آمنہ بیگم مجلسی

ویکی شیعہ سے
(آمنہ مجلسی سے رجوع مکرر)
آمنہ بیگم مجلسی
کوائف
مکمل نامآمنہ ‌خاتون
نسبخاندان مجلسی
آبائی شہراصفہان
تاریخ وفات12ویں صدی ہجری
مدفناصفہان، تخت فولاد
نامور اقرباءمجلسی اولمجلسی دوم و ملا صالح مازندرانی
علمی معلومات
اساتذہمحمد تقی مجلسی • محمد باقر مجلسی
تالیفاتشرح الفیہ ابن‌ مالک • شرح بر شواہد سیوطی و مجموعہ مسائل فقہی
خدمات


آمنہ بیگم مجلسی یا آمنہ خاتون (متوفی 12ویں صدی ہجری) دورہ صفوی کی ایک شیعہ امامیہ عالمہ خاتون تھیں۔ وہ محمد تقی مجلسی کی بیٹی، محمد باقر مجلسی کی بہن اور ملا صالح مازندرانی (متوفی 1081 ھ) کی زوجہ تھیں۔ آمنہ بیگم نے علامہ مجلسی کی کتاب بحار الانوار میں حدیثوں کو جمع کرنے میں ان کی مدد کی تھی۔ شرح الفیہ ابن مالک، شرح شواہد سیوطی اور مجموعہ مسائل فقہی جیسی کتابیں ان کے آثار میں سے ہیں۔

سوانح حیات

آمنہ بیگم مجلسی یا آمنہ خاتون محمد تقی مجلسی کی بیٹی اور علامہ مجلسی کی بہن ہیں۔[1] ان کی والدہ صدر الدین محمد حسینی عاشوری کی بیٹی تھیں۔[2] مصنفین کے مطابق آپ اپنے وقت کی عالمہ اور فاضلہ خاتون تھیں۔[3] کتاب ریاض العلماء و حیاض الفضلاء کے مصنف عبد اللہ آفندی نے جو تقریبا آمنہ بیگم کے ہم عصر تھے، آپ کو صاحب علم و فضل اور تقویٰ کا مالک قرار دیا ہے۔[4]

ان کی تاریخ ولادت اور تاریخ وفات کہیں پر بھی مرقوم نہیں پایا گیا[5] لیکن اس کے باوجود ان کی وفات کو 12ویں صدی ہجری میں قرار دیا جاتا ہے۔[6]

آمنہ بیگم کی وفات اصفہان میں ہوئی اور ان کا مقبرہ تخت فولاد میں ہے۔[7] بعض محققین نے ان کے دفن کی جگہ کو دوسری جگہ بتایا ہے۔[8]

شوہر اور اولاد

آمنہ بیگم نے اپنے والد کے کہنے پر ملا صالح مازندرانی سے شادی کی تھی۔[9] ملا صالح، مجلسی اوّل کے شاگرد تھے۔[10] انہوں نے بہت سی کتابیں من جملہ الکافی پر شرح لکھی ہیں۔[11] آمنہ خاتون اور ملا صالح کے چھ بیٹے تھے جو سب کے سب اہل علم تھے۔[12] اور ایک یا دو بیٹیاں بھی تھیں۔[13] محمد باقر وحید بہبہانی اور آیت اللہ بروجردی، آمنہ بیگم اور ملا صالح کی نسل سے تھے۔[14]

علمی مقام

آمنہ خاتون فقہ و حدیث میں اپنے والد مجلسی اول اور اپنے بھائی علامہ مجلسی کی شاگرد تھیں۔[15] ان کے مکتوب آثار اس طرح نقل ہوئے ہیں:

  • شرح الفیہ ابن ‌مالک
  • شرح شواہد سیوطی
  • مجموعہ مسائل فقہی
  • دیوان شعر[16]

آمنہ خاتون نے علامہ مجلسی کی کتاب بحار الانوار میں روایات کی جمع آوری میں ان کی مدد کی تھی۔[17] اسی طرح سے نقل ہوا ہے کہ ملا صالح مازندرانی بھی علامہ حلی کی کتاب قواعد الاحکام کی بعض عبارت کو حل کرنے میں ان سے مشورہ کرتے تھے۔[18]

حوالہ جات

  1. امین، اعیان الشیعۃ، ۱۴۰۶ھ، ج۲،‌ ص۹۵۔
  2. ہاشمی،‌ «گوہری از خاندان مجلسی»، ص۹۴۔
  3. مازندرانی، شرح الکافی، مقدمہ محقق، ۱۳۸۲ھ، ص۲۔
  4. افندی، ریاض العلماء، ۱۴۳۱ھ، ج۵، ص۴۰۷۔
  5. ریاحی،‌ نقش بانوان شیعہ اصفہان در فرہنگ و تمدن ایران و اسلام، ص۲۱۸و۲۲۲۔
  6. بانوان عالمہ و آثار آن‌ہا، ۱۳۷۹ش، ص۴۲۔
  7. موسوعۃ مؤلفی الامامیۃ، ۱۴۲۸ھ، ج۱، ص۹۰۔
  8. ہاشمی،‌ «گوہری از خاندان مجلسی»، ص۹۴۔
  9. افندی، ریاض العلماء، ۱۴۳۱ھ، ج۵، ص۴۰۷۔
  10. مازندرانی، شرح الکافی، مقدمہ محقق، ۱۳۸۲ھ، ص۲۔
  11. مازندرانی، شرح الکافی، مقدمہ محقق، ۱۳۸۲ھ، ص۲۔
  12. امین، مستدرکات اعیان الشیعۃ، ۱۴۰۸ھ، ج۴، ص۸۔
  13. ہاشمی،‌ «گوہری از خاندان مجلسی»، ص۱۰۰۔
  14. ہاشمی،‌ «گوہری از خاندان مجلسی»، ص۹۷۔
  15. موسوعۃ مؤلفی الامامیۃ، ۱۴۲۸ھ، ج۱، ص۹۰۔
  16. امین، مستدرکات أعیان الشیعۃ، ۱۴۰۸ھ، ج۴، ص۸۔
  17. ریاحی، ‌نقش بانوان شیعہ اصفہان در فرہنگ و تمدن ایران و اسلام، ص۲۲۱۔
  18. امین، اعیان الشیعۃ، ۱۴۰۶ھ، ج۲، ص۹۵۔

مآخذ

  • افندی، عبد اللہ بن عیسی، ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، محقق: احمد حسینی اشکوری، بیروت، مؤسسۃ التاریخ العربی،۱۴۳۱ھ۔
  • امین عاملی، سید محسن، اعیان الشیعۃ، بیروت،‌ دار التعارف للمطبوعات، ۱۴۰۶ھ۔
  • امین، سید حسن، مستدرکات اعیان الشیعۃ، بیروت،‌ دار التعارف،‌ ۱۴۰۸ھ۔
  • بانوان عالمہ و آثار آنہا، قم، مرکز مدیریت حوزہ‌ہای علمیہ خواہران، ۱۳۷۹ ہجری شمسی۔
  • ریاحی،‌ محمد حسین،‌ «نقش بانوان شیعہ اصفہان در فرہنگ و تمدن ایران و اسلام»، مجلہ بانوان شیعہ، شمارہ۱۰، زمستان ۱۳۸۵ ہجری شمسی۔
  • مازندرانی، محمد صالح بن احمد، شرح الکافی، تصحیح ابوالحسن شعرانی، تہران، المکتبۃ الإسلامیۃ، ۱۳۸۲ھ۔
  • موسوعۃ مؤلفی الامامیۃ، قم،‌ مجمع الفکر الإسلامی، ۱۴۲۸ھ۔
  • ہاشمی،‌ محمد قاسم، «گوہری از خاندان مجلسی»، مجلہ فرہنگ اصفہان، شمارہ ۵ و۶، بہار و تابستان ۱۳۷۶ش۔