان کی کشتی زمین پر بیٹھنے کی جگہ نہاوند ہے۔<ref>افراسیابپور، «نوح و نوحاوند (؟)»، در مجلہ فرہنگان، ش ۵، صص ۱۱۸-۱۴۲۔</ref> |