گمنام صارف
"عبد اللہ بن عمر" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Jaravi مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
imported>Jaravi مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 1: | سطر 1: | ||
{{زیر تعمیر}} | {{زیر تعمیر}} | ||
'''عبداللہ بن عمر بن خطاب''' یا ابن عمر (٣ بعثت-٧٣ہجری) پیغمبر(ص) کا صحابی اور دوسرے خلیفہ کا بیٹا تھا. وہ دس سال کی عمر میں اپنے والد کے ساتھ مسلمان ہوا اور اس سے پہلے مدینہ ہجرت کی. اہل سنت کے مآخذ میں اسے سادہ اور کمزور شخصیت کا مالک کہا گیا ہے جو ظالم حاکم کے خلاف اعتراض کرنے کو جائز نہیں سمجھتا تھا. اس نے پیغمبر اکرم(ص) کے بعد تین خلیفہ کے ساتھ بیعت کی. عمر نے اپنے بعد خلیفہ مقرر کرنے کا کام اس کے سپرد کیا. عثمان نے اسے قضاوت کا مشورہ دیا لیکن اس نے قبول نہ کیا. عبداللہ نے حضرت علی(ع) کے دور خلافت میں اگرچہ آپ(ع) کی بہت فضیلتوں کو بیان کیا لیکن آپ(ع) سے بیعت نہ کی اور یزید بن معاویہ کے ساتھ بیعت کر لی. جب امام حسین(ع) کوفہ کی طرف جا رہے تھے تو اس نے آپ(ع) کو یزید کے ساتھ جنگ کرنے سے منع کیا لیکن امام(ع) نے قبول نہ کیا. ابن عمر آخر سنہ ٧٣ہجری کو ٨٤ سال کی عمر میں اس دنیا سے چل بسا اور فخ کے علاقے، مہاجران قبرستان میں دفن ہوا. | '''عبداللہ بن عمر بن خطاب''' یا ابن عمر (٣ بعثت-٧٣ہجری) [[پیغمبر(ص)]] کا [[صحابی]] اور دوسرے [[خلیفہ]] کا بیٹا تھا. وہ دس سال کی عمر میں اپنے والد کے ساتھ [[مسلمان]] ہوا اور اس سے پہلے [[مدینہ]] [[ہجرت]] کی. اہل سنت کے مآخذ میں اسے سادہ اور کمزور شخصیت کا مالک کہا گیا ہے جو ظالم حاکم کے خلاف اعتراض کرنے کو جائز نہیں سمجھتا تھا. اس نے پیغمبر اکرم(ص) کے بعد تین خلیفہ کے ساتھ بیعت کی. عمر نے اپنے بعد خلیفہ مقرر کرنے کا کام اس کے سپرد کیا. عثمان نے اسے قضاوت کا مشورہ دیا لیکن اس نے قبول نہ کیا. عبداللہ نے [[حضرت علی(ع)]] کے دور خلافت میں اگرچہ آپ(ع) کی بہت فضیلتوں کو بیان کیا لیکن آپ(ع) سے [[بیعت]] نہ کی اور یزید بن معاویہ کے ساتھ بیعت کر لی. جب [[امام حسین(ع)]] [[کوفہ]] کی طرف جا رہے تھے تو اس نے آپ(ع) کو یزید کے ساتھ جنگ کرنے سے منع کیا لیکن امام(ع) نے قبول نہ کیا. ابن عمر آخر سنہ ٧٣ہجری کو ٨٤ سال کی عمر میں اس دنیا سے چل بسا اور فخ کے علاقے، مہاجران قبرستان میں دفن ہوا. | ||
==شخصیت== | ==شخصیت== | ||
"عبداللہ بن عمر بن خطاب" یا "ابن عمر" پیغمبر اکرم(ص) کا صحابی، دوسرے خلیفہ کا فرزند اور پیغمبر(ص) کی زوجہ کا بھائی تھا. <ref>ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ۱۴۰۹ق، ج ۳، ص ۲۳۶.</ref> اس کی کنیت عبدالرحمن تھی اور بعثت کے تیسرے سال پیدا ہوا. <ref> ابن حجر، الاصابہ، ۱۴۱۵ق، ج ۴، ص ۱۵۶.</ref> اس کی والدہ مظعون کی بیٹی جس کا نام زینب تھا. کہا گیا ہے کہ وہ اپنے والد کے ہمراہ دس سال کی عمر میں مسلمان ہوا اور اس سے پہلے مدینہ ہجرت کی. بعض کی نظر میں اس کے اسلام لانے کی عمر میں اختلاف پایا جاتا ہے. <ref> ابن عبدالبر،الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، ۱۴۱۲ق، ج ۳، ص ۹۵۰.</ref> | "عبداللہ بن عمر بن خطاب" یا "ابن عمر" [[پیغمبر اکرم(ص)]] کا صحابی، دوسرے [[خلیفہ]] کا فرزند اور پیغمبر(ص) کی زوجہ کا بھائی تھا. <ref>ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ۱۴۰۹ق، ج ۳، ص ۲۳۶.</ref> اس کی کنیت عبدالرحمن تھی اور بعثت کے تیسرے سال پیدا ہوا. <ref> ابن حجر، الاصابہ، ۱۴۱۵ق، ج ۴، ص ۱۵۶.</ref> اس کی والدہ مظعون کی بیٹی جس کا نام [[زینب]] تھا. کہا گیا ہے کہ وہ اپنے والد کے ہمراہ دس سال کی عمر میں مسلمان ہوا اور اس سے پہلے مدینہ ہجرت کی. بعض کی نظر میں اس کے اسلام لانے کی عمر میں اختلاف پایا جاتا ہے. <ref> ابن عبدالبر،الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، ۱۴۱۲ق، ج ۳، ص ۹۵۰.</ref> | ||
ابن عمر اپنی زندگی میں بڑی احتیاط کرتا، اسی وجہ سے فتوا دینے میں بہت احتیاط سے کام لیتا تھا. <ref>ابن عبدالبر،الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، ۱۴۱۲ق، ج ۳، ص ۹۵۱.</ref> اہل سنت کے مآخذ میں اسے ایک کمزور <ref> ابن قتيبۃ الدينوري، الإمامۃوالسياسۃ، ۱۴۱۰ق، ج ۱، ص ۷۳.</ref> اور سادہ شخصیت کا مالک کہا گیا ہے <ref> ابن اثیر، الكامل، ۱۳۸۵ق، ج ۴، ص ۶.</ref> جسے لوگوں کا حکومت کے خلاف آواز اٹھانا پسند نہیں تھا حتی کہ ظالم حکومت پر اعتراض کرنے کو بھی جائز نہیں سمجھتا تھا. <ref> ابن سعد، الطبقات الكبرى،۱۴۱۰ق، ج ۴، ص ۱۶۴.</ref> اور کہتا تھا مجھے اختلافات کی جنگ پسند نہیں ہے اور جس کی بھی جیت ہو میں اسی کے پیچھے نماز پڑھوں گا. <ref> ابن سعد، الطبقات الكبرى،۱۴۱۰ق، ج ۴، ص ۱۳۳.</ref> | ابن عمر اپنی زندگی میں بڑی احتیاط کرتا، اسی وجہ سے فتوا دینے میں بہت احتیاط سے کام لیتا تھا. <ref>ابن عبدالبر،الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، ۱۴۱۲ق، ج ۳، ص ۹۵۱.</ref> [[اہل سنت]] کے مآخذ میں اسے ایک کمزور <ref> ابن قتيبۃ الدينوري، الإمامۃوالسياسۃ، ۱۴۱۰ق، ج ۱، ص ۷۳.</ref> اور سادہ شخصیت کا مالک کہا گیا ہے <ref> ابن اثیر، الكامل، ۱۳۸۵ق، ج ۴، ص ۶.</ref> جسے لوگوں کا حکومت کے خلاف آواز اٹھانا پسند نہیں تھا حتی کہ ظالم حکومت پر اعتراض کرنے کو بھی جائز نہیں سمجھتا تھا. <ref> ابن سعد، الطبقات الكبرى،۱۴۱۰ق، ج ۴، ص ۱۶۴.</ref> اور کہتا تھا مجھے اختلافات کی جنگ پسند نہیں ہے اور جس کی بھی جیت ہو میں اسی کے پیچھے [[نماز]] پڑھوں گا. <ref> ابن سعد، الطبقات الكبرى،۱۴۱۰ق، ج ۴، ص ۱۳۳.</ref> | ||
کہا گیا ہے کہ حکومت کے سلسلے میں، ابوموسی اشعری نے عبداللہ بن عمر کو خلیفہ مقرر کرنے کی تجویز پیش کی لیکن عمروعاص نے کہا کہ اس کی حکومت کی صلاحیت نہیں پائی جاتی. <ref> نصر بن مزاحم، وقعۃ صفين، ۱۴۰۴ق، ص ۵۴۲.</ref> | کہا گیا ہے کہ حکومت کے سلسلے میں، [[ابوموسی اشعری]] نے عبداللہ بن عمر کو [[خلیفہ]] مقرر کرنے کی تجویز پیش کی لیکن عمروعاص نے کہا کہ اس کی حکومت کی صلاحیت نہیں پائی جاتی. <ref> نصر بن مزاحم، وقعۃ صفين، ۱۴۰۴ق، ص ۵۴۲.</ref> | ||
==پیغمبر اکرم(ص) کا زمانہ== | ==پیغمبر اکرم(ص) کا زمانہ== | ||
عبداللہ بن عمر "جنگ بدر" اور "جنگ احد" کے وقت بچہ تھا، اسی وجہ سے پیغمبر اکرم(ص) نے اسے جنگ میں شرکت کی اجازت نہیں دی. خندق وہ پہلی جنگ تھی جس میں آپ(ص) نے اسے شرکت کی اجازت دی. وہ اس جنگ میں پندرہ سال کا تھا. اس کے بعد دوسری جنگوں میں بھی شرکت کی. <ref> ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ۱۴۰۹ق، ج ۳، ص ۲۳۷.</ref> اہل سنت کے تاریخی مآخذ میں بیان ہوا ہے کہ "جنگ موتہ" میں جب دشمن کی جیت کا احساس ہوا تو، عبداللہ بن عمر اور کچھ دوسرے مسلمان میدان جنگ کو چھوڑ کر مدینہ واپس چلے گئے. بھاگنے کے بعد پیغمبر اکرم(ص) سے معذرت کی اور آپ(ص) نے بھی معاف فرما دیا.<ref> ابن كثير، البدايۃ و النہايۃ، ۱۴۰۷ق، ج ۴، ص ۲۴۸.</ref> | عبداللہ بن عمر "[[جنگ بدر]]" اور "[[جنگ احد]]" کے وقت بچہ تھا، اسی وجہ سے پیغمبر اکرم(ص) نے اسے جنگ میں شرکت کی اجازت نہیں دی. | ||
[[جنگ خندق]] وہ پہلی جنگ تھی جس میں آپ(ص) نے اسے شرکت کی اجازت دی. وہ اس جنگ میں پندرہ سال کا تھا. اس کے بعد دوسری جنگوں میں بھی شرکت کی. <ref> ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ۱۴۰۹ق، ج ۳، ص ۲۳۷.</ref> [[اہل سنت]] کے تاریخی مآخذ میں بیان ہوا ہے کہ "[[جنگ موتہ]]" میں جب دشمن کی جیت کا احساس ہوا تو، عبداللہ بن عمر اور کچھ دوسرے مسلمان میدان جنگ کو چھوڑ کر مدینہ واپس چلے گئے. بھاگنے کے بعد پیغمبر اکرم(ص) سے معذرت کی اور آپ(ص) نے بھی معاف فرما دیا.<ref> ابن كثير، البدايۃ و النہايۃ، ۱۴۰۷ق، ج ۴، ص ۲۴۸.</ref> | |||
==پہلے تین خلیفہ کا زمانہ== | ==پہلے تین خلیفہ کا زمانہ== | ||
عبداللہ کو حکومت اور سیاست کے لئے مناسب نہ سمجھا گیا اسی لئے صرف کچھ جنگوں میں شرکت کے علاوہ اس کے بارے میں کوئی خاص خبر نہیں ملتی. پیغمبر اکرم(ص) کی رحلت کے بعد اور ابوبکر کے دور خلافت میں، وہ "سپاہ اسامہ" کا ایک فرد تھا. عمر نے اپنے بعد خلیفہ مقرر کرنے کے لئے ایک شورای تشکیل دی جس میں عبداللہ کو اپنا مشاور قرار دیا لیکن اسے اپنے بعد خلیفہ ہونے کی اجازت نہ دی. <ref> الطبري، تاريخ ،۱۳۸۷ق، ج ۴،ص ۲۲۹.</ref> اسی زمانے میں اس نے "جنگ نہاوند" اور "فتح مصر" میں شرکت کی. <ref>ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ۱۴۰۹ق، ج ۳، ص ۲۳۶.</ref> | عبداللہ کو حکومت اور سیاست کے لئے مناسب نہ سمجھا گیا اسی لئے صرف کچھ جنگوں میں شرکت کے علاوہ اس کے بارے میں کوئی خاص خبر نہیں ملتی. پیغمبر اکرم(ص) کی رحلت کے بعد اور [[ابوبکر]] کے دور خلافت میں، وہ "سپاہ اسامہ" کا ایک فرد تھا. [[عمر]] نے اپنے بعد خلیفہ مقرر کرنے کے لئے ایک شورای تشکیل دی جس میں عبداللہ کو اپنا مشاور قرار دیا لیکن اسے اپنے بعد خلیفہ ہونے کی اجازت نہ دی. <ref> الطبري، تاريخ ،۱۳۸۷ق، ج ۴،ص ۲۲۹.</ref> اسی زمانے میں اس نے "جنگ نہاوند" اور "فتح مصر" میں شرکت کی. <ref>ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ۱۴۰۹ق، ج ۳، ص ۲۳۶.</ref> | ||
تاریخ میں موجود ہے کہ عبداللہ نے کبھی بھی قضاوت نہ کی اور جب عثمان نے اسے مشورہ دیا، تو اس نے قضاوت کی مخالفت کی اور اسے قبول نہ کیا. <ref> ابن سعد، الطبقات الكبرى،۱۴۱۰ق، ج ۴، ص ۱۰۹.</ref> یزید بن ہارون نقل کرتا ہے کہ ابن عمر لوگوں کو کہتا تھا کہ میں جس کے ساتھ رہا ہوں وہ مجھ سے زیادہ سمجھدار تھا اور اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ کو میری قضاوت کی ضرورت ہے یا مجھ سے کوئی مسائل کے بارے میں سوال کرو گے، تو ضرور کچھ سیکھتا. <ref> ابن سعد، الطبقات الكبرى،۱۴۱۰ق، ج ۴، ص ۱۰۸.</ref> | تاریخ میں موجود ہے کہ عبداللہ نے کبھی بھی قضاوت نہ کی اور جب [[عثمان]] نے اسے مشورہ دیا، تو اس نے قضاوت کی مخالفت کی اور اسے قبول نہ کیا. <ref> ابن سعد، الطبقات الكبرى،۱۴۱۰ق، ج ۴، ص ۱۰۹.</ref> یزید بن ہارون نقل کرتا ہے کہ ابن عمر لوگوں کو کہتا تھا کہ میں جس کے ساتھ رہا ہوں وہ مجھ سے زیادہ سمجھدار تھا اور اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ کو میری قضاوت کی ضرورت ہے یا مجھ سے کوئی مسائل کے بارے میں سوال کرو گے، تو ضرور کچھ سیکھتا. <ref> ابن سعد، الطبقات الكبرى،۱۴۱۰ق، ج ۴، ص ۱۰۸.</ref> | ||
عثمان کے قتل کے بعد، بعض نے من جملہ مروان بن حکم نے اسے خلافت کا مشورہ دیا، تو اس نے جواب دیا کہ اگر بہت کم تعداد میں بھی لوگ میری خلافت کے خلاف ہوں تو میں اسے قبول نہیں کروں گا. <ref> ابن عبد البر، الاستيعاب فى معرفۃ الأصحاب، ۱۴۱۲ق، ج ۳، ص ۹۵۳.</ref> | عثمان کے قتل کے بعد، بعض نے من جملہ مروان بن حکم نے اسے خلافت کا مشورہ دیا، تو اس نے جواب دیا کہ اگر بہت کم تعداد میں بھی لوگ میری [[خلافت]] کے خلاف ہوں تو میں اسے قبول نہیں کروں گا. <ref> ابن عبد البر، الاستيعاب فى معرفۃ الأصحاب، ۱۴۱۲ق، ج ۳، ص ۹۵۳.</ref> | ||
==امام علی(ع) کا دور خلافت== | ==امام علی(ع) کا دور خلافت== | ||
جب امام علی(ع) خلافت پر آئے، تو عمار یاسر نے آپ(ع) سے اجازت لی تا کہ عبداللہ کے ساتھ بیعت کے سلسلے میں بات کرے. عبداللہ نے امام علی(ع) کی بہت زیادہ تعریف کی، لیکن آپ(ع) سے بیعت نہ کی. <ref>ابن قتيبۃ الدينوري، الإمامۃوالسياسۃ، ۱۴۱۰ق، ج ۱، ص ۷۳.</ref> عبداللہ کو زیادہ تر اپنی عبادت کی فکر رہتی تھی اور وہ اپنے اندر سماجی مسائل میں داخل ہونے کا شوق نہیں رکھتا تھا، اسی وجہ سے امام علی(ع) نے عمار کو حکم دیا کہ "عبداللہ" کو چھوڑ دو، وہ ایک کمزور انسان ہے. <ref>ابن قتيبۃ الدينوري، الإمامۃوالسياسۃ، ۱۴۱۰ق، ج ۱، ص ۷۳.</ref> اسی لئے جب کسی نے کہا کہ میں عبداللہ کی طرح کسی کام میں دخل اندازی نہیں کرتا، تو امام علی(ع) نے فرمایا کہ عبداللہ نے نہ تو حق کی مدد کی، اور نہ ہی باطل کو ختم کیا. <ref>شريف رضى، نہج البلاغۃ، ۱۴۱۴ق، ص ۵۲۱.</ref> | جب [[امام علی(ع)]] خلافت پر آئے، تو [[عمار یاسر]] نے آپ(ع) سے اجازت لی تا کہ عبداللہ کے ساتھ [[بیعت]] کے سلسلے میں بات کرے. عبداللہ نے امام علی(ع) کی بہت زیادہ تعریف کی، لیکن آپ(ع) سے بیعت نہ کی. <ref>ابن قتيبۃ الدينوري، الإمامۃوالسياسۃ، ۱۴۱۰ق، ج ۱، ص ۷۳.</ref> عبداللہ کو زیادہ تر اپنی عبادت کی فکر رہتی تھی اور وہ اپنے اندر سماجی مسائل میں داخل ہونے کا شوق نہیں رکھتا تھا، اسی وجہ سے امام علی(ع) نے عمار کو حکم دیا کہ "عبداللہ" کو چھوڑ دو، وہ ایک کمزور انسان ہے. <ref>ابن قتيبۃ الدينوري، الإمامۃوالسياسۃ، ۱۴۱۰ق، ج ۱، ص ۷۳.</ref> اسی لئے جب کسی نے کہا کہ میں عبداللہ کی طرح کسی کام میں دخل اندازی نہیں کرتا، تو امام علی(ع) نے فرمایا کہ عبداللہ نے نہ تو حق کی مدد کی، اور نہ ہی باطل کو ختم کیا. <ref>شريف رضى، نہج البلاغۃ، ۱۴۱۴ق، ص ۵۲۱.</ref> | ||
ابن عمر نے اگرچہ امام علی(ع) کی بیعت نہ کی لیکن آپ(ع) کے مخالفین کی صف میں بھی داخل نہ ہوا. اور امام(ع) کے مخالفین کی حمایت نہ کی. <ref>ابن عثم، الفتوح،۱۴۱۱ق، ج ۲،ص ۵۲۹.</ref> بعض اہل سنت کے مآخذ میں ذکر ہوا ہے کہ عبداللہ اپنی زندگی کے آخری حصے میں اس وجہ سے بہت غمگین اور پریشان تھا کہ امام علی(ع) کی حمایت کیوں نہیں کی اور کہتا تھا "اپنے کسی بھی کام پر نادم اور پشیمان نہیں ہوں، سوائے اس کہ، کہ امام علی(ع) کے ہمراہ فتنہ گر افراد کے خلاف جنگ نہ کر سکا" <ref> ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ۱۴۰۹ق، ج ۳، ص ۲۳۸.</ref> | ابن عمر نے اگرچہ [[امام علی(ع)]] کی بیعت نہ کی لیکن آپ(ع) کے مخالفین کی صف میں بھی داخل نہ ہوا. اور امام(ع) کے مخالفین کی حمایت نہ کی. <ref>ابن عثم، الفتوح،۱۴۱۱ق، ج ۲،ص ۵۲۹.</ref> بعض اہل سنت کے مآخذ میں ذکر ہوا ہے کہ عبداللہ اپنی زندگی کے آخری حصے میں اس وجہ سے بہت غمگین اور پریشان تھا کہ امام علی(ع) کی حمایت کیوں نہیں کی اور کہتا تھا "اپنے کسی بھی کام پر نادم اور پشیمان نہیں ہوں، سوائے اس کہ، کہ امام علی(ع) کے ہمراہ فتنہ گر افراد کے خلاف جنگ نہ کر سکا" <ref> ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ۱۴۰۹ق، ج ۳، ص ۲۳۸.</ref> | ||
==امام حسین(ع) کو جنگ سے منع کرنا== | ==امام حسین(ع) کو جنگ سے منع کرنا== | ||
عبداللہ حق اور باطل میں مقابلے میں خاموشی اخیتار کرتا تھا اور کہتا تھا حتی کہ ظالم حکومت کے خلاف بھی آواز اٹھانا جائز نہیں ہے. اس نے امام حسین(ع) سے کہا کہ میں نے پیغمبر اکرم(ص) سے سنا ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا حسین(ع) کو شہید کر دیا جائے گا اور اسی لئے اس نے امام حسین(ع) کو کوفہ کی طرف جانے سے منع کیا اور مدینہ واپس لوٹنے کا مشورہ دیا لیکن امام(ع) نے قبول نہ کیا اور اپنے سفر کو جاری رکھا. اس وقت عبداللہ نے یزید سے بیعت کی ہوئی تھی اور اسے پیغمبر اکرم(ص) کا جانشین سمجھتا تھا. <ref> صدوق، امالي، ۱۳۷۶ش، ص ۱۵۳.</ref> | عبداللہ حق اور باطل میں مقابلے میں خاموشی اخیتار کرتا تھا اور کہتا تھا حتی کہ ظالم حکومت کے خلاف بھی آواز اٹھانا جائز نہیں ہے. اس نے [[امام حسین(ع)]] سے کہا کہ میں نے پیغمبر اکرم(ص) سے سنا ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا حسین(ع) کو شہید کر دیا جائے گا اور اسی لئے اس نے امام حسین(ع) کو کوفہ کی طرف جانے سے منع کیا اور مدینہ واپس لوٹنے کا مشورہ دیا لیکن امام(ع) نے قبول نہ کیا اور اپنے سفر کو جاری رکھا. اس وقت عبداللہ نے یزید سے بیعت کی ہوئی تھی اور اسے پیغمبر اکرم(ص) کا جانشین سمجھتا تھا. <ref> صدوق، امالي، ۱۳۷۶ش، ص ۱۵۳.</ref> | ||
==معاویہ کے نام خط== | ==معاویہ کے نام خط== | ||
عبداللہ نے معاویہ کو خط لکھا اور کہا: "تم نے سمجھا ہے کہ کیونکہ میں نے علی(ع) اور مہاجرین کو چھوڑ دیا اس لئے تمہارا ساتھ دوں گا، اور یہ جو کہا ہے کہ میں نے علی(ع) کی بیعت نہیں کی اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اس بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی کوئی وصیت مجھے یاد نہیں تھی اس لئے مجبوراً میں نے بے طرفی اختیار کی ہے اور خود سے کہا ہے کہ اگر یہ ہدایت کا راستہ ہے، تو زیادہ زیادہ یہی ہے کہ میں ثواب سے محروم ہو جاؤں گا، اور اگر گمراہی کا راستہ ہے، تو اس سے مجھے نجات مل جائے گی. اس لئے اس کے بعد مجھ سے کوئی امید نہ کرنا" <ref>ابن عثم، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۲،ص ۵۲۹.</ref> طبری نقل کرتا ہے کہ ابو موسی اشعری سے سوال کیا کہ کس شخص کو امت کی سرپرستی کے لئے انتخاب کیا جائے. اس سے عبداللہ بن عمر کا کہا لیکن عبداللہ نے یہ قبول نہ کیا اور کہا کہ میں معاویہ کو لوگوں کی سرپرستی کے لئے انتخاب کرتا ہوں. <ref> الطبري، تاريخ ،۱۳۸۷ق، ج ۵،ص ۵۸.</ref> | عبداللہ نے [[معاویہ]] کو خط لکھا اور کہا: "تم نے سمجھا ہے کہ کیونکہ میں نے علی(ع) اور مہاجرین کو چھوڑ دیا اس لئے تمہارا ساتھ دوں گا، اور یہ جو کہا ہے کہ میں نے علی(ع) کی بیعت نہیں کی اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اس بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی کوئی وصیت مجھے یاد نہیں تھی اس لئے مجبوراً میں نے بے طرفی اختیار کی ہے اور خود سے کہا ہے کہ اگر یہ ہدایت کا راستہ ہے، تو زیادہ زیادہ یہی ہے کہ میں ثواب سے محروم ہو جاؤں گا، اور اگر گمراہی کا راستہ ہے، تو اس سے مجھے نجات مل جائے گی. اس لئے اس کے بعد مجھ سے کوئی امید نہ کرنا" <ref>ابن عثم، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۲،ص ۵۲۹.</ref> طبری نقل کرتا ہے کہ [[ابو موسی اشعری]] سے سوال کیا کہ کس شخص کو امت کی سرپرستی کے لئے انتخاب کیا جائے. اس سے عبداللہ بن عمر کا کہا لیکن عبداللہ نے یہ قبول نہ کیا اور کہا کہ میں معاویہ کو لوگوں کی سرپرستی کے لئے انتخاب کرتا ہوں. <ref> الطبري، تاريخ ،۱۳۸۷ق، ج ۵،ص ۵۸.</ref> | ||
اسی طرح معاویہ نے خلافت کے بارے میں میں، اپنے بیٹے یزید سے کہا کہ مجھے چند افراد سے ڈر لگتا ہے کہ وہ خلافت کو لے لیں گے ان میں ایک عبداللہ بن عمر ہے اور اس کے بعد کہا، کہ عبداللہ نے عبادت اور پارسائی کو اپنا پیشہ بنایا ہوا ہے اس لئے اگر سب لوگ تمہاری بیعت کریں گے تو سب کے بعد، وہ بھی تمہاری بیعت کر لے گا. <ref>ابن اثیر، الكامل، ۱۳۸۵ق، ج ۴، ص ۶.</ref> | اسی طرح معاویہ نے [[خلافت]] کے بارے میں میں، اپنے بیٹے [[یزید]] سے کہا کہ مجھے چند افراد سے ڈر لگتا ہے کہ وہ خلافت کو لے لیں گے ان میں ایک عبداللہ بن عمر ہے اور اس کے بعد کہا، کہ عبداللہ نے عبادت اور پارسائی کو اپنا پیشہ بنایا ہوا ہے اس لئے اگر سب لوگ تمہاری بیعت کریں گے تو سب کے بعد، وہ بھی تمہاری بیعت کر لے گا. <ref>ابن اثیر، الكامل، ۱۳۸۵ق، ج ۴، ص ۶.</ref> | ||
==یزید کی بیعت== | ==یزید کی بیعت== | ||
معاویہ کی وفات کے بعد، مدینہ کے حاکم ولید بن عتبہ نے عبداللہ سے کہا کہ وہ یزید کے ساتھ بیعت کرے، عبداللہ نے کہا کہ اسے اختلاف پسند نہیں ہے، لیکن اگر سب لوگوں نے بیعت کر لی، تو وہ بھی کر لے گا اور چونکہ اس نے کوئی مخالفت نہ کی اس لئے اسے چھوڑ دیا گیا. <ref> الطبري، تاريخ ،۱۳۸۷ق، ج ۵،ص ۳۴۲.</ref> واقدی کہتا ہے "ولید بن عتبہ جب ابن زبیر اور حسین سے بیعت نہ لے سکا تو وہ رات کے وقت مکہ کی طرف روانہ ہوئے. راستے میں عبداللہ بن عمر نے انہیں دیکھا اور سوال کیا کہ مدینہ میں کیا خبر چل رہی ہے؟ انہوں نے کہا کہ معاویہ کی موت اور یزید کی بیعت. ابن عمر نے ان سے کہا کہ خدا سے ڈریں اور مسلمانوں کے اکٹھ کو نہ بکھیریں، اس کے بعد کچھ عرصہ تک مدینہ رہا اور جب دیکھا کہ مختلف شہروں کے لوگ یزید کے ساتھ بیعت کر رہے ہیں تو وہ بھی ولید کے پاس گیا اور بیعت کر لی." <ref> الطبري، تاريخ ،۱۳۸۷ق، ج ۵،ص ۳۴۳.</ref> اور کہا: "اگر (خیر) بھلائی ہے تو راضی ہیں اور اگر مصیبت ہے ہے تو صبر کریں گے". <ref> ابن سعد، الطبقات الكبرى،۱۴۱۰ق، ج ۴، ص ۱۶۴.</ref> | معاویہ کی وفات کے بعد، [[مدینہ]] کے حاکم ولید بن عتبہ نے عبداللہ سے کہا کہ وہ یزید کے ساتھ بیعت کرے، عبداللہ نے کہا کہ اسے اختلاف پسند نہیں ہے، لیکن اگر سب لوگوں نے بیعت کر لی، تو وہ بھی کر لے گا اور چونکہ اس نے کوئی مخالفت نہ کی اس لئے اسے چھوڑ دیا گیا. <ref> الطبري، تاريخ ،۱۳۸۷ق، ج ۵،ص ۳۴۲.</ref> واقدی کہتا ہے "ولید بن عتبہ جب ابن زبیر اور حسین سے بیعت نہ لے سکا تو وہ رات کے وقت مکہ کی طرف روانہ ہوئے. راستے میں عبداللہ بن عمر نے انہیں دیکھا اور سوال کیا کہ مدینہ میں کیا خبر چل رہی ہے؟ انہوں نے کہا کہ معاویہ کی موت اور یزید کی بیعت. ابن عمر نے ان سے کہا کہ خدا سے ڈریں اور مسلمانوں کے اکٹھ کو نہ بکھیریں، اس کے بعد کچھ عرصہ تک مدینہ رہا اور جب دیکھا کہ مختلف شہروں کے لوگ یزید کے ساتھ بیعت کر رہے ہیں تو وہ بھی ولید کے پاس گیا اور بیعت کر لی." <ref> الطبري، تاريخ ،۱۳۸۷ق، ج ۵،ص ۳۴۳.</ref> اور کہا: "اگر (خیر) بھلائی ہے تو راضی ہیں اور اگر مصیبت ہے ہے تو صبر کریں گے". <ref> ابن سعد، الطبقات الكبرى،۱۴۱۰ق، ج ۴، ص ۱۶۴.</ref> | ||
کچھ مدت کے بعد جب لوگوں نے یزید سے بیعت توڑ دی تو، عبداللہ نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ یزید کے ساتھ ہماری بیعت، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول(ص) کے ساتھ بیعت تھی اور میں نے پیغمبر اکرم(ص) سے سنا ہے کہ اگر کوئی اپنی بیعت کو توڑے گا تو اس کا ٹھکانا جہنم ہے. اسی لئے اگر کوئی یزید سے بیعت توڑے گا تو میرا اس کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں رہے گا.<ref> ابن سعد، الطبقات الكبرى،۱۴۱۰ق، ج ۴، ص ۱۶۴.</ref> | کچھ مدت کے بعد جب لوگوں نے یزید سے بیعت توڑ دی تو، عبداللہ نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ یزید کے ساتھ ہماری بیعت، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول(ص) کے ساتھ بیعت تھی اور میں نے پیغمبر اکرم(ص) سے سنا ہے کہ اگر کوئی اپنی بیعت کو توڑے گا تو اس کا ٹھکانا [[جہنم]] ہے. اسی لئے اگر کوئی یزید سے بیعت توڑے گا تو میرا اس کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں رہے گا.<ref> ابن سعد، الطبقات الكبرى،۱۴۱۰ق، ج ۴، ص ۱۶۴.</ref> | ||
اس کے بعد کہا گیا ہے کہ عبداللہ نے حجاج کے ساتھ بیعت کی، وہ رات کو تا کہ اسے لوگ نہ دیکھیں حجاج کے گھر بیعت کے لئے جاتا ہے اور حجاج بھی اسی لئے اپنے پاؤں کو کمبل سے باہر نکالتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ اس کے پاؤں کے ساتھ بیعت کرو. <ref> البلاذرى، انساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱۰، ص۴۴۷.</ref> | اس کے بعد کہا گیا ہے کہ عبداللہ نے حجاج کے ساتھ بیعت کی، وہ رات کو تا کہ اسے لوگ نہ دیکھیں حجاج کے گھر بیعت کے لئے جاتا ہے اور حجاج بھی اسی لئے اپنے پاؤں کو کمبل سے باہر نکالتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ اس کے پاؤں کے ساتھ بیعت کرو. <ref> البلاذرى، انساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱۰، ص۴۴۷.</ref> | ||
==علمائے اہل سنت کے قول== | ==علمائے اہل سنت کے قول== | ||
ابن عمر کی شخصیت اپنے والد کی طرح یہ تھی کہ وہ اہل سنت کے سیاسی اور دینی تفکرات کو خاص اہمیت دیتا تھا. وہ پیغمبر اکرم(ص) کے صحابی ہونے کے علاوہ، دوسرے خلیفہ کا فرزند بھی تھا. <ref>جعفریان، «تأثیر موضعگیریہای شخصی در فقہ سیاسی اہل سنت»، ص۵۴.</ref> ان دو رتبوں کے علاوہ اہل سنت اسے پیغمبر اکرم(ص) اور | ابن عمر کی شخصیت اپنے والد کی طرح یہ تھی کہ وہ اہل سنت کے سیاسی اور دینی تفکرات کو خاص اہمیت دیتا تھا. وہ پیغمبر اکرم(ص) کے [[صحابی]] ہونے کے علاوہ، دوسرے خلیفہ کا فرزند بھی تھا. <ref>جعفریان، «تأثیر موضعگیریہای شخصی در فقہ سیاسی اہل سنت»، ص۵۴.</ref> ان دو رتبوں کے علاوہ اہل سنت اسے پیغمبر اکرم(ص) اور [[ابوبکر]]، اور [[عمر]] کی [[احادیث]] کا راوی بھی کہتے ہیں، اور خلیفہ کا فرزںد ہونے کی وجہ سے، اسے زیادہ اہمیت دیتے ہیں. <ref>ابن حجر، الاصابہ، ۱۴۱۵ق، ج ۴، ص ۱۵۶.</ref> ابن اثیر نے عبداللہ کے بارے میں بہت فضائل نقل کیے ہیں اور اسے اہل سنت کے بزرگوں سے کہا ہے اور یہ کہ اس نے پیغمبر(ص) کے بعد ساٹھ سال تک فتوے دئیے ہیں. <ref> ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ۱۴۰۹ق، ج ۳، ص ۲۳۸.</ref> | ||
اس کے مقابلے میں بعض معتقد ہیں کہ ابن عمر نے پیغمبر اکرم(ص) سے بہت کم روایات نقل کی ہیں، جیسے کہ شعبی کہتا ہے کہ میں ایک سال تک اس کے ساتھ رہا، اور اس سے کوئی حدیث نہیں سنی. <ref> ابن سعد، الطبقات الكبرى،۱۴۱۰ق، ج ۴، ص ۱۰۸.</ref> اور بعض من جملہ جابر بن عبداللہ اس سے روایت نقل کرتے ہیں. <ref> ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ۱۴۰۹ق، ج ۳، ص ۲۳۹.</ref> میرزا حسین نوری تحریف قرآن کی ابحاث من جملہ وہ دلائل جن پر اسناد کرتا ہے، تحریف قرآن کے بارے میں اہل سنت کی روایات عبداللہ بن عمر سے ہیں. <ref> جعفريان، افسانہ تحريف قرآن، ۱۳۸۲ش، ص ۱۲۸.</ref> اسی طرح اہل سنت بعض روایات جیسے کہ امام علی(ع) کی فضیلت، <ref>تہرانى، امامشناسى، ۱۴۲۶ق، ج ۲، ص ۱۸۳.</ref> قرآن کی مختلف قرائتیں، <ref> جعفريان، افسانہ تحريف قرآن، ۱۳۸۲ ش. ص ۱۳۱.</ref> صدقہ <ref>طباطبائی، الميزان، ۱۳۶۴ش، ج ۲، ص ۶۵۳.</ref> اور دوسرے موضوعات اسی سے نقل کرتے ہیں. | اس کے مقابلے میں بعض معتقد ہیں کہ ابن عمر نے [[پیغمبر اکرم(ص)]] سے بہت کم روایات نقل کی ہیں، جیسے کہ شعبی کہتا ہے کہ میں ایک سال تک اس کے ساتھ رہا، اور اس سے کوئی حدیث نہیں سنی. <ref> ابن سعد، الطبقات الكبرى،۱۴۱۰ق، ج ۴، ص ۱۰۸.</ref> اور بعض من جملہ جابر بن عبداللہ اس سے [[روایت]] نقل کرتے ہیں. <ref> ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ۱۴۰۹ق، ج ۳، ص ۲۳۹.</ref> میرزا حسین نوری تحریف قرآن کی ابحاث من جملہ وہ دلائل جن پر اسناد کرتا ہے، [[تحریف قرآن]] کے بارے میں اہل سنت کی [[روایات]] عبداللہ بن عمر سے ہیں. <ref> جعفريان، افسانہ تحريف قرآن، ۱۳۸۲ش، ص ۱۲۸.</ref> اسی طرح اہل سنت بعض روایات جیسے کہ امام علی(ع) کی فضیلت، <ref>تہرانى، امامشناسى، ۱۴۲۶ق، ج ۲، ص ۱۸۳.</ref> قرآن کی مختلف قرائتیں، <ref> جعفريان، افسانہ تحريف قرآن، ۱۳۸۲ ش. ص ۱۳۱.</ref> صدقہ <ref>طباطبائی، الميزان، ۱۳۶۴ش، ج ۲، ص ۶۵۳.</ref> اور دوسرے موضوعات اسی سے نقل کرتے ہیں. | ||
===زہد اور عبادت=== | ===زہد اور عبادت=== | ||
اہل سنت کے مآخذ کے مطابق، عبداللہ کوشش کرتا تھا کہ جتنی عبادتیں رسول اکرم(ص) سے دیکھی اور سنی ہیں انہیں انجام دے. اور وہی مقام جہاں پر پیغمبر اکرم(ص) آرام فرماتے تھے اور نماز پڑھتے تھے، سفر کرتا اور اسی مقام پر نماز پڑھتا تھا. <ref> ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ۱۴۰۹ق، ج ۳، ص ۲۳۷.</ref>اس کے زہد کے بارے میں کہتے ہیں کہ کبھی کسی سے پیسے نہیں مانگے، اس کے باوجود اگر کسی حاکم کی طرف سے کوئی ہدیہ ملتا تو اسے رد نہیں کرتا اور سب ہدیے تحفے قبول کر لیتا تھا. <ref> ابن سعد، الطبقات الكبرى،۱۴۱۰ق، ج ۴، ص ۱۱۲.</ref> اور دنیا پسند نہیں تھا، بہت حج انجام دئیے اور زیادہ صدقہ دیتا تھا. <ref> ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ۱۴۰۹ق، ج ۳، ص ۲۳۸.</ref> | اہل سنت کے مآخذ کے مطابق، عبداللہ کوشش کرتا تھا کہ جتنی عبادتیں [[رسول اکرم(ص)]] سے دیکھی اور سنی ہیں انہیں انجام دے. اور وہی مقام جہاں پر پیغمبر اکرم(ص) آرام فرماتے تھے اور [[نماز]] پڑھتے تھے، سفر کرتا اور اسی مقام پر نماز پڑھتا تھا. <ref> ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ۱۴۰۹ق، ج ۳، ص ۲۳۷.</ref>اس کے زہد کے بارے میں کہتے ہیں کہ کبھی کسی سے پیسے نہیں مانگے، اس کے باوجود اگر کسی حاکم کی طرف سے کوئی ہدیہ ملتا تو اسے رد نہیں کرتا اور سب ہدیے تحفے قبول کر لیتا تھا. <ref> ابن سعد، الطبقات الكبرى،۱۴۱۰ق، ج ۴، ص ۱۱۲.</ref> اور دنیا پسند نہیں تھا، بہت [[حج]] انجام دئیے اور زیادہ [[صدقہ]] دیتا تھا. <ref> ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ۱۴۰۹ق، ج ۳، ص ۲۳۸.</ref> | ||
==وفات== | ==وفات== | ||
سالم اپنے والد عبداللہ بن عمر سے نقل کرتا ہے کہ حجاج کے ایک دوست کے نیزے کا سرہ میرے پاؤں پر لگا اور یہی زخم عبداللہ کی بیماری کا باعث بنا. ایک دن حجاج اس کی عیادت کے لئے آیا تو عبداللہ نے کہا تم نے مجھے مارا ہے اور تم نے حکم دیا ہے کہ کچھ لوگ خدا کے حرم میں اپنے ساتھ اسلحہ لے کر آئیں. وہ آخر کار سنہ ٧٣ہجری کو ٨٤سال کی عمر میں اس دنیا سے چل بسا. <ref> ابن سعد، الطبقات الكبرى،۱۴۱۰ق، ج ۴، ص ۱۶۸.</ref> | سالم اپنے والد عبداللہ بن عمر سے نقل کرتا ہے کہ حجاج کے ایک دوست کے نیزے کا سرہ میرے پاؤں پر لگا اور یہی زخم عبداللہ کی بیماری کا باعث بنا. ایک دن حجاج اس کی عیادت کے لئے آیا تو عبداللہ نے کہا تم نے مجھے مارا ہے اور تم نے حکم دیا ہے کہ کچھ لوگ خدا کے [[حرم]] میں اپنے ساتھ اسلحہ لے کر آئیں. وہ آخر کار سنہ ٧٣ہجری کو ٨٤سال کی عمر میں اس دنیا سے چل بسا. <ref> ابن سعد، الطبقات الكبرى،۱۴۱۰ق، ج ۴، ص ۱۶۸.</ref> | ||
ابن عمر نے موت کے وقت وصیت کی کہ اسے حرم کے حصے سے باہر دفن کیا جائے، لیکن اس پر عمل نہ کیا گیا، حجاج نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی اور اسے فخ کے علاقے میں، مہاجرین کی قبروں کے ساتھ دفن کیا. <ref> ابن سعد، الطبقات الكبرى،۱۴۱۰ق، ج ۴، ص ۱۶۹.</ref> | ابن عمر نے موت کے وقت وصیت کی کہ اسے حرم کے حصے سے باہر دفن کیا جائے، لیکن اس پر عمل نہ کیا گیا، حجاج نے اس کی [[نماز جنازہ]] پڑھائی اور اسے فخ کے علاقے میں، [[مہاجرین]] کی قبروں کے ساتھ دفن کیا. <ref> ابن سعد، الطبقات الكبرى،۱۴۱۰ق، ج ۴، ص ۱۶۹.</ref> | ||
==حوالہ جات== | ==حوالہ جات== |