بی بی پاکدامن

ویکی شیعہ سے
(بی بی پاکدامن (مزار) سے رجوع مکرر)
بی‌بی پاکدامن (لاہور)
ابتدائی معلومات
استعمالزیارت گاہ
محل وقوعلاہور
دیگر اسامیپاکدامن بیبیاں، رقیہ بنت علیؑ
مشخصات
رقبہ72 کنال مربع
موجودہ حالتفعال
سہولیاتدواخانہ، لنگر
معماری
طرز تعمیرافغانی
تعمیر نو1969ء و 2022ء
ویب سائٹhttp://bibipakdaman.com/


بی بی پاکدامن، حضرت علیؑ کی بیٹی اور مسلم بن عقیل کی شریک حیات رقیہ سے منسوب صدیوں پرانا مزار ہے جو پاکستان کے شہر لاہور میں واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ رقیہ خاندان اہلبیت کی دیگر پانچ خواتین کے ساتھ یہاں مدفون ہیں۔ یہ خواتین عاشورا کو واقعہ کربلا رونما ہونے سے پہلے برصغیر کی طرف آجاتی ہیں۔ بعض مورخین کا کہنا ہے کہ یہ مزار رقیہ سے منسوب نہیں بلکہ احمد توختہ نامی ایک زاہد سید ایران کے شہر کرمان سے آتا ہے جس کی بیٹیاں اس دربار میں مدفون ہیں۔ پاکستان میں شیعہ اور سنی دونوں مذاہب کے پیروکار اس دربار کو عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہاں ہر سال تین روزہ عرس منایا جاتا ہے اس کے علاوہ شیعہ زائرین ہر شب جمعہ یہاں عزاداری امام حسینؑ منعقد کرتے ہیں۔

تاریخچہ

بی بی پاکدامن کی زیارت گاہ صدیوں پرانی اور لاہور کی آثار قدیمہ میں سے ایک ہے۔[1] مشہور یہ ہے کہ یہاں پر شیعوں کے پہلے امام حضرت علیؑ کی بیٹی رقیہ سمیت پانچ دیگر خواتین مدفون ہیں۔[2] کہا جاتا ہے کہ رقیہ واقعہ کربلا سے پہلے اپنی دوبیٹیوں اور مسلم بن عقیل کی دو بہنوں اور ایک خادمہ کے ساتھ برصغیر کا رخ کرتی ہیں۔[3]

بعض مورخین اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کیونکہ:

  1. اس زمانے میں لاہور میں کوئی مسلمان نہیں تھا۔[4]
  2. اس طرح کا واقعہ تاریخی کتابوں میں نہیں ملتا ہے۔[5]
  3. خواتین کے جو نام یہاں ذکر ہیں وہ سارے فارسی نام ہیں۔[6]

بعض کا کہنا ہے کہ چھٹی صدی ہجری میں سید احمد توختہ نامی ایک عابد و زاہد سید ایران کے شہر کرمان سے آکر لاہور میں بستے ہیں۔[7] توختہ کی چھ بیٹیاں بی‌بی حاج رقیہ، بی‌بی تاج، بی‌بی نور، بی‌بی حور، بی‌بی گوہر اور بی‌بی شہباز تھیں جو وفات ہونے کے بعد یہاں دفن ہوتی ہیں۔ تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بیبیاں 615 ہجری کو زندہ تھیں کیونکہ تاریخ میں جلال الدین خوارزمشاہی کا یہاں سے ہندوستان کی طرف جاتے ہوئے ان کا تذکرہ آتا ہے۔[8]

لاہور اور پاکستان کے دوسرے شہروں سے ہزاروں زائرین یہاں زیارت کرنے آتے ہیں۔[9]
دربار کے ساتھ مسجد نور ایمان، مسجد باباخاکی اور مسجد محمد‌ امین‌ بیگ واقع ہیں۔[10]
بی بی پاکدامن گڑھی شاہو اور ریلوے سٹیشن لاہور کے درمیانی علاقہ میں واقع ہے[حوالہ درکار]


رقیہ کا برصغیر کی جانب سفر

بی‌بی پاکدامن کے مزار پر زائرین

رقیہ کا لاہور کی طرف سفر کرنے کے حوالے سے یوں نقل کیا جاتا ہے کہ حب امام حسینؑ نے کربلا کی طرف جاتے ہوئے مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر سنی تو اپنی بہن رقیہ کو بلایا اور ان کو ہندوستان کی طرف جانے کا کہا۔ رقیہ جانا نہیں چاہتی تھیں لیکن نہیں معلوم امام نے ان سے کیا کہا، کاروان سے جدا ہوئی اور برصغیر کی طرف روانہ ہوئی۔[11] اس سفر میں آپ کی دو چھوٹی بیٹیاں، مسلم بن عقیل کی دو بہنیں اور حلیمہ نامی ایک خاتون ساتھ تھیں۔[12]

دربار کی توسیع

سلطان محمود غزنوی 410 ہجری کو پہلی بار لاہور آیا اور اس بارگاہ کو سنگ مرمر سے مزین کیا اور دربار کے چاروں طرف صحن بنوایا۔[13] پھر مغل کے اکبر بادشاہ نے دربار پر چھت چڑھایا۔[14] دربار کے رقبے میں ایک مسجد اور وسیع قبرستان ہے 1967ء کو لاہور کے اوقاف میں ثبت ہوگیا اور 1969 کو مزار کی توسیع دی گئی۔[15] صوبہ پنجاب کی حکومت نے سنہ 2021 میں ایک بار پھر سے اس کی توسیع کے لئے بجٹ رکھا۔[16] لیکن شیعہ اور سنی علما اس کی توسیع پر اعتراض کر تےہوئے کہا کہ مزار کو اپنی اصلی شکل میں تعمیر کیا جائے اور اس پر ایسی تعمیرات نہ ہوں جو بارگاہ کی شان کے خلاف ہوں [17] جس پر لاہور ہائیکورٹ نے بی بی پاکدامن کے مزار اور قبرستان کی تعمیر روک دی۔[18]

سالانہ عرس

اگرچہ بی بی پاک دامن پر سارا سال زائرین کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری رہتا ہے اسی طرح شیعہ زائرین ہر شب جمعہ یہاں پر امام حسینؑ کی عزاداری منعقد کرتے ہیں۔[19] جبکہ سال میں سہ روزہ عرس بھی منایا جاتا ہے جس میں ہزاروں شیعہ و سنی افراد شرکت کرتے ہیں۔[20]

مدفون افراد

دربار کے دو حصے ہیں ایک حصے میں بی‌بی حاج رقیہ، بی‌بی تاج اور بی‌بی نور،جبکہ دوسرے حصے میں بی‌بی حور، بی‌بی گوہر اور بی‌بی شہباز کی آرامگاہ ہیں۔[21] سیدجلال‌الدین حیدربن صفی الدین بخاری (م1016ھ)، برادر میران محمدشاہ موج دریا بخاری (م1013ھ) ایک گنبد کے نیچے بی بی تاج کی آرامگاہ کی دیوار سے متصل دفن ہیں اور لوگ اس قبر کو پاکدامن بیبیوں کے استاد کی قبر بتاتے ہیں۔[22]

مونوگرافی

بی بی پاکدامن کے بارے میں کچھ کتابیں بھی لکھی گئی ہیں جن میں پاکدامن بیبیاں کے نام سے دو رسالے غلام دستگرنامی اور محمد دین کلیم کی لکھی ہوئی ہیں۔مسعود رضا خاکی کی «بیبیان پاکدامن» اور سید آغا مہدی لکھنوی کی کتاب«بی‌بی پاک دامن» اور مولوی محمدبخش شاہ قریشی «تاریخ پاکدامن بیبیاں» اس حوالے سے لکھی گئی کتابیں ہیں۔[23]

حوالہ جات

  1. ثبوت، «پاکدامن بیبیان»، ج5، ص442.
  2. نور احمد چشتی، تحقیقات چشتی، 1964م ج1، ص313ـ 324 ؛ اردو دائرة المعارف اسلامیّہ، ذیل مادّہ، لاہور 1384ـ1410/1964ـ1989
  3. اردو دائرة المعارف اسلامیّہ، ذیل مادّہ، لاہور 1384ـ1410/1964ـ1989
  4. منشی محمد دین فوق، تذکرہ علماء لاہور، 1338ق بنقل از حضرت بی‌بی پاکدامنان لاہور تالیف حفیظ اللہ خان منظر، ص64
  5. اردو دائرة المعارف اسلامیّہ، ذیل مادّہ، لاہور 1384ـ1410/1964ـ1989
  6. غلام سرور لاہوری، خزینة الاصفیا، ج 2
  7. منشی محمد دین فوق، تذکرہ علماء لاہور، 1338ق بنقل از حضرت بی‌بی پاکدامنان لاہور تالیف حفیظ اللہ خان منظر، ص 64
  8. غلام سرور لاہوری، خزینة الاصفیا، ج2.
  9. اردو دائرة المعارف اسلامیّہ، ذیل مادّہ، لاہور 1384ـ1410/1964ـ1989
  10. محمد عبداللہ چغتائی، تاریخی مساجد لاہور، ج1، ص102.
  11. نور احمد چشتی، تحقیقات چشتی، 1964م ج1، ص313-324.
  12. نور احمد چشتی، تحقیقات چشتی، 1964م ج1، ص313ـ 324.
  13. HISTORY OF BIBI RUQAIYA BINTE ALI (a.s، سایت زیارتگاه.
  14. HISTORY OF BIBI RUQAIYA BINTE ALI (a.s، سایت زیارتگاه.
  15. HISTORY OF BIBI RUQAIYA BINTE ALI (a.s، سایت زیارتگاہ.
  16. حضرت بی بی پاکدامنؒ لاہور کی تزئین و آرائش کا کام شروع، زائرین کی آمد عارضی طور پربند، خبرگزاری باغی
  17. لاہور، مزار بی بی پاکدامن کے تعمیر کے حوالے سے شیعہ سنی علماء کی پریس کانفرنس، خبرگزاری اسلام تائمز
  18. ہائیکورٹ نے بی بی پاکدامن کے مزار اور قبرستان کی تعمیر روک دی، خبرگزاری سیتی 42 تی وی.
  19. لاہور | حضرت بی بی پاکدامنؒ کے عرس کی تقریبات کا آغاز ہوگیا، خبرگزاری تسنیم
  20. لاہور | حضرت بی بی پاکدامنؒ کے عرس کی تقریبات کا آغاز ہوگیا، خبرگزاری تسنیم
  21. اردو دائرة المعارف اسلامیّہ، ذیل مادّہ، لاہور 1384ـ1410/1964ـ1989؛ غلام سرور لاہوری، خزینہ الاصفیا، ج2، ص93، ج 2، کانپور 1332/1914.
  22. اردو دائرة المعارف اسلامیّہ، ذیل مادّہ، لاہور 1384ـ1410/1964ـ1989؛ غلام سرور لاہوری، خزینہ الاصفیا، ج2، ص93، ج 2، کانپور 1332/1914.
  23. نقوی، حسین عارف نقوی، برّ صغیرکی امامیہ مصنفیّن: کی مطبوعہ تصانیف اوراتراجم، ج1، ص446، ج 2 ص458، ج2 ص 461.

مآخذ

بیرونی روابط

دانشنامہ جہان اسلام