مندرجات کا رخ کریں

"حمزہ بن موسی الکاظم" کے نسخوں کے درمیان فرق

imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 69: سطر 69:


==ری کے روضہ پر موجود قرائن==
==ری کے روضہ پر موجود قرائن==
محمد حسین حسینی جلالی اپنی کتاب مزارات اھل و تایخھا میں تحریر کرتے ہیں: شہر ری میں [[سید عبد العظیم حسنی]] کے سکونت اختیار کرنے کے دلائل میں سے ایک حمزہ بن موسی الکاظم علیہ السلام ہیں۔ یہ واقعیت ان کے زیارت نامہ میں اس طرح سے بیان ہوئی ہے: اے موسی بن جعفر (ع) کی اولاد میں سے بہترین کی زیارت کرنے والے۔<ref>خاک پاکان، محمد حسین حسینی جلالی، ترجمه: قربان علی اسماعیلی، ص۳۱۴</ref>  
محمد حسین حسینی جلالی اپنی کتاب مزارات اھل و تایخھا میں تحریر کرتے ہیں: شہر ری میں [[عبد العظیم حسنی]] کے سکونت اختیار کرنے کے دلائل میں سے ایک حمزہ بن موسی الکاظم علیہ السلام ہیں۔ یہ واقعیت ان کے زیارت نامہ میں اس طرح سے بیان ہوئی ہے: اے موسی بن جعفر (ع) کی اولاد میں سے بہترین کی زیارت کرنے والے۔<ref>خاک پاکان، محمد حسین حسینی جلالی، ترجمه: قربان علی اسماعیلی، ص۳۱۴</ref>  


بعض روایات کے مطابق، مامون کی طرف داری کرنے والے ایک گروہ نے آپ کے خلاف شورش برپا کرکے آپ کو قتل کر ڈالا اور آپ کے جاننے والوں اور دوستوں نے آپ کو ری کے ایک باغ میں دفن کر دیا۔  
بعض روایات کے مطابق، [[مامون]] کی طرف داری کرنے والے ایک گروہ نے آپ کے خلاف شورش برپا کرکے آپ کو قتل کر ڈالا اور آپ کے جاننے والوں اور دوستوں نے آپ کو ری کے ایک باغ میں دفن کر دیا۔  


حرز الدین کہتے ہیں: حمزہ کا مقبرہ شہر ری میں معروف اور مشہور ہے اور وہ سید عبد العظیم حسنی کے جنوبی رواق کی سمت میں واقع ہے۔ اس کے اوپر ایک بلند و استوار گنبد اور قیمتی ضریح موجود ہے۔ کسی کے لئے یہ بات مخفی نہیں ہے کہ حمزہ بن موسی بن جعفر (ع) کے روضے کے سلسلے میں مختلف شہروں کے روضات کی طرف نسبت دی جاتی ہے۔ جن میں سے مشہور ترین روضوں میں شہر ری کا روضہ ہے۔ ان کا شمار علمائ، بزرگان، فقہائ اور متقی انسان میں ہوتا ہے۔انہوں نے اپنے بھائی امام رضا علیہ السلام کی امامت کو قبول کیا تھا، وہ مدینہ میں امام کی خدمت بجا لاتے تھے اور امام کے حکم کی تعمیل کرتے تھے۔ ان کا شمار امام رضا (ع) کے اصحاب میں ہوتا ہے اور آپ سفر و حضر میں امام کی خدمت بجا لاتے تھے۔<ref>مراقد المعارف، حرزالدین، ج۱، ص۲۶۲ و۲۶۷</ref>  
حرز الدین کہتے ہیں: حمزہ کا مقبرہ شہر ری میں معروف اور مشہور ہے اور وہ سید عبد العظیم حسنی کے جنوبی رواق کی سمت میں واقع ہے۔ اس کے اوپر ایک بلند و استوار گنبد اور قیمتی ضریح موجود ہے۔ کسی کے لئے یہ بات مخفی نہیں ہے کہ حمزہ بن موسی بن جعفر (ع) کے روضے کے سلسلے میں مختلف شہروں کے روضات کی طرف نسبت دی جاتی ہے۔ جن میں سے مشہور ترین روضوں میں شہر ری کا روضہ ہے۔ ان کا شمار علماء، بزرگان، فقہاء اور متقی انسان میں ہوتا ہے۔انہوں نے اپنے بھائی [[امام رضا علیہ السلام]] کی [[امامت]] کو قبول کیا تھا، وہ [[مدینہ]] میں امام کی خدمت بجا لاتے تھے اور امام کے حکم کی تعمیل کرتے تھے۔ ان کا شمار امام رضا (ع) کے [[اصحاب]] میں ہوتا ہے اور آپ سفر و حضر میں امام کی خدمت بجا لاتے تھے۔<ref>مراقد المعارف، حرزالدین، ج۱، ص۲۶۲ و۲۶۷</ref>  


خوانساری نے اپنی کتاب روضات الجنات میں<ref>مراقد المعارف، حرزالدین،ج۴، ص۲۱۲</ref> اور رضا قلی خان ھدایت نے اپنی تالیف روضۃ الصفای ناصری میں<ref>مراقد المعارف، حرزالدین ج۱۱، ص۶۳۴</ref> حمزہ کا روضہ شہر ری میں تحریر کیا ہے۔  
خوانساری نے اپنی کتاب روضات الجنات میں<ref>مراقد المعارف، حرزالدین،ج۴، ص۲۱۲</ref> اور رضا قلی خان ھدایت نے اپنی تالیف روضۃ الصفای ناصری میں<ref>مراقد المعارف، حرزالدین ج۱۱، ص۶۳۴</ref> حمزہ کا روضہ شہر ری میں تحریر کیا ہے۔  
سطر 82: سطر 82:


===دوسرے شواہد===
===دوسرے شواہد===
ایک عالم دین اپنے والد کا قول نقل کرتے ہیں: میں عراق کے شہر حلہ کے اطراف میں تبلیغ کے لئے گیا ہوا تھا۔ وہاں پر ایک مزار ہے جو حمزہ بن موسی الکاظم کے نام سے معروف ہے۔  
ایک عالم دین اپنے والد کا قول نقل کرتے ہیں: میں عراق کے شہر [[حلہ]] کے اطراف میں تبلیغ کے لئے گیا ہوا تھا۔ وہاں پر ایک مزار ہے جو حمزہ بن موسی الکاظم کے نام سے معروف ہے۔  


لوگ ان کے سلسلہ میں کرامات نقل کرتے ہیں، میں ان کی زیارت کے لئے گیا کیونکہ میرے نزدیک ثابت ہو چکا تھا کہ ان کا روضہ شہر ری ہے۔  
لوگ ان کے سلسلہ میں کرامات نقل کرتے ہیں، میں ان کی [[زیارت]] کے لئے گیا کیونکہ میرے نزدیک ثابت ہو چکا تھا کہ ان کا روضہ شہر ری ہے۔  


ایک دن قریہ کے لوگوں نے مجھ سے خواہش ظاہر کی کہ میں ان کی زیارت کے لئے جاوں تو میں انہیں جواب دیا کہ میں جس روضہ کے بارے میں نہیں جانتا ہوں اس کی زیارت کے لئے نہیں جاتا ہوں۔ میرے انکار کی وجہ سے لوگوں کی رغبت اس روضہ کی زیارت کے سلسلہ میں کم ہوگئی۔  
ایک دن قریہ کے لوگوں نے مجھ سے خواہش ظاہر کی کہ میں ان کی زیارت کے لئے جاوں تو میں انہیں جواب دیا کہ میں جس روضہ کے بارے میں نہیں جانتا ہوں اس کی زیارت کے لئے نہیں جاتا ہوں۔ میرے انکار کی وجہ سے لوگوں کی رغبت اس روضہ کی زیارت کے سلسلہ میں کم ہوگئی۔  
گمنام صارف