گمنام صارف
"کوثر" کے نسخوں کے درمیان فرق
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>E.musavi کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
imported>E.musavi کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 1: | سطر 1: | ||
'''کوثر'''، قرآنی الفاظ اور [[حضرت فاطمہ زہرا (س)]] کے القاب<ref> انصاری زنجانی، الموسوعة الکبری عن فاطمة الزهراء، ۱۴۲۸ق، ج۲۲، ص۹و۲۵ | '''کوثر'''، قرآنی الفاظ اور [[حضرت فاطمہ زہرا (س)]] کے القاب<ref> انصاری زنجانی، الموسوعة الکبری عن فاطمة الزهراء، ۱۴۲۸ق، ج۲۲، ص۹و۲۵</ref> میں سے ہے۔ لغت میں یہ لفظ "خیر کثیر" کے معنی میں ہے۔<ref> فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۳۲، ص۳۱۳؛ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۲۰، ص۳۷۰.</ref> [[قرآن کریم]] میں صرف ایک بار [[سورہ کوثر]] میں اس کا تذکرہ ہوا ہے۔<ref> سورہ کوثر، آیہ۱</ref> | ||
کوثر کی تفسیر اور مصداق کے بارے میں | کوثر کی تفسیر اور مصداق کے بارے میں مختلف نظریات اور متعدد اقوال پائے جاتے ہیں۔<ref> نگاه کریں: فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۳۲، ص۳۱۳-۳۱۶؛ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۲۰، ص۳۷۰.</ref> کوثر کی بعض تفاسیر یہ ہیں: [[بہشت]] میں ایک نہر، [[اسلام]]، [[نبوت]]، [[قرآن کریم]]، [[علم و حکمت]]، [[حوض کوثر]]، [[شفاعت]]، دوستوں و پیروکاروں کی کثرت اور نسل و اولاد کی کثرت ہے۔ اسی طرح کوثر سے مراد خیر کثیر، [[نبوت]] اور آسمانی کتاب، [[قرآن]]، پیروان کی کثرت اور نسل کی فراوانی بھی لیا جاتا ہے۔<ref> نگاه کریں: فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۳۲، ص۳۱۳- ۳۱۶؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۰، ص۸۳۶؛ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۲۰، ص۳۷۰</ref> | ||
[[شیعہ]] مفسرین کے مطابق [[سورہ کوثر]] میں لفظ "کوثر" سے مراد [[حضرت زہراؑ]] ہیں کیونکہ [[عاص بن وائل]] کی طرف سے [[پیغمبر اکرمؐ]] کو "اَبتَر" (بے اولاد؛ ایسا شخص جس کی کوئی اولاد نہ ہو) کا طعنہ دینے کے جواب میں [[خدا]] نے حضرت فاطمہؑ کے ذریعے پیغمبر اکرمؐ کو بے شمار نسل عطا فرمایا ہے۔<ref>نک: خرمشاہی، دانشنامہ قرآن و قرآنپژوہی، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۲۶۹</ref> | [[شیعہ]] مفسرین کے مطابق [[سورہ کوثر]] میں لفظ "کوثر" سے مراد [[حضرت زہراؑ]] ہیں کیونکہ [[عاص بن وائل]] کی طرف سے [[پیغمبر اکرمؐ]] کو "اَبتَر" (بے اولاد؛ ایسا شخص جس کی کوئی اولاد نہ ہو) کا طعنہ دینے کے جواب میں [[خدا]] نے حضرت فاطمہؑ کے ذریعے پیغمبر اکرمؐ کو بے شمار نسل عطا فرمایا ہے۔<ref>نک: خرمشاہی، دانشنامہ قرآن و قرآنپژوہی، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۲۶۹</ref> |