مندرجات کا رخ کریں

"عزاداری" کے نسخوں کے درمیان فرق

50 بائٹ کا اضافہ ،  5 اکتوبر 2020ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
'''عزاداری''' سے مراد دینی شخصیات جیسے [[پیغمبر اکرم(ص)]] یا [[ائمہ معصومین(ع)]] خاص کر [[امام حسین(ع)]] کی [[شہادت]] کے سوگ میں منعقد ہونے والے مراسم ہیں کہ  جسے عام طور پر  '''ماتم داری''' سے تعبیر کرتے ہیں۔ عزاداری مذکورہ شخصیات سے اظہار ہمدردی اور ان پر آنے والی مصیبتوں کو یاد کرنے کیلئے منعقد کی جاتی ہے جو ہر قوم و ملت کے ہاں مختلف انداز اور مختلف رسومات کے ذریعے انجام پاتی ہیں۔
[[عزاداری]] سے مراد دینی شخصیات جیسے [[پیغمبر اکرم(ص)]] یا [[ائمہ معصومین(ع)]] خاص کر [[امام حسین(ع)]] کی [[شہادت]] کے سوگ میں منعقد ہونے والے مراسم ہیں کہ  جسے عام طور پر  [[ماتم داری]] سے تعبیر کرتے ہیں۔ عزاداری مذکورہ شخصیات سے اظہار ہمدردی اور ان پر آنے والی مصیبتوں کو یاد کرنے کیلئے منعقد کی جاتی ہے جو ہر قوم و ملت کے ہاں مختلف انداز اور مختلف رسومات کے ذریعے انجام پاتی ہیں۔


==عزاداری کی مشروعیت==
==عزاداری کی مشروعیت==
سطر 16: سطر 16:
عزاداری دینی اور مذہبی شخصیات سے اظہار ہمدردی اور ان پر آنے والی مصیبتوں کو یاد کرنے کیلئے منعقد کی جاتی ہے جو ہر قوم و ملت کے یہاں مختلف انداز اور مختلف رسومات کے ذریعے انجام پاتی ہیں۔<ref>مظاہری، «عزاداری»، در فرہنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص ۳۴۵.</ref>
عزاداری دینی اور مذہبی شخصیات سے اظہار ہمدردی اور ان پر آنے والی مصیبتوں کو یاد کرنے کیلئے منعقد کی جاتی ہے جو ہر قوم و ملت کے یہاں مختلف انداز اور مختلف رسومات کے ذریعے انجام پاتی ہیں۔<ref>مظاہری، «عزاداری»، در فرہنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص ۳۴۵.</ref>


شیعوں کے یہاں عزاداری‌ عموما [[محرم الحرام]] کے مہینے میں امام حسین(ع) اور ان کے باوفا اصحاب کی یاد میں منعقد ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ تمام ائمہ معصومین کی شہادت اور وفات کے موقع پر بھی عزاداری منعقد ہوتی ہے۔ [[امام علی (ع)]] کی شہادت کی مناسبت سے [[ماہ رمضان]] کی 19 تاریخ سے 21 تاریخ تک نیز حضرت زہرا کی شہادت کی مناسب سے ایام فاطمیہ کے نام سے عزاداری منعقد ہوتی ہے۔
شیعوں کے یہاں عزاداری‌ عموما [[محرم الحرام]] کے مہینے میں امام حسین(ع) اور ان کے باوفا اصحاب کی یاد میں منعقد ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ تمام ائمہ معصومین علیہم السلام کی شہادت اور وفات کے موقع پر بھی عزاداری منعقد ہوتی ہے۔ [[امام علی (ع)]] کی شہادت کی مناسبت سے [[ماہ رمضان]] کی 19 تاریخ سے 21 تاریخ تک نیز [[حضرت زہرا]] کی شہادت کی مناسب سے [[عزائے فاطمیہ]] کے نام سے عزاداری منعقد ہوتی ہے۔


==عزاداری تاریخ کے آئینے میں==
==عزاداری تاریخ کے آئینے میں==
تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) اور ائمہ معصومین کی شہادت کے بعد سے مسلمانوں اور بالاخص شیعوں نے عزاداری منعقد کرنا شروع کی ہیں۔ عزاداری‌ کی یہ رسومات کبھی سرکاری طور پر سات سات دنوں کی چھٹی، نئے کپڑے پہننے سے پرہیز کرنے کے ساتھ شعراء کے زبانی عاشورا کے حوالے سے مرثیے اور نوحہ خوانی کے ذریعے انجام پاتی تھی۔ نیز سرکاری دفاتر اور تجارتی مراکز کی بھی ان ایام میں بند رہتے تھے۔<ref>گلی زوارہ، «عزاداری»، در دائرۃ المعارف تشیع، ۱۳۹۰ش، ص ۲۶۷.</ref>
تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) اور ائمہ معصومین کی شہادت کے بعد سے مسلمانوں اور بالاخص شیعوں نے عزاداری منعقد کرنا شروع کی ہیں۔ عزاداری‌ کی یہ رسومات کبھی سرکاری طور پر سات سات دنوں کی چھٹی، نئے کپڑے پہننے سے پرہیز کرنے کے ساتھ شعراء کے زبانی عاشورا کے حوالے سے [[مرثیہ]] اور [[نوحہ خوانی]] کے ذریعے انجام پاتی تھی۔ نیز سرکاری دفاتر اور تجارتی مراکز کی بھی ان ایام میں بند رہتے تھے۔<ref>گلی زوارہ، «عزاداری»، در دائرۃ المعارف تشیع، ۱۳۹۰ش، ص ۲۶۷.</ref>


تاریخ چوتھی صدی ہجری کے اواخر سے عزاداری کے مخالفین اور موافقین کے درمیان لڑائی جگڑوں کی حکایت کرتی ہے۔ بغداد میں پہلی بار اعلانیہ طور پر عزاداری منعقد ہونے کے دس سال بعد یعنی سنہ 362 ہجری قمری کو عزاداری کے بارے میں ایک جگڑا ہوا جس کے بارے میں ابن اثیر نے کتاب الکامل میں لکھا ہے کہ اس جگڑے میں تقریبا 17 ہزار لوگوں کو زندہ جلایا گیا اور تقریبا 300 دکانیں اور 33 مساجد بھی اس جگڑے کی نذر ہو گئی۔<ref>مظاہری، «عزاداری»، در فرہنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص ۳۴۶.</ref> عزاداری سے متعلق اس قسم کی لڑائی جگڑے اور بعض حکومتوں (منجملہ سلطان محمود غزنوی) کی طرف سے عزاداری پر لگائی گئی پابندیوں کی وجہ سے شیعوں میں عزاداری کی جڑیں مضبوط ہوئی۔<ref>مظاہری، «عزاداری»، در فرہنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص ۳۴۶ و ۳۴۷.</ref>
تاریخ چوتھی صدی ہجری کے اواخر سے عزاداری کے مخالفین اور موافقین کے درمیان لڑائی جھگڑوں کی حکایت کرتی ہے۔ بغداد میں پہلی بار اعلانیہ طور پر عزاداری منعقد ہونے کے دس سال بعد یعنی سنہ 362 ہجری قمری کو عزاداری کے بارے میں ایک جھگڑا ہوا جس کے بارے میں ابن اثیر نے کتاب الکامل میں لکھا ہے کہ اس جھگڑے میں تقریبا 17 ہزار لوگوں کو زندہ جلایا گیا اور تقریبا 300 دکانیں اور 33 مساجد بھی اس جھگڑے کی نذر ہو گئی۔<ref>مظاہری، «عزاداری»، در فرہنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص ۳۴۶.</ref> عزاداری سے متعلق اس قسم کی لڑائی جھگڑے اور بعض حکومتوں (منجملہ سلطان محمود غزنوی) کی طرف سے عزاداری پر لگائی گئی پابندیوں کی وجہ سے شیعوں میں عزاداری کی جڑیں مضبوط ہوئیں۔<ref>مظاہری، «عزاداری»، در فرہنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص ۳۴۶ و ۳۴۷.</ref>


==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
17

ترامیم