مندرجات کا رخ کریں

"حمزہ بن عبد المطلب" کے نسخوں کے درمیان فرق

imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 63: سطر 63:


انہیں "اسد اللہ" اور "اسدُ رسولِ اللہ" جیسے القاب دیئے گئے ہیں۔<ref> رجوع کریں: الواقدی، المغازی، ج1، ص68؛ ابن سعد، الطبقات، ج3، ص8۔</ref> ان کی شہادت کے بعد [[حضرت جبرئیل]] نے رسول خدا کے ذریعہ یہ لقب عطا کئے۔<ref> واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۲۹۰.</ref> ان کے مہم ترین القاب میں سے ایک [[سید الشہداء]] ہے۔<ref> نهج البلاغة، نامہ ۲۸</ref> [[شہید مرتضی مطہری]] لقب سید الشہداء کو حضرت حمزہ کے لئے مقید اور [[امام حسین علیہ السلام]] کے لئے مطلق مانتے ہیں اور اس تاریخی نکتہ پر تاکید کرتے ہیں کہ یہ لقب [[عاشورا]] سے پہلے تک حمزہ کے لئے مخصوص تھا لیکن عاشورا کے بعد یہ امام حسین (ع) کا لقب بن گیا۔ حمزہ اپنے زمانہ کے سید الشہداء ہیں لیکن امام حسین (ع) ہر زمانے کے سید الشہداء ہیں۔ جس طرح سے [[حضرت مریم]] اپنے زمانے کی خواتین کی سردار ہیں لیکن [[حضرت فاطمہ زہرا (س)]] تمام زمانوں کی خواتین کی سردار ہیں۔<ref> مطہری، مجموعہ آثار استاد شهید مطهری، ج۲۴، ص۴۶۵-۴۶۶.</ref> [[ملا صالح مازندرانی]] نے اسی نظریہ کو مرتضی مطہری سے پہلے پیش کیا ہے۔<ref> مازندرانی، شرح اصول کافی، ۱۴۲۱ق، ج۱۱، ص۳۶۸.</ref>
انہیں "اسد اللہ" اور "اسدُ رسولِ اللہ" جیسے القاب دیئے گئے ہیں۔<ref> رجوع کریں: الواقدی، المغازی، ج1، ص68؛ ابن سعد، الطبقات، ج3، ص8۔</ref> ان کی شہادت کے بعد [[حضرت جبرئیل]] نے رسول خدا کے ذریعہ یہ لقب عطا کئے۔<ref> واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۲۹۰.</ref> ان کے مہم ترین القاب میں سے ایک [[سید الشہداء]] ہے۔<ref> نهج البلاغة، نامہ ۲۸</ref> [[شہید مرتضی مطہری]] لقب سید الشہداء کو حضرت حمزہ کے لئے مقید اور [[امام حسین علیہ السلام]] کے لئے مطلق مانتے ہیں اور اس تاریخی نکتہ پر تاکید کرتے ہیں کہ یہ لقب [[عاشورا]] سے پہلے تک حمزہ کے لئے مخصوص تھا لیکن عاشورا کے بعد یہ امام حسین (ع) کا لقب بن گیا۔ حمزہ اپنے زمانہ کے سید الشہداء ہیں لیکن امام حسین (ع) ہر زمانے کے سید الشہداء ہیں۔ جس طرح سے [[حضرت مریم]] اپنے زمانے کی خواتین کی سردار ہیں لیکن [[حضرت فاطمہ زہرا (س)]] تمام زمانوں کی خواتین کی سردار ہیں۔<ref> مطہری، مجموعہ آثار استاد شهید مطهری، ج۲۴، ص۴۶۵-۴۶۶.</ref> [[ملا صالح مازندرانی]] نے اسی نظریہ کو مرتضی مطہری سے پہلے پیش کیا ہے۔<ref> مازندرانی، شرح اصول کافی، ۱۴۲۱ق، ج۱۱، ص۳۶۸.</ref>
== اولاد ==
حمزہ کے تین بیٹے عمارہ، یعلی و عامر تھے۔<ref> ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۳، ص۸</ref> عمارہ (ان کے بڑے فرزند) فتح عراق میں شامل تھے۔<ref> بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۲۸۸ـ۲۸۹</ref> یعلی کے پانچ بیٹے تھے۔<ref> ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۳، ص۹</ref> منابع میں اس بات کی تاکید کہ ان کی نسل کا سلسلہ آگے نہیں بڑھا،<ref> رجوع کریں: ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۳، ص۹.</ref> دسویں صدی ہجری میں بعض افراد کو ان کی نسل سے شمار کیا گیا ہے۔<ref> رجوع کریں: آقا بزرگ طهرانی، الذریعة، ج۲۶، ص۹۶</ref>
ان کی بیٹیوں کے مختلف نام منابع میں ذکر ہوئے ہیں۔ منابع کی صراحت کے مطابق وہ سب ایک ہی بیٹی کے نام ہیں۔ وہ نام مرجح یا امامہ ہے۔<ref> برای نمونہ رجوع کریں: بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۲۸۳؛ ابن اثیر، اسد الغابة، ۱۴۰۹ق، ج۶، ص۲۱، ۱۴۷، ۱۹۹، ۲۱۹، ۳۷۸</ref> امامہ کے نام کا تذکرہ حدیث غدیر خم کے رایوں میں بھی درج ہوا ہے۔<ref> امینی، الغدیر، ج۱، ص۱۳۹</ref>


==قبل از اسلام==
==قبل از اسلام==
گمنام صارف