مندرجات کا رخ کریں

"آستانہ حضرت معصومہ (ع)" کے نسخوں کے درمیان فرق

imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 68: سطر 68:
حضرت معصومہ کی تدفین کے بعد اشعریوں نے قبر پر بوریے سے سائبان بنایا۔ یہ سائبان باقی تھا یہاں تک کہ زینب نامی علوی خاتون نے اس پر قبہ تعمیر کرایا۔ البتہ زینب کے نسب کے سلسلہ میں اختلاف ہے۔ [[تاریخ قم]] (تالیف: 378ھ، 988ء) کے مولف [[حسن قمی]] نے انہیں [[امام محمد تقی (ع)]] کی بیٹی اور بعض نے حضرت [[موسی مبرقع]] کی دختر تحریر کیا ہے۔ [[شیخ عباس قمی]] کا بھی یہ ماننا ہے کہ امام محمد تقی (ع) کی بیٹی نے قم میں وفات پائی اور حضرت معصومہ کے حرم میں دفن ہوئیں۔ ام محمد و میمونہ، زینب کی بہنیں بھی وہیں دفن ہیں۔<ref> محلاتی، ریاحین الشریعہ، ج۴، ص۳۱۶؛ شیخ عباس قمی، منتهی الامال، ج۲، ص ۴۳۲ </ref>
حضرت معصومہ کی تدفین کے بعد اشعریوں نے قبر پر بوریے سے سائبان بنایا۔ یہ سائبان باقی تھا یہاں تک کہ زینب نامی علوی خاتون نے اس پر قبہ تعمیر کرایا۔ البتہ زینب کے نسب کے سلسلہ میں اختلاف ہے۔ [[تاریخ قم]] (تالیف: 378ھ، 988ء) کے مولف [[حسن قمی]] نے انہیں [[امام محمد تقی (ع)]] کی بیٹی اور بعض نے حضرت [[موسی مبرقع]] کی دختر تحریر کیا ہے۔ [[شیخ عباس قمی]] کا بھی یہ ماننا ہے کہ امام محمد تقی (ع) کی بیٹی نے قم میں وفات پائی اور حضرت معصومہ کے حرم میں دفن ہوئیں۔ ام محمد و میمونہ، زینب کی بہنیں بھی وہیں دفن ہیں۔<ref> محلاتی، ریاحین الشریعہ، ج۴، ص۳۱۶؛ شیخ عباس قمی، منتهی الامال، ج۲، ص ۴۳۲ </ref>


قبر پر جو سائبان اشعریوں نے بنایا تھا۔ وہ تیسری صدی ہجری کے نصف تک قائم رہا ہوگا۔ کیونکہ حسن قمی کی تصریح کے مطابق، زینب کے بھائی موسی بن محمد بن علی بن موسی الرضا (ع) 256 ھ، 869 ء میں قم میں وارد ہوئے اور ان کے [[قم]] سے خارج ہو جانے کے بعد ان کی تلاش میں زینب [[کوفہ]] سے قم آئیں۔  
قبر پر جو سائبان اشعریوں نے بنایا تھا۔ وہ تیسری صدی ہجری کے نصف تک قائم رہا ہوگا۔ کیونکہ حسن قمی کی تصریح کے مطابق، زینب کے بھائی موسی بن محمد بن علی بن موسی الرضا (ع) 256ھ، 869ء میں قم میں وارد ہوئے اور ان کے [[قم]] سے خارج ہو جانے کے بعد ان کی تلاش میں زینب [[کوفہ]] سے قم آئیں۔  


زینب کے ذریعہ تعمیر بناء بھی کم از کم 378ھ، 988ء جس دور میں تاریخ قم تصنیف ہوئی، تک باقی رہی۔ اس کے بعد سے 457ھ، 1067ء تک  
زینب کے ذریعہ تعمیر بناء بھی کم از کم 378ھ، 988ء جس دور میں تاریخ قم تصنیف ہوئی، تک باقی رہی۔ اس کے بعد سے 457ھ، 1067ء تک  
سطر 75: سطر 75:
====روضہ اور قبہ ستی====
====روضہ اور قبہ ستی====


447 ھ، 1055 ء میں طغرل سلجوقی امیر ابو الفضل عراقی (455 ھ، 1063 ء) نے [[شیخ طوسی]] (385۔460 ھ، 995۔1067 ء) کے مطابق قبر اور قبہ ستی کو تعمیر کرایا۔ اس بناء کی تعمیر 457 ھ، 1065 ء تک ہوئی۔ اس میں ایوان، حجرے اور گل دستے شامل نہیں تھے۔
447ھ، 1055ء میں طغرل سلجوقی امیر ابو الفضل عراقی (455ھ، 1063ء) نے [[شیخ طوسی]] (385۔460ھ، 995۔1067ء) کے مطابق قبر اور قبہ ستی کو تعمیر کرایا۔ اس بناء کی تعمیر 457 ھ، 1065 ء تک ہوئی۔ اس میں ایوان، حجرے اور گل دستے شامل نہیں تھے۔


====مغول و تیمور کے حملے====
====مغول و تیمور کے حملے====


مغولوں کے حملے میں قم بھی نقصان سے محفوظ نہیں رہا۔ البتہ احتمالا روضے کو کوئی ضرر نہیں پہچا۔ کیوکہ امیر عراقی کی بنائی ہوئی عمارت صفویوں کے زمانہ تک باقی تھی۔ بعض نے کہا ہے کہ تیمور گورکانی (736۔807 ھ، 1335۔1404 ء) نے بھی قم کو ویران کیا لیکن بعض نے قم پر اس کے حملے کا انکار کیا ہے۔
مغولوں کے حملے میں قم بھی نقصان سے محفوظ نہیں رہا۔ البتہ احتمالا روضے کو کوئی ضرر نہیں پہچا۔ کیوکہ امیر عراقی کی بنائی ہوئی عمارت صفویوں کے زمانہ تک باقی تھی۔ بعض نے کہا ہے کہ تیمور گورکانی (736۔807ھ، 1335۔1404ء) نے بھی قم کو ویران کیا لیکن بعض نے قم پر اس کے حملے کا انکار کیا ہے۔


حمد اللہ مستوفی نے [[قم]] کے ویران ہونے کا تذکرہ کیا ہے۔ لیکن اس میں واضح نہیں ہے کہ یہ ویرانی مغولوں کے حملے کی وجہ سے ہوئی یا کسی اور کی وجہ سے۔ نیز یہ بھی واضح نہیں ہے کہ اس سے روضے کو کوئی نقصان پہچا یا نہیں۔
حمد اللہ مستوفی نے [[قم]] کے ویران ہونے کا تذکرہ کیا ہے۔ لیکن اس میں واضح نہیں ہے کہ یہ ویرانی مغولوں کے حملے کی وجہ سے ہوئی یا کسی اور کی وجہ سے۔ نیز یہ بھی واضح نہیں ہے کہ اس سے روضے کو کوئی نقصان پہچا یا نہیں۔
سطر 85: سطر 85:
'''سلطان محمد الجایتو کے ذریعہ تجدید'''
'''سلطان محمد الجایتو کے ذریعہ تجدید'''


اس کے بعد سلطان محمد الجایتو (متوفی 716 ھ۔ 1316 ء) جس کے آثار [[مشہد]] میں مشہور ہیں، نے شہر قم اور زیارت گاہوں کی ترقی میں حصہ لیا۔ روضہ میں موجود کاشی کاری، جن میں مغول کے سواروں کی تصاویر نقش ہیں، اسی کے زمانہ کے آثار میں سے ہے۔
اس کے بعد سلطان محمد الجایتو (متوفی 716ھ۔ 1316ء) جس کے آثار [[مشہد]] میں مشہور ہیں، نے شہر قم اور زیارت گاہوں کی ترقی میں حصہ لیا۔ روضہ میں موجود کاشی کاری، جن میں مغول کے سواروں کی تصاویر نقش ہیں، اسی کے زمانہ کے آثار میں سے ہے۔


====توسیع====
====توسیع====
سطر 93: سطر 93:
صفویوں کے زمانہ میں آستانہ حضرت معصومہ کی شان و شوکت میں اضافہ ہو گیا۔ صفویوں نے گنبد اور روضے کی بناء کو مزید مرتفع کیا اور اسے کاشی سے آراستہ و مزین کیا۔ وہ خدام، حفاظ اور زائرین کی پزیرائی کا اہتمام کرتے تھے اور ان کے اخراجات برداشت کرتے تھے۔ اس دور میں انہوں نے دار المومنین قم کو معماری اور آباد کاری کے کمال تک پہچایا۔  
صفویوں کے زمانہ میں آستانہ حضرت معصومہ کی شان و شوکت میں اضافہ ہو گیا۔ صفویوں نے گنبد اور روضے کی بناء کو مزید مرتفع کیا اور اسے کاشی سے آراستہ و مزین کیا۔ وہ خدام، حفاظ اور زائرین کی پزیرائی کا اہتمام کرتے تھے اور ان کے اخراجات برداشت کرتے تھے۔ اس دور میں انہوں نے دار المومنین قم کو معماری اور آباد کاری کے کمال تک پہچایا۔  


امیر ابو الفضل عراقی کی بناء 925 ھ۔ 1519 ء تک باقی رہی۔ اسی سال شاہ اسماعیل اول صفوی (متوفی 930ھ 1523 ء) کی بیٹی شاہ بیگم نے عماد بیگ کے ذریعہ روضے کو 8 پہلو بناء جو ۸ پہلو چبوتروں پر استوار تھی، تعمیر کرائی اور روضے کی دیواروں کو منقش کاشی سے آراستہ کرایا اور اس کے سامنے کے حصے میں ایک ایوان دو میناروں کے ساتھ تعمیر کرایا اور اس میں ایک صحن کی کئی بقعات اور ایوانات کے ساتھ منصوبہ بندی کی۔ لیکن قاضی میر احمد منشی نے اس بناء کی تاریخ کو 946 ھ ۔ 1539 ء اور اس کے بانی کا نام شاہ بیگی بیگم جو مہماد بیگ کی بیٹی تھیں، ذکر کیا ہے جنہوں نے حضرت معصومہ کے روضہ کی عمارت کو بلند کرایا اور تقریبا ایک ہزار تومان کی نفیس املاک کو روضے کے لئے وقف کیا۔
امیر ابو الفضل عراقی کی بناء 925ھ۔ 1519ء تک باقی رہی۔ اسی سال شاہ اسماعیل اول صفوی (متوفی 930ھ 1523ء) کی بیٹی شاہ بیگم نے عماد بیگ کے ذریعہ روضے کو 8 پہلو بناء جو ۸ پہلو چبوتروں پر استوار تھی، تعمیر کرائی اور روضے کی دیواروں کو منقش کاشی سے آراستہ کرایا اور اس کے سامنے کے حصے میں ایک ایوان دو میناروں کے ساتھ تعمیر کرایا اور اس میں ایک صحن کی کئی بقعات اور ایوانات کے ساتھ منصوبہ بندی کی۔ لیکن قاضی میر احمد منشی نے اس بناء کی تاریخ کو 946ھ ۔ 1539ء اور اس کے بانی کا نام شاہ بیگی بیگم جو مہماد بیگ کی بیٹی تھیں، ذکر کیا ہے جنہوں نے حضرت معصومہ کے روضہ کی عمارت کو بلند کرایا اور تقریبا ایک ہزار تومان کی نفیس املاک کو روضے کے لئے وقف کیا۔


کجوری و آل بحر العلوم کہتے ہیں: (529 ھ، 1134 ء) میں عماد بیگ کی بیٹی شاہ بیگم نے [[حضرت معصومہ(س)]] کے روضہ پر گنبد تعمیر کرایا۔ یہ اقوال بلا شبہہ غلط ہیں۔ اس لئے کتاب النقض کے مولف قزوینی رازی جو (560 ھ، 1164 ء) میں تالیف ہوئی ہے اس میں ابو الفضل عراقی کے بناء کا ذکر ہوا ہے لہذا اگر شاہ بیگم نے اس روضہ میں کوئی بھی تعمیراتی کام انجام دیا ہوتا تو اس کا ذکر ہوتا۔
کجوری و آل بحر العلوم کہتے ہیں: (529ھ، 1134ء) میں عماد بیگ کی بیٹی شاہ بیگم نے [[حضرت معصومہ(س)]] کے روضہ پر گنبد تعمیر کرایا۔ یہ اقوال بلا شبہہ غلط ہیں۔ اس لئے کتاب النقض کے مولف قزوینی رازی جو (560ھ، 1164ء) میں تالیف ہوئی ہے اس میں ابو الفضل عراقی کے بناء کا ذکر ہوا ہے لہذا اگر شاہ بیگم نے اس روضہ میں کوئی بھی تعمیراتی کام انجام دیا ہوتا تو اس کا ذکر ہوتا۔


یہ غلطی ظاہرا 925 اور 529 جیسے اعداد اور عماد بیگ و مہماد بیگ کی شباہت اور ان کتیبوں کے سبب پیدا ہوئی ہے جسے ان دونوں نے نقل کئے ہیں۔ خاص طور پر فیض نے گنجینہ آثار [[قم]] میں اس غلطی کی جو اس بناء کی تاریخ کے ذکر میں ہوئی ہے، وجہ اس دور کے رسم الخط کے مطابق اعداد کا کتبیوں پر بر عکس تحریر کیا جانا بتائی ہے۔ خود انہوں ںے اس طرح کی تاریخ نویسی کی مثالوں کو دیکھا ہے اور ان کے شواہد پیش کئے ہیں۔
یہ غلطی ظاہرا 925 اور 529 جیسے اعداد اور عماد بیگ و مہماد بیگ کی شباہت اور ان کتیبوں کے سبب پیدا ہوئی ہے جسے ان دونوں نے نقل کئے ہیں۔ خاص طور پر فیض نے گنجینہ آثار [[قم]] میں اس غلطی کی جو اس بناء کی تاریخ کے ذکر میں ہوئی ہے، وجہ اس دور کے رسم الخط کے مطابق اعداد کا کتبیوں پر بر عکس تحریر کیا جانا بتائی ہے۔ خود انہوں ںے اس طرح کی تاریخ نویسی کی مثالوں کو دیکھا ہے اور ان کے شواہد پیش کئے ہیں۔
سطر 103: سطر 103:
'''غارت افاغنہ'''
'''غارت افاغنہ'''


صفویوں کی حکومت کے آخری دور میں جب افغانیوں نے ایران پر حملہ کیا تو حضرت معصومہ کا روضہ بھی اس سے محفوظ نہیں رہا اور اشرف افغان (متوفی 1142 ھ، 1729 ء) نے نادر شاہ سے مقابلہ میں ہزیمت کے وقت اس آستانہ کی تمام نفیس اشیاء اور زر و زیور حتی شاہ اسماعیل کی قبر کے صندوق پر لگے سونے تک کو لوٹ لیا۔
صفویوں کی حکومت کے آخری دور میں جب افغانیوں نے ایران پر حملہ کیا تو حضرت معصومہ کا روضہ بھی اس سے محفوظ نہیں رہا اور اشرف افغان (متوفی 1142ھ، 1729ء) نے نادر شاہ سے مقابلہ میں ہزیمت کے وقت اس آستانہ کی تمام نفیس اشیاء اور زر و زیور حتی شاہ اسماعیل کی قبر کے صندوق پر لگے سونے تک کو لوٹ لیا۔


'''افشاریان سے قاجاریان تک'''
'''افشاریان سے قاجاریان تک'''


نادر شاہ (1148۔1160 ھ۔ 1688۔ 1747)؟ اور زندی (1162-1209ھ/1748-1794ء) کے دور میں حرم کی بناء کی مرمت یا تجدید کے سلسلہ میں کوئی اطلاع دسترس میں نہیں ہے۔ لیکن قاجاریوں کے دور میں اس روضے نے صفویوں جیسی رونق اور عظمت حاصل کر لی تھی۔
نادر شاہ (1148۔1160ھ۔ 1688۔ 1747)؟ اور زندی (1162-1209ھ/1748-1794ء) کے دور میں حرم کی بناء کی مرمت یا تجدید کے سلسلہ میں کوئی اطلاع دسترس میں نہیں ہے۔ لیکن قاجاریوں کے دور میں اس روضے نے صفویوں جیسی رونق اور عظمت حاصل کر لی تھی۔


فتح علی‎ شاہ (متوفی 1250ھ/1834 ء) نے روضہ کی زمین پر سنگ مرمر بچھایا۔ موجود کتیبوں کی تصریح کے مطابق حرم کی دیواروں کی آئینہ کاری بھی اسی کے دور میں شروع ہوئی اور محمد شاہ (متوفی 1264ھ/1847 ء) کے زمانہ میں مکمل ہوئی۔
فتح علی‎ شاہ (متوفی 1250ھ/1834ء) نے روضہ کی زمین پر سنگ مرمر بچھایا۔ موجود کتیبوں کی تصریح کے مطابق حرم کی دیواروں کی آئینہ کاری بھی اسی کے دور میں شروع ہوئی اور محمد شاہ (متوفی 1264ھ/1847ء) کے زمانہ میں مکمل ہوئی۔


===مرقد مطہر===
===مرقد مطہر===


روضہ کی تعمیر اور اس کی عمارت کی تجدید و باز سازی کے بعد 605 ھ، 1208 ء میں امیر مظفر احمد بن اسماعیل کے اشارہ پر اس وقت بڑے کاشی ساز محمد بن ابی طاہر کاشی قمی یا محمد بن طاہر بن ابی الحسن 8 سال حرم مطہر کے لئے کاشی بنانے میں مشغول رہے اور آخر کار 630 ھ 1232 ء میں تمام کاشی آمادہ ہوئی اور اسے نصب کیا گیا۔ وہ ساری کاشیاں آج تک باقی ہیں اور آستانہ مقدس میں موجود تمام آثار میں ان کا شمار قدیمی ترین اور قیمتی ترین اشیاء میں ہوتا ہے۔
روضہ کی تعمیر اور اس کی عمارت کی تجدید و باز سازی کے بعد 605ھ، 1208ء میں امیر مظفر احمد بن اسماعیل کے اشارہ پر اس وقت بڑے کاشی ساز محمد بن ابی طاہر کاشی قمی یا محمد بن طاہر بن ابی الحسن 8 سال حرم مطہر کے لئے کاشی بنانے میں مشغول رہے اور آخر کار 630ھ 1232ء میں تمام کاشی آمادہ ہوئی اور اسے نصب کیا گیا۔ وہ ساری کاشیاں آج تک باقی ہیں اور آستانہ مقدس میں موجود تمام آثار میں ان کا شمار قدیمی ترین اور قیمتی ترین اشیاء میں ہوتا ہے۔


قبر کی لمبائی 90۔2 میٹر اور اس کی چوڑائی و اونچائی 20۔1 میٹر ہے اور چونکہ وہ قبلہ کے خط سے ذرا سی منحرف تھی اس لئے شاہ طہماسب صفوی کے دور میں محقق ثانی کی رہنمائی میں ضریح کو قبلہ رخ سے اس کے اوپر نصب کیا گیا۔
قبر کی لمبائی 90۔2 میٹر اور اس کی چوڑائی و اونچائی 20۔1 میٹر ہے اور چونکہ وہ قبلہ کے خط سے ذرا سی منحرف تھی اس لئے شاہ طہماسب صفوی کے دور میں محقق ثانی کی رہنمائی میں ضریح کو قبلہ رخ سے اس کے اوپر نصب کیا گیا۔
سطر 119: سطر 119:
===ضریح===
===ضریح===


قبر مبارک پر پہلی ضریح شاہ طہماسب اول نے نصب کروائی۔ یہ ضریح 950 ھ، 1543 ء میں اینٹوں سے بنی جس کی لمبائی 80۔4 میٹر، چوڑائی 40۔4 میٹر اور اونچائی 2 میٹر تھی۔
قبر مبارک پر پہلی ضریح شاہ طہماسب اول نے نصب کروائی۔ یہ ضریح 950ھ، 1543ء میں اینٹوں سے بنی جس کی لمبائی 80۔4 میٹر، چوڑائی 40۔4 میٹر اور اونچائی 2 میٹر تھی۔


اس ضریح کی شمالی سمت میں اس کے اندر داخل ہونے کے لئے لکڑی کا دروازہ بنا ہوا تھا۔ 1213 ھ، 1798 ء میں فتح علی شاہ کئ حکم سے اسے تبدیل کرکے اس کی جگہ پر ایک نفیس سونے کا دروازہ نصب کیا گیا۔ شاہ طہماسب نے بعد میں ایک دوسری لوہے کی سفید و شفاف ضریح وہاں پر اس ضریح کے اطراف میں آدھے میٹر کے فاصلہ پر روضہ کے جنوب مغربی سمت میں نصب کی۔ 1000 ھ، 1591 ء میں اس ضریح کو تبدیل کرکے شاہ عباس اول نے وہاں ایک دوسری ضریح نصب کرائی۔
اس ضریح کی شمالی سمت میں اس کے اندر داخل ہونے کے لئے لکڑی کا دروازہ بنا ہوا تھا۔ 1213ھ، 1798ء میں فتح علی شاہ کئ حکم سے اسے تبدیل کرکے اس کی جگہ پر ایک نفیس سونے کا دروازہ نصب کیا گیا۔ شاہ طہماسب نے بعد میں ایک دوسری لوہے کی سفید و شفاف ضریح وہاں پر اس ضریح کے اطراف میں آدھے میٹر کے فاصلہ پر روضہ کے جنوب مغربی سمت میں نصب کی۔ 1000ھ، 1591ء میں اس ضریح کو تبدیل کرکے شاہ عباس اول نے وہاں ایک دوسری ضریح نصب کرائی۔


فتح علی شاہ نے اس ضریح پر 1245 ھ، 1829 ء میں چاندی کی پرتوں کا غلاف چڑھایا اور اسے زمین سے 30 سینٹی میٹر اوپر سنگ مرمر کے پایہ پر قرار دیا۔ یہ ضریح ایک بار فرسودگی کی وجہ سے فتح علی شاہ کے دور میں 1219 ھ، 1910 میں اور ایک بار 1365 ھ، 1945 ء میں مرمت کی گئی اور آخر کار 1348 ش میں اس کی شکل تبدیل کرکے اس کی اونچائی میں اضافہ کیا گیا۔
فتح علی شاہ نے اس ضریح پر 1245ھ، 1829ء میں چاندی کی پرتوں کا غلاف چڑھایا اور اسے زمین سے 30 سینٹی میٹر اوپر سنگ مرمر کے پایہ پر قرار دیا۔ یہ ضریح ایک بار فرسودگی کی وجہ سے فتح علی شاہ کے دور میں 1219ھ، 1910 میں اور ایک بار 1365ھ، 1945ء میں مرمت کی گئی اور آخر کار 1348 ش میں اس کی شکل تبدیل کرکے اس کی اونچائی میں اضافہ کیا گیا۔


==گنبد و گلدستے==
==گنبد و گلدستے==
گمنام صارف