مندرجات کا رخ کریں

"امام جعفر صادق علیہ السلام" کے نسخوں کے درمیان فرق

imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 109: سطر 109:


===تقیہ کرنا===
===تقیہ کرنا===
سوائے [[دوسری صدی ہجری]] کے تیسرے عشرے کے جس میں [[بنی‌امیہ]] کی حکومت کا زوال ہوا باقی سالوں میں [[بنی امیہ]] اور [[بنی عباس]] کے خلفا ہمیشہ آپ اور آپ کے پیرکاروں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھتے تھے اور آپ کی زندگی کے آخری سالوں میں سیاسی دباؤ میں شدت آگئی تھی۔<ref>جعفریان، حیات فکری‌سیاسی امامان شیعہ، ۱۳۹۳ش، ص۴۳۵.</ref> بعض [[روایات]] کے مطابق [[منصور دوانیقی]] کے کارندے حتی ان لوگوں کو بھی پکڑ کر گردن مار دیتے تھے جو آپ کے پیروکاروں کے ساتھ دوستانہ روابط رکھتے تھے۔ اس بنا پر آپؑ [[تقیہ]] فرماتے تھے اور اپنے پیروکاروں کو بھی تقیہ کرنے کی سفارش فرماتے تھے۔<ref>جعفریان، حیات فکری‌سیاسی امامان شیعہ، ۱۳۹۳ش، ص۴۳۵.</ref>
سوائے دوسری صدی ہجری کے تیسرے عشرے کے جس میں [[بنی‌امیہ]] کی حکومت کا زوال ہوا باقی سالوں میں [[بنی امیہ]] اور [[بنی عباس]] کے خلفا ہمیشہ آپ اور آپ کے پیرکاروں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھتے تھے اور آپ کی زندگی کے آخری سالوں میں سیاسی دباؤ میں شدت آگئی تھی۔<ref>جعفریان، حیات فکری‌ سیاسی امامان شیعہ، ۱۳۹۳ش، ص۴۳۵.</ref> بعض [[روایات]] کے مطابق [[منصور دوانیقی]] کے کارندے حتی ان لوگوں کو بھی پکڑ کر گردن مار دیتے تھے جو آپ کے پیروکاروں کے ساتھ دوستانہ روابط رکھتے تھے۔ اس بنا پر آپؑ [[تقیہ]] فرماتے تھے اور اپنے پیروکاروں کو بھی تقیہ کرنے کی سفارش فرماتے تھے۔<ref>جعفریان، حیات فکری‌سیاسی امامان شیعہ، ۱۳۹۳ش، ص۴۳۵.</ref>
 
امام صادقؑ نے [[سفیان ثوری]] سے جو آپ سے ملاقات کیلئے آئے تھے، فرماتے ہیں آپ یہاں سے چلے جائیں کیونکہ ہم دونوں حکومت کی کڑی نگرانی میں ہیں۔<ref>ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۲۴۸.</ref> ایک اور [[حدیث]] میں آیا ہے کہ امام صادقؑ نے [[ابان بن تغلب]] سے کسی ممکنہ خطرات کے پیش نظر لوگوں کے پوچھے گئے فقہی سوالات کا جواب [[اہل سنت]] علماء کے نظریے کے مطابق دینے کا حکم دیا۔<ref>رجال کشی، ص۳۳۰.</ref> اسی طرح امام صادقؑ سے بعض ایسی احادیث نقل ہوئی ہیں جن میں آپ اپنے پیروکاروں کو تقیہ کرنے کی سفارش فرماتے ہیں۔ ان احادیث میں سے بعض میں تقیہ کو [[نماز]] کے برابر کا درجہ دیا گیا ہے۔<ref>فتال نیشابوری، روضة الواعظین، ۱۳۷۵ش، ج۲، ص۲۹۳.</ref>


امام صادقؑ نے [[سفیان ثوری]] سے جو آپ سے ملاقات کیلئے آئے تھے، فرماتے ہیں آپ یہاں سے چلے جائیں کیونکہ ہم دونوں حکومت کی کڑی نگرانی میں ہیں۔<ref>ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۲۴۸.</ref> ایک اور [[حدیث]]  میں آیا ہے کہ امام صادقؑ نے [[ابان بن تغلب]] سے کسی ممکنہ خطرات کے پیش نظر لوگوں کے پوچھے گئے فقہی سوالات کا جواب [[اہل سنت]] علماء کے نظریے کے مطابق دینے کا حکم دیا۔<ref>رجال کشی، ص۳۳۰.</ref> اسی طرح امام صادقؑ سے بعض ایسی احادیث نقل ہوئی ہیں جن میں آپ اپنے پیروکاروں کو تقیہ کرنے کی سفارش فرماتے ہیں۔ ان احادیث میں سے بعض میں تقیہ کو [[نماز]] کے برابر کا درجہ دیا گیا ہے۔<ref>فتال نیشابوری، روضةالواعظین، ۱۳۷۵ش، ج۲، ص۲۹۳.</ref>
==اخلاقی خصوصیات==
==اخلاقی خصوصیات==
[[حدیث|حدیثی]] منابع میں امام صادقؑ کی اخلاقی خصوصیات میں سے [[زہد]]، [[انفاق]]، فراوانی علم، طولانی عبادت اور [[قرآن]] کریم کی تلاوت وغیرہ جیسی اخلاقی خصوصیات کا تذکرہ ملتا ہے۔ محمد بن طلحہ امام صادقؑ کو اہل بیت میں سب سے زیادہ عظمت و بزرگی کا حامل شخص قرار دیتے ہیں جو علم و معرفت کے اعلی درجے پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ زہد و تقوی، عبادت و بندگی نیز قرآن مجید کی تلاوت میں اپنے زمانے میں شہرت رکھتے تھے۔<ref>اربلی، کشف الغمہ، ۱۳۷۹ش، ج۲، ص۶۹۱.</ref> [[مالک بن انس]] جو [[اہل سنت]] کے ائمہ اربعہ میں سے ہیں، امامؑ کے متعلق کہتے ہیں: جتنی مدت جعفر بن محمد کے پاس جانے کا اتفاق ہوا اسے تین حالتوں میں سے ایک حالت میں پایا، یا نماز کی حالت یا روزہ داری کی حالت میں یا ذکر پڑھنے کی حالت میں۔<ref>مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۷، ص۱۶.</ref><br /> [[بحار الانوار]] کے مطابق امامؑ نے کسی فقیر کے سوال کرنے پر اسے چار سو درہم عطا فرمایا اور جب اس کی شکر گزاری کو دیکھا تو اپنی انگوٹھی جو دس ہزار درہم کی تھی، اسے بخش دیا۔<ref>مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۷، ص۶۱.</ref> آپؑ کے انفاق‌ فی سبیل اللہ سے متعلق بھی بہت ساری احادیث موجود ہیں۔ کتاب [[کافی]] میں آیا ہے کہ آپ رات کو کسی تھیلے میں روٹی، گوشٹ اور درہم و دینار رکھ کر بطور ناشناخت غریبوں کے دروازوں پر جاتے تھے اور مذکورہ چیزوں کو ان میں تقسیم کرتے تھے۔<ref>کلینی، کافی، ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۸.</ref> [[ابوجعفر خثعمی]] نقل کرتے ہیں کہ امام صادقؑ نے ایک دفعہ درہم و دینار سے بھرا ہوا ایک تھیلہ مجھے دیا اور اسے بنی ہاشم کے کسی فرد کو دینے کا کہا لیکن یہ اسے یہ نہ کہا جائے کہ اسے کس نے بھیجا ہے۔ خثعمی کہتے ہیں جب اس شخص نے وہ رقم لے لیا تو اس کے بھیجنے والے کیلئے دعا کیا اور امام صادقؑ کی شکایت کرنا شروع کیا کہ اتنے مال دولت کے باوجود ان کی مدد نہیں کرتا۔<ref>ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ۱۳۷۹ش، ج‏۴، ص۲۷۳.</ref>
[[حدیث|حدیثی]] منابع میں امام صادقؑ کی اخلاقی خصوصیات میں سے [[زہد]]، [[انفاق]]، فراوانی علم، طولانی عبادت اور [[قرآن]] کریم کی تلاوت وغیرہ جیسی اخلاقی خصوصیات کا تذکرہ ملتا ہے۔ محمد بن طلحہ امام صادقؑ کو اہل بیت میں سب سے زیادہ عظمت و بزرگی کا حامل شخص قرار دیتے ہیں جو علم و معرفت کے اعلی درجے پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ زہد و تقوی، عبادت و بندگی نیز قرآن مجید کی تلاوت میں اپنے زمانے میں شہرت رکھتے تھے۔<ref>اربلی، کشف الغمہ، ۱۳۷۹ش، ج۲، ص۶۹۱.</ref> [[مالک بن انس]] جو [[اہل سنت]] کے ائمہ اربعہ میں سے ہیں، امامؑ کے متعلق کہتے ہیں: جتنی مدت جعفر بن محمد کے پاس جانے کا اتفاق ہوا اسے تین حالتوں میں سے ایک حالت میں پایا، یا نماز کی حالت یا روزہ داری کی حالت میں یا ذکر پڑھنے کی حالت میں۔<ref>مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۷، ص۱۶.</ref><br /> [[بحار الانوار]] کے مطابق امامؑ نے کسی فقیر کے سوال کرنے پر اسے چار سو درہم عطا فرمایا اور جب اس کی شکر گزاری کو دیکھا تو اپنی انگوٹھی جو دس ہزار درہم کی تھی، اسے بخش دیا۔<ref>مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۷، ص۶۱.</ref> آپؑ کے انفاق‌ فی سبیل اللہ سے متعلق بھی بہت ساری احادیث موجود ہیں۔ کتاب [[کافی]] میں آیا ہے کہ آپ رات کو کسی تھیلے میں روٹی، گوشٹ اور درہم و دینار رکھ کر بطور ناشناخت غریبوں کے دروازوں پر جاتے تھے اور مذکورہ چیزوں کو ان میں تقسیم کرتے تھے۔<ref>کلینی، کافی، ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۸.</ref> [[ابوجعفر خثعمی]] نقل کرتے ہیں کہ امام صادقؑ نے ایک دفعہ درہم و دینار سے بھرا ہوا ایک تھیلہ مجھے دیا اور اسے بنی ہاشم کے کسی فرد کو دینے کا کہا لیکن یہ اسے یہ نہ کہا جائے کہ اسے کس نے بھیجا ہے۔ خثعمی کہتے ہیں جب اس شخص نے وہ رقم لے لیا تو اس کے بھیجنے والے کیلئے دعا کیا اور امام صادقؑ کی شکایت کرنا شروع کیا کہ اتنے مال دولت کے باوجود ان کی مدد نہیں کرتا۔<ref>ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ۱۳۷۹ش، ج‏۴، ص۲۷۳.</ref>
گمنام صارف