مندرجات کا رخ کریں

"خطبہ غدیر" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
سطر 168: سطر 168:


=====قرائن خارجی=====
=====قرائن خارجی=====
[[حسان بن ثابت]]:
*'''پیغمبر اکرم(ص) کا مسلمانوں سے اقرار لینا''':
{{شعر2
|ینادیہم یوم الغدیر [[نبی(ص)|نبیہم]] | [[غدیر خم|بخم]] و أسمع بالرسول منادیا
|فقال فمن [[ولایت|مولاکم]] و ولیکم | فقالوا و لم یبدوا ہناک التعادیا
|[[خدا|إلہک]] مولانا و أنت ولینا | و لم‌تر منا فی المقالۃ عاصیا
| فقال لہ قم یا [[علی(ع)|علی]] فإننی |رضیتک من بعدی [[امامت|إماما]] و ہادیا
| فمن کنت مولاہ فہذا ولیہ| فکونوا لہ [[انصار|أنصار]] صدق موالیا
| ہناک دعا اللہم وال ولیہ | و کن للذی عادی علیا معادیا}}


پیغمبر اکرم(ص) نے غدیر کے دن مسلمانوں سے کہا: تہمارا نبی اور مولا کون ہے؟
پیغمبر اکرم(ص) نے غدیر کے دن مسلمانوں سے کہا: تہمارا نبی اور مولا کون ہے؟
سطر 183: سطر 176:
اس موقع پر پیغمبر اکرم(ص) نے [[دعا]] فرمایا کہ خدایا! علی(ع) کے دوستوں سے دوستی اور اس کے دشمنوں سے دشمنی رکھ۔
اس موقع پر پیغمبر اکرم(ص) نے [[دعا]] فرمایا کہ خدایا! علی(ع) کے دوستوں سے دوستی اور اس کے دشمنوں سے دشمنی رکھ۔


* [[عمر بن خطاب]] اور [[ابوبکر]] کا حضرت علی(ع) کو مبارک باد دینا:
* '''[[عمر بن خطاب]] اور [[ابوبکر]] کا حضرت علی(ع) کو مبارک باد دینا''':


اس حدیث کے بعض راویوں نے نقل کیا ہے کہ اس خطبے کے آخر میں [[ابوبکر بن ابی قحافہ]] اور [[عمر بن خطاب]] نے [[امام علی(ع)]] کے پاس آکر انہیں [[ولایت]] اور امامت پر فائز ہونے پر مبارک باد دی۔<ref>مناوی، ج۶، ص۲۱۷</ref> عمر بن خطاب نے آپ(ع) سے کہا:
اس حدیث کے بعض راویوں نے نقل کیا ہے کہ اس خطبے کے آخر میں [[ابوبکر بن ابی قحافہ]] اور [[عمر بن خطاب]] نے [[امام علی(ع)]] کے پاس آکر انہیں [[ولایت]] اور امامت پر فائز ہونے پر مبارک باد دی۔<ref>مناوی، ج۶، ص۲۱۷</ref> عمر بن خطاب نے آپ(ع) سے کہا:
سطر 191: سطر 184:
[[اصحاب]] کا اس طرح حضرت علی(ع) کو مبارک باد دینا خود ایک واضح نشانی ہے کہ صدر اسلام کے مسلمان لفظ "مولا" سے [[خلافت]] اور اولی بالتصرف کے معنی سمجھتے تھے۔<ref>امینی، ''الغدیر''، ج۱، ص۶۶۷.</ref>
[[اصحاب]] کا اس طرح حضرت علی(ع) کو مبارک باد دینا خود ایک واضح نشانی ہے کہ صدر اسلام کے مسلمان لفظ "مولا" سے [[خلافت]] اور اولی بالتصرف کے معنی سمجھتے تھے۔<ref>امینی، ''الغدیر''، ج۱، ص۶۶۷.</ref>


'''* شعر شاعران صدر اسلام:'''<!--
*''' صدر اسلام کے شعراء کے اشعار:'''
 
تعدادی از مسلمانان این واقعه را به شعر درآورده‌اند. اولین آنها، [[حسان بن ثابت]] بود. او که در آن مکان حضور داشته، از رسول خدا(ص) اجازه گرفت و در وصف این واقعه چند بیت سرود. در این ابیات، این واقعه به عنوان نصب شدن حضرت علی(ع) به عنوان امام و هادی امت دانسته شده است.<ref>طوسی، الاقتصاد، ص۳۵۱</ref><ref>سید رضی، ص۴۳</ref>


متعدد مسلمانوں نے اس واقعے کی اشعار کے ذریعے منظر کشی کی ہے جن میں سے پہلا شخص [[حسان بن ثابت]] تھا۔ حسان بن ثابت وہاں موجود تھا اور پیغمبر اکرم(ص) سے اجازت لے کر اس واقعے کی توصیف میں چند اشعار کہے۔ ان اشعار میں اس نے اس واقعے میں حضرت علی(ع) کا بعنوان امام و ہادی امت نصب ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔<ref>طوسی، الاقتصاد، ص۳۵۱</ref><ref>سید رضی، ص۴۳</ref>
واقعہ غدیر کے متعلق [[حسان بن ثابت]] کے اشعار:{{شعر2
|ینادیہم یوم الغدیر [[نبی(ص)|نبیہم]] | [[غدیر خم|بخم]] و أسمع بالرسول منادیا
|فقال فمن [[ولایت|مولاکم]] و ولیکم | فقالوا و لم یبدوا ہناک التعادیا
|[[خدا|إلہک]] مولانا و أنت ولینا | و لم‌تر منا فی المقالۃ عاصیا
| فقال لہ قم یا [[علی(ع)|علی]] فإننی |رضیتک من بعدی [[امامت|إماما]] و ہادیا
| فمن کنت مولاہ فہذا ولیہ| فکونوا لہ [[انصار|أنصار]] صدق موالیا
| ہناک دعا اللہم وال ولیہ | و کن للذی عادی علیا معادیا}}


پس از آن، و در سال‌های بعد [[عمرو عاص]]، [[قیس بن سعد بن عباده]]،<ref> سید رضی، ص۴۳</ref><ref>دلائل الصدق، ج‌۴، ص۳۴۰</ref> [[کمیت بن زید اسدی]]،<ref>سید رضی، ص۴۳</ref> [[محمد بن عبدالله حمیری]]،<ref>مجلسی، ج۳، ص۲۷۰</ref> [[اسماعیل بن محمد حمیری|سید بن محمد بن حمیری]]،<ref>سید رضی، ص۴۳</ref>این واقعه را در قالب شعر بیان کردند.
اس واقعے کے کئی سال بعد [[عمرو عاص]]، [[قیس بن سعد بن عبادہ]]،<ref> سید رضی، ص۴۳</ref><ref>دلائل الصدق، ج‌۴، ص۳۴۰</ref> [[کمیت بن زید اسدی]]،<ref>سید رضی، ص۴۳</ref> [[محمد بن عبداللہ حمیری]]،<ref>مجلسی، ج۳، ص۲۷۰</ref> [[اسماعیل بن محمد حمیری|سید بن محمد بن حمیری]]،<ref>سید رضی، ص۴۳</ref> وغیرہ نے اس واقعے کو اشعار میں بیان کیا ہے۔


حضرت علی(ع) نیز در چند بیت به این مسئله اشاره دارد.<ref>طبرسی، ''الاحتجاج''، ج۱، ص۱۸۱.</ref>
حضرت علی(ع) نیز واقعے کے بارے میں چند اشعار ارشاد فرمائے ہیں۔<ref>طبرسی، ''الاحتجاج''، ج۱، ص۱۸۱.</ref>
{{شعر2
| فأوجبَ لی ولایتَهُ علیکمْ| رسولُ اللَّه یومَ غدیرِ خُمّ
|فویلٌ ثمّ ویلٌ ثمّ ویلٌ|لمن یلقی الإله غداً بظلمی}}
یعنی پیغمبر خدا نے غدیر خم میں خدا کے حکم سے میری امامت اور ولایت کو کو تمہاری اوپر واجب کیا۔


پس وای ہو اس شخص پر جو قیامت کے دن خدا سے اس حالت میں ملاقات کرے کہ میرے اوپر ظلم کی ہو۔


[[عبدالحسین امینی|علامہ امینی]] نے [[اصحاب]]، [[تابعین]] اور نوی صدی ہجری تک کے دیگر مسلمان شعراء کا نام ذکر کیا ہے جنہوں نے اس واقعے کے بارے میں اشعار کہے ہیں۔<ref>امینی، ''الغدیر''، ج۲، ص۵۱-۴۹۵.</ref> ان اشعار کے مضامین اس بات کی دلیل ہے کہ یہ شعراء اس واقعے اور لفظ "مولا" سے اولا بالتصرف اور [[خلافت]] کے معنی سمجھتے تھے۔


[[عبدالحسین امینی|علامه امینی]] نام چند شاعر از [[صحابه]] و [[تابعین]] و شاعران مسلمان تا قرن نهم را نقل می‌کند.<ref>امینی، ''الغدیر''، ج۲، ص۵۱-۴۹۵.</ref> محتوای تمام این ابیات و شعرها نشان می‌دهد فهم آنان از واژه مولی، اولویت و [[خلافت]] بوده است.


{{جعبه نقل قول | عنوان = | نقل‌قول = [[امام علی(ع)]]:{{سخ}}{{شعر|ثلث}}{{ب| فأوجبَ لی ولایتَهُ علیکمْ| رسولُ اللَّه یومَ غدیرِ خُمّ }}{{ب|فویلٌ ثمّ ویلٌ ثمّ ویلٌ|لمن یلقی الإله غداً بظلمی}}{{پایان شعر}}{{سخ}}و پیامبر خدا، در روز غدیر خم، به امر خدا ولایتم را بر شما واجب نمود {{سخ}}پس وای بر آنکه در روز بازپسین به ملاقات خدا رسد در حالیکه به من ظلم نموده باشد.|تاریخ بایگانی || منبع = <small>مفید، ''الفصول''، ص۲۸۰.</small>| تراز = راست| عرض = ۳۲۰px |حاشیه= ۵px| اندازه خط = ۱۲px|رنگ پس‌زمینه = | گیومه نقل‌قول = | تراز منبع = چپ}}


'''*احتجاج و استدلال اهل بیت به این حدیث''':
'''* اہل بیت کا اس حدیث کے ذریعے احتجاج اور استدلال''':<!--


امام علی(ع) در چند موقعیت به این [[حدیث]] استناد نموده است تا اولویت خویش در خلافت و امامت را نشان دهند. احتجاج با [[طلحه بن عبیدالله|طلحه]] در [[جنگ جمل]]،<ref>حاکم نیشابوری، ج۳، ص۴۱۹</ref> احتجاج در حیاط [[مسجد کوفه]]،<ref>ابن کثیر، ''البدایة و النهایة''، ج۵، ص۲۱۱.</ref> در ضمن چند بیت شعر که در نامه‌ای به [[معاویه بن ابی سفیان|معاویه]] نوشت<ref>طبرسی، ''الاحتجاج''، ج۱، ص۱۸۱؛</ref> و احتجاج ایشان در جنگ صفین<ref>مجلسی، ج۳۳، ص۴۱</ref> از جمله این موارد است. [[فاطمه زهرا]](س) نیز در برابر مخالفان خلافت علی(ع) به این حدیث احتجاج نمود.<ref>ابن کثیر، ''البدایة و النهایة''، ج۷، ص۳۰۴.</ref>
امام علی(ع) در چند موقعیت به این [[حدیث]] استناد نموده است تا اولویت خویش در خلافت و امامت را نشان دهند. احتجاج با [[طلحه بن عبیدالله|طلحه]] در [[جنگ جمل]]،<ref>حاکم نیشابوری، ج۳، ص۴۱۹</ref> احتجاج در حیاط [[مسجد کوفه]]،<ref>ابن کثیر، ''البدایة و النهایة''، ج۵، ص۲۱۱.</ref> در ضمن چند بیت شعر که در نامه‌ای به [[معاویه بن ابی سفیان|معاویه]] نوشت<ref>طبرسی، ''الاحتجاج''، ج۱، ص۱۸۱؛</ref> و احتجاج ایشان در جنگ صفین<ref>مجلسی، ج۳۳، ص۴۱</ref> از جمله این موارد است. [[فاطمه زهرا]](س) نیز در برابر مخالفان خلافت علی(ع) به این حدیث احتجاج نمود.<ref>ابن کثیر، ''البدایة و النهایة''، ج۷، ص۳۰۴.</ref>
confirmed، templateeditor
5,869

ترامیم