"آیت انفال" کے نسخوں کے درمیان فرق
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 42: | سطر 42: | ||
* کتاب مجمع البیان طبرسی اور التبیان شیخ طوسی کے مطابق آیہ انفال اس وقت نازل ہوئی جب مہاجرین میں سے ایک گروہ نے اپنے اموال کا خمس ادا کرنے سے انکار کیا۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۴، ص۷۹۷؛ طوسی، التبیان، بیروت، ج۵، ص۷۲۔</ref> | * کتاب مجمع البیان طبرسی اور التبیان شیخ طوسی کے مطابق آیہ انفال اس وقت نازل ہوئی جب مہاجرین میں سے ایک گروہ نے اپنے اموال کا خمس ادا کرنے سے انکار کیا۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۴، ص۷۹۷؛ طوسی، التبیان، بیروت، ج۵، ص۷۲۔</ref> | ||
== آیہ خمس کے ذریعے نسخ نہ ہونا == | == آیہ خمس کے ذریعے نسخ نہ ہونا == | ||
[[التبیان فی تفسیر القرآن (کتاب)|تفسیر تبیان]] میں [[شیخ طوسی]] کے مطابق بعض [[اہل سنت]] مفسرین من جملہ [[مجاہد بن جبر]] (۲۱-۱۰۴ھ) جو تفسیر میں [[عبداللہ بن عباس|ابن عباس]] کے شاگرد ہیں اور معتزلی متکلم ابوعلی جبایی (۲۳۵-۳۰۳ھ) اس بات کے معتقد ہیں کہ سورہ انفال کی پہلی آیت، [[آیہ خمس]] کے ذریعے نَسخ ہوئی ہے۔<ref>شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج۵، ص۷۳-۷۴۔</ref> لیکن دوسرے شیعہ و سنی مفسرین اس [[نسخ]] کو قبول نہیں کرتے ہیں۔<ref>شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج۵، ص۷۴۔</ref> | |||
شیخ طوسی | شیخ طوسی بھی آیہ انفال کے نسخ کو قبول نہیں کرتے، کیونکہ آپ کے مطابق نسخ کو قبول کرنا دلیل کا محتاج ہے جو یہاں مفقود ہے اس کے علاوہ مذکورہ دو آیتوں میں کوئی تنافی اور تضاد نہیں ہے جس کی وجہ سے ایک کے ذریعے دوسرے کو نسخ کرنا ضروری ہو۔<ref>شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج۵، ص۷۴۔</ref> اسی طرح [[فضل بن حسن طبرسی]]، [[ناصر مکارم شیرازی|آیت اللہ مکارم شیرازی]] اور [[سید محمدحسین طباطبائی|علامہ طباطبایی]] جیسے مفسرین بھی ان دو آیتوں کے درمیان کسی قسم کی تنافی۔<ref>طبرسی، مجمعالبیان، ۱۳۷۲ش، ج۴، ص۷۹۸؛ طوسی، التبیان، بیروت، ج۵، ص۷۳-۷۴؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۷، ص۸۱-۸۲، طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۹، ص۹-۱۰۔</ref> | ||
[[علامہ طباطبایی]] معتقد | [[علامہ طباطبایی]] اس بات کے معتقد ہیں کہ سورہ انفال کی آیت نمبر 41 جو آیہ خمس کے نام سے مشہور ہے، حقیقت میں اس کی پہلی آیت کی تبیین و تفسیر ہے؛ کیونکہ پہلی آیت میں میں [[انفال]] کی ملکیت میں موجود ابہام حل ہو گیا ہے: وہ اس طرح کہ انفال کسی کس ملکیت نہیں ہے اور جنگی غنائم بھی انفال کے مصادیق میں سے ہے جو خدا اور اس کے رسول کی ملکیت ہے، لیکن آیت نمبر 41 میں غنائم کے پانچ میں سے چوتھے حصے میں مسلمانوں کو تصرف کی اجازت دیتے ہیں اور ایک حصے کو خدا اور اس کے رسول سے مختص قرار دیتی ہے۔<ref>علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۹، ص۹-۱۰۔</ref> علامہ طباطبایی کے مطابق اس تفسیر کے ساتھ ان دو آیتوں میں کوئی تضاد یا تنافی نہیں پائی جاتی جب ایسا ہے تو ان کے [[نسخ]] کی کوئی ضرورت پیش نہیں آتی۔<ref>علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۹، ص۹-۱۰۔</ref> | ||
==حوالہ جات== | ==حوالہ جات== |