"خطبہ غدیر" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
←قرائن داخلی
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) م (←قرائن داخلی) |
||
سطر 157: | سطر 157: | ||
=====قرائن داخلی===== | =====قرائن داخلی===== | ||
'''* جملہ "الست اولی بکم من انفسکم" اور "من کنت مولاه" کا تقارن:''' | '''* جملہ "الست اولی بکم من انفسکم" اور "من کنت مولاه" کا تقارن:''' | ||
اس حدیث میں پیغمبر اکرم(ص) نے مؤمنین کے جان و مال پر ان سے زیادہ پیغمبر کو الویت ہونے کے بارے میں تصریح فرمایا ہے۔ اس ملطب کی تائید قرآن کی آیت کے ذریعے بھی ہوا ہے۔ جہاں فرماتے ہیں:<font color=green>{{عربی|النبی اولی بالمؤمنین من انفسهم}}</font> <ref>سورہ احزاب، آیت نمبر 6</ref> اس آیت میں جس اولویت اور برتری کی طرف اشارہ ہوا ہے اس سے مراد مؤمنین کی زندگی کے امور سے متعلق ہیں یعنی ان کی زندگی کے امور کے بارے میں حکم کرنے کا حق خود ان سے زیادہ پیغمبر کو حاصل ہے۔ جب کسی کو ہمارے بارے میں حکم کرنے کا حق اور الویت حاصل ہے تو ہم پر اس حکم کی اطاعت کرنا واجب ہے۔<ref>طوسی، التبیان، ج۸، ص۳۱۷</ref> بعض مفسرین کے مطابق اس آیت میں مذکور اولویت مؤمنین کی [[دین]] اور دنیا دونوں سے مربوط امور میں ہے۔<ref>بیضاوی، ج۴، ص۲۲۵</ref><ref>زمخشری، ج۳، ص۵۲۳</ref>کیونکہ پیغمبر اکرم(ص) مؤمنین کی دین اور دنیا دونوں سے مربوط امور کی اصلاح فرماتا ہے۔<ref>زمخشری، ج۳، ص۲۲۵</ref> | |||
پس اس جملے کا حضرت علی(ع) کی ولایت و امامت کے اعلان کے ساتھ مقارن ہونا اس بات کی دلیل ہے ہے حدیث کے دوسرے جملے میں موجود لفظ "مولا" بھی مؤمین کے امور میں خود ان سے زیادہ حضرت علی(ع) کی اولویت کو بیان کرتا ہے۔ <ref>فخر رازی، ''الاربعین فی اصول الدین''، ج۲، ص۲۸۳</ref> | |||
'''* جملات | '''* اس خطبے کے ابتدائی جملات:''' | ||
پیغمبر اکرم(ص) اس خطبے کی آغاز میں عنقریب اپنی رحلت کی خبر دیتے ہیں اس کے بعد [[توحید]] کے بارے میں سوال کرتے ہیں اور یہ پوچھتے ہیں کہ آیا میں نے اپنی [[رسالت]] اور ذمہ داری کو بخوبی انجام دیا یا نہیں؟ <ref>ابن اثیر، ''اسد الغابہ''، ج۱، ص۴۳۹؛ یعقوب، ج۲، ص۱۱۸؛ ابن کثیر، ''البدایۃ و النہایۃ''، ج۷، ص۳۴۸۳۴۹؛ بلاذری، ''انساب الاشراف''، ج۲، ص۱۰۸.</ref> یہ ساری باتیں اس بات کی نشانی ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) امت کیلئے اپنے بعد کی زندگی میں کسی راہ حل اور چارہ جوئی کی تلاش میں ہے تاکہ امت بے سرپرست نہ رہے اور خود پیغمر اکرم(ص) نے سالوں سال جو زحمت اٹھائی ہے وہ ضایع نہ ہوجائے۔ گویا آپ اپنا [[خلافت|جانشین]] تعیین کرنا چاہتے تھے تاکہ امت کے امور کی زمام اپنے بعد ایک لایق اور تمام اسرار و رموز سے واقف ایک شخصیت کے حوالہ کرنا چاہتے تھے۔ <ref>امینی، ''الغدیر''، ج۱، ص۶۵۷</ref> اور سورہ مائدہ کی [[آیت]] نمبر67 نیز اسی مطلب پر واضح دلیل ہے۔ | |||
=====قرائن خارجی===== | =====قرائن خارجی===== | ||
[[حسان بن ثابت]]: | |||
{{شعر2 | |||
|ینادیہم یوم الغدیر [[نبی(ص)|نبیہم]] | [[غدیر خم|بخم]] و أسمع بالرسول منادیا | |||
|فقال فمن [[ولایت|مولاکم]] و ولیکم | فقالوا و لم یبدوا ہناک التعادیا | |||
|[[خدا|إلہک]] مولانا و أنت ولینا | و لمتر منا فی المقالۃ عاصیا | |||
| فقال لہ قم یا [[علی(ع)|علی]] فإننی |رضیتک من بعدی [[امامت|إماما]] و ہادیا | |||
| فمن کنت مولاہ فہذا ولیہ| فکونوا لہ [[انصار|أنصار]] صدق موالیا | |||
| ہناک دعا اللہم وال ولیہ | و کن للذی عادی علیا معادیا}} | |||
پیغمبر اکرم(ص) نے غدیر کے دن مسلمانوں سے کہا: تہمارا نبی اور مولا کون ہے؟ | |||
سب نے فورا کہا: خداوند عالم ہمارا مولا اور آپ(ص) ہمارے نبی ہیں اور اس حوالے سے ہم سے کوئی نافرمانی نہیں دیکہو گے۔ اس موقع پر پیغمبر اکرم(ص) نے حضرت علی(ع) سے فرمایا: اٹھو میرے بعد تم اس امت کے مولا ہو۔ جس جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی مولا ہے تمہیں چاہئے کہ اس کا حقیقی پیروکار بنیں۔ | |||
اس موقع پر پیغمبر اکرم(ص) نے [[دعا]] فرمایا کہ خدایا! علی(ع) کے دوستوں سے دوستی اور اس کے دشمنوں سے دشمنی رکھ۔ | |||
* [[عمر بن خطاب]] اور [[ابوبکر]] کا حضرت علی(ع) کو مبارک باد دینا: | |||
'''* شعر شاعران صدر اسلام:''' | اس حدیث کے بعض راویوں نے نقل کیا ہے کہ اس خطبے کے آخر میں [[ابوبکر بن ابی قحافہ]] اور [[عمر بن خطاب]] نے [[امام علی(ع)]] کے پاس آکر انہیں [[ولایت]] اور امامت پر فائز ہونے پر مبارک باد دی۔<ref>مناوی، ج۶، ص۲۱۷</ref> عمر بن خطاب نے آپ(ع) سے کہا: | ||
{{عربی|بَخٍّ بَخٍّ لَکَ یا ابنَ أبی طالب، أصبَحتَ مَولای و مَولی کُلِّ مُسلمٍ}}:اے اباالحسن، آپ کو مبارک ہو آپ میرے اور تمام مسلمان مرد اور عورت کے مولا بن گئے ہو۔<ref>ابن حنبل، ''مسند احمد''، ج۴، ص۲۸۱.</ref><ref>ابن مغازلی، ''مناقب''، ج۱، ص۴۶؛ ابن کثیر، ''البدایۃ و النہایۃ''، ج۷، ص۳۴۹.</ref> | |||
[[اصحاب]] کا اس طرح حضرت علی(ع) کو مبارک باد دینا خود ایک واضح نشانی ہے کہ صدر اسلام کے مسلمان لفظ "مولا" سے [[خلافت]] اور اولی بالتصرف کے معنی سمجھتے تھے۔<ref>امینی، ''الغدیر''، ج۱، ص۶۶۷.</ref> | |||
'''* شعر شاعران صدر اسلام:'''<!-- | |||
تعدادی از مسلمانان این واقعه را به شعر درآوردهاند. اولین آنها، [[حسان بن ثابت]] بود. او که در آن مکان حضور داشته، از رسول خدا(ص) اجازه گرفت و در وصف این واقعه چند بیت سرود. در این ابیات، این واقعه به عنوان نصب شدن حضرت علی(ع) به عنوان امام و هادی امت دانسته شده است.<ref>طوسی، الاقتصاد، ص۳۵۱</ref><ref>سید رضی، ص۴۳</ref> | تعدادی از مسلمانان این واقعه را به شعر درآوردهاند. اولین آنها، [[حسان بن ثابت]] بود. او که در آن مکان حضور داشته، از رسول خدا(ص) اجازه گرفت و در وصف این واقعه چند بیت سرود. در این ابیات، این واقعه به عنوان نصب شدن حضرت علی(ع) به عنوان امام و هادی امت دانسته شده است.<ref>طوسی، الاقتصاد، ص۳۵۱</ref><ref>سید رضی، ص۴۳</ref> |