مندرجات کا رخ کریں

"حمزہ بن عبد المطلب" کے نسخوں کے درمیان فرق

imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 86: سطر 86:


===قبول اسلام===
===قبول اسلام===
[[فائل:ایمان آوردن حمزه به اسلام- کتاب سیره النبی- قرن یازدهم.jpg|تصغیر|گیارھویں صدی ہجری میں لکھی گئی کتاب سیرت النبی میں حمزہ کا پیغمبر اکرمؐ اور اسلام پر ایمان لانے کی منظرکشی اور یہ کتاب عثمانی حکومت کے حاکم [[سلطان مراد سوم]] کے حکم سے [[سید سلیمان کسیم پاشا]]نے تالیف کیا۔]]
[[فائل:ایمان آوردن حمزه به اسلام- کتاب سیره النبی- قرن یازدهم.jpg|تصغیر|گیارھویں صدی ہجری میں لکھی گئی کتاب سیرت النبی میں حمزہ کے ایمان لانے کی منظرکشی، یہ کتاب عثمانی حاکم [[سلطان مراد سوم]] کے حکم سے [[سید سلیمان کسیم پاشا]] نے تالیف کی۔]]
ایک دن [[ابو جہل]] [[کوہ صفا]] کے قریب [[رسول اللہؐ]] کے سامنے آيا اور نازیبا الفاظ کہہ کر آپؐ کی شان میں اہانت کی۔ [[رسول اللہؐ]] نے ابو جہل کو جواب نہیں دیا۔ ایک کنیز بھی اس واقعے کی گواہ تھی۔ تھوڑی دیر بعد حمزہ شکار سے واپس [[مکہ]] پلٹ آئے۔ حمزہ کا معمول یہ تھا کہ شکار سے واپسی پر [[کعبہ]] کا طواف کرتے تھے اور اس کے بعد [[قریش]] کے اجتماعات میں چلے جاتے تھے اور ان سے بات چیت کرتے تھے۔ [[قریش]] حمزہ کی جوانمردیوں کے باعث ان سے محبت کرتے تھے۔ اس بار واپسی پر حمزہ اپنے معمول کے مطابق جانے پہچانے افراد کے ساتھ دیدار میں مصروف تھے کہ وہ کنیز ان کے قریب آئی اور کہا: "آپ یہاں موجود نہ تھے کہ دیکھتے [[ابو جہل]] نے [[رسول اللہ|محمدؐ]] سے کیا کہا!" حمزہ فوری طور [[ابو جہل]] کے قریب پہنچے جو [[مسجد الحرام]] میں لوگوں کے درمیان بیٹھا تھا اور اپنی کمان اس کے سر پر دے ماری اور ابو جہل شدید زخمی ہوا۔ حمزہ نے کہا: "تو [[محمد]] کو گالیاں دیتا ہے؟ کیا تو نہیں جانتا کہ میں نے آپؐ کا [[دین]] اختیار کیا ہے؛ وہ جو بھی کہیں میں بھی وہی کہتا ہوں"۔ [[بنو مخزوم]] نے ابو جہل کی مدد کا ارادہ کیا لیکن اس نے کہا: حمزہ کو جانے دو کیونکہ میں نے ان کے بھتیجے کو ناخوشایند گالی دی ہے۔ اس واقعے کے نتیجے میں حمزہ مسلمانوں کے زمرے میں شامل ہوئے۔ [[قریش]] نے دیکھا کہ [[محمدؐ]] کو حمزہ جیسے جوانمرد کی حمایت بھی حاصل ہوئی ہے اور کسی بھی منصوبے کے مقابلے میں آپؐ کی حفاظت کرے گا تو ان کی ریشہ دوانیوں میں کافی حد تک کمی آئی۔<ref> شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص49؛ ابن اسحاق، السیر والمغازی، ص171-172؛ ابن ہشام، السیرت النبویہ، قسم1، ص291ـ292۔</ref>
ایک دن [[ابو جہل]] [[کوہ صفا]] کے قریب [[رسول اللہؐ]] کے سامنے آيا اور نازیبا الفاظ کہہ کر آپؐ کی شان میں گستاخی کی۔ [[رسول اللہؐ]] نے ابو جہل کو جواب نہیں دیا۔ ایک کنیز بھی اس واقعے کی گواہ تھی۔ تھوڑی دیر بعد حمزہ شکار سے واپس [[مکہ]] آئے۔ حمزہ کا معمول یہ تھا کہ شکار سے واپسی پر [[کعبہ]] کا طواف کرتے تھے اور اس کے بعد [[قریش]] کے اجتماعات میں جاتے اور ان سے بات چیت کرتے تھے۔ [[قریش]] حمزہ کی شجاعت کے باعث ان سے محبت کرتے تھے۔ حمزہ اپنے معمول کے مطابق جانے پہچانے افراد کے ساتھ دیدار میں مصروف تھے کہ وہ کنیز ان کے قریب آئی اور کہا: "آپ یہاں موجود نہ تھے کہ دیکھتے [[ابو جہل]] نے [[رسول اللہ|محمدؐ]] سے کیا کہا!" حمزہ فوری طور [[ابو جہل]] کے قریب پہنچے جو [[مسجد الحرام]] میں لوگوں کے درمیان بیٹھا تھا اور اپنی کمان اس کے سر پر دے ماری اور ابو جہل شدید زخمی ہوا۔ حمزہ نے کہا: "تو [[محمد]] کو گالیاں دیتا ہے؟ کیا تو نہیں جانتا کہ میں نے آپؐ کا [[دین]] اختیار کیا ہے؛ وہ جو بھی کہیں میں بھی وہی کہتا ہوں"۔ [[بنو مخزوم]] نے ابو جہل کی مدد کا ارادہ کیا لیکن اس نے کہا: حمزہ کو جانے دو کیونکہ میں نے ان کے بھتیجے کو ناخوشایند گالی دی ہے۔ اس واقعے کے نتیجے میں حمزہ مسلمانوں کے زمرے میں شامل ہوئے۔ [[قریش]] نے دیکھا کہ [[محمدؐ]] کو حمزہ جیسے جوانمرد کی حمایت بھی حاصل ہوگئی ہے اور کسی بھی منصوبے کے مقابلے میں آپؐ کی حفاظت کریں گا تو ان کی ریشہ دوانیوں میں کافی حد تک کمی آئی۔<ref> شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص49؛ ابن اسحاق، السیر والمغازی، ص171-172؛ ابن ہشام، السیرت النبویہ، قسم1، ص291ـ292۔</ref>


بایں حال [[امام سجادؑ]] سے منقولہ [[حدیث]] کے مطابق مشرکین نے [[رسول اللہؐ]] کے سر پر اونٹنی کی بچہ دانی پھینک دی تو اس واقعے میں حمزہ کی غیرت ان کے [[اسلام]] لانے کا سبب بنی۔<ref>الکلینی، الکافی، ج1، ص449، ج2، ص308۔</ref> تاہم بعض محققین نے مستند اور مدلل انداز سے لکھا ہے کہ حمزہ کا [[اسلام]] ابتداء سے ہی آگہی اور شناخت پر استوار تھا۔<ref>العاملي، الصحیح من سیرة النبی، ج3، ص153ـ154۔</ref>
[[امام سجادؑ]] سے منقول [[حدیث]] کے مطابق مشرکین نے [[رسول اللہؐ]] کے سر پر اونٹنی کی بچہ دانی پھینکی تو اس واقعے میں حمزہ کی غیرت ان کے [[اسلام]] لانے کا سبب بنی۔<ref> الکلینی، الکافی، ج1، ص449، ج2، ص308۔</ref> تاہم بعض محققین نے مستند اور مدلل انداز سے لکھا ہے کہ حمزہ کا [[اسلام]] ابتداء سے ہی آگہی اور شناخت پر استوار تھا۔<ref> العاملي، الصحیح من سیرة النبی، ج3، ص153ـ154۔</ref>


محدثین اور مؤرخین کا کہنا ہے کہ حمزہ بن [[عبدالمطلب]] [[بعثت]] کے دوسرے یا چھٹے سال میں [[ابوذر غفاری|ابو ذر]] کے اسلام لانے سے قبل مسلمان ہوئے۔<ref>ابن عبدالبرّ، الاستیعاب، ج1، ص369؛ ابن سعد، الطبقات، ج3، ص9؛ الکلینی، الکافی، ج8، ص298۔</ref>
حمزہ بن [[عبدالمطلب]] [[بعثت]] کے دوسرے یا چھٹے سال میں [[ابوذر غفاری|ابو ذر]] کے اسلام لانے سے قبل مسلمان ہوئے۔<ref> ابن عبدالبرّ، الاستیعاب، ج1، ص369؛ ابن سعد، الطبقات، ج3، ص9؛ الکلینی، الکافی، ج8، ص298۔</ref> حمزہ کا قبول [[اسلام]] ان کے اعزاء و اقارب کے قبول [[اسلام]] میں مؤثر تھا۔<ref> ابن سعد، الطبقات، ج3، ص123۔</ref>


حمزہ کا قبول [[اسلام]] ان کے اعزاء و اقارب کے قبول [[اسلام]] میں مؤثر تھا۔<ref>ابن سعد، الطبقات، ج3، ص123۔</ref>
حمزہ کے قبول [[اسلام]] سے لے کر [[ہجرت]] تک کے حالات زندگی کے حوالے سے بہت کم معلومات تاریخ میں دستیاب ہیں؛ بس اتنا معلوم ہے کہ [[رسول اللہؐ]] نے اعلانیہ دعوت کا آغاز کیا تو حمزہ نے بھی اعلانیہ دعوت و تبلیغ کا آغاز کیا۔<ref> البلاذري، انساب الاشراف، ج1، ص123۔</ref> وہ [[رسول اللہؐ]] کے ساتھ رہے اور [[ہجرت حبشہ|حبشہ]] کی طرف ہجرت نہیں کی۔<ref> ابن ہشام، السیرة النبویۃ، قسم 1، ص343ـ344۔</ref> مشرکین نے [[شعب ابی طالب]] میں [[بنی ہاشم]] اور [[بنی المطلب]] کی ناکہ بندی کی تو مسلمین کے ساتھ [[شعب ابی طالب|شعب]] میں تھے۔<ref> ابن اسحاق، کتاب السیر والمغازی، ص160-161۔</ref> [[بعثت]] کے بارہویں سال [[دوسری بیعت عقبہ]] میں [[مدینہ]] کے بعض افراد نے [[رسول خداؐ]] کے ساتھ [[بیعت]] کی تو حمزہ اور [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] موجود تھے اور نگرانی کر رہے تھے کہ کہیں مشرکین قریب نہ آئیں۔<ref> القمی، تفسیر القمی، ذیل انفال: 30۔</ref>
 
حمزہ کے قبول [[اسلام]] سے لے کر [[ہجرت]] تک کے حالات زندگی کے حوالے سے بہت کم معلومات تاریخ میں دستیاب ہیں؛ بس اتنا معلوم ہے کہ [[رسول اللہؐ]] نے اعلانیہ دعوت کا آغاز کیا تو حمزہ نے بھی اعلانیہ دعوت و تبلیغ کا آغاز کیا۔<ref>البلاذري، انساب الاشراف، ج1، ص123۔</ref> وہ [[رسول اللہؐ]] کے ساتھ رہے اور [[ہجرت حبشہ|حبشہ]] کی طرف ہجرت نہیں کی۔<ref>ابن ہشام، السیرة النبویۃ، قسم 1، ص343ـ344۔</ref>
 
مشرکین نے [[شعب ابی طالب]] میں [[بنو ہاشم]] اور [[بنو المطلب]] کی ناکہ بندی کی تو مسلمین کے ساتھ تھے [[شعب ابی طالب|شعب]] میں تھے۔<ref>ابن اسحاق،کتاب السیر والمغازی، ص160-161۔</ref>
 
[[بعثت]] کے بارہویں سال [[دوسری بیعت عقبہ]] میں [[مدینہ]] کے بعض افراد نے [[رسول خداؐ]] کے ساتھ [[بیعت]] کی تو حمزہ اور [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] موجود تھے اور نگرانی کررہے تھے کہ کہیں مشرکین قریب نہ آئیں۔<ref>القمی، تفسیر القمی، ذیل انفال: 30۔</ref>


===ہجرت مدینہ===
===ہجرت مدینہ===
گمنام صارف