مندرجات کا رخ کریں

"قم" کے نسخوں کے درمیان فرق

40 بائٹ کا اضافہ ،  19 دسمبر 2017ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Jaravi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Jaravi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 86: سطر 86:


=== پہلا رابطہ ===
=== پہلا رابطہ ===
عبد اللہ بن سعد بن مالک جو قم کی طرف ہجرت کرنے والے پہلے مہاجرین میں سے تھے کے بعض فرزندان أئمہ معصومین کے اصحاب میں سے تھے۔ تاریخی اعتبار سے یہ سب سے پرانے شواہد ہیں جو ائمہ کے ساتھ قم کے اشعریوں کے رابطے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ موسی بن عبد اللہ بن سعد [[امام صادق(ع)]] کے اصحاب میں سے تھے اور شیخ طوسی کے مطابق انہوں نے [[امام باقر(ع)]] سے بھی روایت سنی تھی۔ شیعب بن عبد اللہ کا شمار بھی امام باقر(ع) اور امام صادق(ع) کے اصحاب میں ہوتا ہے۔ آدم، ابو بکر، یسع، یعقوب اور اسحاق جو کہ عبد اللہ بن سعد کے فرزندان تھے ان کا شمار بھی امام صادق(ع) کے اصحاب اور شاگردوں میں ہوتا ہے۔<ref>پیروزفر و آجیلیان، ص۳۵-۳۶</ref>
عبد اللہ بن سعد بن مالک جو قم کی طرف ہجرت کرنے والے پہلے مہاجرین میں سے تھے کے بعض فرزندان أئمہ معصومین کے [[اصحاب]] میں سے تھے۔ تاریخی اعتبار سے یہ سب سے پرانے شواہد ہیں جو ائمہ کے ساتھ قم کے اشعریوں کے رابطے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ موسی بن عبد اللہ بن سعد [[امام صادق(ع)]] کے اصحاب میں سے تھے اور شیخ طوسی کے مطابق انہوں نے [[امام باقر(ع)]] سے بھی روایت سنی تھی۔ شیعب بن عبد اللہ کا شمار بھی امام باقر(ع) اور امام صادق(ع) کے اصحاب میں ہوتا ہے۔ آدم، ابو بکر، یسع، یعقوب اور اسحاق جو کہ عبد اللہ بن سعد کے فرزندان تھے ان کا شمار بھی امام صادق(ع) کے اصحاب اور شاگردوں میں ہوتا ہے۔<ref>پیروزفر و آجیلیان، ص۳۵-۳۶</ref>


===امام کاظم(ع) سے اظہار وفاداری===
===امام کاظم(ع) سے اظہار وفاداری===
امام کاظم(ع) کی شہادت جو بہت سے شیعہ اور غیر شیعہ شخصیات کے لئے غیر قابل درک واقعہ تھا، لیکن اہل قم نے قطعی اور یقینی طور پر ہارون رشید کو اس واقعے کا ذمہ ذار ٹہرایا اور اسی تناظر میں اس کی طرف سے بھیجے گئے حاکموں کی باقاعدہ مخالفت شروع کی۔<ref>دایرۃ المعارف تشیع، ج۱۳ص۲۷۱</ref>
امام کاظم(ع) کی [[شہادت]] جو بہت سے [[شیعہ]] اور غیر شیعہ شخصیات کے لئے غیر قابل درک واقعہ تھا، لیکن اہل قم نے قطعی اور یقینی طور پر ہارون رشید کو اس واقعے کا ذمہ ذار ٹہرایا اور اسی تناظر میں اس کی طرف سے بھیجے گئے حاکموں کی باقاعدہ مخالفت شروع کی۔<ref>دایرۃ المعارف تشیع، ج۱۳ص۲۷۱</ref>


===امام رضا(ع) اور اہل قم ===
===امام رضا(ع) اور اہل قم ===
سطر 114: سطر 114:


== تاریخ قم کے مختلف ادوار میں پیش آنے والے نشیب و فراز ==
== تاریخ قم کے مختلف ادوار میں پیش آنے والے نشیب و فراز ==
قم کی فتح، اور اشعریوں اور حضرت معصومہ(ص) کے حرم کی وجہ سے قم شیعوں کے بہت بڑے مرکز میں تبدیل ہو گیا، قم کے لوگ شروع ہی سے غیر شیعہ حکومت کو قبول نہیں کرتے اور ان کے خلاف قیام کرتے تھے اور یہ سلسلہ عباسیوں کے زمانے سے ہی شروع ہوا۔
قم کی فتح، اور اشعریوں اور حضرت معصومہ(ص) کے [[حرم]] کی وجہ سے قم شیعوں کے بہت بڑے مرکز میں تبدیل ہو گیا، قم کے لوگ شروع ہی سے غیر شیعہ حکومت کو قبول نہیں کرتے اور ان کے خلاف قیام کرتے تھے اور یہ سلسلہ عباسیوں کے زمانے سے ہی شروع ہوا۔


===اہل قم کا عباسی خلفاء کے خلاف قیام===
===اہل قم کا عباسی خلفاء کے خلاف قیام===
====مامون کے زمانے میں دو قیام====
====مامون کے زمانے میں دو قیام====
* '''پہلا قیام:'''امام رضا(ع) کی شہادت کے بعد مامون نے بغداد کی طرف ہجرت کی، سنہ 210 میں قم کے لوگوں نے عباسی خلیفہ کے کارندوں کو مالیات دینے سے انکار کرتے ہوئے ان کے خلاف قیام کیا۔ مامون نے بھی علی بن ہشام مروزی کی قیادت میں ایک لشکر بھیجا جس نے کافی تباہی پھیلانے اور بے شمار قتل و غارت کے بعد باغیوں کو سرکوب کیا۔<ref>تاریخ ‏قم، ص۳۵</ref>
* '''پہلا قیام:'''امام رضا(ع) کی شہادت کے بعد مامون نے بغداد کی طرف [[ہجرت]] کی، سنہ 210 میں قم کے لوگوں نے عباسی خلیفہ کے کارندوں کو مالیات دینے سے انکار کرتے ہوئے ان کے خلاف قیام کیا۔ مامون نے بھی علی بن ہشام مروزی کی قیادت میں ایک لشکر بھیجا جس نے کافی تباہی پھیلانے اور بے شمار قتل و غارت کے بعد باغیوں کو سرکوب کیا۔<ref>تاریخ ‏قم، ص۳۵</ref>


* '''دوسرا قیام:''' سنہ 215 میں قم کے لوگوں نے دوبارہ قیام کیا اور عباسی حاکم کو شہر سے نکال باہر کیا۔ مامون نے دوبارہ فوج بھیج کر بعض کو قتل اور بعض کو قید میں ڈالنے کے ذریعے قیام کو ختم کر دیا۔<ref>طبری، ج۱۳ص ۵۷۴۲</ref> حسن بن محمد قمی کی نظر میں یہ واقعہ سنہ 217 ق میں پیش آیا۔<ref>تاریخ ‏قم، ص۳۵</ref>
* '''دوسرا قیام:''' سنہ 215 میں قم کے لوگوں نے دوبارہ قیام کیا اور عباسی حاکم کو شہر سے نکال باہر کیا۔ [[مامون]] نے دوبارہ فوج بھیج کر بعض کو قتل اور بعض کو قید میں ڈالنے کے ذریعے قیام کو ختم کر دیا۔<ref>طبری، ج۱۳ص ۵۷۴۲</ref> حسن بن محمد قمی کی نظر میں یہ واقعہ سنہ 217 ق میں پیش آیا۔<ref>تاریخ ‏قم، ص۳۵</ref>


====دوسرے خلفاء کے دور کے قیام====
====دوسرے خلفاء کے دور کے قیام====
* '''معتصم''' کی حکومت کے اوائل میں قم کے لوگوں نے دوبارہ قیام کیا اور عباسی حاکم کو شہر سے نکال باہر کیا، معتصم نے اپنا بڑا لشکر قم کی جانب روانہ کیا، اور بہت سے باغات اور گھروں کو آگ لگا دی اور شہر کو بہت نقصان پہنچایا۔<ref> کامل، ج۱۲ص ۵۴</ref>
* '''معتصم''' کی حکومت کے اوائل میں قم کے لوگوں نے دوبارہ قیام کیا اور عباسی حاکم کو شہر سے نکال باہر کیا، معتصم نے اپنا بڑا لشکر قم کی جانب روانہ کیا، اور بہت سے باغات اور گھروں کو آگ لگا دی اور شہر کو بہت نقصان پہنچایا۔<ref> کامل، ج۱۲ص ۵۴</ref>


* '''معتز''' کے زمانے میں قم کے لوگوں نے دو قیام کئے، ایک بار مفلح ترک نے قیام کو سرکوب کیا اور دوسری بار موسی بن بغاء نے،<ref>فتوح ‏البلدان، ص:۳۰۷</ref> موسی بن بغا نے قم کے لوگوں پر اسقدر ظلم کیا کہ اس کی شکایت امام حسن عسکری(ع) تک پہنچا دی اور آپ سے اس مسئلے کا راہ حل دریافت کیا۔ آںحضرت نے اہل قم کے نام ایک مفصل دعا ارسال فرمائی تاکہ لوگ ان گرفتاریوں سے نجات کیلئے اسے نماز کی قنوت میں پڑھا کریں۔<ref>نقدالرجال ص۳۳۱</ref>
* '''معتز''' کے زمانے میں قم کے لوگوں نے دو قیام کئے، ایک بار مفلح ترک نے قیام کو سرکوب کیا اور دوسری بار موسی بن بغاء نے،<ref>فتوح ‏البلدان، ص:۳۰۷</ref> موسی بن بغا نے قم کے لوگوں پر اسقدر ظلم کیا کہ اس کی شکایت [[امام حسن عسکری(ع)]] تک پہنچا دی اور آپ سے اس مسئلے کا راہ حل دریافت کیا۔ آںحضرت نے اہل قم کے نام ایک مفصل دعا ارسال فرمائی تاکہ لوگ ان گرفتاریوں سے نجات کیلئے اسے [[نماز]] کی قنوت میں پڑھا کریں۔<ref>نقدالرجال ص۳۳۱</ref>


* '''مقتدر'''عباسی خلفاء میں سے "مقتدر" نے عاقلانہ اقدام کیا، اس نے [[حسین بن حمدان]] جو خود بھی شیعہ تھے، کو بھیج کر قم کے لوگوں کے دیرینہ مطالبات کو پورا کیا،<ref>الکامل، ج‏۸، ص:۱۹</ref> جب حسین بن حمدان قم میں داخل ہوا تو قم کے لوگوں نے اس کا استقبال کیا، اور کہا: کہ ہم اس سے جنگ کرتے ہیں جو ہمارے مذہب کی مخالفت کرتا ہے اور چونکہ تم ہمارے ہم مذہب ہو ہماری تمہارے ساتھ کوئی جنگ نہیں ہے۔
* '''مقتدر'''عباسی خلفاء میں سے "مقتدر" نے عاقلانہ اقدام کیا، اس نے [[حسین بن حمدان]] جو خود بھی شیعہ تھے، کو بھیج کر قم کے لوگوں کے دیرینہ مطالبات کو پورا کیا،<ref>الکامل، ج‏۸، ص:۱۹</ref> جب حسین بن حمدان قم میں داخل ہوا تو قم کے لوگوں نے اس کا استقبال کیا، اور کہا: کہ ہم اس سے جنگ کرتے ہیں جو ہمارے مذہب کی مخالفت کرتا ہے اور چونکہ تم ہمارے ہم مذہب ہو ہماری تمہارے ساتھ کوئی جنگ نہیں ہے۔
سطر 134: سطر 134:
[[ملف:مسجدجمکران3.jpg|تصغیر|مسجد جمکران کی ہوائی تصویر]]
[[ملف:مسجدجمکران3.jpg|تصغیر|مسجد جمکران کی ہوائی تصویر]]
{{اصلی|مسجد جمکران}}
{{اصلی|مسجد جمکران}}
* '''مسجد جمکران '''، یہ مسجد قم کے جنوب مشرق میں چھ کلو میٹر کے فاصلے پر (کاشان اور قم کے پرانے راستے) میں واقع ہے۔ یہ مسجد امام زمانہ سے منسوب ہے اسی لئے ایران اور دنیا کے مختلف ملکوں سے لوگ یہاں آکر کر عقیدت و احترام کا اظہار کرتے ہیں خاص طور پر ہر بدھ کی رات یہاں دعائے توسل کیلئے لوگ کثیر تعداد میں جمع ہوتے ہیں اور بعض تا طلوع فجر یہیں پر عبادت اور راز و نیاز میں بسر کرتے ہیں۔ <ref>مجموعہ مقالات، جدوم، ص۲۵۳</ref>
* '''مسجد جمکران '''، یہ مسجد قم کے جنوب مشرق میں چھ کلو میٹر کے فاصلے پر (کاشان اور قم کے پرانے راستے) میں واقع ہے۔ یہ مسجد امام زمانہ سے منسوب ہے اسی لئے ایران اور دنیا کے مختلف ملکوں سے لوگ یہاں آکر کر عقیدت و احترام کا اظہار کرتے ہیں خاص طور پر ہر بدھ کی رات یہاں [[دعائے توسل]] کیلئے لوگ کثیر تعداد میں جمع ہوتے ہیں اور بعض تا طلوع فجر یہیں پر عبادت اور راز و نیاز میں بسر کرتے ہیں۔ <ref>مجموعہ مقالات، جدوم، ص۲۵۳</ref>


* '''مسجد امام حسن عسکری(ع)''' مسجد امام حسن عسکری(ع)، یہ مسجد پل علیخانی کے نزدیک ہے، اس کا پرانا نام مسجد جامع عتیق تھا،<ref> تاریخ قم، ۳۷ </ref> روایت کے مطابق اس کی پہلی تعمیر تیسری صدی میں امام حسن عسکری(ع) کے وکیل احمد بن اسحاق اشعری کے ہاتھوں ہوئی تھی،<ref> آثار تاریخی و فرہنگی قم، ۱۶۸</ref> یہ مسجد اب آیت اللہ گلپایگانی کی کوشش سے، 2500 میٹر کی مساحت پر پھیلی ہوا ہے۔<ref>آثار تاریخی و فرهنگی قم، ۱۶۸</ref>
* '''مسجد امام حسن عسکری(ع)''' مسجد امام حسن عسکری(ع)، یہ مسجد پل علیخانی کے نزدیک ہے، اس کا پرانا نام مسجد جامع عتیق تھا،<ref> تاریخ قم، ۳۷ </ref> روایت کے مطابق اس کی پہلی تعمیر تیسری صدی میں امام حسن عسکری(ع) کے وکیل احمد بن اسحاق اشعری کے ہاتھوں ہوئی تھی،<ref> آثار تاریخی و فرہنگی قم، ۱۶۸</ref> یہ مسجد اب آیت اللہ گلپایگانی کی کوشش سے، 2500 میٹر کی مساحت پر پھیلی ہوا ہے۔<ref>آثار تاریخی و فرہنگی قم، ۱۶۸</ref>


* '''قم کی جامع مسجد''' اس مسجد کی قدمت تقریباً چھ صدی پہلے کی طرف پلٹتی ہے، مسجد امام حسن عسکری کے بعد قدیمی ترین مسجد میں اس کا شمار ہوتا ہے۔<ref> مجموعہ مقالات، ج۲ص ۲۵۴</ref> صاحب النقض کے مطابق اس مسجد کی تعمیر سلجوقی پادشاہ طغرل کے دور میں ہوئی۔ <ref>النقض، ص۱۶۳</ref>
* '''قم کی جامع مسجد''' اس مسجد کی قدمت تقریباً چھ صدی پہلے کی طرف پلٹتی ہے، مسجد امام حسن عسکری کے بعد قدیمی ترین مسجد میں اس کا شمار ہوتا ہے۔<ref> مجموعہ مقالات، ج۲ص ۲۵۴</ref> صاحب النقض کے مطابق اس مسجد کی تعمیر سلجوقی پادشاہ طغرل کے دور میں ہوئی۔ <ref>النقض، ص۱۶۳</ref>
سطر 143: سطر 143:


==قم میں مدفون شخصیات==
==قم میں مدفون شخصیات==
قم کی سرزمین میں اپنے اموات کو دفن کرنا، شیعوں کے درمیان پہلے سے چلا آ رہا ہے اسی وجہ سے بہت سارے علماء اور سلاطین اور بزرگوں کی قبریں یہاں ہیں لیکن اس رسم میں صفویوں کے دور حکومت سے شدت آگئی اور شاردن نے اپنے سفر نامہ میں ایران کے مختلف علاقوں سے اموات کو یہاں منتقل کرنے اور حرم حضرت معصومہ(ع) کے دائیں طرف موجود قبرستان میں انہیں دفن کرنے کا تذکرہ کیا ہے۔
قم کی سرزمین میں اپنے اموات کو دفن کرنا، شیعوں کے درمیان پہلے سے چلا آ رہا ہے اسی وجہ سے بہت سارے علماء اور سلاطین اور بزرگوں کی قبریں یہاں ہیں لیکن اس رسم میں صفویوں کے دور حکومت سے شدت آگئی اور شاردن نے اپنے سفر نامہ میں ایران کے مختلف علاقوں سے اموات کو یہاں منتقل کرنے اور حرم حضرت معصومہ(ع) کے دائیں طرف موجود قبرستان میں انہیں [[دفن]] کرنے کا تذکرہ کیا ہے۔


شیعوں کے بلند پایہ کئی علماء جیسے [[زکریا بن آدم]]، [[علی بن بابویہ]]، [[ابن قولویہ قمی|محمد بن قولویہ]]، [[علی بن ابراہیم قمی|علی بن ابراہیم]]، [[قطب راوندی]] وغیرہ کے قم میں دفن ہونے کی علاوہ ایران کے متعدد پادشاہوں اور سلاطین  کے جسد خاکی بھی یہاں مدفون ہیں جن میں سے بعض کا تذکرہ یوں ہے:  <ref>فقیہی، تاریخ مذہبی قم، صص۱۸۲-۱۸۶.</ref>
شیعوں کے بلند پایہ کئی علماء جیسے [[زکریا بن آدم]]، [[علی بن بابویہ]]، [[ابن قولویہ قمی|محمد بن قولویہ]]، [[علی بن ابراہیم قمی|علی بن ابراہیم]]، [[قطب راوندی]] وغیرہ کے قم میں دفن ہونے کی علاوہ ایران کے متعدد پادشاہوں اور سلاطین  کے جسد خاکی بھی یہاں مدفون ہیں جن میں سے بعض کا تذکرہ یوں ہے:  <ref>فقیہی، تاریخ مذہبی قم، صص۱۸۲-۱۸۶.</ref>
گمنام صارف