مندرجات کا رخ کریں

"سید مرتضی" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 105: سطر 105:


'''سید مرتضی اور مذہب معتزلہ:''' سید مرتضی کے افکار عقلانیت پسندی کے اعتبار سے [[معتزلہ]] کے قریب ہے، چنانچہ بعض [[اہل سنت]] انہیں [[معتزلہ]] سمجھتے تھے۔ سید مرتضی کے دور میں [[بغداد]] جو کہ سید مرتضی کا محل زندگی تھا، میں مذہب معتزلہ کا رواج تھا اور سید مرتضی بھی اس سے متاثر ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا ہے۔<ref>نیاسر، معارف و شاہرودی، عقل و نقل در دیدگاہ سید مرتضی، ص۷۵.</ref> ان تمام باتوں کے باوجود سید مرتضی کے افکار ایک شیعہ متفکر ہونے کی حیثیت سے معتزلہ کے بعض افکار سے مختلف ہے اور اپنی کتاب [[الشافی]] میں قاضی عبدالجبار معتزلی کے بعض اعتقادات پر تنقید کی ہے اور [[امامت]]، انبیاء کی [[عصمت]]، منزلۃ بین منزلتین اور ارادہ الہی وغیرہ میں معتزلہ کا ہم عقیدہ نہیں تھا۔<ref>اسعدی، سید مرتضی، ص۹۱-۹۴.</ref>
'''سید مرتضی اور مذہب معتزلہ:''' سید مرتضی کے افکار عقلانیت پسندی کے اعتبار سے [[معتزلہ]] کے قریب ہے، چنانچہ بعض [[اہل سنت]] انہیں [[معتزلہ]] سمجھتے تھے۔ سید مرتضی کے دور میں [[بغداد]] جو کہ سید مرتضی کا محل زندگی تھا، میں مذہب معتزلہ کا رواج تھا اور سید مرتضی بھی اس سے متاثر ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا ہے۔<ref>نیاسر، معارف و شاہرودی، عقل و نقل در دیدگاہ سید مرتضی، ص۷۵.</ref> ان تمام باتوں کے باوجود سید مرتضی کے افکار ایک شیعہ متفکر ہونے کی حیثیت سے معتزلہ کے بعض افکار سے مختلف ہے اور اپنی کتاب [[الشافی]] میں قاضی عبدالجبار معتزلی کے بعض اعتقادات پر تنقید کی ہے اور [[امامت]]، انبیاء کی [[عصمت]]، منزلۃ بین منزلتین اور ارادہ الہی وغیرہ میں معتزلہ کا ہم عقیدہ نہیں تھا۔<ref>اسعدی، سید مرتضی، ص۹۱-۹۴.</ref>
<!--
در موضوعات کلامی نیز نقل و روایات دینی کاملا بی‌استفادہ نیست و در کنار عقایدی کہ تنہا از طریق عقل بہ دست می‌اید، برخی از باورہای کلامی ہم از طریق نقل و ہم از طریق عقل قابل دریافت است مانند [[امامت]] و در پارہ‌ای از اندیشہ‌ہای کلامی نیز نقل تنہا دلیل است. برای نمونہ از نظر سید مرتضی جاودانہ بودن [[ثواب و عقاب]] از راہ عقل اثبات پذیر نیست و مرجع این اعتقاد تنہا نقل است.<ref>برنجکار و ہاشمی، عقل گرایی در مدرسہ امامیہ بغداد و معتزلہ، ص۷۰-۷۱.</ref>


'''آثار کلامی:'''آثار کلامی سید مرتضی از مہم‌ترین تألیفات اوست:
کلامی موضوعات میں متون دینی کاملا بے معنی نہیں اور ان اعتقادات کے مقابلے میں جو صرف عقلی دلائل سے حاصل ہوتے ہیں، بعض کلامی مباحث نقل اور احادیث اور عقل دونوں طریق سے حاصل ہوتے ہیں جیسے [[امامت]] اور بعض دیگر کلامی نظریات میں نقل ہی تنہا دلیل اور حجت ہے۔ سید مرتضی کے مطابق [[ثواب و عقاب]] کا جاویدانی ہونا عقل کے ذریعے قابل اثبات نہیں ہے اور اس عقیدے کا تنہا دلیل نقل اور روایات ہیں۔<ref>برنجکار و ہاشمی، عقل گرایی در مدرسہ امامیہ بغداد و معتزلہ، ص۷۰-۷۱.</ref>


{{ستون-شروع|۲}}
'''علم کلام میں انکے قلمی آثار:'''علم کلام میں سید مرتضی کے اہم‌ترین تألیفات درج ذیل ہیں:
* [[الشافی فی الامامۃ]] کہ در نقد کتاب المغنی قاضی عبدالجبار در موضوع امامت
 
* [[تنزیہ الانبیاء (کتاب)| تنزیہ الانبیاء|]] کتابی است در جہت اثبات عصمت مطلقہ پیامبران
{{ستون آ|2}}
* [[الشافی فی الامامۃ]] جسے امامت کے موضوع پر لکھی گئی قاضی عبدالجبار کی کتاب "المغنی" کے جواب میں لکھی گئی ہے۔
* [[تنزیہ الانبیاء (کتاب)| تنزیہ الانبیاء|]] انبیاء کی عصمت مطلقہ کے بارے میں
* [[المخلص فی اصول الدین]]  
* [[المخلص فی اصول الدین]]  
* [[الفصول المختارہ]] بدنبال اثبات عقايد شيعہ با بيانى استدلالى و با استناد بہ عقل، قرآن و روايات اہل بيت (ع)است.
* [[الفصول المختارہ]] شيعہ اعتقادات کو عقلی اور استدلالى طریقے سے ثابت کرنا و با استناد بہ عقل، قرآن و روايات اہل بيت (ع)است.
* [[الذخیرہ فی علم الکلام]]  
* [[الذخیرہ فی علم الکلام]]  
* [[الموضح عن جہہ اعجاز القرآن]]  
* [[الموضح عن جہہ اعجاز القرآن]]  
* [[جمل العلم و العمل]] کہ دارای مباحث اعتقادی و فقہی است
* [[جمل العلم و العمل]] کہ دارای مباحث اعتقادی و فقہی است
* [[المقنع فی الغیبہ]] دربارہ امام زمان و مسئلہ غیبت.
* [[المقنع فی الغیبہ]] دربارہ امام زمان و مسئلہ غیبت.
{{پایان}}
{{ستون خ}}


===اندیشہ فقہی===
===فقہی نظریات===<!--
سید مرتضی در عرصہ اندیشہ فقہی نیز رویکردی عقل‌گرایانہ داشت و بہ حجیت عقل در کشف احکام - در صورت نبود قراین نقلی- باور داشت. او ہمچنین یکی از پیشگامان روش اجتہادی در فقہ شیعہ است.<ref>اسعدی، سید مرتضی، ص ۵۰ و ۹۰.</ref> در استنباط احکام از ادلہ [[اصول لفظیہ]] و [[اصول عملیہ|عقلیہ]] استفادہ می‌کرد و با [[محدثین|محدّثین]] و [[اخباریان]] موافق نبود.<ref>گرجی، تاریخ فقہ و فقہا، صص ۱۴۹-۱۴۸.</ref> او در برخی مسایل فقہی کہ بہ گفتہ او با استناد بہ اصول عقلی قابل دریافت بود، استناد بہ دلایل سمعی را لازم نمی‌دانست با این حال بہ جواز استفادہ از نقل در حیطہ [[فروع دین]] اعتقاد داشت و اثبات برخی از احکام و حتی عقاید را تنہا از طریق نقل ممکن می‌دانست. برای نمونہ بہ اعتقاد او [[امر بہ معروف و نہی از منکر]] وجوب شرعی دارد و نہ عقلی.<ref>نیاسر، معارف و شاہرودی، عقل و نقل در دیدگاہ سید مرتضی، ص ۸۴-۸۷.</ref>
سید مرتضی در عرصہ اندیشہ فقہی نیز رویکردی عقل‌گرایانہ داشت و بہ حجیت عقل در کشف احکام - در صورت نبود قراین نقلی- باور داشت. او ہمچنین یکی از پیشگامان روش اجتہادی در فقہ شیعہ است.<ref>اسعدی، سید مرتضی، ص ۵۰ و ۹۰.</ref> در استنباط احکام از ادلہ [[اصول لفظیہ]] و [[اصول عملیہ|عقلیہ]] استفادہ می‌کرد و با [[محدثین|محدّثین]] و [[اخباریان]] موافق نبود.<ref>گرجی، تاریخ فقہ و فقہا، صص ۱۴۹-۱۴۸.</ref> او در برخی مسایل فقہی کہ بہ گفتہ او با استناد بہ اصول عقلی قابل دریافت بود، استناد بہ دلایل سمعی را لازم نمی‌دانست با این حال بہ جواز استفادہ از نقل در حیطہ [[فروع دین]] اعتقاد داشت و اثبات برخی از احکام و حتی عقاید را تنہا از طریق نقل ممکن می‌دانست. برای نمونہ بہ اعتقاد او [[امر بہ معروف و نہی از منکر]] وجوب شرعی دارد و نہ عقلی.<ref>نیاسر، معارف و شاہرودی، عقل و نقل در دیدگاہ سید مرتضی، ص ۸۴-۸۷.</ref>


confirmed، templateeditor
5,871

ترامیم