"سید مرتضی" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 99: | سطر 99: | ||
{{اصلی|سید مرتضی کے قلمی آثار}} | {{اصلی|سید مرتضی کے قلمی آثار}} | ||
===عقلانیت اور کلامی نظریات=== | ===عقلانیت اور کلامی نظریات=== | ||
سید مرتضی ایک عقلانیت پسند مفکر تھا۔ سید مرتضی کے نزدیک خدا شناسی سے مربوط مباحث کی جستجو میں عقلانیت اور استدلال واجب ہے کیونکہ [[خدا]] کی شناخت بدیہی نہیں ہے اور خدا کی شناخت میں کسی کے کہنے یا سمعی دلائل(روایات اور متون دینی) سے استناد نہیں کر سکتے کیونکہ | سید مرتضی ایک عقلانیت پسند مفکر تھا۔ سید مرتضی کے نزدیک خدا شناسی سے مربوط مباحث کی جستجو میں عقلانیت اور استدلال واجب ہے کیونکہ [[خدا]] کی شناخت بدیہی نہیں ہے اور خدا کی شناخت میں کسی کے کہنے یا سمعی دلائل(روایات اور متون دینی) سے استناد نہیں کر سکتے کیونکہ خود متون دینی کی حجیت خداوندعالم کی وجود پر اعتماد اور اطمینان اور خدا کی شناخت سے حاصل ہوتی ہے۔ سید مرتضی کے مطابق خدا پر صرف کسی کی تقلید یا اس کے کہنے پر بغیر کسی دلیل و برہان کے اعتقاد پیداا کرنا کافی نہیں ہے۔ <ref>اسعدی، سید مرتضی٬(ص) .</ref> | ||
سید مرتضی | سید مرتضی عقائد اور کلامی مباحث میں [[عقل]] کی حجیت پر تاکید کرتے ہیں اور ہر اس چیز کو باطل سمجھتے ہیں جو عقل کے مخالف ہوں۔ اسی بنا پر عقل اور نقل کے تعارض کے مقام پر وہ عقل کو فوقیت دیتے ہیں اور اس بات کے معتقد تھے کہ جوامع حدیث میں موجود تمام کے تمام احادیث صحیح نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر وہ ان روایت کو قبول نہیں کرتے تھے جن کا لازمہ [[تشبیہ صفات| تشبیہ]]، [[جبر]]، رویت خداوند، خدا کے صفات کا قدیم ہونا ہے اسی طرح وہ روایات جو بعض خرافات جیسے رعد و برق کا فرشتہ ہونا وغیرہ پر تائید کرتے ہیں کو بھی قبول نہیں کرتے اسی وجہ سے وہ آیات جو عقلی بنیادوں کے خلاف نظر آتی کے [[تاویل]] کے قائل تھے۔<ref>نیاسر، معارف و شاہرودی، عقل و نقل در دیدگاہ سید مرتضی، ص۷۶ و ۸۱- ۸۲ ، .</ref> | ||
'''سید مرتضی اور مذہب معتزلہ:''' سید مرتضی کے افکار عقلانیت پسندی کے اعتبار سے [[معتزلہ]] کے قریب ہے، چنانچہ بعض [[اہل سنت]] انہیں [[معتزلہ]] سمجھتے تھے۔ سید مرتضی کے دور میں [[بغداد]] جو کہ سید مرتضی کا محل زندگی تھا، میں مذہب معتزلہ کا رواج تھا اور سید مرتضی بھی اس سے متاثر ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا ہے۔<ref>نیاسر، معارف و شاہرودی، عقل و نقل در دیدگاہ سید مرتضی، ص۷۵.</ref> ان تمام باتوں کے باوجود سید مرتضی کے افکار ایک شیعہ متفکر ہونے کی حیثیت سے معتزلہ کے بعض افکار سے مختلف ہے اور اپنی کتاب [[الشافی]] میں قاضی عبدالجبار معتزلی کے بعض اعتقادات پر تنقید کی ہے اور [[امامت]]، انبیاء کی [[عصمت]]، منزلۃ بین منزلتین اور ارادہ الہی وغیرہ میں معتزلہ کا ہم عقیدہ نہیں تھا۔<ref>اسعدی، سید مرتضی، ص۹۱-۹۴.</ref> | |||
<!-- | |||
در موضوعات کلامی نیز نقل و روایات دینی کاملا بیاستفادہ نیست و در کنار عقایدی کہ تنہا از طریق عقل بہ دست میاید، برخی از باورہای کلامی ہم از طریق نقل و ہم از طریق عقل قابل دریافت است مانند [[امامت]] و در پارہای از اندیشہہای کلامی نیز نقل تنہا دلیل است. برای نمونہ از نظر سید مرتضی جاودانہ بودن [[ثواب و عقاب]] از راہ عقل اثبات پذیر نیست و مرجع این اعتقاد تنہا نقل است.<ref>برنجکار و ہاشمی، عقل گرایی در مدرسہ امامیہ بغداد و معتزلہ، ص۷۰-۷۱.</ref> | در موضوعات کلامی نیز نقل و روایات دینی کاملا بیاستفادہ نیست و در کنار عقایدی کہ تنہا از طریق عقل بہ دست میاید، برخی از باورہای کلامی ہم از طریق نقل و ہم از طریق عقل قابل دریافت است مانند [[امامت]] و در پارہای از اندیشہہای کلامی نیز نقل تنہا دلیل است. برای نمونہ از نظر سید مرتضی جاودانہ بودن [[ثواب و عقاب]] از راہ عقل اثبات پذیر نیست و مرجع این اعتقاد تنہا نقل است.<ref>برنجکار و ہاشمی، عقل گرایی در مدرسہ امامیہ بغداد و معتزلہ، ص۷۰-۷۱.</ref> | ||