مندرجات کا رخ کریں

"واقعہ کربلا" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
imported>Abbasi
imported>Abbasi
سطر 23: سطر 23:
اس سفر میں سوائے [[محمد بن حنفیہ]]<ref> دینوری، اخبارالطوال، ص۲۲۸؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۳۴۱؛ ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۱۶.</ref> کے اکثر عزیز و اقارب منجملہ آپؑ کے فرزندان، بھائی بہنیں، بھتیجے اور بھانجے آپؑ کے ساتھ تھے۔<ref> ابن اعثم، الفتوح، ج۵، ص۲۲۸؛ صدوق، امالی، صص۱۵۲-۱۵۳.</ref> [[بنی ہاشم]] کے علاوہ آپ کے اصحاب میں سے 21 افراد بھی اس سفر میں آپ کے ہمراہ تھے۔<ref> صدوق، امالی، ص۱۵۲.</ref>
اس سفر میں سوائے [[محمد بن حنفیہ]]<ref> دینوری، اخبارالطوال، ص۲۲۸؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۳۴۱؛ ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۱۶.</ref> کے اکثر عزیز و اقارب منجملہ آپؑ کے فرزندان، بھائی بہنیں، بھتیجے اور بھانجے آپؑ کے ساتھ تھے۔<ref> ابن اعثم، الفتوح، ج۵، ص۲۲۸؛ صدوق، امالی، صص۱۵۲-۱۵۳.</ref> [[بنی ہاشم]] کے علاوہ آپ کے اصحاب میں سے 21 افراد بھی اس سفر میں آپ کے ہمراہ تھے۔<ref> صدوق، امالی، ص۱۵۲.</ref>


آپ کے بھائی [[محمد بن حنفیہ]] کو جب امام حسینؑ کے  سفر پر جانے  کی اطلاع ملی تو آپ سے خداحافظی کیلئے آئے۔ اس موقع پر امامؑ نے درج ذیل وصیتنامہ اپنے بھائی کے حوالے کیا:
آپ کے بھائی [[محمد بن حنفیہ]] کو جب امام حسینؑ کے  سفر پر جانے  کی اطلاع ملی تو آپ سے خداحافظی کیلئے آئے۔ اس موقع پر امامؑ نے بھائی کے نام تحریری وصیتنامہ لکھا جس میں درج ذیل جملے بھی مذکور ہیں:


:<font color=blue>{{حدیث|إنّی لَم اَخْرج أشِراً و لا بَطِراً و لا مُفْسداً و لا ظالماً وَ إنّما خرجْتُ لِطلب الإصلاح فی اُمّة جدّی اُریدُ أنْ آمُرَ بالمعروف و أنْهی عن المنکر و اسیرَ بِسیرة <center>جدّی و سیرة أبی علی بن أبی طالب<ref>ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، ص۲۱؛ خوارزمی، مقتل‌الحسین، صص۱۸۸-۱۸۹. </ref></center>}}</font>ترجمہ:”میں خود خواہی یا سیر و تفریح کے لئے مدینہ سے نہیں نکل رہا اور نہ ہی میرے سفر کا مقصد فساد اور ظلم ہے بلکہ میں صرف اپنی جد کی امت کی اصلاح کیلئے نکلا ہوں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ارادہ رکھتاہوں،  میں اپنے جد اور باپ کی سیرت پر چلوں گا....۔</center>
<center><font color=blue>{{حدیث|إنّی لَم اَخْرج أشِراً و لا بَطِراً و لا مُفْسداً و لا ظالماً وَ إنّما خرجْتُ لِطلب الإصلاح فی اُمّة جدّی اُریدُ أنْ آمُرَ بالمعروف و أنْهی عن المنکر و اسیرَ بِسیرة جدّی و سیرة أبی علی بن أبی طالب<ref>ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، ص۲۱؛ خوارزمی، مقتل‌الحسین، صص۱۸۸-۱۸۹.</ref>}}</font>
ترجمہ:میں خود خواہی یا سیر و تفریح کے لئے مدینہ سے نہیں نکل رہا اور نہ ہی میرے سفر کا مقصد فساد اور ظلم ہے بلکہ میں صرف اپنی جد کی امت کی اصلاح کیلئے نکلا ہوں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ارادہ رکھتاہوں،  میں اپنے جد اور باپ کی سیرت پر چلوں گا....۔ </center>


[[امام حسینؑ]] اپنے ساتھیوں کے ساتھ [[مدینہ]] سے خارج ہوئے اور اپنے عزیز و اقارب کے مرضی کے برخلاف [[مکہ]] کی طرف روانہ ہوئے۔<ref>ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، ص۲۲؛ خوارزمی، مقتل‌الحسین، ص۱۸۹.</ref> مکہ کے راستے میں [[عبداللہ بن مطیع]] سے ملاقات ہوئی، اس نے امامؑ کے ارادے کے بارے میں سوال کیا تو امام نے فرمایا:"فی الحال مکہ جانے کا ارادہ کر چکا ہوں وہاں پہنچنے کے بعد خدا سے آئندہ کی خیر و صلاح کی درخواست کروں گا"۔ عبداللہ نے  [[کوفہ]] والوں کے بارے میں انتباہ کرتے ہوئے امامؑ سے مکہ ہی میں رہنے کی درخواست کی۔<ref>ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، ص۲۳.</ref>
[[امام حسینؑ]] اپنے ساتھیوں کے ساتھ [[مدینہ]] سے خارج ہوئے اور اپنے عزیز و اقارب کے مرضی کے برخلاف [[مکہ]] کی طرف روانہ ہوئے۔<ref>ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، ص۲۲؛ خوارزمی، مقتل‌الحسین، ص۱۸۹.</ref> مکہ کے راستے میں [[عبداللہ بن مطیع]] سے ملاقات ہوئی، اس نے امامؑ کے ارادے کے بارے میں سوال کیا تو امام نے فرمایا:"فی الحال مکہ جانے کا ارادہ کر چکا ہوں وہاں پہنچنے کے بعد خدا سے آئندہ کی خیر و صلاح کی درخواست کروں گا"۔ عبداللہ نے  [[کوفہ]] والوں کے بارے میں انتباہ کرتے ہوئے امامؑ سے مکہ ہی میں رہنے کی درخواست کی۔<ref>ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، ص۲۳.</ref>
گمنام صارف