مندرجات کا رخ کریں

"استغفار" کے نسخوں کے درمیان فرق

imported>Noorkhan
imported>Noorkhan
سطر 232: سطر 232:
* یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کا راوی [[سعید بن مسیب]] ہے جس کی بعض رجالی مآخذ کے مطابق، مذمت ہوئی ہے اور بعض نے اس کے بارے میں اظہار خیال کرنے سے اجتناب کیا ہے،<ref>الخوئی، معجم رجال الحدیث، ج9، ص138-145۔</ref> اور بعض دوسرے اس کی [[اہل بیت|اہل بیت رسول(ص)]] سے دشمنی کی بنا پر اس کو غیر معتبر قرار دیتے ہیں۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج8، ص159۔</ref><ref>الامینی النجفی، الغدیر، ج8، ص56۔</ref>
* یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کا راوی [[سعید بن مسیب]] ہے جس کی بعض رجالی مآخذ کے مطابق، مذمت ہوئی ہے اور بعض نے اس کے بارے میں اظہار خیال کرنے سے اجتناب کیا ہے،<ref>الخوئی، معجم رجال الحدیث، ج9، ص138-145۔</ref> اور بعض دوسرے اس کی [[اہل بیت|اہل بیت رسول(ص)]] سے دشمنی کی بنا پر اس کو غیر معتبر قرار دیتے ہیں۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج8، ص159۔</ref><ref>الامینی النجفی، الغدیر، ج8، ص56۔</ref>
* مشہور ہی نہیں بلکہ امر مسلّم ہے کہ [[سورہ توبہ]] سنہ 9 ہجری قمری میں نازل ہوئی ہے حالانکہ [[ابوطالب(ع)]] کا سال وفات، سنہ 10 بعد از بعثت ہے،<ref>زمخشری، الکشاف، ج2، ص315۔</ref><ref>فخر رازی، التفسیر الکبیر، ج16، ص208۔</ref><ref>القرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ج8، ص173۔</ref> چنانچہ مذکورہ شان نزول اپنے متن میں ہی تاریخی لحاظ سے بھی تضادات سے مالامال ہے، حتی کہ بعض تفاسیر میں اس روایت کا رخ سیدھا کرنے کے لئے نامقبول اور نامعقول توجیہات پیش کی گئی ہیں اور یہاں تک بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیت دو مرتبہ نازل ہوئی ہے!،<ref>عبدہ، تفسیر المنار، ج11، ص57 58۔</ref><ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج8، ص158۔</ref> یا پھر کیا گیا ہے کہ [[ابوطالب(ع)]] کے لئے [[رسول خدا(ص)]] کا استغفار، ان کی وفات سے لے کر اس آیت کے نزول تک ممکن تھا!،<ref>فخر رازی، تفسیر الکبیر، ج16، ص208۔</ref> لیکن ان لوگوں نے اس نکتے کی طرف اشارہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ہے کہ [[رسول خدا(ص)]] سالہا سال اپنے مشرک چچا کے ساتھ دوستی اور محبت کا اظہار کرتے رہے تھے اور ان کے لئے [[دعا|دعائے]] مغفرت کرتے رہے تھے حالانکہ خداوند متعال نے مکرر در مکرر آپ(ص) کو مشرکین سے محبت اور دوستی سے منع کیا تھا!۔<ref>مکارم شیرازي، تفسیر نمونہ، ج8، ص157158۔</ref><ref>الامینی النجفی، الغدیر، ج8، ص1011۔</ref>
* مشہور ہی نہیں بلکہ امر مسلّم ہے کہ [[سورہ توبہ]] سنہ 9 ہجری قمری میں نازل ہوئی ہے حالانکہ [[ابوطالب(ع)]] کا سال وفات، سنہ 10 بعد از بعثت ہے،<ref>زمخشری، الکشاف، ج2، ص315۔</ref><ref>فخر رازی، التفسیر الکبیر، ج16، ص208۔</ref><ref>القرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ج8، ص173۔</ref> چنانچہ مذکورہ شان نزول اپنے متن میں ہی تاریخی لحاظ سے بھی تضادات سے مالامال ہے، حتی کہ بعض تفاسیر میں اس روایت کا رخ سیدھا کرنے کے لئے نامقبول اور نامعقول توجیہات پیش کی گئی ہیں اور یہاں تک بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیت دو مرتبہ نازل ہوئی ہے!،<ref>عبدہ، تفسیر المنار، ج11، ص57 58۔</ref><ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج8، ص158۔</ref> یا پھر کیا گیا ہے کہ [[ابوطالب(ع)]] کے لئے [[رسول خدا(ص)]] کا استغفار، ان کی وفات سے لے کر اس آیت کے نزول تک ممکن تھا!،<ref>فخر رازی، تفسیر الکبیر، ج16، ص208۔</ref> لیکن ان لوگوں نے اس نکتے کی طرف اشارہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ہے کہ [[رسول خدا(ص)]] سالہا سال اپنے مشرک چچا کے ساتھ دوستی اور محبت کا اظہار کرتے رہے تھے اور ان کے لئے [[دعا|دعائے]] مغفرت کرتے رہے تھے حالانکہ خداوند متعال نے مکرر در مکرر آپ(ص) کو مشرکین سے محبت اور دوستی سے منع کیا تھا!۔<ref>مکارم شیرازي، تفسیر نمونہ، ج8، ص157158۔</ref><ref>الامینی النجفی، الغدیر، ج8، ص1011۔</ref>
* اسی شان نزول کے ایک حصے میں [[ابوطالب(ع)]] [[رسول اللہ(ص)]] سے عرض کرتے ہیں: "میں اپنے والد [[عبدالمطلب(ع)]] کے [[دین]] پر ہوں"، اور [[شیعہ]] نیز بہت سے [[اہل سنت|سنی]] علماء کے ہاں [[عبدالمطلب(ع)]] کی یکتا پرستی مسلّم ہے۔<ref>شوشتری، مجالس المؤمنین، ج1، ص163۔</ref><ref>الشیخ المفید، اوائل المقالات، ص45 46۔</ref> [[عباس بن عبدالمطلب]] سے بھی ہے منقول ہے کہ [[ابوطالب(ع)]] نے وفات سے قبل [[توحید]] اور [[رسالت]] کا اقرار کیا،<ref>ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج14، ص71۔</ref> اور ان کے اشعار اس حقیقت کا عینی ثبوت ہیں۔<ref>الجزری، اسنی المطالب، ص37۔</ref><ref>الامینی النجفی، الغدیر، ج7، ص350 384۔</ref> بعض علماء کا کہنا ہے کہ [[ابوطالب(ع)]] اپنا [[ایمان]] چھپا کر رکھتے تھے تا کہ [[رسول خدا(ص)]] کی بہتر انداز سے حمایت و حفاظت کرسکیں۔<ref>الجزری، اسنی المطالب، ص33۔</ref><ref>ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج14، ص274۔</ref> [[اہل بیت]] کی [[احادیث]] میں [[ابوطالب(ع)]] کو [[اصحاب کہف]]،<ref> کلینی، الکافی، ج1، ص448۔</ref> اور [[مؤمن آل فرعون]]،<ref>ابن براج، جواہر الفقہ، ص249۔</ref> سے تشبیہ دی گئی ہے۔ [[امام رضا(ع)]] نے [[ابان بن تغلب]] سے فرمایا: {{عربی|'''اگر تم [[ابوطالب(ع)]] کے [[ایمان]] کا اقرار نہیں کرو گے تو تیرا انجام دوزخ کی آگ، ہوگا'''}}۔<ref>بحار الانوار، ج35، ص110 و 156۔</ref>
* اسی شان نزول کے ایک حصے میں [[ابوطالب(ع)]] [[رسول اللہ(ص)]] سے عرض کرتے ہیں: "میں اپنے والد [[عبدالمطلب(ع)]] کے [[دین]] پر ہوں"، اور [[شیعہ]] نیز بہت سے [[اہل سنت|سنی]] علماء کے ہاں [[عبدالمطلب(ع)]] کی یکتا پرستی مسلّم ہے۔<ref>شوشتری، مجالس المؤمنین، ج1، ص163۔</ref><ref>الشیخ المفید، اوائل المقالات، ص45 46۔</ref> [[عباس بن عبدالمطلب]] سے بھی ہے منقول ہے کہ [[ابوطالب(ع)]] نے وفات سے قبل [[توحید]] اور [[رسالت]] کا اقرار کیا،<ref>ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج14، ص71۔</ref> اور ان کے اشعار اس حقیقت کا عینی ثبوت ہیں۔<ref>الجزری، اسنی المطالب، ص37۔</ref><ref>الامینی النجفی، الغدیر، ج7، ص350 384۔</ref> بعض علماء کا کہنا ہے کہ [[ابوطالب(ع)]] اپنا [[ایمان]] چھپا کر رکھتے تھے تا کہ [[رسول خدا(ص)]] کی بہتر انداز سے حمایت و حفاظت کرسکیں۔<ref>الجزری، اسنی المطالب، ص33۔</ref><ref>ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج14، ص274۔</ref> [[اہل بیت]] کی [[احادیث]] میں [[ابوطالب(ع)]] کو [[اصحاب کہف]]،<ref> کلینی، الکافی، ج1، ص448۔</ref> اور [[مؤمن آل فرعون]]،<ref>ابن براج، جواہر الفقہ، ص249۔</ref> سے تشبیہ دی گئی ہے۔ [[امام رضا(ع)]] نے [[ابان بن تغلب]] سے فرمایا: {{عربی|'''اگر تم [[ابوطالب(ع)]] کے [[ایمان]] کا اقرار نہیں کرو گے تو تیرا انجام، دوزخ کی آگ، ہوگا'''}}۔<ref>بحار الانوار، ج35، ص110 و 156۔</ref>


==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
گمنام صارف