مندرجات کا رخ کریں

"قم" کے نسخوں کے درمیان فرق

56 بائٹ کا اضافہ ،  19 دسمبر 2017ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>E.musavi
imported>Jaravi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
[[ملف:Ghom.jpg|تصغیر|قم المقدس]]
[[ملف:Ghom.jpg|تصغیر|قم المقدس]]
'''قم''' [[ایران]] کا دوسرا مذہبی شہر اور اہل [[شیعہ|تشیع]] کا مرکز ہے۔ اگرچہ اس کا شمار [[اسلام]] سے پہلے والے قدیمی شہروں میں ہوتا ہے لیکن در اصل یہ شہر سنہ 93-83 ہجری قمری میں وجود میں آیا۔ [[اشعری]] قوم کا قم میں وارد ہونا اس کے آباد ہونے کا باعث بنا اور چونکہ یہ قوم [[اہل بیت(ع)|اہل بیت]] سے محبت رکھتی تھی، اس لئے قم کی بنیاد ہی [[شیعہ]] فکر کے مطابق رکھی گئی۔ [[حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا|حضرت معصومہ(س)]] کا قم میں ہجرت کرنا اور قم میں آپکا اور آپکے پیرو کاروں کا دفن ہونا، اور ائمہ معصومین کی اولاد اور سادات کا ہجرت کرنا، اس شہر کو تشیع کے مرکزی شہر میں تبدیل ہونے کا باعث بنا۔ [[حوزہ علمیہ]] کی ابتداء اس شہر میں ہونے سے تشیع کی شہرت زیادہ ہو گئی۔ اور آج یہ شہر تشیع کا سب سے بڑا مرکز ہے اور اسی  جگہ سے شیعہ معارف کو دنیا کے مختلف نقاط میں منتشر کیا جاتا ہے۔
'''قم''' [[ایران]] کا دوسرا مذہبی شہر اور اہل [[شیعہ|تشیع]] کا مرکز ہے۔ اگرچہ اس کا شمار [[اسلام]] سے پہلے والے قدیمی شہروں میں ہوتا ہے لیکن در اصل یہ شہر سنہ 93-83 ہجری قمری میں وجود میں آیا۔ [[اشعری]] قوم کا قم میں وارد ہونا اس کے آباد ہونے کا باعث بنا اور چونکہ یہ قوم [[اہل بیت(ع)|اہل بیت]] سے محبت رکھتی تھی، اس لئے قم کی بنیاد ہی [[شیعہ]] فکر کے مطابق رکھی گئی۔ [[حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا|حضرت معصومہ(س)]] کا قم میں [[ہجرت]] کرنا اور قم میں آپکا اور آپکے پیرو کاروں کا دفن ہونا، اور [[ائمہ معصومین]] کی اولاد اور سادات کا ہجرت کرنا، اس شہر کو [[تشیع]] کے مرکزی شہر میں تبدیل ہونے کا باعث بنا۔ [[حوزہ علمیہ]] کی ابتداء اس شہر میں ہونے سے تشیع کی شہرت زیادہ ہو گئی۔ اور آج یہ شہر تشیع کا سب سے بڑا مرکز ہے اور اسی  جگہ سے [[شیعہ]] معارف کو دنیا کے مختلف نقاط میں منتشر کیا جاتا ہے۔


==وجہ تسمیہ==
==وجہ تسمیہ==
===روایی===
===روایی===
[[حضرت پیامبر اسلام(ص)]] کی [[حدیث]] کے مطابق اس شہر کا نام قم رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کے رہنے والے [[قائم آل محمد(عج)]] کا ساتھ دیں گے اور آپ کے قیام میں مدد کریں گے۔<ref>بحار، ج۶۰، ص۲۱۶</ref> دوسری روایت کے مطابق اس شہر کا نام '''قم''' رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے شیطان کو اس شہر سے اٹھ کھڑے ہونے یعنی نکلنے کا حکم دیا تھا۔ کیونکہ قم کا معنی یہی ہے یعنی ''اٹھ کھڑا ہو''۔<ref>بحار، ج۶۰، ص۲۱۶</ref>
[[حضرت پیامبر اسلام(ص)]] کی [[حدیث]] کے مطابق اس شہر کا نام قم رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کے رہنے والے [[قائم آل محمد(عج)]] کا ساتھ دیں گے اور آپ کے قیام میں مدد کریں گے۔<ref>بحار، ج۶۰، ص۲۱۶</ref> دوسری روایت کے مطابق اس شہر کا نام '''قم''' رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ [[اللہ تعالی]] نے [[شیطان]] کو اس شہر سے اٹھ کھڑے ہونے یعنی نکلنے کا حکم دیا تھا۔ کیونکہ قم کا معنی یہی ہے یعنی ''اٹھ کھڑا ہو''۔<ref>بحار، ج۶۰، ص۲۱۶</ref>


===تاریخی===
===تاریخی===
سطر 10: سطر 10:


احتمال اول:
احتمال اول:
قم، اصل میں ایک فارسی لفظ "کم" تھا جو لفظ "کومہ" کا مخفف ہے، <ref>تاریخ، قم ص۲۲ </ref> اس شہر کو اس لئے "کومہ" کہا جاتا تھا کہ یہ شہر پراکندہ گاوں اور باغات پر مشتمل تھا، فارسی میں ایسی جگہ کو جو پراکندہ مکانات اور باغات پر مشتمل ہو "کومہ" کہا جاتا ہے۔ بعد میں "کومہ" کو مخفف کرکے "کم" کہا جانے لگا اور جب یہ لفظ عربی میں تبدیل ہوا تو "قم" کہلانے لگا۔<ref>دہخدا، ج۱۲، ص۱۸۷۵۰</ref>
قم، اصل میں ایک فارسی لفظ "کم" تھا جو لفظ "کومہ" کا مخفف ہے، <ref>تاریخ، قم ص۲۲ </ref> اس شہر کو اس لئے "کومہ" کہا جاتا تھا کہ یہ شہر پراکندہ گاؤں اور باغات پر مشتمل تھا، فارسی میں ایسی جگہ کو جو پراکندہ مکانات اور باغات پر مشتمل ہو "کومہ" کہا جاتا ہے۔ بعد میں "کومہ" کو مخفف کرکے "کم" کہا جانے لگا اور جب یہ لفظ عربی میں تبدیل ہوا تو "قم" کہلانے لگا۔<ref>دہخدا، ج۱۲، ص۱۸۷۵۰</ref>


احتمال دوم: ابتدا میں شہر پراکندہ باغات اور محلوں پر مشتمل تھا لیکن "اشعریوں" کے اس شہر میں داخل ہونے کے بعد تقریبا سات محلوں ممجان، قردان (قزوان)، مالون، جمر (کمر)، سکن اور جلنبادان کو ملا کر ایک گاوں بنایا گیا۔ <ref>تاریخ قم ص۲۳</ref> اس نو مولد گاوں کا نام "کمیدان" رکھا گیا جو بعد میں تخفیف کی خاطر "کم" اور پھر عربی میں تبدیل ہو کر "قم" کہلانے لگا۔<ref>تقویم البلدان ص۴۱۰ ابی الفدا، بیروت، لیدن، ۱۸۴۰</ref>
احتمال دوم: ابتدا میں شہر پراکندہ باغات اور محلوں پر مشتمل تھا لیکن "اشعریوں" کے اس شہر میں داخل ہونے کے بعد تقریبا سات محلوں ممجان، قردان (قزوان)، مالون، جمر (کمر)، سکن اور جلنبادان کو ملا کر ایک گاؤں بنایا گیا۔ <ref>تاریخ قم ص۲۳</ref> اس نو مولد گاؤں کا نام "کمیدان" رکھا گیا جو بعد میں تخفیف کی خاطر "کم" اور پھر عربی میں تبدیل ہو کر "قم" کہلانے لگا۔<ref>تقویم البلدان ص۴۱۰ ابی الفدا، بیروت، لیدن، ۱۸۴۰</ref>
== دوسرے اسماء ==
== دوسرے اسماء ==
دوسری روایات اور تاریخی کتابوں میں قم کو ان ناموں سے بھی یاد کیا گیا۔
دوسری روایات اور تاریخی کتابوں میں قم کو ان ناموں سے بھی یاد کیا گیا۔
سطر 37: سطر 37:
{{خاتمہ}}
{{خاتمہ}}


==تاریخچہ==
==تاریخی پس منظر==
کچھ مورخین کے مطابق اس شہر کی تاریخ اسلام سے پہلے سے شروع ہوتی ہے، رومن گیر اور لویی واندنبرگ کا عقیدہ ہے کہ قم [[ایران]] کے رہنے والوں کے لئے ایک پرانی قیام گاہ ہے۔<ref>ایران از آغاز تا انجام، ص۷</ref> <ref>باستان شناسی ایران باستان، ص۱۲۴</ref> مستوفی شہر قم کے بنیاد گزار کو "طہمورث" قرار دیتے ہیں۔<ref>نزہۃ القلوب، ص۶۷ </ref> قم کا مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہونا اس نظریہ کی تقویت کا باعث بنتا ہے۔<ref>فتوح البلدان، ص۳۱۹</ref> یعقوبی کی نظر میں بھی اس شہر کا شمار اسلام سے پہلے والے شہروں میں ہوتا ہے۔<ref>تاریخ یعقوبی، ج۱ص۱۴۴</ref> جبکہ "تاریخ قم" کے مصنف نے بھی "سورین نامی" شخص جو کہ بہرام کے زمانے میں زندگی کرتا تھا، کا نام لیا ہے۔<ref>تاریخ قم، ص۸۲-۸۹</ref> مجموعی طور پر [[بلاذری]]، <ref>فتوح البدان، ص۴۳۶</ref> یعقوبی، <ref>تاریخ یعقوبی، ج۱ص۱۴۴</ref> [[ثعالبی]]، <ref>غرراخبارملک الفرس، ص۷۰۹</ref> [[ابن اعثم کوفی]]، <ref>الفتوح، ج۱ص۲۸۶-۲۸۸</ref> [[ابوحنیفہ دینوری]]، <ref>اخبار الطوال، ص۶۷</ref> [[ابن فقیہ ہمدانی]]، <ref>مختصر البلدان، ص۲۰۹</ref> [[حمزہ اصفہانی]]، <ref>سنی ملوک الارض والانبیاء، ص۳۵ </ref>[[حسن بن محمدقمی]]، <ref>تاریخ قم، ص۹۱</ref> [[فردوسی]]، <ref>شاہنامہ جلد۴ص۱۲۸</ref> [[سیدظہیرالدین مرعشی]] <ref>تاریخ طبرستان و رویان، ص۴</ref> قم کو قدیمی ترین شہروں میں سے یاد کرتے ہیں۔
کچھ مورخین کے مطابق اس شہر کی تاریخ [[اسلام]] سے پہلے سے شروع ہوتی ہے، رومن گیر اور لویی واندنبرگ کا عقیدہ ہے کہ قم [[ایران]] کے رہنے والوں کے لئے ایک پرانی قیام گاہ ہے۔<ref>ایران از آغاز تا انجام، ص۷</ref> <ref>باستان شناسی ایران باستان، ص۱۲۴</ref> مستوفی شہر قم کے بنیاد گزار کو "طہمورث" قرار دیتے ہیں۔<ref>نزہۃ القلوب، ص۶۷ </ref> قم کا مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہونا اس نظریہ کی تقویت کا باعث بنتا ہے۔<ref>فتوح البلدان، ص۳۱۹</ref> یعقوبی کی نظر میں بھی اس شہر کا شمار اسلام سے پہلے والے شہروں میں ہوتا ہے۔<ref>تاریخ یعقوبی، ج۱ص۱۴۴</ref> جبکہ "تاریخ قم" کے مصنف نے بھی "سورین نامی" شخص جو کہ بہرام کے زمانے میں زندگی کرتا تھا، کا نام لیا ہے۔<ref>تاریخ قم، ص۸۲-۸۹</ref> مجموعی طور پر [[بلاذری]]، <ref>فتوح البدان، ص۴۳۶</ref> یعقوبی، <ref>تاریخ یعقوبی، ج۱ص۱۴۴</ref> [[ثعالبی]]، <ref>غرراخبارملک الفرس، ص۷۰۹</ref> [[ابن اعثم کوفی]]، <ref>الفتوح، ج۱ص۲۸۶-۲۸۸</ref> [[ابوحنیفہ دینوری]]، <ref>اخبار الطوال، ص۶۷</ref> [[ابن فقیہ ہمدانی]]، <ref>مختصر البلدان، ص۲۰۹</ref> [[حمزہ اصفہانی]]، <ref>سنی ملوک الارض والانبیاء، ص۳۵ </ref>[[حسن بن محمدقمی]]، <ref>تاریخ قم، ص۹۱</ref> [[فردوسی]]، <ref>شاہنامہ جلد۴ص۱۲۸</ref> [[سیدظہیرالدین مرعشی]] <ref>تاریخ طبرستان و رویان، ص۴</ref> قم کو قدیمی ترین شہروں میں سے یاد کرتے ہیں۔


لیکن اس کے برعکس کچھ مورخین جیسے [[ابودلف خزرجی]]، <ref>سفرنامہ ابودلف، ص۷۱</ref>، [[سمعانی]]، <ref>الانساب، ص۴۶۱</ref>ابوالفداء <ref>تقویم البدان، ص۴۰۹</ref>و [[یاقوت حموی]] <ref>معجم البدان، ج۴ص۴۵۱</ref> کی نظر میں اس شہر کی ابتداء ایران میں اسلام داخل ہونے کے ساتھ ہوئی، البتہ بعض سنہ85 <ref>معجم البلدان، ج۴ص۳۹۷</ref> جبکہ بعض نے اسے 93 ہجری ذکر کیا ہے۔<ref>تاریخ قم ص۲۵۳الی ۲۵۶ </ref>
لیکن اس کے برعکس کچھ مورخین جیسے [[ابودلف خزرجی]]، <ref>سفرنامہ ابودلف، ص۷۱</ref>، [[سمعانی]]، <ref>الانساب، ص۴۶۱</ref>ابوالفداء <ref>تقویم البدان، ص۴۰۹</ref>و [[یاقوت حموی]] <ref>معجم البدان، ج۴ص۴۵۱</ref> کی نظر میں اس شہر کی ابتداء ایران میں اسلام داخل ہونے کے ساتھ ہوئی، البتہ بعض سنہ85 <ref>معجم البلدان، ج۴ص۳۹۷</ref> جبکہ بعض نے اسے 93 ہجری ذکر کیا ہے۔<ref>تاریخ قم ص۲۵۳الی ۲۵۶ </ref>
سطر 45: سطر 45:


==اسلام کے بعد==
==اسلام کے بعد==
مسلمانوں کے ہاتھوں ساسانیوں کو شکست ہونے کے بعد قم ساسانیوں سے خالی ہوا، اکثر مورخین کی نظر میں قم سنہ23 ہجری میں عربوں کے ایران پر حملہ کے دوران ابو موسی اشعری کے ہاتھوں آزاد ہوا۔<ref>حسن بن محمد قمی، تاریخ قم، ص۲۵؛ فتوح البلدان، ص۴۳۹</ref> کچھ روایات کے مطابق قم کو فتح کرنے والا مالک بن عامر اشعری تھا۔<ref>تاریخ قم، ۲۶۱ </ref> جبکہ بعض کے مطابق احنف بن قیس نے قم کو فتح کیا۔<ref>تاریخ قم، ۵۶</ref> سنہ 67 میں خطاب بن اسدی کے قم آنے کے بعد اس نے جمکران میں ایک مسجد بنائی۔<ref> تاریخ قم، ص۳۸</ref>
مسلمانوں کے ہاتھوں ساسانیوں کو شکست ہونے کے بعد قم ساسانیوں سے خالی ہوا، اکثر مورخین کی نظر میں قم سنہ23 ہجری میں عربوں کے ایران پر حملہ کے دوران ابو موسی اشعری کے ہاتھوں آزاد ہوا۔<ref>حسن بن محمد قمی، تاریخ قم، ص۲۵؛ فتوح البلدان، ص۴۳۹</ref> کچھ روایات کے مطابق قم کو فتح کرنے والا مالک بن عامر اشعری تھا۔<ref>تاریخ قم، ۲۶۱ </ref> جبکہ بعض کے مطابق احنف بن قیس نے قم کو فتح کیا۔<ref>تاریخ قم، ۵۶</ref> سنہ 67 میں خطاب بن اسدی کے قم آنے کے بعد اس نے [[جمکران]] میں ایک [[مسجد]] بنائی۔<ref> تاریخ قم، ص۳۸</ref>


==تشیع کا داخلہ==
==تشیع کا داخلہ==
سطر 54: سطر 54:
==قم میں تشیع کی جڑیں==
==قم میں تشیع کی جڑیں==
===اشعریوں کی ہجرت===
===اشعریوں کی ہجرت===
اشعریوں کا تعلق اصل میں [[یمن]] سے ہے، جنہوں نے [[پیامبر اکرم(ص)]] کے زمانے میں اسلام قبول کیا اور خلفاء کے دور میں یہ لوگ [[کوفہ]] میں مستقر ہوئے، اور سنہ 85 کو قم کی طرف ہجرت کی۔
اشعریوں کا تعلق اصل میں [[یمن]] سے ہے، جنہوں نے [[پیامبر اکرم(ص)]] کے زمانے میں [[اسلام]] قبول کیا اور [[خلفاء]] کے دور میں یہ لوگ [[کوفہ]] میں مستقر ہوئے، اور سنہ 85 کو قم کی طرف ہجرت کی۔


اشعریوں کی قم میں ہجرت قم کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے، کیونکہ یہی ہجرت قم اور ایران کے دوسرے شہروں میں تشیع کی ترویج کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔
اشعریوں کی قم میں ہجرت قم کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے، کیونکہ یہی ہجرت قم اور ایران کے دوسرے شہروں میں تشیع کی ترویج کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔
گمنام صارف