مندرجات کا رخ کریں

"مشہد" کے نسخوں کے درمیان فرق

حجم میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ،  20 فروری 2017ء
م
imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 65: سطر 65:


{{اصلی|حوزہ علمیہ مشہد}}
{{اصلی|حوزہ علمیہ مشہد}}
حوزہ علمیہ مشہد تاریخی قدمت کا حامل ہے۔ بعض منابع کے مطابق امام رضا علیہ السلام کے حرم کی علمی فعالیت کا سلسلہ گزشتہ صدیوں میں صفویہ کے دور سے رواج پا چکا تھا اور بعض بزرگ علماء جیسے [[ابن بابویہ]]، [[شیخ طوسی]]، [[ابو علی فضل بن حسن طبرسی]]، ابو البرکات محمد بن اسماعیل مشہدی، ابن ابی جمہور اور [[خواجہ نصیر الدین طوسی]] اس شہر میں سکونت اختیار کر چکے تھے اور محافل علمی تشکیل دے چکے تھے۔ صفویہ دور حکومت میں جبل عامل (لبنان) سے مشہد علمای کی مہاجرت جیسے [[حسین بن عبد الصمد حارثی]]، شیخ بہائی کے والد، [[شیخ حر عاملی]] اور شیخ لطف اللہ میسی اور صفویہ سلاطین کی تعلیم و تعلم، دینی تبلیغات اور خراسان میں دینی مدارس کی تعمیر مشہد کی محافل علمی کی تقویت اور توسعہ کا سبب بنی اور حوزہ علمیہ مشہد ایک قوی علمی اور با استعداد حوزہ میں تبدیل ہو گیا۔  
حوزہ علمیہ مشہد تاریخی قدمت کا حامل ہے۔ بعض منابع کے مطابق امام رضا علیہ السلام کے حرم کی علمی فعالیت کا سلسلہ گزشتہ صدیوں میں صفویہ کے دور سے رواج پا چکا تھا اور بعض بزرگ علماء جیسے [[ابن بابویہ]]، [[شیخ طوسی]]، [[ابو علی فضل بن حسن طبرسی]]، ابو البرکات محمد بن اسماعیل مشہدی، ابن ابی جمہور اور [[خواجہ نصیر الدین طوسی]] اس شہر میں سکونت اختیار کر چکے تھے اور محافل علمی تشکیل دے چکے تھے۔ صفویہ دور حکومت میں جبل عامل (لبنان) سے مشہد علماء کی مہاجرت جیسے [[حسین بن عبد الصمد حارثی]]، شیخ بہائی کے والد، [[شیخ حر عاملی]] اور شیخ لطف اللہ میسی اور صفویہ سلاطین کی تعلیم و تعلم، دینی تبلیغات اور خراسان میں دینی مدارس کی تعمیر مشہد کی محافل علمی کی تقویت اور توسعہ کا سبب بنی اور حوزہ علمیہ مشہد ایک قوی علمی اور با استعداد حوزہ میں تبدیل ہو گیا۔  


قاچار دور حکومت میں بھی حوزہ علمیہ مشہد کے توسعہ اور تقویت کا خیال رکھا جاتا تھا۔ حوزہ علیہ مشہد، انقلاب مشروطہ کے بعد جس میں گوہرشاد کا واقعہ پیش آیا، اور خاص طور پر دو دانشمند علماء نے مشہد کی طرف مہاجرت اختیار کی جن میں [[آقا زادہ خراسانی]]، آخوند خراسانی کے فرزند اور [[حاج آقا حسین قمی]] (متوفی ۱۳۲۶ ش) یہ دونوں حضرات [[نجف اشرف]] کے فارغ التحصیل تھے، اور شیخ مرتضی آشتیانی، خاص طور پر فقہ و اصول کے درس خارج کے اعتبار سے اس کی رونق میں بہت اضافہ ہو گیا۔
قاچار دور حکومت میں بھی حوزہ علمیہ مشہد کے توسعہ اور تقویت کا خیال رکھا جاتا تھا۔ حوزہ علیہ مشہد، انقلاب مشروطہ کے بعد جس میں گوہرشاد کا واقعہ پیش آیا، اور خاص طور پر دو دانشمند علماء نے مشہد کی طرف مہاجرت اختیار کی جن میں [[آقا زادہ خراسانی]]، آخوند خراسانی کے فرزند اور [[حاج آقا حسین قمی]] (متوفی ۱۳۲۶ ش) یہ دونوں حضرات [[نجف اشرف]] کے فارغ التحصیل تھے، اور شیخ مرتضی آشتیانی، خاص طور پر فقہ و اصول کے درس خارج کے اعتبار سے اس کی رونق میں بہت اضافہ ہو گیا۔


اس حوزہ نے بزرگ علماء کی زعامت میں، جن میں حاج آقا حسین قمی اور آقا زادہ خراسانی شامل ہیں، پہلوی اول کے زمانہ میں متعدد مواقع پر مختلف سیاسی و سماجی مسائل پر جو دینی معاشرہ کی شان کے خلاف تھا،  رد عمل ظاہر کیا۔ حوزی علمیہ مشہد کا دوبارہ سے احیائ رضا شاہ کے سقوط کے بعد، خاص طور پر تین برجستہ علمی شخصیات، جن میں میرزا احمد کفایی، شیخ مرتضی آشتیانی اور میرزا مہدی اصفھانی شامل ہیں، کی کوششوں کے نتیجہ میں تھا۔ [[آیت اللہ میلانی]] کی مہاجرت نے اس حوزہ کی علمی و دینی ترقی میں گزشتہ سے زیادہ مضبوطی اور ارتقائ عطا کیا۔ انہوں نے حوزہ کے نظم و انتظام کے سلسلہ میں نمایاں کارنامہ انجام دیا۔ حوزہ علمیہ مشہد نے سماجی تحریکوں میں جیسے صنعت نفت کے قومی سرمایہ بننے، ۱۵ خرداد ۱۳۴۲ ش کا قیام، ریاستی انجمنوں اور اصلاحات ارضی سے متعلق پیش شدہ قانون کی مخالفت، [[امام خمینی]] کی جلا وطنی پر اعتراض اور [[اسلامی انقلاب]] کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
اس حوزہ نے بزرگ علماء کی زعامت میں، جن میں حاج آقا حسین قمی اور آقا زادہ خراسانی شامل ہیں، پہلوی اول کے زمانہ میں متعدد مواقع پر مختلف سیاسی و سماجی مسائل پر جو دینی معاشرہ کی شان کے خلاف تھا،  رد عمل ظاہر کیا۔ حوزہ علمیہ مشہد کا دوبارہ سے احیائ رضا شاہ کے سقوط کے بعد، خاص طور پر تین برجستہ علمی شخصیات، جن میں میرزا احمد کفایی، شیخ مرتضی آشتیانی اور میرزا مہدی اصفھانی شامل ہیں، کی کوششوں کے نتیجہ میں تھا۔ [[آیت اللہ میلانی]] کی مہاجرت نے اس حوزہ کی علمی و دینی ترقی میں گزشتہ سے زیادہ مضبوطی اور ارتقاء عطا کیا۔ انہوں نے حوزہ کے نظم و انتظام کے سلسلہ میں نمایاں کارنامہ انجام دیا۔ حوزہ علمیہ مشہد نے سماجی تحریکوں میں جیسے صنعت نفت کے قومی سرمایہ بننے، ۱۵ خرداد ۱۳۴۲ ش کا قیام، ریاستی انجمنوں اور اصلاحات ارضی سے متعلق پیش شدہ قانون کی مخالفت، [[امام خمینی]] کی جلا وطنی پر اعتراض اور [[اسلامی انقلاب]] کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔


=== قدیمی دینی مدارس ===
=== قدیمی دینی مدارس ===
گمنام صارف