مندرجات کا رخ کریں

"محمد صلی اللہ علیہ و آلہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 121: سطر 121:
گوشہ نشینی کے ان ہی برسوں کے دوران ایک سال آپ حرا میں [[نبوت]] پر مبعوث ہوئے۔ حضرت محمدؐ فرماتے ہیں: [[جبرائیل]] میرے پاس آئے اور کہا: پڑھو۔ میں نے کہا: میں پڑھنا نہیں جانتا۔ جبرائیل نے ایک بار پھر کہا: پڑھو۔ میں نے کہا: کیا پڑھوں؟ جبرائیل نے کہا: <font color=green>{{حدیث|'''إقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ'''}}</font><ref>سورہ علق آیت 1</ref>(ترجمہ: پڑھئے اپنے پروردگار کے نام کے سہارے سے جس نے پیدا کیا۔ جیسا کہ مشہور ہے بعثت کے وقت رسول اللہؐ کی عمر چالیس سال ہو چکی تھی۔<ref>شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص41۔</ref>
گوشہ نشینی کے ان ہی برسوں کے دوران ایک سال آپ حرا میں [[نبوت]] پر مبعوث ہوئے۔ حضرت محمدؐ فرماتے ہیں: [[جبرائیل]] میرے پاس آئے اور کہا: پڑھو۔ میں نے کہا: میں پڑھنا نہیں جانتا۔ جبرائیل نے ایک بار پھر کہا: پڑھو۔ میں نے کہا: کیا پڑھوں؟ جبرائیل نے کہا: <font color=green>{{حدیث|'''إقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ'''}}</font><ref>سورہ علق آیت 1</ref>(ترجمہ: پڑھئے اپنے پروردگار کے نام کے سہارے سے جس نے پیدا کیا۔ جیسا کہ مشہور ہے بعثت کے وقت رسول اللہؐ کی عمر چالیس سال ہو چکی تھی۔<ref>شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص41۔</ref>


رسول خداؐ نبوت پر مبعوث ہونے والی [[سورہ علق]] کی ابتدائی آیات کریمہ کے نازل ہونے کے بعد اپنی خلوت گاہ سے مکہ اپنے گھر تشریف لائے۔ آپ کے گھر میں تین افراد: آپ کی زوجۂ مکرمہ سیدہ [[خدیجۂ کبری سلام اللہ علیہا|خدیجہ]]، آپ کے چچا زاد بھائی [[امام علی علیہ السلام|علی بن ابیطالب]] اور [[زید بن حارثہ]]تھے۔<ref>شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص41۔</ref> پیغمبرؐ نے توحید کی دعوت کا آغاز اپنے گھر سے کیا اور جو سب سے پہلے آپ پر ایمان لائے وہ آپ کی زوجہ مکرمہ سیدہ خدیجہ اور مردوں میں آپ کے چچا زاد بھائی علی بن ابیطالب(ئ) تھے جو اس وقت رسول اللہؐ کے زیر سرپرستی تھے۔<ref>ابن ہشام، السيرة النبويہ، ج1، ص262۔</ref> بعض روایات میں کہا گیا ہے کہ کہ [[ابوبکر]] اور زید بن حارثہ نے سب سے پہلے [[اسلام]] قبول کیا تھا۔<ref>ابن ہشام، السيرة النبويہ، ج1، ص264، 266۔</ref> (دیکھئے: [[سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے]])۔
رسول خداؐ نبوت پر مبعوث ہونے والی [[سورہ علق]] کی ابتدائی آیات کریمہ کے نازل ہونے کے بعد اپنی خلوت گاہ سے مکہ اپنے گھر تشریف لائے۔ آپ کے گھر میں تین افراد: آپ کی زوجۂ مکرمہ سیدہ [[خدیجۂ کبری سلام اللہ علیہا|خدیجہ]]، آپ کے چچا زاد بھائی [[امام علی علیہ السلام|علی بن ابیطالب]] اور [[زید بن حارثہ]]تھے۔<ref>شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص41۔</ref> پیغمبرؐ نے توحید کی دعوت کا آغاز اپنے گھر سے کیا اور جو سب سے پہلے آپ پر ایمان لائے وہ آپ کی زوجہ مکرمہ سیدہ خدیجہ اور مردوں میں آپ کے چچا زاد بھائی علی بن ابیطالب(ئ) تھے جو اس وقت رسول اللہؐ کے زیر سرپرستی تھے۔<ref>ابن ہشام، السيرة النبويہ، ج1، ص262۔</ref> بعض روایات میں کہا گیا ہے کہ کہ [[ابوبکر]] اور زید بن حارثہ نے سب سے پہلے [[اسلام]] قبول کیا تھا۔<ref>ابن ہشام، السيرة النبويہ، ج1، ص264، 266۔</ref>  
{{مزید|پہلا مسلمان}}


تاہم حاكم نیشابوری رقمطراز ہے: {{حدیث|'''"لا أعلم خلافاً بین أصحاب التواریخ أنّ علی بن أبی‏طالبؑ أوّلهم اًّسلاماً و اًّنّما اختلفوا فی بلوغه"۔'''}} (ترجمہ: اصحاب میں سب سے پہلے علی بن ابیطالبؑ کے اسلام لانے کے حوالے سے مؤرخین کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے تاہم انھوں نے اسلام لاتے وقت آپ کے بلوغ میں اختلاف کیا ہے)۔<ref>مستدرك علی الصحیحین، كتاب المعرفہ، ص22۔ رجوع کریں: تفسیر قرطبی، ج5، ص3075۔</ref> حالانکہ اگر [[امیرالمؤمنینؑ]] پر نابالغ ہونے کے حوالے سے ہونے والے اعتراض کو درست مانا جائے تو حقیقت میں اسے رسول اللہؐ پر اعتراض گردانا جائے گا کیونکہ آپؐ نے "یوم الدار" کے موقع پر اپنے خاندان اور قبیلے کو [[اسلام]] کی دعوت دی اور امیرالمؤمنینؑ کے سوا کسی نے بھی یہ دعوت قبول نہیں کی؛ علی اٹھے اور اپنے ایمان و اسلام کا اعلان کیا اور رسول خداؐ نے نہ صرف آپ کے اسلام کو قابل قبول قرار دیا بلکہ اعلان کیا کہ "اے علی تم میرے بھائی اور وصی اور میرے بعد میرے خلیفہ اور جانشین ہو۔ اور حاضرین سے بھی کہا کہ ان کی بات سنو اور اطاعت کرو۔<ref>فقیہ برهان الدین، انباء نجباء الابناء 46ـ48،ابن کثیر، السيرة النبويہ، ج1، ص455-456،الخفاجی، "شرح الشفاء"، قاضی عیاض۔ ج3، ص37،الطبری، تاریخ الامم والملوك، ج2، ص217-216،ابو جعفر الاسكافی، نقض العثمانیہ، فقیہ برہان الدین، انباء نجباء الابناء ص46ـ48،ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج1، ص586،الخفاجی، شرح الشفاء قاضی عیاض، ج3، ص37،علاء الدين بغدادی، لباب التأویل (تفسير الخازن)، ج1، ص459، سیوطی، جمع الجوامع، ج6، ص392 بحوالہ طبری جنہوں نے یہ حدیث چھ حافظین حدیث سے نقل کی ہے: ابن اسحاق، ابن جریر، ابن ابی‌ حاتم، ابن مردویہ، ابی نعیم اور البیہقی،ابن ابی‌ الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج3، ص263۔254، احمد حنبل، المسند ج1، ص111 صحیح اسناد کے حوالے سے، مزید تفصیل کے لئے رجوع کریں: علامہ عبد الحسین امینی، ج2 ص 279 ـ280،الطبری، تاریخ الامم والملوك، ج2، ص217،رسولی محلاتی، ﺩﺭس ھﺎﯾﯽ ﺍﺯ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺗﺤﻠﯿﻠﯽ ﺍﺳﻼﻡ، ج3، ص32 بحوالہ الاسکافی: نقض العثمانیہ۔</ref>
تاہم حاكم نیشابوری رقمطراز ہے: {{حدیث|'''"لا أعلم خلافاً بین أصحاب التواریخ أنّ علی بن أبی‏طالبؑ أوّلهم اًّسلاماً و اًّنّما اختلفوا فی بلوغه"۔'''}} (ترجمہ: اصحاب میں سب سے پہلے علی بن ابیطالبؑ کے اسلام لانے کے حوالے سے مؤرخین کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے تاہم انھوں نے اسلام لاتے وقت آپ کے بلوغ میں اختلاف کیا ہے)۔<ref>مستدرك علی الصحیحین، كتاب المعرفہ، ص22۔ رجوع کریں: تفسیر قرطبی، ج5، ص3075۔</ref> حالانکہ اگر [[امیرالمؤمنینؑ]] پر نابالغ ہونے کے حوالے سے ہونے والے اعتراض کو درست مانا جائے تو حقیقت میں اسے رسول اللہؐ پر اعتراض گردانا جائے گا کیونکہ آپؐ نے "یوم الدار" کے موقع پر اپنے خاندان اور قبیلے کو [[اسلام]] کی دعوت دی اور امیرالمؤمنینؑ کے سوا کسی نے بھی یہ دعوت قبول نہیں کی؛ علی اٹھے اور اپنے ایمان و اسلام کا اعلان کیا اور رسول خداؐ نے نہ صرف آپ کے اسلام کو قابل قبول قرار دیا بلکہ اعلان کیا کہ "اے علی تم میرے بھائی اور وصی اور میرے بعد میرے خلیفہ اور جانشین ہو۔ اور حاضرین سے بھی کہا کہ ان کی بات سنو اور اطاعت کرو۔<ref>فقیہ برهان الدین، انباء نجباء الابناء 46ـ48،ابن کثیر، السيرة النبويہ، ج1، ص455-456،الخفاجی، "شرح الشفاء"، قاضی عیاض۔ ج3، ص37،الطبری، تاریخ الامم والملوك، ج2، ص217-216،ابو جعفر الاسكافی، نقض العثمانیہ، فقیہ برہان الدین، انباء نجباء الابناء ص46ـ48،ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج1، ص586،الخفاجی، شرح الشفاء قاضی عیاض، ج3، ص37،علاء الدين بغدادی، لباب التأویل (تفسير الخازن)، ج1، ص459، سیوطی، جمع الجوامع، ج6، ص392 بحوالہ طبری جنہوں نے یہ حدیث چھ حافظین حدیث سے نقل کی ہے: ابن اسحاق، ابن جریر، ابن ابی‌ حاتم، ابن مردویہ، ابی نعیم اور البیہقی،ابن ابی‌ الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج3، ص263۔254، احمد حنبل، المسند ج1، ص111 صحیح اسناد کے حوالے سے، مزید تفصیل کے لئے رجوع کریں: علامہ عبد الحسین امینی، ج2 ص 279 ـ280،الطبری، تاریخ الامم والملوك، ج2، ص217،رسولی محلاتی، ﺩﺭس ھﺎﯾﯽ ﺍﺯ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺗﺤﻠﯿﻠﯽ ﺍﺳﻼﻡ، ج3، ص32 بحوالہ الاسکافی: نقض العثمانیہ۔</ref>
confirmed، templateeditor
5,869

ترامیم