مندرجات کا رخ کریں

"مشہد" کے نسخوں کے درمیان فرق

حجم میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ،  15 فروری 2017ء
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 5: سطر 5:
== وجہ تسمیہ ==
== وجہ تسمیہ ==


مشہد شہادت کے مقام و محل کو کہتے ہیں۔ امام علی رضا علیہ السلام کو سن ۲۰۲ ھجری قمری میں [[مامون]] عباسی خلیفہ کی طرف سے زہر دیئے جانے کے بعد آپ کو [[ہارون]] کے مقبرہ سناباد میں سپرد خاک کیا گیا۔ اس کے بعد سے سناباد نوغان کو مشہد الرضا کہا جانے لگا اور دھیرے دھیرے صفوی بادشاہ تہماسب کے زمانہ میں، طوس کے باشندوں کو مشہد کی طرف بھیجا گیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ شہر مشہد کے نام سے مشہور ہو گیا۔<ref>نام مشہد، شہر مشہد پورٹل، تصحیح شدہ ۲۴ خرداد ۱۳۹۴ ش</ref>
مشہد شہادت کے مقام و محل کو کہتے ہیں۔ امام علی رضا علیہ السلام کو سن ۲۰۲ ہجری قمری میں [[مامون]] عباسی خلیفہ کی طرف سے زہر دیئے جانے کے بعد آپ کو [[ہارون]] کے مقبرہ سناباد میں سپرد خاک کیا گیا۔ اس کے بعد سے سناباد نوغان کو مشہد الرضا کہا جانے لگا اور دہیرے دھیرے صفوی بادشاہ تہماسب کے زمانہ میں، طوس کے باشندوں کو مشہد کی طرف بھیجا گیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ شہر مشہد کے نام سے مشہور ہو گیا۔<ref>نام مشہد، شہر مشہد پورٹل، تصحیح شدہ ۲۴ خرداد ۱۳۹۴ ش</ref>
بعض تاریخی منابع میں، مشہد کو مشہد طوس اور مشہد نوغان کے نام سے بھی ذکر کیا گیا ہے۔<ref>میر محمدی، مشہد (ایران) کے مشہور اماکن پر ایک تحقیق، مجلہ مشکاۃ  صفحہ ۶۶۔</ref>
بعض تاریخی منابع میں، مشہد کو مشہد طوس اور مشہد نوغان کے نام سے بھی ذکر کیا گیا ہے۔<ref>میر محمدی، مشہد (ایران) کے مشہور اماکن پر ایک تحقیق، مجلہ مشکاۃ  صفحہ ۶۶۔</ref>


== تاریخ ==
== تاریخ ==


=== تیسری صدی ھجری: مشہد شہر کی تاسیس ===
=== تیسری صدی ہجری: مشہد شہر کی تاسیس ===


امام علی رضا علیہ السلام کے روضہ کے اطراف میں مومنین کی سکونت کی ابتدائ کے سلسلہ میں دقیق معلومات موجود نہیں ہے، البتہ موجودہ تاریخی اسناد کے مطابق، تیسری صدی ھجری کے اواخر میں، [[علویوں]]، [[سادات]] اور امام (ع) کے اعزہ و اقارب کا ایک گروہ آپ کے روضہ جوار میں ساکن تھا۔<ref>عطاردی، فرھنگ خراسان، جلد ۱، پاییز ۱۳۸۱ ش، صفحہ ۴۲۔</ref> اس کے بعد تدریجی طور وہاں زائرین کے لئے استراحت گاہ، بازار اور مسافر خانے وجود میں آئے اور مشہد الرضا امام رضا علیہ السلام کے محل دفن کے معنی میں نوقان شہر کے پاس ایک دوسرے شہر میں تبدیل ہو گیا اور شیعوں اور [[اہل بیت علیہم السلام]] کے چاہنے والوں کے بہت سے گروہ اس میں بس گئے یا زیارت کی غرض سے وہاں حاضر ہونے لگے۔<ref>عطاردی، فرھنگ خراسان، جلد ۱، پاییز ۱۳۸۱ ش، صفحہ۴۲۔۴۳</ref>
امام علی رضا علیہ السلام کے روضہ کے اطراف میں مومنین کی سکونت کی ابتدائ کے سلسلہ میں دقیق معلومات موجود نہیں ہے، البتہ موجودہ تاریخی اسناد کے مطابق، تیسری صدی ہجری کے اواخر میں، [[علویوں]]، [[سادات]] اور امام (ع) کے اعزہ و اقارب کا ایک گروہ آپ کے روضہ جوار میں ساکن تھا۔<ref>عطاردی، فرہنگ خراسان، جلد ۱، پاییز ۱۳۸۱ ش، صفحہ ۴۲۔</ref> اس کے بعد تدریجی طور وہاں زائرین کے لئے استراحت گاہ، بازار اور مسافر خانے وجود میں آئے اور مشہد الرضا امام رضا علیہ السلام کے محل دفن کے معنی میں نوقان شہر کے پاس ایک دوسرے شہر میں تبدیل ہو گیا اور شیعوں اور [[اہل بیت علیہم السلام]] کے چاہنے والوں کے بہت سے گروہ اس میں بس گئے یا زیارت کی غرض سے وہاں حاضر ہونے لگے۔<ref>عطاردی، فرہنگ خراسان، جلد ۱، پاییز ۱۳۸۱ ش، صفحہ۴۲۔۴۳</ref>


=== چوتھی صدی ھجری: سبکتکین کے ہاتھوں روضہ کی بربادی ===
=== چوتھی صدی ہجری: سبکتکین کے ہاتھوں روضہ کی بربادی ===


چوتھی صدی ھجری میں خراسان سے مشہد کی طرف مسلمان علمائ، دانشمندوں اور محدثین کی آمد و رفت کا سلسلہ شروع ہوا؛ یہاں تک کہ [[شیخ صدوق]] چند مرتبہ شہر ری سے مشہد گئے اور آپ کی کتاب امالی کی تین مجالس آپ نے مشہد میں امام رضا علیہ السلام کے روضہ میں تحریر کی۔<ref>عطاردی، فرھنگ خراسان، جلد ۱، پاییز ۱۳۸۱ ش، صفحہ ۴۴۔</ref> اس دور میں جس میں ایران میں [[آل بویہ]] کی حکومت کا زمانہ تھا، مشہد میں مساجد و مدارس وجود میں آئے اور شیعہ علمائ و فقہائ اہل بیت علہیم السلام کی تعلیمات کی تبلیغ میں مشغول ہو گئے۔<ref>عطاردی، فرھنگ خراسان، جلد ۱، پاییز ۱۳۸۱ ش، صفحہ ۴۴،۴۵۔</ref> اس کے بعد ایران میں سن ۳۷۰ سے ۳۸۰ قمری تک غزنویوں کے بر سر اقتدار آنے کے ساتھ، امیر سبکتکین نے شیعہ مخالف ہونے اور اہل بیت (ع) کے دشمنوں کی تبلیغات کے زیر اثر اس نے شہر مشہد کو ویران کرنے کا حکم صادر کر دیا۔ اس واقعہ میں امام رضا (ع) کے روضہ کا گنبد خراب کر دیا گیا، حرم میں زائرین کے آنے پر پابندی عائد کر دی گئی اور اہل شہر کو شہر سے باہر نکال دیا گیا، حتی شہر کی عمارتیں بھی ویران ہو گئیں تا کہ مشہد ایک ویران شہر میں تبدیل ہو جائے۔ مشہد سالہا سال تک باشندوں سے خالی رہا۔<ref>عطاردی، فرھنگ خراسان، جلد ۱، پاییز ۱۳۸۱ ش، صفحہ ۴۸۔</ref>
چوتھی صدی ہجری میں خراسان سے مشہد کی طرف مسلمان علمائ، دانشمندوں اور محدثین کی آمد و رفت کا سلسلہ شروع ہوا؛ یہاں تک کہ [[شیخ صدوق]] چند مرتبہ شہر ری سے مشہد گئے اور آپ کی کتاب امالی کی تین مجالس آپ نے مشہد میں امام رضا علیہ السلام کے روضہ میں تحریر کی۔<ref>عطاردی، فرہنگ خراسان، جلد ۱، پاییز ۱۳۸۱ ش، صفحہ ۴۴۔</ref> اس دور میں جس میں ایران میں [[آل بویہ]] کی حکومت کا زمانہ تھا، مشہد میں مساجد و مدارس وجود میں آئے اور شیعہ علمائ و فقہائ اہل بیت علہیم السلام کی تعلیمات کی تبلیغ میں مشغول ہو گئے۔<ref>عطاردی، فرہنگ خراسان، جلد ۱، پاییز ۱۳۸۱ ش، صفحہ ۴۴،۴۵۔</ref> اس کے بعد ایران میں سن ۳۷۰ سے ۳۸۰ قمری تک غزنویوں کے بر سر اقتدار آنے کے ساتہ، امیر سبکتکین نے شیعہ مخالف ہونے اور اہل بیت (ع) کے دشمنوں کی تبلیغات کے زیر اثر اس نے شہر مشہد کو ویران کرنے کا حکم صادر کر دیا۔ اس واقعہ میں امام رضا (ع) کے روضہ کا گنبد خراب کر دیا گیا، حرم میں زائرین کے آنے پر پابندی عائد کر دی گئی اور اہل شہر کو شہر سے باہر نکال دیا گیا، حتی شہر کی عمارتیں بہی ویران ہو گئیں تا کہ مشہد ایک ویران شہر میں تبدیل ہو جائے۔ مشہد سالہا سال تک باشندوں سے خالی رہا۔<ref>عطاردی، فرہنگ خراسان، جلد ۱، پاییز ۱۳۸۱ ش، صفحہ ۴۸۔</ref>


سبکتکین کے مرنے کے بعد اس کے جانشین اور بیٹے سلطان محمود غزنوی (رورہ حکومت ۳۸۷ سے ۴۲۱ قمری) کے دور حکومت میں امام رضا علیہ اسلام کا روضہ کی باز سازی کی گئی اور مشہد شہر ایک بار پھر اپنی رونق حاصل کر سکا اور نماز جمعہ اور کرسی خطابت کو قائم کیا گیا اور غزنویوں کی حکومت کے دوران اس میں امنیت قائم رہی۔<ref>عطاردی، فرھنگ خراسان، جلد ۱، پاییز ۱۳۸۱ ش، صفحہ ۵۰۔</ref>
سبکتکین کے مرنے کے بعد اس کے جانشین اور بیٹے سلطان محمود غزنوی (رورہ حکومت ۳۸۷ سے ۴۲۱ قمری) کے دور حکومت میں امام رضا علیہ اسلام کا روضہ کی باز سازی کی گئی اور مشہد شہر ایک بار پھر اپنی رونق حاصل کر سکا اور نماز جمعہ اور کرسی خطابت کو قائم کیا گیا اور غزنویوں کی حکومت کے دوران اس میں امنیت قائم رہی۔<ref>عطاردی، فرہنگ خراسان، جلد ۱، پاییز ۱۳۸۱ ش، صفحہ ۵۰۔</ref>


=== پانچویں اور چھٹی صدی ہجری: طویل امینت اور اتفاقی آشوب ===
=== پانچویں اور چھٹی صدی ہجری: طویل امینت اور اتفاقی آشوب ===


پانچویں صدی ہجری میں سلجوقیان کی حکومت کے دور میں اگر چہ سلاطین حنفی مذہب تھے، لیکن وہ امام رضا علیہ السلام کے روضے کے کئے ایک خاص احترام کے قائل تھے اور وہ خود زیارت کرنے جاتے تھے۔ سلجوقی سلاطین جن میں ملک شاہ اور سلطان سنجر شامل ہیں، امام رضا علیہ السلام کے حرم کے سلسلہ میں خاص توجہ روایات میں نقل ہوئی ہیں۔<ref>عطاردی، فرھنگ خراسان، جلد ۱، پاییز ۱۳۸۱ ش، صفحہ ۵۱۔۵۲</ref> تاریخی روایات کے مطابق، اس زمانہ میں مشہد کی طرف جانے والے راستوں پر امن قائم ہو چکی تھی۔ ڈاکو ڈاکہ ڈالنے کی جرات نہیں کرتے تھے اور دشمنان اہل بیت علیہم السلام مشہد کی راہ میں زائرین کی آمد و رفت میں مانع نہیں بن سکتے تھے۔<ref>عطاردی، فرھنگ خراسان، جلد ۱، پاییز ۱۳۸۱ ش، صفحہ ۵۱۔۵۲</ref>
پانچویں صدی ہجری میں سلجوقیان کی حکومت کے دور میں اگر چہ سلاطین حنفی مذہب تھے، لیکن وہ امام رضا علیہ السلام کے روضے کے کئے ایک خاص احترام کے قائل تھے اور وہ خود زیارت کرنے جاتے تھے۔ سلجوقی سلاطین جن میں ملک شاہ اور سلطان سنجر شامل ہیں، امام رضا علیہ السلام کے حرم کے سلسلہ میں خاص توجہ روایات میں نقل ہوئی ہیں۔<ref>عطاردی، فرہنگ خراسان، جلد ۱، پاییز ۱۳۸۱ ش، صفحہ ۵۱۔۵۲</ref> تاریخی روایات کے مطابق، اس زمانہ میں مشہد کی طرف جانے والے راستوں پر امن قائم ہو چکی تھی۔ ڈاکو ڈاکہ ڈالنے کی جرات نہیں کرتے تھے اور دشمنان اہل بیت علیہم السلام مشہد کی راہ میں زائرین کی آمد و رفت میں مانع نہیں بن سکتے تھے۔<ref>عطاردی، فرہنگ خراسان، جلد ۱، پاییز ۱۳۸۱ ش، صفحہ ۵۱۔۵۲</ref>


سن ۵۱۰ قمری کے عاشورہ میں ایک علوی اور [[اہل سنت]] فقیہ کے درمیان مناظرہ کے نتیجہ میں مشہد کا محاصرہ، اس پر حملہ اور امام رضا علیہ السلام کے روضہ کی تخریب کے طور پر نکلا اور اسی طرح سے عوام کے قتل و غارت کو انجام دیا گیا۔<ref>عطاردی، فرھنگ خراسان، جلد ۱، پاییز ۱۳۸۱ ش، صفحہ ۵۲۔۵۳</ref> اس واقعہ کے بعد سے آج تک کبھی بھی مشہد مکمل طور پر خراب نہیں ہوا ہے۔<ref>عطاردی، فرھنگ خراسان، جلد ۱، پاییز ۱۳۸۱ ش، صفحہ ۵۹۔</ref> بعض مورخین کا ماننا ہے کہ علوی اور سنی فقیہ کے درمیان بحث و درگیری کے بعد صلح ہو گئی تھی لیکن کرامیہ فرقہ نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں کو ورغلایا۔<ref>عطاردی، فرھنگ خراسان، جلد ۱، پاییز ۱۳۸۱ ش، صفحہ ۵۴۔</ref> یہ حادثہ سلجوقی سلطان سنجر کے دورہ حکومت اور اس کے کے غزنی پر حملہ کے زمانہ میں پیش آیا۔ سلطان سنجر کو جب اس واقعہ کی خبر ہوئی تو اس نے اپنے وزیر مجد الملک قمی کو اس نے ذمہ داری دی کہ وہ امام رضا علیہ السلام کے روضہ کی از سر نو تعمیر کرے اور شہر مشہد کی باز ساری کرے اور زائرین کی آمد و رفت کے وسائل کو فراہم کرے۔<ref>عطاردی، فرھنگ خراسان، جلد ۱، پاییز ۱۳۸۱ ش، صفحہ ۵۵۔</ref> اس کے بعد کبھی بھی مشہد میں شیعہ سنی نزاع پیش نہیں آیا ہے۔<ref>عطاردی، فرھنگ خراسان، جلد ۱، پاییز ۱۳۸۱ ش، صفحہ ۶۱۔</ref>
سن ۵۱۰ قمری کے عاشورہ میں ایک علوی اور [[اہل سنت]] فقیہ کے درمیان مناظرہ کے نتیجہ میں مشہد کا محاصرہ، اس پر حملہ اور امام رضا علیہ السلام کے روضہ کی تخریب کے طور پر نکلا اور اسی طرح سے عوام کے قتل و غارت کو انجام دیا گیا۔<ref>عطاردی، فرھنگ خراسان، جلد ۱، پاییز ۱۳۸۱ ش، صفحہ ۵۲۔۵۳</ref> اس واقعہ کے بعد سے آج تک کبھی بھی مشہد مکمل طور پر خراب نہیں ہوا ہے۔<ref>عطاردی، فرہنگ خراسان، جلد ۱، پاییز ۱۳۸۱ ش، صفحہ ۵۹۔</ref> بعض مورخین کا ماننا ہے کہ علوی اور سنی فقیہ کے درمیان بحث و درگیری کے بعد صلح ہو گئی تھی لیکن کرامیہ فرقہ نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں کو ورغلایا۔<ref>عطاردی، فرہنگ خراسان، جلد ۱، پاییز ۱۳۸۱ ش، صفحہ ۵۴۔</ref> یہ حادثہ سلجوقی سلطان سنجر کے دورہ حکومت اور اس کے کے غزنی پر حملہ کے زمانہ میں پیش آیا۔ سلطان سنجر کو جب اس واقعہ کی خبر ہوئی تو اس نے اپنے وزیر مجد الملک قمی کو اس نے ذمہ داری دی کہ وہ امام رضا علیہ السلام کے روضہ کی از سر نو تعمیر کرے اور شہر مشہد کی باز ساری کرے اور زائرین کی آمد و رفت کے وسائل کو فراہم کرے۔<ref>عطاردی، فرہنگ خراسان، جلد ۱، پاییز ۱۳۸۱ ش، صفحہ ۵۵۔</ref> اس کے بعد کبھی بھی مشہد میں شیعہ سنی نزاع پیش نہیں آیا ہے۔<ref>عطاردی، فرہنگ خراسان، جلد ۱، پاییز ۱۳۸۱ ش، صفحہ ۶۱۔</ref>


=== ساتویں صدی ھجری: مغول حملہ اور تاریخی اختلافات ===
=== ساتویں صدی ہجری: مغول حملہ اور تاریخی اختلافات ===


چنگیز خان نے سن ۶۱۷ قمری میں خراسان پر حملہ کیا اور شہروں میں آگ لگائی، عوام کا قتل عام کیا اور مساجد و مدارس کو ویران کر دیا۔<ref>عطاردی، فرھنگ خراسان، جلد ۱، پاییز ۱۳۸۱ ش، صفحہ ۵۷۔</ref> مشھد کے نزدیک دو قدیمی اور تاریخی شہروں نوقان اور طابران کو اس نے مکمل طور پر ویران کر ڈالا اور آج ہارونی عمارت کے علاوہ کوئی بھی آثار اس شہر کے باقی نہیں ہیں۔ ان سب کو باوجود لیکن شہر مشہد کو، بعض منابع کی تحریر (فضل اللہ بن روزبہان خنجی کی تحریر مہمان نامہ بخارا) کے مطابق شہر امن قرار دیا گیا اور چنگیز خان کے حکم سے جو بھی وہاں چلا جاتا تھا اسے امان مل جاتی تھی۔<ref>عطاردی، فرھنگ خراسان، جلد ۱، پاییز ۱۳۸۱ ش، صفحہ ۵۸۔</ref> [[ابن ابی الحدید]] نے [[شرح نہج البلاغہ]] میں شہر شہر اور امام رضا علیہ السلام کے روضہ کی ویرانی کا ذکر کیا ہے۔ حالانکہ عطا ملک جوینی نے تاریخ جہان گشا میں امام رضا علیہ السلام کے حرم کی تخریب کے بارے می کوئی تذکرہ نہیں کیا ہے۔<ref>حامی، تاریخ تعرضات حرم رضوی، مرکز اسناد انقلاب اسلامی کی ویب سائٹ۔</ref>
چنگیز خان نے سن ۶۱۷ قمری میں خراسان پر حملہ کیا اور شہروں میں آگ لگائی، عوام کا قتل عام کیا اور مساجد و مدارس کو ویران کر دیا۔<ref>عطاردی، فرہنگ خراسان، جلد ۱، پاییز ۱۳۸۱ ش، صفحہ ۵۷۔</ref> مشہد کے نزدیک دو قدیمی اور تاریخی شہروں نوقان اور طابران کو اس نے مکمل طور پر ویران کر ڈالا اور آج ہارونی عمارت کے علاوہ کوئی بھی آثار اس شہر کے باقی نہیں ہیں۔ ان سب کو باوجود لیکن شہر مشہد کو، بعض منابع کی تحریر (فضل اللہ بن روزبہان خنجی کی تحریر مہمان نامہ بخارا) کے مطابق شہر امن قرار دیا گیا اور چنگیز خان کے حکم سے جو بھی وہاں چلا جاتا تھا اسے امان مل جاتی تھی۔<ref>عطاردی، فرہنگ خراسان، جلد ۱، پاییز ۱۳۸۱ ش، صفحہ ۵۸۔</ref> [[ابن ابی الحدید]] نے [[شرح نہج البلاغہ]] میں شہر شہر اور امام رضا علیہ السلام کے روضہ کی ویرانی کا ذکر کیا ہے۔ حالانکہ عطا ملک جوینی نے تاریخ جہان گشا میں امام رضا علیہ السلام کے حرم کی تخریب کے بارے می کوئی تذکرہ نہیں کیا ہے۔<ref>حامی، تاریخ تعرضات حرم رضوی، مرکز اسناد انقلاب اسلامی کی ویب سائٹ۔</ref>


=== آٹھویں اور نویں صدی ھجری: امام رضا (ع) کے روضہ پر خاص توجہ ===
=== آٹھویں اور نویں صدی ہجری: امام رضا (ع) کے روضہ پر خاص توجہ ===


مشہد نے ایلخانیان (۶۵۴۔۷۵۰ ق) اور تیموریان (۷۷۱۔ ۹۱۱ ق) کے دور میں ترقی کی اور ان دونوں حکومتوں کے سلاطین نے امام رضا علیہ السلام کے روضہ اور شہر مشہد پر خاص توجہ مرکوز رکھی۔<ref>عطاردی، فرھنگ خراسان، جلد ۱، پاییز ۱۳۸۱ ش، صفحہ ۶۰۔۶۱</ref> شاہ رخ جو امیر تیمور کا نائب اور ھرات کا حاکم تھا، وہ سال  میں چند ماہ مشہد میں قیام کرتا تھا۔ اس کی بیوی گوہر شاد نے امام رضا (ع) کے حرم کے برابر میں ایک با شکوہ مسجد تعمیر کرائی اور اسے وقف کر دیا جو آج مسجد گوہر شاد کے نام سے معروف ہے۔<ref>عطاردی، فرھنگ خراسان، جلد ۱، پاییز ۱۳۸۱ ش، صفحہ ۶۱۔</ref>
مشہد نے ایلخانیان (۶۵۴۔۷۵۰ ق) اور تیموریان (۷۷۱۔ ۹۱۱ ق) کے دور میں ترقی کی اور ان دونوں حکومتوں کے سلاطین نے امام رضا علیہ السلام کے روضہ اور شہر مشہد پر خاص توجہ مرکوز رکھی۔<ref>عطاردی، فرہنگ خراسان، جلد ۱، پاییز ۱۳۸۱ ش، صفحہ ۶۰۔۶۱</ref> شاہ رخ جو امیر تیمور کا نائب اور ہرات کا حاکم تھا، وہ سال  میں چند ماہ مشہد میں قیام کرتا تھا۔ اس کی بیوی گوہر شاد نے امام رضا (ع) کے حرم کے برابر میں ایک با شکوہ مسجد تعمیر کرائی اور اسے وقف کر دیا جو آج مسجد گوہر شاد کے نام سے معروف ہے۔<ref>عطاردی، فرہنگ خراسان، جلد ۱، پاییز ۱۳۸۱ ش، صفحہ ۶۱۔</ref>


=== دسویں اور گیارہویں صدی ہجری: شہر کی آباد کاری اور روضہ کا توسعہ ===
=== دسویں اور گیارہویں صدی ہجری: شہر کی آباد کاری اور روضہ کا توسعہ ===


دسویں صدی ہجری کے اوائل میں صفویہ حکومت کے ظہور کے ساتھ ایران میں شیعہ مذہب کو سرکاری حیثیت دی گئی۔ جس کے بعد شہر مشہد ایران میں شیعوں کے ایک اصلی مرکز میں تبدیل ہو گیا۔<ref>عطاردی، فرھنگ خراسان، جلد ۱، پاییز ۱۳۸۱ ش، صفحہ ۶۱۔</ref> [[صفوی]] بادشاہوں نے مشہد شہر کی آباد کاری کا خاص اہتمام کیا اور امام رضا علیہ السلام کے حرم میں نئے حصوں کا اضافہ کیا؛ جس میں سے صحن شمالی جو آج صحن کہنہ کہا جاتا ہے۔ گنبد کی طلا کاری، شہر مشہد کی باز سازی، کھیتی اور تجارت و صنعت میں توسعہ، [[شیعہ علما]] اور شخصیات کو دعوت دی گئی اور جدید مدارس تاسیس کئے گئے، جس نے مشہد کو ایک خاص رونق عطا کی۔<ref>عطاردی، فرھنگ خراسان، جلد ۱، پاییز ۱۳۸۱ ش، صفحہ ۶۲۔۶۳</ref>
دسویں صدی ہجری کے اوائل میں صفویہ حکومت کے ظہور کے ساتھ ایران میں شیعہ مذہب کو سرکاری حیثیت دی گئی۔ جس کے بعد شہر مشہد ایران میں شیعوں کے ایک اصلی مرکز میں تبدیل ہو گیا۔<ref>عطاردی، فرہنگ خراسان، جلد ۱، پاییز ۱۳۸۱ ش، صفحہ ۶۱۔</ref> [[صفوی]] بادشاہوں نے مشہد شہر کی آباد کاری کا خاص اہتمام کیا اور امام رضا علیہ السلام کے حرم میں نئے حصوں کا اضافہ کیا؛ جس میں سے صحن شمالی جو آج صحن کہنہ کہا جاتا ہے۔ گنبد کی طلا کاری، شہر مشہد کی باز سازی، کھیتی اور تجارت و صنعت میں توسعہ، [[شیعہ علما]] اور شخصیات کو دعوت دی گئی اور جدید مدارس تاسیس کئے گئے، جس نے مشہد کو ایک خاص رونق عطا کی۔<ref>عطاردی، فرہنگ خراسان، جلد ۱، پاییز ۱۳۸۱ ش، صفحہ ۶۲۔۶۳</ref>


=== بارہویں اور تیرہویں صدی ہجری: دار الحکومت سے توپ باندھنے تک ===
=== بارہویں اور تیرہویں صدی ہجری: دار الحکومت سے توپ باندھنے تک ===


نادر شاہ افشار (۱۰۶۷۔۱۱۲۶ ق) نے ایران کو فتح کرنے اور ملک سے باغیوں کو صاف کرنے کے بعد مشہد کو اپنا دار السلطنت بنایا اور شہر کی آباد کاری کے لئے بہت کوشش کی۔ امام رضا علیہ السلام کے حرم کے میناروں کی اس کے زمانہ میں طلا کاری کی گئی اور صحن قدیم کے سقا خانہ کو اس کے زمانہ میں تعمیر کیا گیا۔<ref>عطاردی، فرھنگ خراسان، جلد ۱، پاییز ۱۳۸۱ ش، صفحہ ۶۵۔</ref>
نادر شاہ افشار (۱۰۶۷۔۱۱۲۶ ق) نے ایران کو فتح کرنے اور ملک سے باغیوں کو صاف کرنے کے بعد مشہد کو اپنا دار السلطنت بنایا اور شہر کی آباد کاری کے لئے بہت کوشش کی۔ امام رضا علیہ السلام کے حرم کے میناروں کی اس کے زمانہ میں طلا کاری کی گئی اور صحن قدیم کے سقا خانہ کو اس کے زمانہ میں تعمیر کیا گیا۔<ref>عطاردی، فرہنگ خراسان، جلد ۱، پاییز ۱۳۸۱ ش، صفحہ ۶۵۔</ref>


قاچاریوں کی حکومت کے آغاز کے ساتھ  ہی (۱۱۷۴۔۱۳۰۴ ش) ایران کا دار الحکومت مشہد سے تہران منتقل ہو گیا۔ اس کے با وجود مشہد کے توسعہ میں کوئی کمی نہیں ہوئی؛ وہاں نئے بازاروں اور مسافر خانوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری رہا، امام رضا علیہ السلام میں متعدد رواق اور صحن تعمیر ہو گئے۔ صحن نو اور صحن قدیم کی طلاکاری اور حرم کی آئینہ کاری اور اسی طرح سے رواق دار السیادہ و دار الحفاظ اسی زمانہ سے تعلق رکھتے ہیں۔<ref>عطاردی، فرھنگ خراسان، جلد ۱، پاییز ۱۳۸۱ ش، صفحہ ۶۵۔</ref>
قاچاریوں کی حکومت کے آغاز کے ساتھ  ہی (۱۱۷۴۔۱۳۰۴ ش) ایران کا دار الحکومت مشہد سے تہران منتقل ہو گیا۔ اس کے با وجود مشہد کے توسعہ میں کوئی کمی نہیں ہوئی؛ وہاں نئے بازاروں اور مسافر خانوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری رہا، امام رضا علیہ السلام میں متعدد رواق اور صحن تعمیر ہو گئے۔ صحن نو اور صحن قدیم کی طلاکاری اور حرم کی آئینہ کاری اور اسی طرح سے رواق دار السیادہ و دار الحفاظ اسی زمانہ سے تعلق رکھتے ہیں۔<ref>عطاردی، فرہنگ خراسان، جلد ۱، پاییز ۱۳۸۱ ش، صفحہ ۶۵۔</ref>
قاچار حکومت کے اواخر میں مشہد پر روسیوں نے حملہ کر دیا اور امام رضا علیہ السلام کے روضہ پر توپ سے گولہ باری کی گئی اور کچھ لوگ مارے گئے۔ اس واقعہ میں حرم میں موجود اموال اور خزانہ کو خالی کرنا پڑا۔<ref>عطاردی، فرھنگ خراسان، جلد ۱، پاییز ۱۳۸۱ ش، صفحہ ۶۵۔۶۶</ref>
قاچار حکومت کے اواخر میں مشہد پر روسیوں نے حملہ کر دیا اور امام رضا علیہ السلام کے روضہ پر توپ سے گولہ باری کی گئی اور کچھ لوگ مارے گئے۔ اس واقعہ میں حرم میں موجود اموال اور خزانہ کو خالی کرنا پڑا۔<ref>عطاردی، فرہنگ خراسان، جلد ۱، پاییز ۱۳۸۱ ش، صفحہ ۶۵۔۶۶</ref>


=== چودہویں صدی ہجری: ترقی و توسعہ کا دور ===
=== چودہویں صدی ہجری: ترقی و توسعہ کا دور ===


[[پہلوی]] حکومت کے دور میں شہر مشہد نے گزشتہ سے زیادہ ترقی کی۔ اس زمانہ میں محلات، سڑکیں اور اسکوائر بنائے گئے، وسائل نقلیہ کو وارد کیا گیا، ایر پورٹ ، ریلوے اسٹیشن اور شاہ راہوں کی تعمیر اسی دور ہوئی۔<ref>عطاردی، فرھنگ خراسان، جلد ۱، پاییز ۱۳۸۱ ش، صفحہ ۶۶۔</ref>
[[پہلوی]] حکومت کے دور میں شہر مشہد نے گزشتہ سے زیادہ ترقی کی۔ اس زمانہ میں محلات، سڑکیں اور اسکوائر بنائے گئے، وسائل نقلیہ کو وارد کیا گیا، ایر پورٹ ، ریلوے اسٹیشن اور شاہ راہوں کی تعمیر اسی دور ہوئی۔<ref>عطاردی، فرہنگ خراسان، جلد ۱، پاییز ۱۳۸۱ ش، صفحہ ۶۶۔</ref>


== ایران کا معنوی اور ثقافتی دار الحکومت ==
== ایران کا معنوی اور ثقافتی دار الحکومت ==
سطر 101: سطر 101:
#[[سید علی سیستانی]]
#[[سید علی سیستانی]]
#سید حسن طباطبایی قمی
#سید حسن طباطبایی قمی
#سید محمد ھادی میلانی
#سید محمد ہادی میلانی
#[[سید علی خامنہ ای]]
#[[سید علی خامنہ ای]]
#سید عز الدین حسینی زنجانی
#سید عز الدین حسینی زنجانی
سطر 110: سطر 110:
#محمد واعظ زادہ خراسانی
#محمد واعظ زادہ خراسانی
#احمد کافی
#احمد کافی
#محمد ھادی عبد خدایی
#محمد ہادی عبد خدایی
#محمد مہدی رکنی یزدی
#محمد مہدی رکنی یزدی
#حسین وحید خراسانی
#حسین وحید خراسانی
سطر 133: سطر 133:
#مسجد مقبل السلطنہ
#مسجد مقبل السلطنہ
#مسجد گلشن
#مسجد گلشن
#مسجد صدیقی ھا
#مسجد صدیقی ہا
#مسجد پل سنگی
#مسجد پل سنگی
#مسجد مروی ہا
#مسجد مروی ہا
#مسجد افشارھا
#مسجد افشارہا
#مسجد معمار
#مسجد معمار
#مسجد محمدی ہا
#مسجد محمدی ہا
سطر 146: سطر 146:
#مسجد حضرت صادق (ع)
#مسجد حضرت صادق (ع)
#مسجد حاج فیض اللہ
#مسجد حاج فیض اللہ
#مسجد کوچہ زردیھا
#مسجد کوچہ زردیہا
#مسجد قائم
#مسجد قائم
#مسجد صاحب الزمان
#مسجد صاحب الزمان
سطر 156: سطر 156:
#مسجد حاج ملا ہاشم
#مسجد حاج ملا ہاشم
#مسجد حاج مہدی
#مسجد حاج مہدی
#مسجد علی اکبری ھا
#مسجد علی اکبری ہا
#مسجد حاج رجب علی
#مسجد حاج رجب علی
#مسجد حقیقی
#مسجد حقیقی
سطر 163: سطر 163:
#مسجد مجید
#مسجد مجید
#مسجد سردرب
#مسجد سردرب
#مسجد مغولھا
#مسجد مغولہا
#مسجد مصلی
#مسجد مصلی
#مسجد جعفریہا
#مسجد جعفریہا
#مسجد حکیم
#مسجد حکیم
#مسجد حاج رضا
#مسجد حاج رضا
#مسجد ھراتی
#مسجد ہراتی
#مسجد پارسائی
#مسجد پارسائی
#مسجد قبلہ
#مسجد قبلہ
سطر 174: سطر 174:
#مسجد دیدگاہ
#مسجد دیدگاہ
#مسجد نور
#مسجد نور
#مسجد فرھاد
#مسجد فرہاد
#مسجد فاضل
#مسجد فاضل
#مسجد احمدیہ
#مسجد احمدیہ
سطر 222: سطر 222:
== امام باڑے و عزاخانے ==
== امام باڑے و عزاخانے ==
{{ستون آ|4}}
{{ستون آ|4}}
#حسینیہ اصفہانی ھا
#حسینیہ اصفہانی ہا
#حسینیہ آذربائیجانی ھا
#حسینیہ آذربائیجانی ہا
#حسینیہ کاشانی ھا
#حسینیہ کاشانی ہا
#حسینیہ قمی ھا
#حسینیہ قمی ہا
#حسینیہ طبسی ھا
#حسینیہ طبسی ہا
#حسینیہ تھرانی ھا
#حسینیہ تھرانی ہا
#حسینیہ شیخ محمد تقی بجنوردی
#حسینیہ شیخ محمد تقی بجنوردی
#حسینیہ ھمدانی ھا
#حسینیہ ہمدانی ہا
#حسینیہ علی اکبری ھا
#حسینیہ علی اکبری ہا
#علویہ حاجی عابد زادہ
#علویہ حاجی عابد زادہ
#حسینیہ حاجی عابد زادہ
#حسینیہ حاجی عابد زادہ
سطر 256: سطر 256:
== منابع ==
== منابع ==
{{ستون آ|2}}
{{ستون آ|2}}
*جعفریان، رسول، شیعہ جغرافیائی انسائکلو پیڈیا ، ناشر سازمان جغرافیایی نیروھای مسلح، ۱۳۸۷ ش۔
*جعفریان، رسول، شیعہ جغرافیائی انسائکلو پیڈیا ، ناشر سازمان جغرافیایی نیروہای مسلح، ۱۳۸۷ ش۔
*شریف رازی، محمد، گنجینہ دانشمندان، جلد ۷، کتاب فروشی اسلامیہ، تھران، ۱۳۵۲ ش۔
*شریف رازی، محمد، گنجینہ دانشمندان، جلد ۷، کتاب فروشی اسلامیہ، تہران، ۱۳۵۲ ش۔
*عطاردی، عزیز اللہ، فرھنگ خراسان، شعبہ طوس، جلد ۱، ناشر عطارد، تھران ۱۳۸۱ ش۔
*عطاردی، عزیز اللہ، فرہنگ خراسان، شعبہ طوس، جلد ۱، ناشر عطارد، تہران ۱۳۸۱ ش۔
*میر محمدی، حمید رضا، مشہد (ایران) کے مشہور اماکن پر ایک تحقیق، مجلہ مشکاۃ، پاییز ۱۳۷۴ ش ۴۸۔ صفحہ ۶۲۔۷۰
*میر محمدی، حمید رضا، مشہد (ایران) کے مشہور اماکن پر ایک تحقیق، مجلہ مشکاۃ، پاییز ۱۳۷۴ ش ۴۸۔ صفحہ ۶۲۔۷۰
{{ستون خ}}
{{ستون خ}}
confirmed، templateeditor
5,869

ترامیم