مندرجات کا رخ کریں

"امام مہدی علیہ السلام" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 206: سطر 206:


==طفولیت==
==طفولیت==
امام زمانہؑ کی ولادت کے بعد بعض خاص [[شیعہ]] اکابرین ـ جو [[امام حسن عسکری]]ؑ کے معتمدین میں شامل تھے ـ نے آپؑ کا دیدار کیا ہے؛ جن میں محمد بن اسمعیل بن [[امام کاظم|موسی بن جعفر]]، [[حکیمہ بنت امام جواد|حکیمہ خاتون]]، [[ابو علی بن مطہر]]، [[عمرو اہوازی]] اور گیارہویں امامؑ کے خاندانی خادم [[ابو نصر طریف]]، شامل ہیں جو بارہویں امامؑ کے دیدار کا شرف پا سکے ہیں۔<ref>شیخ مفید، الارشاد، ص350 – 351</ref><ref>القندوزی، ینابیع المودة، ص461۔</ref>  
امام زمانہؑ کی ولادت کے بعد بعض خاص [[شیعہ]] اکابرین ـ جو [[امام حسن عسکری]]ؑ کے معتمدین میں شامل تھے ـ نے آپؑ کا دیدار کیا ہے؛ جن میں محمد بن اسمعیل بن [[امام کاظم|موسی بن جعفر]]، [[حکیمہ بنت امام جواد|حکیمہ خاتون]]، [[ابو علی بن مطہر]]، [[عمرو اہوازی]] اور گیارہویں امامؑ کے خاندانی خادم [[ابو نصر طریف]]، شامل ہیں جو بارہویں امامؑ کے دیدار کا شرف پا سکے ہیں۔<ref>شیخ مفید، الارشاد، ص350 – 351؛القندوزی، ینابیع المودة، ص461۔</ref>  


[[محمد بن عثمان عمری|محمد بن عثمان عمری]] 40 افراد کی معیت میں امام حسن عسکریؑ کی خدمت میں حاضر تھے۔ امامؑ نے انہیں اپنے فرزند کا دیدار کرایا اور فرمایا:  
[[محمد بن عثمان عمری|محمد بن عثمان عمری]] 40 افراد کی معیت میں امام حسن عسکریؑ کی خدمت میں حاضر تھے۔ امامؑ نے انہیں اپنے فرزند کا دیدار کرایا اور فرمایا:  
:::<font color =green>{{حدیث|هَذَا إِمَامُکُمْ مِنْ بَعْدِی وَخَلِیفَتِی عَلَیْکُمْ أَطِیعُوهُ وَلَا تَتَفَرَّقُوا مِنْ بَعْدِی فِی أَدْیَانِکُمْ فَتَهْلِکُوا أَمَا إِنَّکُمْ لَا تَرَوْنَهُ بَعْدَ یَوْمِکُمْ هَذَا}}</font>
:::<font color =green>{{حدیث|هَذَا إِمَامُکُمْ مِنْ بَعْدِی وَخَلِیفَتِی عَلَیْکُمْ أَطِیعُوهُ وَلَا تَتَفَرَّقُوا مِنْ بَعْدِی فِی أَدْیَانِکُمْ فَتَهْلِکُوا أَمَا إِنَّکُمْ لَا تَرَوْنَهُ بَعْدَ یَوْمِکُمْ هَذَا}}</font>


:::یہ میرے بعد تمہارے امام ہیں اور تمہارے درمیان میرے جانشین ہیں، ان کی اطاعت کرو اور اپنے دین میں اختلاف نہ کرو کیونکہ اس صورت میں ہلاک ہوجاؤگے اور آج کے بعد تم انہیں ہرگز نہیں دیکھ سکو گے۔<ref>صافی گلپایگانی، منتخب الاثر، ص355 حوالہ از کمال الدین۔</ref><ref>القندوزی، ینابیع الموده، ص460</ref><ref>الطوسی، الغیبہ، ص217۔</ref>
:::یہ میرے بعد تمہارے امام ہیں اور تمہارے درمیان میرے جانشین ہیں، ان کی اطاعت کرو اور اپنے دین میں اختلاف نہ کرو کیونکہ اس صورت میں ہلاک ہوجاؤگے اور آج کے بعد تم انہیں ہرگز نہیں دیکھ سکو گے۔<ref>صافی گلپایگانی، منتخب الاثر، ص355 حوالہ از کمال الدین۔؛القندوزی، ینابیع الموده، ص460؛الطوسی، الغیبہ، ص217۔</ref>


اسی روایت سے مشابہ ایک روایت [[شیخ طوسی]] نے نقل کی ہے اور [[علی بن بلال]]، [[احمد بن ہلال]]، [[محمد بن معاویۃ بن حکیم]] اور [[حسن بن ایوب بن نوح]] جیسے اشخاص کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے آپؑ کا دیدار کیا ہے۔<ref>صافی گلپایگانی، منتخب الاثر، ص355۔</ref> نیز [[کلینی رازی|کلینی]] نے بھی [[ضو‏ء بن علی عجلی|ضوء بن علی عِجْلی]] سے روایت کی ہے کہ ایک فارسی مرد نے کہا:  
اسی روایت سے مشابہ ایک روایت [[شیخ طوسی]] نے نقل کی ہے اور [[علی بن بلال]]، [[احمد بن ہلال]]، [[محمد بن معاویۃ بن حکیم]] اور [[حسن بن ایوب بن نوح]] جیسے اشخاص کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے آپؑ کا دیدار کیا ہے۔<ref>صافی گلپایگانی، منتخب الاثر، ص355۔</ref> نیز [[کلینی رازی|کلینی]] نے بھی [[ضو‏ء بن علی عجلی|ضوء بن علی عِجْلی]] سے روایت کی ہے کہ ایک فارسی مرد نے کہا:  
سطر 241: سطر 241:


===بنی عباس کا رد عمل===
===بنی عباس کا رد عمل===
خلیفہ وقت [[معتمد عباسی]] کو امام حسن عسکریؑ کی بیماری کی خبر ملی تو اس نے اپنے 5 قابل اعتماد افسروں کو امامؑ کے گھر کی نگرانی پر متعین کیا اور اپنے قاضی القضاۃ کو حکم دیا کہ وہ بھی اپنے 10 قابل اعتماد افراد کو امامؑ کی نگرانی کے لئے تعینات کرے۔<ref>مفید، الفصول العشرة، ص71۔</ref><ref>صدوق، کمال الدین و تمام النعمہ، کتابخانہ اہل بیت، ص474۔</ref>
خلیفہ وقت [[معتمد عباسی]] کو امام حسن عسکریؑ کی بیماری کی خبر ملی تو اس نے اپنے 5 قابل اعتماد افسروں کو امامؑ کے گھر کی نگرانی پر متعین کیا اور اپنے قاضی القضاۃ کو حکم دیا کہ وہ بھی اپنے 10 قابل اعتماد افراد کو امامؑ کی نگرانی کے لئے تعینات کرے۔<ref>مفید، الفصول العشرة، ص71۔؛صدوق، کمال الدین و تمام النعمہ، کتابخانہ اہل بیت، ص474۔</ref>


امام حسن عسکریؑ نے اپنی [[وصیت]] میں اپنے تمام اموال کو اپنی والدہ ماجدہ "حُدَیث خاتون" کے نام کیا گوکہ [[بنی عباس]] نے تمام اموال  آپؑ کی والدہ کو ملنے نہیں دیئے اور نصف اموال پر عباسیوں کی مدد سے [[جعفر کذاب|جعفر]] نے قبضہ کیا۔<ref>مفید، الفصول العشرة، ص69 - 72۔</ref>
امام حسن عسکریؑ نے اپنی [[وصیت]] میں اپنے تمام اموال کو اپنی والدہ ماجدہ "حُدَیث خاتون" کے نام کیا گوکہ [[بنی عباس]] نے تمام اموال  آپؑ کی والدہ کو ملنے نہیں دیئے اور نصف اموال پر عباسیوں کی مدد سے [[جعفر کذاب|جعفر]] نے قبضہ کیا۔<ref>مفید، الفصول العشرة، ص69 - 72۔</ref>


امام حسن عسکریؑ کی وفات کے بعد، عباسی خلیفہ نے ایک گروہ کو آپؑ کے گھر بھیجا جنہوں نے آپؑ کے گھر اور اموال کو مقفل کردیا؛ آپ کے فرزند کو تلاش کرنے کی کوشش کی اور کنیزوں کا بھی دائیوں سے معائنہ کروایا کہ کہیں ان میں سے کوئی حاملہ نہ ہو<ref>کلینی، الکافی، ج1، ص505۔</ref><ref>صدوق، کمال الدین، ص43۔</ref> اور ثقیل نامی کنیز  کو حاملگی کے شبہ کی بنا پر اسے اپنے ساتھ لے گئے اور دو سال تک نظر بند رکھا اور بعدازاں رہا کردیا۔<ref>صدوق، کمال الدین، ص473-476۔</ref>
امام حسن عسکریؑ کی وفات کے بعد، عباسی خلیفہ نے ایک گروہ کو آپؑ کے گھر بھیجا جنہوں نے آپؑ کے گھر اور اموال کو مقفل کردیا؛ آپ کے فرزند کو تلاش کرنے کی کوشش کی اور کنیزوں کا بھی دائیوں سے معائنہ کروایا کہ کہیں ان میں سے کوئی حاملہ نہ ہو<ref>کلینی، الکافی، ج1، ص505۔؛صدوق، کمال الدین، ص43۔</ref> اور ثقیل نامی کنیز  کو حاملگی کے شبہ کی بنا پر اسے اپنے ساتھ لے گئے اور دو سال تک نظر بند رکھا اور بعدازاں رہا کردیا۔<ref>صدوق، کمال الدین، ص473-476۔</ref>


==امام زمانہؑ کی عمر==
==امام زمانہؑ کی عمر==
سطر 286: سطر 286:
بعض روایات اشارہ کرتی ہیں کہ [[غیبت امام زمانہ|غیبت]] کے دوران آپؑ کا مسکن نامعلوم ہے۔ اس کے باوجود بعض دیگر روایات کے مطابق آپؑ [[ذی طوی]]<ref>نعمانی، الغیبہ، تهران، 1397ھ، ص182۔</ref>، [[کوہ رضوی]]<ref>طوسی، الغیبہ، قم، 1411ھ، ص163۔</ref> اور [[طیبہ]] ([[مدینہ]])<ref>طوسی، الغیبہ، قم، 1411ھ، ص162۔</ref> میں سکونت رکھتے ہیں۔ چونکہ [[غیبت صغری]] کے دوران [[نواب اربعہ]] آپؑ کے ساتھ رابطے میں تھے چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ غیبت کا ایک عرصہ آپؑ نے [[عراق]] میں گذارا ہے۔ بعض مآخذ نے ایک داستان کی رو سے، لکھا ہے کہ آپؑ [[غیبت کبری]] کے زمانے میں [[جزیرہ خضراء]] میں سکونت پذیر ہیں۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، بیروت، 1403ھ، ج52، ص159-160۔</ref> جس کو بعض [[شیعہ]] علماء نے شک و تردد کی نگاہ سے دیکھا ہے اور اس کے نقد میں کئی کتابیں لکھی گئی ہیں۔<ref>بطور مثال: جعفر مرتضی عاملی کی کتاب "جزیرہ خضراء در ترازوی نقد" فارسی ترجمہ: محمد سپہری۔ "بررسی جزیرہ خضراء"، بقلم مجتبی کلباسی۔ "جزیرہ خضراء تحریفی در تاریخ شیعہ"، بقلم غلامرضا نظری۔ "''دادگستر جہان''" نامی کتاب کے ایک حصے میں بھی اس داستان کو نقل کیا گیا ہے۔ نیز نمونے کے طور پر ذیل کے دو مقالوں سے رجوع کیا جاسکتا ہے:1۔ [http://isca.ac.ir/portal/home/?news/116878/83445/172440/%D8%AF%D8%A7%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86%20%D8%AC%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D9%87%20%D8%AE%D8%B6%D8%B1%D8%A7%20%D8%AA%D9%88%D9%87%D9%85%20%DB%8C%D8%A7%20%D9%88%D8%A7%D9%82%D8%B9%DB%8C%D8%AA%D8%9F «داستان جزیره خضراء توهم یا واقعیت؟»] 2۔ [http://www.hawzah.net/fa/Magazine/View/4227/6337/70488/%D8%AC%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D9%87-%D8%AE%D8%B6%D8%B1%D8%A7-%D8%A7%D9%81%D8%B3%D8%A7%D9%86%D9%87-%DB%8C%D8%A7-%D9%88%D8%A7%D9%82%D8%B9%DB%8C%D8%AA «جزیره خضرا، افسانه یا واقعیت؟!»]۔</ref>
بعض روایات اشارہ کرتی ہیں کہ [[غیبت امام زمانہ|غیبت]] کے دوران آپؑ کا مسکن نامعلوم ہے۔ اس کے باوجود بعض دیگر روایات کے مطابق آپؑ [[ذی طوی]]<ref>نعمانی، الغیبہ، تهران، 1397ھ، ص182۔</ref>، [[کوہ رضوی]]<ref>طوسی، الغیبہ، قم، 1411ھ، ص163۔</ref> اور [[طیبہ]] ([[مدینہ]])<ref>طوسی، الغیبہ، قم، 1411ھ، ص162۔</ref> میں سکونت رکھتے ہیں۔ چونکہ [[غیبت صغری]] کے دوران [[نواب اربعہ]] آپؑ کے ساتھ رابطے میں تھے چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ غیبت کا ایک عرصہ آپؑ نے [[عراق]] میں گذارا ہے۔ بعض مآخذ نے ایک داستان کی رو سے، لکھا ہے کہ آپؑ [[غیبت کبری]] کے زمانے میں [[جزیرہ خضراء]] میں سکونت پذیر ہیں۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، بیروت، 1403ھ، ج52، ص159-160۔</ref> جس کو بعض [[شیعہ]] علماء نے شک و تردد کی نگاہ سے دیکھا ہے اور اس کے نقد میں کئی کتابیں لکھی گئی ہیں۔<ref>بطور مثال: جعفر مرتضی عاملی کی کتاب "جزیرہ خضراء در ترازوی نقد" فارسی ترجمہ: محمد سپہری۔ "بررسی جزیرہ خضراء"، بقلم مجتبی کلباسی۔ "جزیرہ خضراء تحریفی در تاریخ شیعہ"، بقلم غلامرضا نظری۔ "''دادگستر جہان''" نامی کتاب کے ایک حصے میں بھی اس داستان کو نقل کیا گیا ہے۔ نیز نمونے کے طور پر ذیل کے دو مقالوں سے رجوع کیا جاسکتا ہے:1۔ [http://isca.ac.ir/portal/home/?news/116878/83445/172440/%D8%AF%D8%A7%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86%20%D8%AC%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D9%87%20%D8%AE%D8%B6%D8%B1%D8%A7%20%D8%AA%D9%88%D9%87%D9%85%20%DB%8C%D8%A7%20%D9%88%D8%A7%D9%82%D8%B9%DB%8C%D8%AA%D8%9F «داستان جزیره خضراء توهم یا واقعیت؟»] 2۔ [http://www.hawzah.net/fa/Magazine/View/4227/6337/70488/%D8%AC%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D9%87-%D8%AE%D8%B6%D8%B1%D8%A7-%D8%A7%D9%81%D8%B3%D8%A7%D9%86%D9%87-%DB%8C%D8%A7-%D9%88%D8%A7%D9%82%D8%B9%DB%8C%D8%AA «جزیره خضرا، افسانه یا واقعیت؟!»]۔</ref>


ابن قیم جوزی اور ابن خلدون نے الزام لگایا ہے کہ "[[شیعہ]]" معتقد ہیں کہ امام زمانہؑ غیبت کے دوران سرداب میں رہتے ہیں اور وہیں سے ظہور فرمائیں گے۔<ref>ابن قیم، المنار المنیف، تحقیق: عبدالفتاح ابوغدّه، ص153-152</ref><ref>ابن خلدون، مقدمه، دمشق، 1428، ص207-208۔</ref> لیکن شیعہ اعتقادی کتب میں اس طرح کا کوئی عقیدہ نہیں ملتا اور ان کے نزدیک اس مقام کے تقدس کا سبب یہ ہے کہ یہ امام عسکریؑ کے زمانے میں بارہویں امامؑ کا مسکن اور مقام عبادت تھا۔  
ابن قیم جوزی اور ابن خلدون نے الزام لگایا ہے کہ "[[شیعہ]]" معتقد ہیں کہ امام زمانہؑ غیبت کے دوران سرداب میں رہتے ہیں اور وہیں سے ظہور فرمائیں گے۔<ref>ابن قیم، المنار المنیف، تحقیق: عبدالفتاح ابوغدّه، ص153-152؛ابن خلدون، مقدمه، دمشق، 1428، ص207-208۔</ref> لیکن شیعہ اعتقادی کتب میں اس طرح کا کوئی عقیدہ نہیں ملتا اور ان کے نزدیک اس مقام کے تقدس کا سبب یہ ہے کہ یہ امام عسکریؑ کے زمانے میں بارہویں امامؑ کا مسکن اور مقام عبادت تھا۔  


* '''ظہور اور قیام نیز مقام حکومت اور (مسکن بعد از ظہور)'''
* '''ظہور اور قیام نیز مقام حکومت اور (مسکن بعد از ظہور)'''


امام زمانہؑ کہاں [[ظہور امام زمانہؑ|ظہور]] کریں گے؟ اس بارے میں دقیق معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ ایک روایت کے مطابق آپؑ [[ذی طوی]] میں ظہور کریں گے؛ پھر اپنے 313 صحابیوں کے ساتھ [[مکہ]] پہنچیں گے اور [[حجر الاسود]] سے ٹیک لگائیں گے اور اپنا پرچم لہرائیں گے۔<ref>نعمانی، الغیبہ، تهران، 1397ھ، ص315۔</ref><ref>حائری یزدی، الزام الناصب، ج2، ص243۔</ref> اس روایت اور اس جیسی دوسری روایات کے مطابق،<ref>نعمانی، الغیبہ، تهران، 1397ھ، ص313۔</ref> امام زمانہؑ کے قیام (تحریک) کا آغاز [[مسجد الحرام]] سے ہوگا اور اصحاب [[رکن]] اور [[مقام]] کے درمیان آپؑ کے ہاتھ پر [[بیعت]] کریں گے۔<ref>صدر، تاریخ مابعد الظهور، بیروت، 1412ھ، ج3، ص212-224۔</ref> بعض روایات میں [[تہامہ]] کو امام زمانہؑ کی تحریک کا نقطۂ آغاز جانا گیا ہے۔<ref>عیون اخبار عن الرضا، ج1، ص63۔</ref> [[مکہ]] اور [[مکہ]] شمالی تہامہ کا جزء اور مرکز ہے۔<ref>[[تہامہ]] اردن کی بندرگاہ "عقبہ" سے یمن تک پھیلی ہوئی ساحلی پٹی کا نام ہے جو تین علاقوں میں تقسیم ہوتا ہے: 1۔ شمال میں تہامۂ حجاز، جس کا مرکز [[مکہ]] ہے؛ 2۔ وسطی حدود میں تہامۂ عسیر ہے جس مرکز ابہا اور 3۔ جنوب میں تہامۂ یمن کہ مرکز زبید ہے۔مونس، اطلس تاریخ الاسلام، ص206-213؛ حمزه، قلب جزيرة العرب، ص18؛ کحاله، جغرافیة شبه جزیرة العرب، ص12-13۔</ref>
امام زمانہؑ کہاں [[ظہور امام زمانہؑ|ظہور]] کریں گے؟ اس بارے میں دقیق معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ ایک روایت کے مطابق آپؑ [[ذی طوی]] میں ظہور کریں گے؛ پھر اپنے 313 صحابیوں کے ساتھ [[مکہ]] پہنچیں گے اور [[حجر الاسود]] سے ٹیک لگائیں گے اور اپنا پرچم لہرائیں گے۔<ref>نعمانی، الغیبہ، تهران، 1397ھ، ص315۔؛حائری یزدی، الزام الناصب، ج2، ص243۔</ref> اس روایت اور اس جیسی دوسری روایات کے مطابق،<ref>نعمانی، الغیبہ، تهران، 1397ھ، ص313۔</ref> امام زمانہؑ کے قیام (تحریک) کا آغاز [[مسجد الحرام]] سے ہوگا اور اصحاب [[رکن]] اور [[مقام]] کے درمیان آپؑ کے ہاتھ پر [[بیعت]] کریں گے۔<ref>صدر، تاریخ مابعد الظهور، بیروت، 1412ھ، ج3، ص212-224۔</ref> بعض روایات میں [[تہامہ]] کو امام زمانہؑ کی تحریک کا نقطۂ آغاز جانا گیا ہے۔<ref>عیون اخبار عن الرضا، ج1، ص63۔</ref> [[مکہ]] اور [[مکہ]] شمالی تہامہ کا جزء اور مرکز ہے۔<ref>[[تہامہ]] اردن کی بندرگاہ "عقبہ" سے یمن تک پھیلی ہوئی ساحلی پٹی کا نام ہے جو تین علاقوں میں تقسیم ہوتا ہے: 1۔ شمال میں تہامۂ حجاز، جس کا مرکز [[مکہ]] ہے؛ 2۔ وسطی حدود میں تہامۂ عسیر ہے جس مرکز ابہا اور 3۔ جنوب میں تہامۂ یمن کہ مرکز زبید ہے۔مونس، اطلس تاریخ الاسلام، ص206-213؛ حمزه، قلب جزيرة العرب، ص18؛ کحاله، جغرافیة شبه جزیرة العرب، ص12-13۔</ref>


بعض روایات میں، [[کرعہ]]<ref>الملاحم والفتن، ص278۔</ref> کو امامؑ کے مقام خروج کے عنوان سے متعارف کرایا گیا جو بظاہر [[سید یمانی کی تحریک|یمانی کے قیام]] کے ساتھ اشتباہ کا نتیجہ ہے جو [[یمن]] سے اٹھیں گے۔<ref>ری شہری، دانشنامہ امام مهدی، 1393ھ ش، ج8، ص199۔</ref> [[اہل سنت]] کے مؤلف محمد بن احمد القرطبی، کا کہنا ہے کہ آپؑ [[مغرب الاقصی]]<ref>قرطبی، التذکره، قاهره، ج3، ص1206۔</ref> سے اٹھیں گے اور [[قاضی نعمان مغربی]]، [[مراکش]]<ref>قاضی نعمان مغربی، ج3، جزء، 14، ص364-365۔</ref> کو نقطۂ خروج و ظہور قرار دیتے ہیں لیکن یہ ساری روایات بارہویں امام کے آغاز انقلاب سے متعلق [[شیعہ]] روایات سے سازگار نہیں ہیں اور ممکن ہے کہ ان میں مقام ظہور کو [[سفیانی]] کے مقام خروج سے مشتبہ ہو گیا ہو۔<ref>ری شہری، دانشنامہ امام مهدی، 1393ھ ش، ج8، ص199۔</ref>
بعض روایات میں، [[کرعہ]]<ref>الملاحم والفتن، ص278۔</ref> کو امامؑ کے مقام خروج کے عنوان سے متعارف کرایا گیا جو بظاہر [[سید یمانی کی تحریک|یمانی کے قیام]] کے ساتھ اشتباہ کا نتیجہ ہے جو [[یمن]] سے اٹھیں گے۔<ref>ری شہری، دانشنامہ امام مهدی، 1393ھ ش، ج8، ص199۔</ref> [[اہل سنت]] کے مؤلف محمد بن احمد القرطبی، کا کہنا ہے کہ آپؑ [[مغرب الاقصی]]<ref>قرطبی، التذکره، قاهره، ج3، ص1206۔</ref> سے اٹھیں گے اور [[قاضی نعمان مغربی]]، [[مراکش]]<ref>قاضی نعمان مغربی، ج3، جزء، 14، ص364-365۔</ref> کو نقطۂ خروج و ظہور قرار دیتے ہیں لیکن یہ ساری روایات بارہویں امام کے آغاز انقلاب سے متعلق [[شیعہ]] روایات سے سازگار نہیں ہیں اور ممکن ہے کہ ان میں مقام ظہور کو [[سفیانی]] کے مقام خروج سے مشتبہ ہو گیا ہو۔<ref>ری شہری، دانشنامہ امام مهدی، 1393ھ ش، ج8، ص199۔</ref>


بعض روایات، شہر [[کوفہ]] کو دارالحکومت<ref>مجلسی، بحارالانوار، ج53، ص11۔</ref>، [[مسجد کوفہ]] کو فیصلوں کا مقام<ref>بحارالانوار، ج53، ص11۔</ref>، [[مسجد سہلہ]] کو امامؑ کا مسکن<ref>کلینی، الکافی، تهران، 1407ھ، ج3، ص495۔</ref><ref>مجلسی، بحارالانوار، ج52، ص318۔</ref><ref>ابن المشہدی، المزار الکبیر، ص134۔</ref><ref>مفید، الارشاد، قم، 1413، ج3، ص380۔</ref> اور آپؑ کے ہاتھوں [[بیت المال]] کی تقسیم کا مقام<ref>مجلسی، بحارالانوار، ج53، ص11۔</ref> قرار دیتی ہیں۔
بعض روایات، شہر [[کوفہ]] کو دارالحکومت<ref>مجلسی، بحارالانوار، ج53، ص11۔</ref>، [[مسجد کوفہ]] کو فیصلوں کا مقام<ref>بحارالانوار، ج53، ص11۔</ref>، [[مسجد سہلہ]] کو امامؑ کا مسکن<ref>کلینی، الکافی، تهران، 1407ھ، ج3، ص495۔؛مجلسی، بحارالانوار، ج52، ص318۔؛ابن المشہدی، المزار الکبیر، ص134۔؛مفید، الارشاد، قم، 1413، ج3، ص380۔</ref> اور آپؑ کے ہاتھوں [[بیت المال]] کی تقسیم کا مقام<ref>مجلسی، بحارالانوار، ج53، ص11۔</ref> قرار دیتی ہیں۔


===امام زمان سے منسوب مقامات===
===امام زمان سے منسوب مقامات===
بعض مقامات امام مہدیؑ سے منسوب ہوئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ [[شیعہ]] [[غیبت کبری]] کے زمانے میں آپؑ سے راز و نیاز کرنے کے لئے ان مقامات پر حاضر ہوتے ہیں:
بعض مقامات امام مہدیؑ سے منسوب ہوئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ [[شیعہ]] [[غیبت کبری]] کے زمانے میں آپؑ سے راز و نیاز کرنے کے لئے ان مقامات پر حاضر ہوتے ہیں:
* '''[[سرداب غیبت]]:''' یہ مقام ([[سامرا]] میں ہے جو) [[امام ہادی]]، [[امام عسکری]] اور امام زمانہؑ کی عبادت گاہ رہی ہے۔
* '''[[سرداب غیبت]]:''' یہ مقام ([[سامرا]] میں ہے جو) [[امام ہادی]]، [[امام عسکری]] اور امام زمانہؑ کی عبادت گاہ رہی ہے۔
* '''[[مسجد سہلہ]]:''' [[کوفہ]] میں واقع یہ مسجد امام زمانہؑ سے منسوب ہے اور اس کے درمیانی حصے میں مقامِ [[حضرت یونسؑ|حضرت یونسؑ]] اور مقامِ [[امام سجادؑ|حضرت سجادؑ]] واقع ہے۔ بعض روایات کے مطابق، امام زمانہؑ ظہور کے بعد اسی مسجد میں سکونت پذیر ہوں گے۔<ref>کلینی، الکافی، تہران، 1407ھ، ج3، ص495۔</ref><ref>مجلسی، بحارالانوار، ج52، ص318۔</ref><ref>ابن مشہدی، المزار الکبیر، ص134۔</ref><ref>مفید، الارشاد، قم، 1413، ج3، ص380۔</ref>
* '''[[مسجد سہلہ]]:''' [[کوفہ]] میں واقع یہ مسجد امام زمانہؑ سے منسوب ہے اور اس کے درمیانی حصے میں مقامِ [[حضرت یونسؑ|حضرت یونسؑ]] اور مقامِ [[امام سجادؑ|حضرت سجادؑ]] واقع ہے۔ بعض روایات کے مطابق، امام زمانہؑ ظہور کے بعد اسی مسجد میں سکونت پذیر ہوں گے۔<ref>کلینی، الکافی، تہران، 1407ھ، ج3، ص495۔؛مجلسی، بحارالانوار، ج52، ص318۔؛ابن مشہدی، المزار الکبیر، ص134۔؛مفید، الارشاد، قم، 1413، ج3، ص380۔</ref>
* '''[[ذی طوی| ذی طُوٰی]]:''' [[مکہ]] کے ایک علاقے کا نام ہے جو [[حرم]] کی حدود میں واقع ہے اور بعض روایات کے مطابق حضرت مہدیؑ اس علاقے میں زندگی بسر کر رہے ہیں<ref>نعمانی، الغیبہ، تهران، 1397ھ، ص182۔</ref> اور ب‏ض روایات کے مطابق، آپؑ کا مقام ظہور اور آپؑ کے اصحاب و انصار کے اکٹھے ہونے کا مرکز بھی یہی علاقہ ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ امامؑ کے [[کعبہ]] سے قیام و تحریک شروع کرنے سے قبل، اس علاقے میں اپنے 313 اصحاب کے منتظر ہوں گے۔<ref>نعمانی، الغیبہ، تهران، 1397ھ، ص182۔</ref>  
* '''[[ذی طوی| ذی طُوٰی]]:''' [[مکہ]] کے ایک علاقے کا نام ہے جو [[حرم]] کی حدود میں واقع ہے اور بعض روایات کے مطابق حضرت مہدیؑ اس علاقے میں زندگی بسر کر رہے ہیں<ref>نعمانی، الغیبہ، تهران، 1397ھ، ص182۔</ref> اور ب‏ض روایات کے مطابق، آپؑ کا مقام ظہور اور آپؑ کے اصحاب و انصار کے اکٹھے ہونے کا مرکز بھی یہی علاقہ ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ امامؑ کے [[کعبہ]] سے قیام و تحریک شروع کرنے سے قبل، اس علاقے میں اپنے 313 اصحاب کے منتظر ہوں گے۔<ref>نعمانی، الغیبہ، تهران، 1397ھ، ص182۔</ref>  
* '''[[کوہ رضوی|کوہ رضوا]]:''' بعض روایات میں کہا گیا ہے کہ امام زمانہؑ [[غیبت امام زمانہؑ|غیبت]] کے زمانے میں [[کوہ رضوی|کوہ رضوٰی]] سکونت پذیر ہیں۔<ref>طوسی، الغیبہ، قم، 1411ھ، ص163۔</ref>  مکہ و مدینہ کے درمیان ایک پہاڑ ہے۔<ref> [[کوہ رضوی]] [[تہامہ]] کے پہاڑوں میں سے ہے جو ینبع البحر کے شمال مشرق اور [[مکہ]] اور [[مدینہ]] کے درمیان واقع ہے۔ راوی کہتا ہے: ہم [[امام صادقؑ]] کے ساتھ [[مدینہ]] سے خارج ہوئے اور مدینہ کے اطراف میں ایک پہاڑ کے قریب پہنچے تو امامؑ نے کچھ لمحے پہاڑ کی طرف غور سے دیکھا اور پھر فرمایا: یہ پناہ گاہ ہے "خائف" امام مہدیؑ کی، [[غیبت صغری]] میں بھی اور [[غیبت کبری]] میں بھی۔: طوسی، الغیبہ، قم، 1411ھ، ص163۔</ref>
* '''[[کوہ رضوی|کوہ رضوا]]:''' بعض روایات میں کہا گیا ہے کہ امام زمانہؑ [[غیبت امام زمانہؑ|غیبت]] کے زمانے میں [[کوہ رضوی|کوہ رضوٰی]] سکونت پذیر ہیں۔<ref>طوسی، الغیبہ، قم، 1411ھ، ص163۔</ref>  مکہ و مدینہ کے درمیان ایک پہاڑ ہے۔<ref> [[کوہ رضوی]] [[تہامہ]] کے پہاڑوں میں سے ہے جو ینبع البحر کے شمال مشرق اور [[مکہ]] اور [[مدینہ]] کے درمیان واقع ہے۔ راوی کہتا ہے: ہم [[امام صادقؑ]] کے ساتھ [[مدینہ]] سے خارج ہوئے اور مدینہ کے اطراف میں ایک پہاڑ کے قریب پہنچے تو امامؑ نے کچھ لمحے پہاڑ کی طرف غور سے دیکھا اور پھر فرمایا: یہ پناہ گاہ ہے "خائف" امام مہدیؑ کی، [[غیبت صغری]] میں بھی اور [[غیبت کبری]] میں بھی۔: طوسی، الغیبہ، قم، 1411ھ، ص163۔</ref>
سطر 312: سطر 312:
*'''ظاہری اوصاف'''
*'''ظاہری اوصاف'''


[[رسول اللہؐ]] نے مختلف فرامین و ارشادات میں واضح کیا ہے کہ امام مہدیؑ آپؐ سے سب سے زیادہ مشابہت رکھتے ہیں۔<ref>شیخ صدوق، کمال الدین وتمام النعمة، ج1، 257۔</ref><ref>مقدس شافعی، عقدالدرر، ص45 و 55۔</ref> [[امام حسن عسکری]]ؑ فرماتے ہیں کہ امام مہدیؑ چہرے اور اخلاق کے لحاظ سے [[رسول اللہؐ]] کے مشابہ ترین ہیں۔<ref>شیخ صدوق، کمال الدین و تمام النعمة، ص409۔</ref> [[امام علیؑ|امام علیؑ]] فرماتے ہیں: '''امام مہدی عَجَّلَ اللهُ فَرَجَهُ الشَّریف اٹھیں گے تو آپؑ کی عمر تیس سے چالیس کے درمیان ہوگی''' ۔<ref>التستري، احقاق الحق، ج‌19، ص‌654۔</ref>
[[رسول اللہؐ]] نے مختلف فرامین و ارشادات میں واضح کیا ہے کہ امام مہدیؑ آپؐ سے سب سے زیادہ مشابہت رکھتے ہیں۔<ref>شیخ صدوق، کمال الدین وتمام النعمة، ج1، 257۔؛مقدس شافعی، عقدالدرر، ص45 و 55۔</ref> [[امام حسن عسکری]]ؑ فرماتے ہیں کہ امام مہدیؑ چہرے اور اخلاق کے لحاظ سے [[رسول اللہؐ]] کے مشابہ ترین ہیں۔<ref>شیخ صدوق، کمال الدین و تمام النعمة، ص409۔</ref> [[امام علیؑ|امام علیؑ]] فرماتے ہیں: '''امام مہدی عَجَّلَ اللهُ فَرَجَهُ الشَّریف اٹھیں گے تو آپؑ کی عمر تیس سے چالیس کے درمیان ہوگی''' ۔<ref>التستري، احقاق الحق، ج‌19، ص‌654۔</ref>


[[امام حسن مجتبىؑ]] فرماتے ہیں کہ [[ظہور امام زمانہؑ|ظہور]] کے وقت امام مہدیؑ چالیس سال سے کم عمر کے نوجوان اور بےانتہا جسمانی قوت کے مالک ہونگے۔<ref>صدوق، كمال الدين، ج‌1، ص‌315۔</ref> [[امام صادقؑ]] کے قول کے مطابق آپ ایک کامل اور معتدل نوجوان ہونگے۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ج‌52، ص‌287۔</ref> [[علامہ مجلسی]] اس روایت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "معتدل سے مراد یہ ہے کہ آپؑ وقت ظہور درمیانی عمر یا نوجوانی کے آخری حصے میں ہونگے"۔<ref>مجلسی، وہی ماخذ۔</ref> [[امام رضاؑ]] ظہور کے وقت امام زمانہؑ کی علامتوں اور خصوصیات کے بارے میں [[ابوصلت ہروی]] کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: '''آپؑ کی نشانی یہ ہے کہ معمّر ہیں مگر آپؑ کا چہرہ اور منظر نوجوان ہے، یہاں تک کہ دیکھنا والا سمجھتا ہے کہ آپؑ 40 یا اس سے کم عمر کے ہیں'''۔<ref>صدوق، كمال الدين، ج‌2، ص652۔</ref>
[[امام حسن مجتبىؑ]] فرماتے ہیں کہ [[ظہور امام زمانہؑ|ظہور]] کے وقت امام مہدیؑ چالیس سال سے کم عمر کے نوجوان اور بےانتہا جسمانی قوت کے مالک ہونگے۔<ref>صدوق، كمال الدين، ج‌1، ص‌315۔</ref> [[امام صادقؑ]] کے قول کے مطابق آپ ایک کامل اور معتدل نوجوان ہونگے۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ج‌52، ص‌287۔</ref> [[علامہ مجلسی]] اس روایت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "معتدل سے مراد یہ ہے کہ آپؑ وقت ظہور درمیانی عمر یا نوجوانی کے آخری حصے میں ہونگے"۔<ref>مجلسی، وہی ماخذ۔</ref> [[امام رضاؑ]] ظہور کے وقت امام زمانہؑ کی علامتوں اور خصوصیات کے بارے میں [[ابوصلت ہروی]] کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: '''آپؑ کی نشانی یہ ہے کہ معمّر ہیں مگر آپؑ کا چہرہ اور منظر نوجوان ہے، یہاں تک کہ دیکھنا والا سمجھتا ہے کہ آپؑ 40 یا اس سے کم عمر کے ہیں'''۔<ref>صدوق، كمال الدين، ج‌2، ص652۔</ref>
سطر 332: سطر 332:
[[امام حسینؑ|امام حسينؑ]] آپؑ کے بارے میں فرماتے ہیں: '''امام مہدیؑ کو تم ـ آپؑ کے سکون و وقار اور [[حلال]] و [[حرام]] کے سلسلے میں آپؑ کے علم اور لوگوں کو ان کی ضرورت اور لوگوں سے آپؑ ان کی بے نیازی ـ کے ذریعے پہچانو گے'''۔<ref>الیزدی الحائری، الزام الناصب، ج1، ص91۔</ref>
[[امام حسینؑ|امام حسينؑ]] آپؑ کے بارے میں فرماتے ہیں: '''امام مہدیؑ کو تم ـ آپؑ کے سکون و وقار اور [[حلال]] و [[حرام]] کے سلسلے میں آپؑ کے علم اور لوگوں کو ان کی ضرورت اور لوگوں سے آپؑ ان کی بے نیازی ـ کے ذریعے پہچانو گے'''۔<ref>الیزدی الحائری، الزام الناصب، ج1، ص91۔</ref>


[[امام صادقؑ]] آپؑ کو زاہد ترین فرد کے طور پر متعارف کراتے ہیں جن کا لباس سخت اور کھردرا اور کھانا جو کی روٹی ہے۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ج‌41، ص‌159، و ج‌47، ص‌55۔</ref><ref>نعمانى، غيبة، ص‌233 و 234۔</ref> وہ اپنی حکومت کے کار گزاروں کے لئے بھی سخت گیر ہیں اور لوگوں کے لئے بخشندہ اور محتاجوں پر بہت مہربان ہیں۔<ref>معجم أحادیث امام مهدی، ‏علیه السّلام، مؤسسه معارف الاسلامی، ‏ج1، ص242، ح 152۔</ref>
[[امام صادقؑ]] آپؑ کو زاہد ترین فرد کے طور پر متعارف کراتے ہیں جن کا لباس سخت اور کھردرا اور کھانا جو کی روٹی ہے۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ج‌41، ص‌159، و ج‌47، ص‌55۔؛نعمانى، غيبة، ص‌233 و 234۔</ref> وہ اپنی حکومت کے کار گزاروں کے لئے بھی سخت گیر ہیں اور لوگوں کے لئے بخشندہ اور محتاجوں پر بہت مہربان ہیں۔<ref>معجم أحادیث امام مهدی، ‏علیه السّلام، مؤسسه معارف الاسلامی، ‏ج1، ص242، ح 152۔</ref>


[[امام باقرؑ]] آپؑ کو ایسے فرد کے طور پر متعارف کراتے ہیں جو [[قرآن|کتاب خدا]] پر عمل کرتے ہیں اور کسی بھی منکَر کو نہیں دیکھتا جس کی مخالفت نہ کرے۔<ref>کلینی، الكافی، ج8، ص396، ح 597۔</ref>
[[امام باقرؑ]] آپؑ کو ایسے فرد کے طور پر متعارف کراتے ہیں جو [[قرآن|کتاب خدا]] پر عمل کرتے ہیں اور کسی بھی منکَر کو نہیں دیکھتا جس کی مخالفت نہ کرے۔<ref>کلینی، الكافی، ج8، ص396، ح 597۔</ref>
سطر 344: سطر 344:
[[امام حسن عسکری]]ؑ کے زمانے میں مشہور تھا کہ [[شیعہ]] آپؑ کے فرزند "قائم" کے منتظر ہیں<ref>شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص336۔</ref> اسی بنا پر [[بنو عباس|عباسی]] حکمران اس فرزند کی تلاش میں تھے اور ان کی بہر قیمت یہی کوشش تھی کہ انہیں جس طرح بھی ممکن ہو، گرفتار کریں۔
[[امام حسن عسکری]]ؑ کے زمانے میں مشہور تھا کہ [[شیعہ]] آپؑ کے فرزند "قائم" کے منتظر ہیں<ref>شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص336۔</ref> اسی بنا پر [[بنو عباس|عباسی]] حکمران اس فرزند کی تلاش میں تھے اور ان کی بہر قیمت یہی کوشش تھی کہ انہیں جس طرح بھی ممکن ہو، گرفتار کریں۔


اسی بنا پر امام عسکریؑ نے کبھی بھی اعلانیہ طور پر کسی کو اپنے فرزند کا دیدار نہیں کرایا اور حتی کہ آپؑ کا تعارف ـ چند ہی خاص اصحاب کے سوا ـ اپنے بہت سے قریبی پیروکاروں سے نہیں کرایا۔<ref>جاسم حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدهم، ص102، مختصر سی تلخیص کے ساتھ۔</ref> چنانچہ امامؑ کی شہادت کے وقت سوائے ان ہی چند خاص اصحاب کے سوا کسی کو بھی معلوم نہ تھا کہ آپؑ کا کوئی فرزند بھی ہے۔<ref>نوبختی، فرق الشیعه، ص105۔</ref><ref>مفید، الارشاد، ج2، ص336۔</ref><ref>ابن شهر آشوب، المناقب، ج4، ص422۔</ref>
اسی بنا پر امام عسکریؑ نے کبھی بھی اعلانیہ طور پر کسی کو اپنے فرزند کا دیدار نہیں کرایا اور حتی کہ آپؑ کا تعارف ـ چند ہی خاص اصحاب کے سوا ـ اپنے بہت سے قریبی پیروکاروں سے نہیں کرایا۔<ref>جاسم حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدهم، ص102، مختصر سی تلخیص کے ساتھ۔</ref> چنانچہ امامؑ کی شہادت کے وقت سوائے ان ہی چند خاص اصحاب کے سوا کسی کو بھی معلوم نہ تھا کہ آپؑ کا کوئی فرزند بھی ہے۔<ref>نوبختی، فرق الشیعه، ص105۔؛مفید، الارشاد، ج2، ص336۔؛ابن شهر آشوب، المناقب، ج4، ص422۔</ref>


دوسری طرف سے امام حسن عسکریؑ نے سیاسی حالات کے پیش نظر، اپنے وصیت نامے میں صرف [[امام حسن عسکری کی والدہ|اپنی والدہ]] کا نام دیا تھا اور گیارہویں امامؑ کی شہادت کے بعد کے دو برسوں کے عرصہ میں بعض [[شیعہ]] سمجھتے تھے کہ منصب [[امامت]] [[امام حسن عسکری کی والدہ]] کو سونپ دیا گیا ہے۔<ref>شیخ صدوق، کمال الدین، ج2، ص507۔</ref>
دوسری طرف سے امام حسن عسکریؑ نے سیاسی حالات کے پیش نظر، اپنے وصیت نامے میں صرف [[امام حسن عسکری کی والدہ|اپنی والدہ]] کا نام دیا تھا اور گیارہویں امامؑ کی شہادت کے بعد کے دو برسوں کے عرصہ میں بعض [[شیعہ]] سمجھتے تھے کہ منصب [[امامت]] [[امام حسن عسکری کی والدہ]] کو سونپ دیا گیا ہے۔<ref>شیخ صدوق، کمال الدین، ج2، ص507۔</ref>
سطر 361: سطر 361:
بحرانِ [[امامت]] اس زمانے میں اس قدر سنگین تھا کہ حتی بعض لوگوں نے اپنا مذہب ترک کر دیا اور دیگر [[شیعہ]] اور غیر [[شیعہ]] مکاتب اور فرقوں سے جا ملے۔ <ref>کلینی، الکافی، ج1، ص520۔</ref>۔<ref>شیخ صدوق، کمال الدین، ج2، ص408۔</ref>، کچھ لوگوں نے [[امام حسن عسکریؑ]] کی وفات کا انکار کیا اور آپؑ ہی کو [[مہدی]] سمجھنے لگے، ایک جماعت نے [[محمد بن علی الہادی|سید محمد]] کی [[امامت]] کو قبول نہیں کیا، گروه نے [[امام هادی]]ؑ کی امامت کو قبول کیااور امام عسکری کی امامت کا انکار کیا۔<ref>صابری، تاریخ فرق اسلامی، ج2، ص197، پاورقی2۔</ref>
بحرانِ [[امامت]] اس زمانے میں اس قدر سنگین تھا کہ حتی بعض لوگوں نے اپنا مذہب ترک کر دیا اور دیگر [[شیعہ]] اور غیر [[شیعہ]] مکاتب اور فرقوں سے جا ملے۔ <ref>کلینی، الکافی، ج1، ص520۔</ref>۔<ref>شیخ صدوق، کمال الدین، ج2، ص408۔</ref>، کچھ لوگوں نے [[امام حسن عسکریؑ]] کی وفات کا انکار کیا اور آپؑ ہی کو [[مہدی]] سمجھنے لگے، ایک جماعت نے [[محمد بن علی الہادی|سید محمد]] کی [[امامت]] کو قبول نہیں کیا، گروه نے [[امام هادی]]ؑ کی امامت کو قبول کیااور امام عسکری کی امامت کا انکار کیا۔<ref>صابری، تاریخ فرق اسلامی، ج2، ص197، پاورقی2۔</ref>


ان حالات میں ایک بڑی جماعت [[جعفر کذاب|جعفر]] کو امام سمجھ رہی تھی۔<ref>نوبختی، فرق الشیعه، 107ـ109۔</ref><ref>اشعری قمی، المقالات و الفرق، ص110ـ114۔</ref><ref>شیخ صدوق، کمال الدین، ج2، ص408۔</ref> جعفر نے منصب [[امامت]] کے حصول کے لئے بہت زیادہ کوشش کی۔ اس نے امام عسکریؑ کی والدہ کے بقید حیات ہونے کے باوجود آپؑ کے ترکہ میں حصے کا دعوی کیا۔<ref>مفید، الارشاد، ص345۔</ref><ref>اربلی‌، کشف‌ الغمة فی‌ معرفة الائمة، ج‌ 2، ص205، 223۔</ref><ref>ذهبی‌، سیر اعلام النبلاء، ج 13، ص121۔</ref> علاوہ ازیں اس نے حکام وقت کو کہا کہ وہ امامؑ کی گرفتاری کے لئے آپؑ کے گھر کی تلاشی لیں اور جعفر ہی کے تعاون سے امام عسکریؑ کی ایک کنیز کو گرفتا کیا گیا اور اس کی کڑی نگرانی کا اہتمام کیا گیا۔<ref>مفید، الارشاد، ص345۔</ref><ref>طبرسی‌، اعلام‌ الوری‌ بأعلام‌ الهدی، ص‌360۔</ref><ref>اربلی‌، کشف‌ الغمة فی‌ معرفة الائمة، ج‌3، ص‌205۔</ref> ادھر جعفر ایک عباسی کارگزار کو سالانہ 20 ہزار دینار بطور رشوت دیتا رہا تاکہ وہ اس کی [[امامت]] کی تصدیق کیا کرے۔<ref>ر.ک: مفید، الارشاد، ص345۔</ref><ref>اربلی‌، کشف‌ الغمة فی‌ معرفة الائمة، ج‌3، ص‌199، 205۔</ref>
ان حالات میں ایک بڑی جماعت [[جعفر کذاب|جعفر]] کو امام سمجھ رہی تھی۔<ref>نوبختی، فرق الشیعه، 107ـ109۔؛اشعری قمی، المقالات و الفرق، ص110ـ114۔؛شیخ صدوق، کمال الدین، ج2، ص408۔</ref> جعفر نے منصب [[امامت]] کے حصول کے لئے بہت زیادہ کوشش کی۔ اس نے امام عسکریؑ کی والدہ کے بقید حیات ہونے کے باوجود آپؑ کے ترکہ میں حصے کا دعوی کیا۔<ref>مفید، الارشاد، ص345۔؛اربلی‌، کشف‌ الغمة فی‌ معرفة الائمة، ج‌ 2، ص205، 223۔؛ذهبی‌، سیر اعلام النبلاء، ج 13، ص121۔</ref> علاوہ ازیں اس نے حکام وقت کو کہا کہ وہ امامؑ کی گرفتاری کے لئے آپؑ کے گھر کی تلاشی لیں اور جعفر ہی کے تعاون سے امام عسکریؑ کی ایک کنیز کو گرفتا کیا گیا اور اس کی کڑی نگرانی کا اہتمام کیا گیا۔<ref>مفید، الارشاد، ص345۔؛طبرسی‌، اعلام‌ الوری‌ بأعلام‌ الهدی، ص‌360۔؛اربلی‌، کشف‌ الغمة فی‌ معرفة الائمة، ج‌3، ص‌205۔</ref> ادھر جعفر ایک عباسی کارگزار کو سالانہ 20 ہزار دینار بطور رشوت دیتا رہا تاکہ وہ اس کی [[امامت]] کی تصدیق کیا کرے۔<ref>ر.ک: مفید، الارشاد، ص345۔؛اربلی‌، کشف‌ الغمة فی‌ معرفة الائمة، ج‌3، ص‌199، 205۔</ref>


ان اختلافات کے باوجود، آخرکار، [[شیعہ]] اکثریت امام حسن عسکریؑ کے فرزند کی [[امامت]] کے قائل ہوئے اور ان ہی جماعتوں نے بعد میں [[شیعہ]] [[امامیہ]] کی قیادت سنبھالی اور چوتھی صدی ہجری میں [[اہل بیت]] کے تمام پیروکاروں کا واحد عنوان "[[شیعہ اثنا عشریہ]]" ہی ٹہرا۔<ref>جاسم حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدهمؑ، ص103 تا 112۔</ref> [[شیخ مفید]] کتاب ''[[فرق الشیعہ]]'' کے مؤلف "[[حسن بن موسی نوبختی]]" سے ایک روایت نقل کرنے کے بعد، امام حسن عسکریؑ کی شہادت کے بعد معرض وجود میں آنے والے چودہ فرقوں کے بارے میں کہتے ہیں:  
ان اختلافات کے باوجود، آخرکار، [[شیعہ]] اکثریت امام حسن عسکریؑ کے فرزند کی [[امامت]] کے قائل ہوئے اور ان ہی جماعتوں نے بعد میں [[شیعہ]] [[امامیہ]] کی قیادت سنبھالی اور چوتھی صدی ہجری میں [[اہل بیت]] کے تمام پیروکاروں کا واحد عنوان "[[شیعہ اثنا عشریہ]]" ہی ٹہرا۔<ref>جاسم حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدهمؑ، ص103 تا 112۔</ref> [[شیخ مفید]] کتاب ''[[فرق الشیعہ]]'' کے مؤلف "[[حسن بن موسی نوبختی]]" سے ایک روایت نقل کرنے کے بعد، امام حسن عسکریؑ کی شہادت کے بعد معرض وجود میں آنے والے چودہ فرقوں کے بارے میں کہتے ہیں:  
سطر 391: سطر 391:
[[امام مہدی]]ؑ نے سنہ 260 ھ ق میں اپنی [[امامت]] کے آغاز سے ہی [[شیعہ|شیعیان]] [[اہل بیت]] کے ساتھ اپنا رابطہ ـ [[نواب اربعہ|نائبین خاص]] کے ذریعے رابطے تک ـ محدود کرلیا تھا؛ اور آپ کے آخری [[نیابت خاصہ|نائب خاص]] [[علی بن محمد سمری]] تھے جنہوں نے [[نصف شعبان|پندرہ شعبان]] سنہ 329 ہجری قمری /15 مئی سنہ 941 ع‍یسوی کو وفات پائی۔
[[امام مہدی]]ؑ نے سنہ 260 ھ ق میں اپنی [[امامت]] کے آغاز سے ہی [[شیعہ|شیعیان]] [[اہل بیت]] کے ساتھ اپنا رابطہ ـ [[نواب اربعہ|نائبین خاص]] کے ذریعے رابطے تک ـ محدود کرلیا تھا؛ اور آپ کے آخری [[نیابت خاصہ|نائب خاص]] [[علی بن محمد سمری]] تھے جنہوں نے [[نصف شعبان|پندرہ شعبان]] سنہ 329 ہجری قمری /15 مئی سنہ 941 ع‍یسوی کو وفات پائی۔
ان کی وفات سے ایک ہفتہ قبل امام زمانہؑ کی جانب سے ایک توقیع صادر ہوئی جس میں آپؑ نے تحریر فرمایا تھا:
ان کی وفات سے ایک ہفتہ قبل امام زمانہؑ کی جانب سے ایک توقیع صادر ہوئی جس میں آپؑ نے تحریر فرمایا تھا:
::اے علی بن محمد سمری!۔۔۔ تم 6 دن بعد وفات پاؤگے۔ اسی لئے اپنے کام مکمل کرنا اور کسی سے بھی جانشین کے طور پر وصیت نہ کرنا؛ کیونکہ [[غیبت کبری|دوسری غیبت]] کا آغاز ہوچکا ہے اور کوئی ظہور نہ ہوگا سوا اس وقت کے جب خداوند متعال خود اجازت فرمائے۔۔<ref>اربلی، کشف الغمه، ج2، ص530۔</ref><ref>طبرسی، احمد بن علی، احتجاج، ج2، صص555-556۔</ref><ref>صدوق، کمال الدین، ج2، ص516۔</ref>
::اے علی بن محمد سمری!۔۔۔ تم 6 دن بعد وفات پاؤگے۔ اسی لئے اپنے کام مکمل کرنا اور کسی سے بھی جانشین کے طور پر وصیت نہ کرنا؛ کیونکہ [[غیبت کبری|دوسری غیبت]] کا آغاز ہوچکا ہے اور کوئی ظہور نہ ہوگا سوا اس وقت کے جب خداوند متعال خود اجازت فرمائے۔۔<ref>اربلی، کشف الغمه، ج2، ص530۔؛طبرسی، احمد بن علی، احتجاج، ج2، صص555-556۔؛صدوق، کمال الدین، ج2، ص516۔</ref>


علی بن محمد سمری کی وفات کے بعد، [[نواب اربعہ|نائبین خاص]] کے ذریعے رابطہ بھی منقطع ہوا؛ اور [[غیبت امام زمانہؑ|غیبت]] نئے مرحلے میں داخل ہوئی۔ یہ مرحلہ متاخرہ ماخذ میں، "[[غیبت کبری]]" کہلایا۔
علی بن محمد سمری کی وفات کے بعد، [[نواب اربعہ|نائبین خاص]] کے ذریعے رابطہ بھی منقطع ہوا؛ اور [[غیبت امام زمانہؑ|غیبت]] نئے مرحلے میں داخل ہوئی۔ یہ مرحلہ متاخرہ ماخذ میں، "[[غیبت کبری]]" کہلایا۔
سطر 407: سطر 407:
[[شیعہ]] روایات کے مطابق، ظہور کی آمد پر دنیا کی تین اہم خصوصیات ہیں:
[[شیعہ]] روایات کے مطابق، ظہور کی آمد پر دنیا کی تین اہم خصوصیات ہیں:
# ظلم و ستم پھیل جائے گا اور فتنہ، جو ہر گھر پر وارد ہوگا؛<ref> سید بن طاؤس، الطرائف فی معرفة مذاهب الطوائف، ج‏1، ص177۔</ref>  
# ظلم و ستم پھیل جائے گا اور فتنہ، جو ہر گھر پر وارد ہوگا؛<ref> سید بن طاؤس، الطرائف فی معرفة مذاهب الطوائف، ج‏1، ص177۔</ref>  
# [[سفیانی]] اور [[ناصبی|نواصب]] کا خروج، اور [[عراق]] سمیت ديگر سرزمینوں میں [[شیعہ|تشیّع]] کے خلاف سرگرم عمل دشمنوں کی سرگرمیاں جو [[شام]] پر قابض ہوکر وہاں کی حکومت کو اپنے ہاتھ میں لیں گے۔<ref>طبرسی، تفسیر مجمع البیان، ج8، ص228-229۔</ref><ref>مجلسی، بحار الانوار ج52، ص186۔</ref>  
# [[سفیانی]] اور [[ناصبی|نواصب]] کا خروج، اور [[عراق]] سمیت ديگر سرزمینوں میں [[شیعہ|تشیّع]] کے خلاف سرگرم عمل دشمنوں کی سرگرمیاں جو [[شام]] پر قابض ہوکر وہاں کی حکومت کو اپنے ہاتھ میں لیں گے۔<ref>طبرسی، تفسیر مجمع البیان، ج8، ص228-229۔؛مجلسی، بحار الانوار ج52، ص186۔</ref>  
# امام زمانہؑ کے وہ اولیاء اور اصحاب جو اسلامی سرزمینوں میں آپؑ کی یاد اور آپؑ کے نام کو زندہ رکھتے ہیں اور دنیا بھر میں پھیلا دیتے ہیں۔<ref>صدوق، كمال الدين، ج1، ص320۔</ref>
# امام زمانہؑ کے وہ اولیاء اور اصحاب جو اسلامی سرزمینوں میں آپؑ کی یاد اور آپؑ کے نام کو زندہ رکھتے ہیں اور دنیا بھر میں پھیلا دیتے ہیں۔<ref>صدوق، كمال الدين، ج1، ص320۔</ref>


سطر 414: سطر 414:
{{اصلی|توقیعات امام زمانہؑ}}
{{اصلی|توقیعات امام زمانہؑ}}


اگرچہ لفظ "[[توقیع]]" [[ائمہ]] اور بالخصوص امام زمانہؑ کے مکتوبات کے معنی میں استعمال ہوا ہے، لیکن یہ لفظ امام زمانہؑ کے غیر مکتوب کلام کے لئے بھی استعمال ہوتا رہا ہے اور جن مآخذ میں بارہویں امامؑ کی توقیعات کو اکٹھا کیا گیا ہے <small>(منجملہ: شیخ صدوق کی ''کمال الدین'' اور شیخ [[علی الکورانی]] کے زیر نگرانی تالیف شدہ ''معجم احادیث الامام المهدی'')</small>، ان میں آپؑ کے غیر مکتوب کلمات، حتی کہ [[نواب اربعہ|نائبین خاص]] کے کلام کو بھی توقیعات کے زمرے میں ذکر کیا گیا ہے۔<ref>صدوق، کمال الدین (تصحیح غفاری)، ج2، ص502-505۔</ref><ref>معجم احادیث الامام المهدی، ج4، ص316۔</ref> امام زمانہؑ کی زیادہ تر توقیعات ـ جن کی تعداد 80 کے قریب ہے ـ [[غیبت صغری]] کے دور میں، اعتقادی، فقہی اور مالی موضوعات کے سلسلے میں صادر ہوئی ہیں۔<ref>رکنی، محمد مهدی، مجله موعود، شماره 79، درآمدی بر شناخت توقیعات، ص54۔</ref>
اگرچہ لفظ "[[توقیع]]" [[ائمہ]] اور بالخصوص امام زمانہؑ کے مکتوبات کے معنی میں استعمال ہوا ہے، لیکن یہ لفظ امام زمانہؑ کے غیر مکتوب کلام کے لئے بھی استعمال ہوتا رہا ہے اور جن مآخذ میں بارہویں امامؑ کی توقیعات کو اکٹھا کیا گیا ہے <small>(منجملہ: شیخ صدوق کی ''کمال الدین'' اور شیخ [[علی الکورانی]] کے زیر نگرانی تالیف شدہ ''معجم احادیث الامام المهدی'')</small>، ان میں آپؑ کے غیر مکتوب کلمات، حتی کہ [[نواب اربعہ|نائبین خاص]] کے کلام کو بھی توقیعات کے زمرے میں ذکر کیا گیا ہے۔<ref>صدوق، کمال الدین (تصحیح غفاری)، ج2، ص502-505۔؛معجم احادیث الامام المهدی، ج4، ص316۔</ref> امام زمانہؑ کی زیادہ تر توقیعات ـ جن کی تعداد 80 کے قریب ہے ـ [[غیبت صغری]] کے دور میں، اعتقادی، فقہی اور مالی موضوعات کے سلسلے میں صادر ہوئی ہیں۔<ref>رکنی، محمد مهدی، مجله موعود، شماره 79، درآمدی بر شناخت توقیعات، ص54۔</ref>


==  قرآن و حدیث کی روشنی میں مقام و منزلت==
==  قرآن و حدیث کی روشنی میں مقام و منزلت==
===  قرآن  ===
===  قرآن  ===
امام زمانہؑ اور [[آخر الزمان]] کے نجات دہندہ کا مسئلہ [[قرآن کریم]] میں صراحت کے ساتھ بیان نہیں ہوا ہے لیکن [[شیعہ]] مفسرین [[احادیث]] سے استناد کرتے ہوئے اس حقیقت کے قائل ہیں کہ [[قرآن]] کی بہت سی آیات امام زمانہؑ کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ 250 [یا 260] آیات قرآنی کا تعلق امام مہدیؑ سے ہے۔<ref>الکورانی (المشرف)، جمعی از محققین، معجم احادیث امام مهدی، جلد 5۔</ref> مفسرین قرآنی آیات کی دو قسموں سے امام [[مہدی]]ؑ کے وجود مبارک اور مسئلۂ ظہور کے لئے استفادہ کرتے ہیں:
امام زمانہؑ اور [[آخر الزمان]] کے نجات دہندہ کا مسئلہ [[قرآن کریم]] میں صراحت کے ساتھ بیان نہیں ہوا ہے لیکن [[شیعہ]] مفسرین [[احادیث]] سے استناد کرتے ہوئے اس حقیقت کے قائل ہیں کہ [[قرآن]] کی بہت سی آیات امام زمانہؑ کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ 250 [یا 260] آیات قرآنی کا تعلق امام مہدیؑ سے ہے۔<ref>الکورانی (المشرف)، جمعی از محققین، معجم احادیث امام مهدی، جلد 5۔</ref> مفسرین قرآنی آیات کی دو قسموں سے امام [[مہدی]]ؑ کے وجود مبارک اور مسئلۂ ظہور کے لئے استفادہ کرتے ہیں:
1۔ '''وہ آیات کریمہ جو امام کے وجود پر تاکید کرتی ہیں'''  <br/> [[قرآن کریم]] کی آیات کے مطابق، خداوند متعال نے ہر امت کے لئے ایک فرد منتخب کیا ہے جو اس کی ہدایت کا ذمہ اٹھائے ہوئے ہے: "<font color = green>{{حدیث|<big>'''وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ'''</big>}}</font> {{قرآن کا متن|ترجمہ: اور ہر قوم کا ایک [برگزیدہ] راہنما ہوتا ہے'''|سورت=[[سورہ رعد]]|آیت=7}}"۔ اس آیت کی تفسیر میں [[امام صادقؑ]] نے فرمایا: ہر زمانے میں ہمارے خاندان میں سے ایک امام موجود ہوتا ہے جو لوگوں کو ان حقائق کی طرف ہدایت دیتا ہے جو [[رسول خداؐ]] اللہ کی طرف سے لائے ہیں۔<ref>صدوق، کمال الدین وتمام النعمة، ج2، ص667۔</ref><ref>مجلسی، بحارالانوار، ج23، ص5۔</ref>  <br/>  ایک دلیل جو مفسرین امام کی ضرورت کے لئے پیش کرتے ہیں، یہ ہے کہ [[قرآن]] کے لئے مُبَیِّن اور مُفَسِّر کی ضرورت ہے اور امام کے سوا کوئی بھی [[قرآن کریم]] کے تمام معانی اور خصوصیات سے آگاہ نہیں ہے۔ پس [[عقل]] کے تقاضوں کے مطابق، [[رسول اللہؐ]] کے بعد امام کا ہونا لازم اور ضروری ہے۔ <ref>امين، مخزن العرفان در تفسير قرآن، ج3، ص39، ذیل آیت 44 سورہ نحل۔</ref> [[شیعہ]] عقیدے کے مطابق، امامت عالم وجود کے امن و سکون کا سرمایہ اور فیض خداوندی کے حصول کا واسطہ ہے اور اللہ کی نعمات اور برکات ان کے واسطے سے انسان کو ملتی ہیں اور اگر دنیا لمحہ بھر امام کے وجود سے خالی ہو جائے تو وہ اپنے باسیوں کو نگل لے گی۔<ref>النعمانی، الغیبہ، ص138-139۔</ref><ref>مجلسی، بحارالانوار، ج23، ص55۔</ref>
1۔ '''وہ آیات کریمہ جو امام کے وجود پر تاکید کرتی ہیں'''  <br/> [[قرآن کریم]] کی آیات کے مطابق، خداوند متعال نے ہر امت کے لئے ایک فرد منتخب کیا ہے جو اس کی ہدایت کا ذمہ اٹھائے ہوئے ہے: "<font color = green>{{حدیث|<big>'''وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ'''</big>}}</font> {{قرآن کا متن|ترجمہ: اور ہر قوم کا ایک [برگزیدہ] راہنما ہوتا ہے'''|سورت=[[سورہ رعد]]|آیت=7}}"۔ اس آیت کی تفسیر میں [[امام صادقؑ]] نے فرمایا: ہر زمانے میں ہمارے خاندان میں سے ایک امام موجود ہوتا ہے جو لوگوں کو ان حقائق کی طرف ہدایت دیتا ہے جو [[رسول خداؐ]] اللہ کی طرف سے لائے ہیں۔<ref>صدوق، کمال الدین وتمام النعمة، ج2، ص667۔؛مجلسی، بحارالانوار، ج23، ص5۔</ref>  <br/>  ایک دلیل جو مفسرین امام کی ضرورت کے لئے پیش کرتے ہیں، یہ ہے کہ [[قرآن]] کے لئے مُبَیِّن اور مُفَسِّر کی ضرورت ہے اور امام کے سوا کوئی بھی [[قرآن کریم]] کے تمام معانی اور خصوصیات سے آگاہ نہیں ہے۔ پس [[عقل]] کے تقاضوں کے مطابق، [[رسول اللہؐ]] کے بعد امام کا ہونا لازم اور ضروری ہے۔ <ref>امين، مخزن العرفان در تفسير قرآن، ج3، ص39، ذیل آیت 44 سورہ نحل۔</ref> [[شیعہ]] عقیدے کے مطابق، امامت عالم وجود کے امن و سکون کا سرمایہ اور فیض خداوندی کے حصول کا واسطہ ہے اور اللہ کی نعمات اور برکات ان کے واسطے سے انسان کو ملتی ہیں اور اگر دنیا لمحہ بھر امام کے وجود سے خالی ہو جائے تو وہ اپنے باسیوں کو نگل لے گی۔<ref>النعمانی، الغیبہ، ص138-139۔؛مجلسی، بحارالانوار، ج23، ص55۔</ref>


2۔ "'''روئے زمین پر حکومتِ صالحین و مؤمنین کی بشارت دینے والی آیات'''" <br/> [[شیعہ]] مفسرین [[قرآن کریم]] کی دسیوں آیات کے حوالے سے، [[ظہور امام زمانہؑ]] کو قابل استناد سمجھتے ہیں؛ وہ آیات کریمہ جو صالح اور مستضعف بندوں کو اپنا حق حاصل کرنے اور حق و عدل پر استوار، واحد عالمی حکومت کی تشکیل اور تمام ادیان و مکاتب پر [[اسلام]] کے غلبے پر مرکوز ہیں۔ [[قرآن]] کے بیان میں، یہ بشارت بعض دیگر [[آسمانی کتب]] میں بھی نازل ہوئی ہے: <font color=green>{{قرآن کا متن|وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ|سورت=[[سورہ انبیاء|انبیاء]]|آیت=105}}</font>
2۔ "'''روئے زمین پر حکومتِ صالحین و مؤمنین کی بشارت دینے والی آیات'''" <br/> [[شیعہ]] مفسرین [[قرآن کریم]] کی دسیوں آیات کے حوالے سے، [[ظہور امام زمانہؑ]] کو قابل استناد سمجھتے ہیں؛ وہ آیات کریمہ جو صالح اور مستضعف بندوں کو اپنا حق حاصل کرنے اور حق و عدل پر استوار، واحد عالمی حکومت کی تشکیل اور تمام ادیان و مکاتب پر [[اسلام]] کے غلبے پر مرکوز ہیں۔ [[قرآن]] کے بیان میں، یہ بشارت بعض دیگر [[آسمانی کتب]] میں بھی نازل ہوئی ہے: <font color=green>{{قرآن کا متن|وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ|سورت=[[سورہ انبیاء|انبیاء]]|آیت=105}}</font>
سطر 500: سطر 500:
* ''' غیبت کبری سے پہلے دیدار'''
* ''' غیبت کبری سے پہلے دیدار'''


[[شیعہ]] کتب تاریخ و [[حدیث]] ـ منجملہ: [[الکافی]]، [[الارشاد]]، [[اعلام الوری]]، [[کمال الدین]]، [[الغیبہ شیخ طوسی|الغیبہ]] [[شیخ طوسی|طوسی]] و [[الغیبہ نعمانی|الغیبہ]] [[نعمانی]] ـ میں بعض افراد کے نام مذکور ہیں جنہوں نے [[امام حسن عسکریؑ]] کے ایام حیات میں آپؑ کے فرزند ارجمند حضرت مہدیؑ کا دیدار کیا ہے؛ ان لوگوں کے دیدار کی تفصیل بھی بیان ہوئی ہے؛ ان ہی میں سے ایک امام عسکریؑ کی پھوپھی جناب [[حکیمہ خاتون]]<ref>طبرسی، اعلام الوری، مؤسسه آل البیت، ج2، ص214۔</ref><ref>کلینی، کافی، دارالکتب الاسلامیه، 1389ھ، ج1، ص330۔</ref><ref>شیخ مفید، الارشاد، مؤسسة آل البیت، ج2، ص351۔</ref> ہیں جو امام زمانہؑ کی ولادت کی عینی گواہ ہیں۔ ان افراد میں زیادہ تر امام حسن عسکریؑ کے اصحاب خاص اور خدام شامل ہیں: امام عسکریؑ کے خادم ابو نصر ظریف،<ref>کلینی، کافی، دارالکتب الاسلامیه، 1389ھ، ج1، ص332۔</ref><ref>شیخ مفید، الارشاد، مؤسسة آل البیت، ج2، ص354۔</ref><ref>محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص12۔</ref> [[احمد بن اسحق اشعری قمی]]،<ref>شیخ صدوق، کمال الدین، مؤسسة النشر الاسلامی، ص384۔</ref><ref>طبرسی، اعلام الوری، مؤسسه آل البیت، ج2، ص248۔</ref><ref>محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص13۔</ref> ابو علی بن مطہر،<ref>کلینی، کافی، دارالکتب الاسلامیه، 1389ھ، ج1، ص331۔</ref><ref>محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص14۔</ref> [[سعد بن عبداللہ اشعری قمی]]،<ref>شیخ صدوق، کمال الدین، مؤسسة النشر الاسلامی، ص454۔</ref><ref>محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص16۔</ref> یعقوب بن منقوش، <ref>شیخ صدوق، کمال الدین، مؤسسة النشر الاسلامی، ص407 و ص436۔</ref><ref>محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص19۔</ref> خادم ابو غانم،<ref>شیخ صدوق، کمال الدین، مؤسسة النشر الاسلامی، ص431۔</ref><ref>محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص15۔</ref> کامل بن ابراہیم،<ref>الغیبہ، طوسی، مؤسسة المعارف الاسلامیه، ص426۔</ref><ref>محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص20۔</ref> وغیرہ۔<ref>رجوع کریں: محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص9-29۔</ref>
[[شیعہ]] کتب تاریخ و [[حدیث]] ـ منجملہ: [[الکافی]]، [[الارشاد]]، [[اعلام الوری]]، [[کمال الدین]]، [[الغیبہ شیخ طوسی|الغیبہ]] [[شیخ طوسی|طوسی]] و [[الغیبہ نعمانی|الغیبہ]] [[نعمانی]] ـ میں بعض افراد کے نام مذکور ہیں جنہوں نے [[امام حسن عسکریؑ]] کے ایام حیات میں آپؑ کے فرزند ارجمند حضرت مہدیؑ کا دیدار کیا ہے؛ ان لوگوں کے دیدار کی تفصیل بھی بیان ہوئی ہے؛ ان ہی میں سے ایک امام عسکریؑ کی پھوپھی جناب [[حکیمہ خاتون]]<ref>طبرسی، اعلام الوری، مؤسسه آل البیت، ج2، ص214۔؛کلینی، کافی، دارالکتب الاسلامیه، 1389ھ، ج1، ص330۔؛شیخ مفید، الارشاد، مؤسسة آل البیت، ج2، ص351۔</ref> ہیں جو امام زمانہؑ کی ولادت کی عینی گواہ ہیں۔ ان افراد میں زیادہ تر امام حسن عسکریؑ کے اصحاب خاص اور خدام شامل ہیں: امام عسکریؑ کے خادم ابو نصر ظریف،<ref>کلینی، کافی، دارالکتب الاسلامیه، 1389ھ، ج1، ص332۔؛شیخ مفید، الارشاد، مؤسسة آل البیت، ج2، ص354۔؛محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص12۔</ref> [[احمد بن اسحق اشعری قمی]]،<ref>شیخ صدوق، کمال الدین، مؤسسة النشر الاسلامی، ص384۔؛طبرسی، اعلام الوری، مؤسسه آل البیت، ج2، ص248۔؛محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص13۔</ref> ابو علی بن مطہر،<ref>کلینی، کافی، دارالکتب الاسلامیه، 1389ھ، ج1، ص331۔؛محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص14۔</ref> [[سعد بن عبداللہ اشعری قمی]]،<ref>شیخ صدوق، کمال الدین، مؤسسة النشر الاسلامی، ص454۔؛محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص16۔</ref> یعقوب بن منقوش، <ref>شیخ صدوق، کمال الدین، مؤسسة النشر الاسلامی، ص407 و ص436۔؛محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص19۔</ref> خادم ابو غانم،<ref>شیخ صدوق، کمال الدین، مؤسسة النشر الاسلامی، ص431۔؛محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص15۔</ref> کامل بن ابراہیم،<ref>الغیبہ، طوسی، مؤسسة المعارف الاسلامیه، ص426۔؛محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص20۔</ref> وغیرہ۔<ref>رجوع کریں: محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص9-29۔</ref>


علاوہ ازیں مروی ہے کہ [[غیبت صغری]] کے 69 برسوں کے عرصے میں امامؑ کے [[نواب اربعہ|چار نائبین خاص]] سمیت متعدد دوسرے افراد نے امام زمانہؑ کے ساتھ ملاقات کا شرف حاصل کیا ہے؛ جیسے: ابراہیم بن ادریس،<ref>کلینی، کافی، دارالکتب الاسلامیه، 1389ھ، ج1، ص331۔</ref><ref>طوسی، الغیبہ، مؤسسة المعارف الاسلامیه، ص268۔</ref><ref>محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص29۔</ref> ابراہیم بن عبدہ نیشابوری اور ان کے خادم،<ref>شیخ مفید، الارشاد، مؤسسة آل البیت، ج2، ص352۔</ref><ref>محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص29۔</ref> [[امام حسن عسکریؑ]] کے خادم ابوالادیان،<ref>شیخ صدوق، کمال الدین، مؤسسة النشر الاسلامی، ص457۔</ref><ref>محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص30۔</ref> ابو سعید غانم ہندی،<ref>کلینی، کافی، دارالکتب الاسلامیه، 1389ھ، ج1، ص515۔</ref><ref>محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص33۔</ref> ابو عبداللہ بن صالح،<ref>شیخ مفید، الارشاد، مؤسسة آل البیت، ج2، ص352۔</ref><ref>محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص37۔</ref> ابو محمد حسن بن وجناء نصیبی،<ref>شیخ صدوق، کمال الدین، مؤسسة النشر الاسلامی، ص443۔</ref><ref>محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص38۔</ref> ابو علی محمد بن احمد بن حماد مروزی محمودی،<ref>شیخ صدوق، کمال الدین، مؤسسة النشر الاسلامی، ص470۔</ref><ref>طوسی، الغیبہ، مؤسسة المعارف الاسلامیه، ص259۔</ref><ref>محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص40۔</ref> اسمعیل بن علی نوبختی،<ref>طوسی، الغیبہ، مؤسسة المعارف الاسلامیه، ص271۔</ref><ref>محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص51۔</ref> علی بن ابراہیم بن مہزیار،<ref>شیخ صدوق، کمال الدین، مؤسسة النشر الاسلامی، ص465۔</ref><ref>محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص62۔</ref> محمد بن اسمعیل بن موسی الکاظم|محمد بن اسماعیل بن [[امام کاظمؑ]]،<ref>الارشاد، مؤسسة آل البیت، مفید، ج2، ص351۔</ref><ref>دانشنامه، ج5، ص75۔</ref> [[محمد بن شاذان نیشابوری]]،<ref>محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص93۔</ref> اور دسیوں دوسرے افراد۔<ref>رجوع کریں: محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص29-97۔</ref>
علاوہ ازیں مروی ہے کہ [[غیبت صغری]] کے 69 برسوں کے عرصے میں امامؑ کے [[نواب اربعہ|چار نائبین خاص]] سمیت متعدد دوسرے افراد نے امام زمانہؑ کے ساتھ ملاقات کا شرف حاصل کیا ہے؛ جیسے: ابراہیم بن ادریس،<ref>کلینی، کافی، دارالکتب الاسلامیه، 1389ھ، ج1، ص331۔؛طوسی، الغیبہ، مؤسسة المعارف الاسلامیه، ص268۔؛محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص29۔</ref> ابراہیم بن عبدہ نیشابوری اور ان کے خادم،<ref>شیخ مفید، الارشاد، مؤسسة آل البیت، ج2، ص352۔؛محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص29۔</ref> [[امام حسن عسکریؑ]] کے خادم ابوالادیان،<ref>شیخ صدوق، کمال الدین، مؤسسة النشر الاسلامی، ص457۔؛محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص30۔</ref> ابو سعید غانم ہندی،<ref>کلینی، کافی، دارالکتب الاسلامیه، 1389ھ، ج1، ص515۔؛محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص33۔</ref> ابو عبداللہ بن صالح،<ref>شیخ مفید، الارشاد، مؤسسة آل البیت، ج2، ص352۔؛محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص37۔</ref> ابو محمد حسن بن وجناء نصیبی،<ref>شیخ صدوق، کمال الدین، مؤسسة النشر الاسلامی، ص443۔؛محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص38۔</ref> ابو علی محمد بن احمد بن حماد مروزی محمودی،<ref>شیخ صدوق، کمال الدین، مؤسسة النشر الاسلامی، ص470۔؛طوسی، الغیبہ، مؤسسة المعارف الاسلامیه، ص259۔؛محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص40۔</ref> اسمعیل بن علی نوبختی،<ref>طوسی، الغیبہ، مؤسسة المعارف الاسلامیه، ص271۔؛محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص51۔</ref> علی بن ابراہیم بن مہزیار،<ref>شیخ صدوق، کمال الدین، مؤسسة النشر الاسلامی، ص465۔؛محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص62۔</ref> محمد بن اسمعیل بن موسی الکاظم|محمد بن اسماعیل بن [[امام کاظمؑ]]،<ref>الارشاد، مؤسسة آل البیت، مفید، ج2، ص351۔؛دانشنامه، ج5، ص75۔</ref> [[محمد بن شاذان نیشابوری]]،<ref>محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص93۔</ref> اور دسیوں دوسرے افراد۔<ref>رجوع کریں: محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص29-97۔</ref>


مفصل مضمون: [[نیابت کے دعویدار]]
مفصل مضمون: [[نیابت کے دعویدار]]
سطر 556: سطر 556:
بحیثیت مجموعی، [[زیدیہ]] میں [[مہدویت]] کا عقیدہ، مہدویتِ نوعیہ ہے۔ وہ سلسلۂ [[امامت]] کے آخری امام کو ـ جو پورے عالم کو عدل و انصاف سے پر کرے گا ـ مہدی موعود سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ہر سید جو لوگوں کو اپنی جانب بلائے اس کی پیروی کرنا لازمی ہے؛ ممکن ہے کہ وہی مہدی موعود ہو!<ref>[http://shabestan.ir/mobile/detail/news/450749 عقل‌گرایی زیدیه در انحراف از مهدویت (زیدیہ کی عقلیت، مہدویت سے انحراف میں)]۔</ref> اگر اس نے دنیا کو عدل و انصاف سے پر کیا تو اس کا موعود ہونا ثابت ہوجائے گا اور بصورت دیگر، امام منتظر کوئی دوسرا سید ہوگا۔<ref>[http://www.a.fahimco۔com/Post/Details/3121 جریان فکری سیاسی زیدیه (زیدیہ کا فکری اور سیاسی سلسلہ)]۔</ref>
بحیثیت مجموعی، [[زیدیہ]] میں [[مہدویت]] کا عقیدہ، مہدویتِ نوعیہ ہے۔ وہ سلسلۂ [[امامت]] کے آخری امام کو ـ جو پورے عالم کو عدل و انصاف سے پر کرے گا ـ مہدی موعود سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ہر سید جو لوگوں کو اپنی جانب بلائے اس کی پیروی کرنا لازمی ہے؛ ممکن ہے کہ وہی مہدی موعود ہو!<ref>[http://shabestan.ir/mobile/detail/news/450749 عقل‌گرایی زیدیه در انحراف از مهدویت (زیدیہ کی عقلیت، مہدویت سے انحراف میں)]۔</ref> اگر اس نے دنیا کو عدل و انصاف سے پر کیا تو اس کا موعود ہونا ثابت ہوجائے گا اور بصورت دیگر، امام منتظر کوئی دوسرا سید ہوگا۔<ref>[http://www.a.fahimco۔com/Post/Details/3121 جریان فکری سیاسی زیدیه (زیدیہ کا فکری اور سیاسی سلسلہ)]۔</ref>


تاریخ اسلام کی ابتداء سے [[زیدیہ]] کی بعض جماعتیں، مختلف تحریکوں میں مارے جانے والے اپنے بعض [[ا‏ئمہ]] کی [[مہدویت]] کا دعوی کرتی تھیں اور ان کا خیال تھا کہ یہ کسی دن پلٹ آئیں گے اور دنیا کو عدل و انصاف سے پر کریں گے۔ وہ [[زید بن علی]]،<ref>مجموع کتب ورسائل امام زید بن علی، ص360۔</ref><ref>مسعودی، علی بن حسین، مروج الذهب، ج3، ص230۔</ref><ref>العقد الثمین فی أحکام الأئمة الطاهرین، ص197۔</ref> [[نفس زکیہ]]،<ref> اصفهانی، ابوالفرج، مقاتل الطالبیین، ص207 و ص210ـ219۔</ref><ref>حمیری، نشوان بن سعید، رسالة الحور العین، ص39۔</ref><ref>حمیری، نشوان بن سعید، شرح رسالة الحور العین، ص156۔</ref><ref>منصور بالله، عبدالله بن حمزه، العقد الثمین فی أحکام الأئمة الطاهرین، ص422۔</ref><ref>اشعری، علی بن اسمعیل، مقالات الإسلامیین، ص67۔</ref> محمد بن قاسم بن علی بن عُمر بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب (متوفیٰ 219ھ ق)،<ref> مسعودی، علی بن حسین، مروج الذهب، ج4، ص61۔</ref><ref>حمیری، نشوان بن سعید، رسالة الحور العین، ص39۔</ref><ref>حمیری، نشوان بن سعید، شرح رسالة الحور العین، ص156۔</ref><ref>منصور بالله، عبدالله بن حمزه، الشافی، ج1، ص272و ص276۔</ref><ref>منصور بالله، عبدالله بن حمزه، العقد الثمین فی أحکام الأئمة الطاهرین، ص423۔</ref><ref>اشعری، علی بن اسمعیل، مقالات الإسلامیین، ص67۔</ref> یحیی بن عمر بن یحیی بن حسین بن زید بن علی بن الحسین (متوفیٰ 250ھ ق)،<ref>حمیری، نشوان بن سعید، رسالة الحور العین، ص39۔</ref><ref>حمیری، نشوان بن سعید، شرح رسالة الحور العین، ص156۔</ref><ref>منصور بالله، عبدالله بن حمزه، الشافی، ج1 ص286۔</ref><ref>منصور بالله، عبدالله بن حمزه، العقد الثمین فی أحکام الأئمة الطاهرین، ص423۔</ref><ref>اشعری، علی بن اسمعیل، مقالات الإسلامیین، ص67۔</ref> اور [[حسین بن قاسم عیانی]] (متوفیٰ 404ھ ق) کی مہدویت [مہدی ہونے] کا دعوی کرتے ہیں۔<ref>رجوع کریں: موسوی نژاد، سید علی، مهدویت و فرقه حسینیه زیدیه، هفت آسمان، ش 27، پاییز 1384ش، ص127 ـ 162۔</ref>
تاریخ اسلام کی ابتداء سے [[زیدیہ]] کی بعض جماعتیں، مختلف تحریکوں میں مارے جانے والے اپنے بعض [[ا‏ئمہ]] کی [[مہدویت]] کا دعوی کرتی تھیں اور ان کا خیال تھا کہ یہ کسی دن پلٹ آئیں گے اور دنیا کو عدل و انصاف سے پر کریں گے۔ وہ [[زید بن علی]]،<ref>مجموع کتب ورسائل امام زید بن علی، ص360۔؛مسعودی، علی بن حسین، مروج الذهب، ج3، ص230۔؛العقد الثمین فی أحکام الأئمة الطاهرین، ص197۔</ref> [[نفس زکیہ]]،<ref> اصفهانی، ابوالفرج، مقاتل الطالبیین، ص207 و ص210ـ219۔؛حمیری، نشوان بن سعید، رسالة الحور العین، ص39۔؛حمیری، نشوان بن سعید، شرح رسالة الحور العین، ص156۔؛منصور بالله، عبدالله بن حمزه، العقد الثمین فی أحکام الأئمة الطاهرین، ص422۔؛اشعری، علی بن اسمعیل، مقالات الإسلامیین، ص67۔</ref> محمد بن قاسم بن علی بن عُمر بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب (متوفیٰ 219ھ ق)،<ref> مسعودی، علی بن حسین، مروج الذهب، ج4، ص61۔؛حمیری، نشوان بن سعید، رسالة الحور العین، ص39۔؛حمیری، نشوان بن سعید، شرح رسالة الحور العین، ص156۔؛منصور بالله، عبدالله بن حمزه، الشافی، ج1، ص272و ص276۔؛منصور بالله، عبدالله بن حمزه، العقد الثمین فی أحکام الأئمة الطاهرین، ص423۔؛اشعری، علی بن اسمعیل، مقالات الإسلامیین، ص67۔</ref> یحیی بن عمر بن یحیی بن حسین بن زید بن علی بن الحسین (متوفیٰ 250ھ ق)،<ref>حمیری، نشوان بن سعید، رسالة الحور العین، ص39۔؛حمیری، نشوان بن سعید، شرح رسالة الحور العین، ص156۔؛منصور بالله، عبدالله بن حمزه، الشافی، ج1 ص286۔؛منصور بالله، عبدالله بن حمزه، العقد الثمین فی أحکام الأئمة الطاهرین، ص423۔؛اشعری، علی بن اسمعیل، مقالات الإسلامیین، ص67۔</ref> اور [[حسین بن قاسم عیانی]] (متوفیٰ 404ھ ق) کی مہدویت [مہدی ہونے] کا دعوی کرتے ہیں۔<ref>رجوع کریں: موسوی نژاد، سید علی، مهدویت و فرقه حسینیه زیدیه، هفت آسمان، ش 27، پاییز 1384ش، ص127 ـ 162۔</ref>


===اہل سنت===
===اہل سنت===
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
7,941

ترامیم