مندرجات کا رخ کریں

"سب علی" کے نسخوں کے درمیان فرق

440 بائٹ کا اضافہ ،  7 مارچ 2019ء
م
جزوی
imported>Abbasi
imported>Abbasi
م (جزوی)
سطر 1: سطر 1:
{{زیر تعمیر}}
{{زیر تعمیر}}
'''سَبّ علی''' [[حضرت علی]] کو ناسزا کہنا اور ان پر [[لعن]] کرنے کے معنا میں ہے کہ جس کی بنیاد  [[معاویہ بن ابی‌ سفیان]] رکھی۔ [[بنی‌امیہ]] کے حکمران اور پیروکار حکومتی سطح پر منبروں سے حضرت علی کو ناسزا کہتے اور ان پر لعن کرتے تھے جبکہ حضرت علی اپنے ساتھیوں کو معاویہ اور اس کے ساتھیوں کو گالی گلوچ سے منع کرتے تھے۔
'''سَبّ علی''' [[حضرت علی]] کو برا بھلا  اور  ناسزا کہنا اور ان پر [[لعن]] کرنے کے معنا میں ہے کہ جس کی بنیاد  [[معاویہ بن ابی‌ سفیان]] رکھی۔ [[بنی‌امیہ]] کے حکمران اور پیروکار حکومتی سطح پر منبروں سے حضرت علی کو ناسزا کہتے اور ان پر لعن کرتے تھے جبکہ حضرت علی اپنے ساتھیوں کو معاویہ اور اس کے ساتھیوں کو گالی گلوچ سے منع کرتے تھے۔
۔ دشنام طرازی اور لعن و تشنیع کا یہ عمل ساٹھ سال کے قریب جاری رہا۔ [[عمر بن عبدالعزیز]] نے آ کر اس سلسلے کو روکا  
دشنام طرازی اور لعن و تشنیع کا یہ عمل ساٹھ سال کے قریب تک جاری رہا اور  [[عمر بن عبدالعزیز]] نے آ کر اس سلسلے کو روکا  
معاویہ، [[مروان بن حکم]]، [[مغیرة  بن شعبہ]] اور [[حجاج بن یوسف ثقفی]] بنی امیہ کے ان حاکموں میں سے تھے جو بر سر منبر حضرت علی کو برا بھلا کہتے تھے۔ اسی طرح  [[عطیہ بن سعد بن جناده عوفی|عطیہ بن سعد]] نے حضرت علی کو نا سزا کہنے سے انکار  کیا تو اسے حجاج کی طرف سے سزا دی گئی۔
معاویہ، [[مروان بن حکم]]، [[مغیرة  بن شعبہ]] اور [[حجاج بن یوسف ثقفی]] بنی امیہ کے ان حاکموں میں سے تھے جو بر سر منبر [[امام علی علیہ السلام|حضرت علی]] کو برا بھلا کہتے تھے۔ اسی طرح  [[عطیہ بن سعد بن جناده عوفی|عطیہ بن سعد]] نے حضرت علی کو نا سزا کہنے سے انکار  کیا تو اسے حجاج کی طرف سے سزا دی گئی۔
==معنا==
==معنا==
{{اصلی|لعن}}
{{اصلی|لعن}}
«سب»  فحش و ناسزا کہنے کے معنا میں ہے۔<ref>طریحی، مجمع البحرین، ۱۳۷۵ش، ج۲، ص۷۹.</ref> بعض لغویوں کے نزدیک انسانوں کے توسط سے  لعن کرنا سب کے ہم ردیف ہے۔<ref>ابن اثیر جزری، النہایۃ، ۱۳۶۷ش، ج۵، ص۲۵۵.</ref> اس بنا پر  سب کا معنا برا کلام  بیان کرنا ہے اور  لعن رحمت الہی سے دور کرنا ہے۔<ref>فخلعی، مجموعہ گفتمان‌ہای مذاہب اسلامی، ۱۳۸۳ش، ص۲۹۹.</ref> جبکہ بعض  لعن کو  سب کا ہم معنا سمجھتے ہیں۔<ref> بستانی، فرہنگ ابجدی، ۱۳۷۵ش، ص۷۵۶.</ref>
«سب»  فحش و ناسزا کہنے کے معنا میں ہے۔<ref>طریحی، مجمع البحرین، ۱۳۷۵ش، ج۲، ص۷۹.</ref> بعض لغویوں کے نزدیک انسانوں کے توسط سے  لعن کرنا سبّ کا ہم ردیف ہے۔<ref>ابن اثیر جزری، النہایۃ، ۱۳۶۷ش، ج۵، ص۲۵۵.</ref> اس بنا پر  سبّ کا معنا برا کلام  بیان کرنا ہے اور  لعن رحمت الہی سے دور کرنا ہے۔<ref>فخلعی، مجموعہ گفتمان‌ہای مذاہب اسلامی، ۱۳۸۳ش، ص۲۹۹.</ref> جبکہ بعض  لعن کو  سب کا ہم معنا سمجھتے ہیں۔<ref> بستانی، فرہنگ ابجدی، ۱۳۷۵ش، ص۷۵۶.</ref>


[[شہید ثانی]]  [[امام سجاد علیہ السلام|امام سجاد(ع)]] کی روایت اور ازواج علی میں سے ایک بیوی کی جانب سے آپ کو دینے کی وجہ سے طلاق دینے کی بنا پر اسے ناصبیت کے مصادیق میں سے سمجھتے ہیں۔<ref>شہید ثانی، تہذیب الاحکام، ج۷، ص۳۰۳، بہ نقل از: بلقان‌آبادی، شواہد نصب در آثار بخاری، ص۷۹.</ref> [[جعفر سبحانی]] معاویہ کی جانب سے  حضرت عکی کو دشنام طرازی کی بنیاد رکھنے کو مسلمانوں کے درمیان ناصبیت کے رواج کا اصل منشا و سبب سمجھتے ہیں۔<ref>سبحانی، گزیدہ سیمای عقاید شیعہ، ۱۳۸۷ش، ص۱۳.</ref>
[[شہید ثانی]]  [[امام سجاد علیہ السلام|امام سجادؑ]]کی روایت اور ازواج علی میں سے ایک بیوی کی جانب سے آپ کو سب کرنے  کی وجہ سے طلاق دینے کی بنا پر اسے ناصبیت کے مصادیق میں سے سمجھتے ہیں۔<ref>شہید ثانی، تہذیب الاحکام، ج۷، ص۳۰۳، بہ نقل از: بلقان‌آبادی، شواہد نصب در آثار بخاری، ص۷۹.</ref> [[جعفر سبحانی]] معاویہ کی جانب سے  حضرت علی کو دشنام طرازی کی بنیاد رکھنے کو مسلمانوں کے درمیان ناصبیت کے رواج کا اصل منشا و سبب سمجھتے ہیں۔<ref>سبحانی، گزیدہ سیمای عقاید شیعہ، ۱۳۸۷ش، ص۱۳.</ref>


==تاریخچہ==
==تاریخچہ==
حضرت علی پر سب و لعن بنی معاویہ کے وسیلے سے شروع ہوا اور حضرت علی کے زمانے میں ہی اس کا آغاز ہو گیا یہاں تک کہ تاریخی روایات کے مطابق معاویہ اور حضرت امام حسن کے درمیان صلح کی شرائط میں ایک شرط یہ رکھی گئی تھی کہ منبروں سے حضرت علی پر لعن و سب نہیں کی جائے گی۔<ref>طبرسی، إعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۰۶.</ref> تاریخی مآخذوں میں حضرت علی کو سب کرنے والوں  میں معاویہ، [[مروان بن حکم]] اور [[مغیرۃ بن شعبہ]] کے نام مذکور ہیں۔<ref>طبری، تاریخ الطبری، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص۲۵۳؛ بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۵، ص۲۴۳.</ref> فضائل امام علی کے نقل کرنے پر عمومی پابندی، ان سے نقل روایت کی ممنوعیت، حضرت علی کو اچھے الفاظ سے یاد کرنے سے روکنا اور بیٹوں کے نام علی رکھنے سے روکنا ان دیگر اقدامات میں سے ہیں جو امام علی کے خلاف نافذ کئے گئے۔<ref>نگاہ کنید بہ: محمدی ری‌شہری، دانش‌نامہ امیر المؤمنین، ۱۴۲۸ق، ص۴۷۵-۴۸۳.</ref>
حضرت علی پر سب و لعن بنی معاویہ کے وسیلے سے شروع ہوا اور [[امام علی علیہ السلام|حضرت علی]] کے زمانے میں ہی اس کا آغاز ہو گیا تھا۔ تاریخی روایات کے مطابق [[معاویہ بن ابی سفیان|معاویہ]] اور [[صلح امام حسن علیہ السلام|حضرت امام حسن]] کے درمیان صلح کی شرائط میں ایک شرط یہ رکھی گئی تھی کہ منبروں سے حضرت علی پر لعن و سبّ نہیں کیا جائے گا۔<ref>طبرسی، إعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۰۶.</ref> تاریخی مصادر میں حضرت علی کو سب کرنے والوں  میں معاویہ، [[مروان بن حکم]] اور [[مغیرۃ بن شعبہ]] کے نام مذکور ہیں۔<ref>طبری، تاریخ الطبری، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص۲۵۳؛ بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۵، ص۲۴۳.</ref> فضائل امام علی کے نقل کرنے پر عمومی پابندی، ان سے نقل روایت کی ممنوعیت، حضرت علی کو اچھے الفاظ سے یاد کرنے سے روکنا اور بیٹوں کے نام علی رکھنے سے منع کرناان دیگر اقدامات میں سے ہیں جو امام علی کے خلاف کئے گئے۔<ref>نگاہ کنید بہ: محمدی ری‌شہری، دانش‌نامہ امیر المؤمنین، ۱۴۲۸ق، ص۴۷۵-۴۸۳.</ref>


[[امام علی(ع)|امام علیؑ]] کو سبّ کرنے کا یہ سلسلہ  تقریبا ساٹھ سال [[عمر بن عبدالعزیز]] ([[سال ۹۹ قمری|۹۹]]-[[سال ۱۰۱ قمری|۱۰۱ق]])  کی خلافت کے زمانے تک جاری رہا۔ اسنے خلافت ملنے کے بعد اپنے تمام والیوں کو سب علی منع کرنے کا حکم صادر کیا۔ چنانکہ  آٹھویں صدی ہجری  کا مؤرخ [[ابن خلدون]] نقل کرتا ہے :بنی‌امیہ مسلسل  علی  کو لعن کرتے تھے یہاں تک  عمر بن عبدالعزیز نے تمام اسلامی علاقوں میں خطوط لکھ کر اسے روکنے کا حکم دیا۔ <ref>ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، ۱۴۰۸ق، ج۳، ص۹۴.</ref> اکثر روائی کتب میں میں ام‌سلمہ سے مروی روایت پیغمبر  کے مطابق  علی کو سب کرنا کہنا مجھے سب کرنا کہنا ہے  اور دیگر نسخوں میں خدا کو سب کرنے کے مترادف ہے۔<ref>سید بن طاووس، بناء المقالۃ الفاطمیۃ، ۱۴۱۱ق، ص۲۱۲؛ ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ۱۴۱۷ق، ج۴۲، ص۵۳۳.</ref> [[محمدباقر مجلسی|علامہ مجلسی]] نے [[بحار الانوار (کتاب)|بحار  الانوار]] میں ام سلمی سے مروی روایت کے  علاوہ دیگر روایات بھی  اس مورد میں نقل کی ہیں۔<ref>نگاہ کنید بہ: علامہ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۳۹، ص۳۱۱-۳۳۰.</ref>
[[امام علی(ع)|امام علیؑ]] کو سبّ کرنے کا یہ سلسلہ  تقریبا ساٹھ سال [[عمر بن عبدالعزیز]] ([[سال ۹۹ قمری|۹۹]]-[[سال ۱۰۱ قمری|۱۰۱ق]])  کی خلافت کے زمانے تک جاری رہا۔ اسنے خلافت ملنے کے بعد علی پر سب و شتم اور لعن رکوانے کیلئے  اپنے تمام والیوں کو حکم صادر کیا۔ چنانکہ  آٹھویں صدی ہجری  کا مؤرخ [[ابن خلدون]] نقل کرتا ہے :بنی‌امیہ مسلسل  [[امام علی علیہ السلام|علی]] کو لعن کرتے تھے یہاں تک  عمر بن عبدالعزیز نے تمام اسلامی علاقوں میں خطوط لکھ کر اسے روکنے کا حکم دیا۔ <ref>ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، ۱۴۰۸ق، ج۳، ص۹۴.</ref> اکثر روائی کتب میں میں ام‌سلمہ سے مروی روایت پیغمبر  کے مطابق  علی کو گالی دینا مجھے گالی دینا  ہے  اور دیگر نسخوں میں اسے  خدا کو سب کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔<ref>سید بن طاووس، بناء المقالۃ الفاطمیۃ، ۱۴۱۱ق، ص۲۱۲؛ ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ۱۴۱۷ق، ج۴۲، ص۵۳۳.</ref> [[محمدباقر مجلسی|علامہ مجلسی]] نے [[بحار الانوار (کتاب)|بحار  الانوار]] میں ام سلمی سے مروی روایت کے  علاوہ دیگر روایات بھی  اس مورد میں نقل کی ہیں۔<ref>نگاہ کنید بہ: علامہ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۳۹، ص۳۱۱-۳۳۰.</ref>


===معاویہ===
===معاویہ===
معاویہ کی طرف سے امام علی کو لعن و سبّ کرنے کی روایات مذکور ہیں۔ جیسا کہ چوتھی صدی کے مؤرخ طبری کے مطابق جب  معاویہ نے [[سال ۴۱ ہجری قمری]] میں [[مغیرۃ بن شعبہ]] کو [[کوفہ]] کا والی مقرر کیا تو اس سے تقااضا کیا کہ وہ علی کے بارے میں بدزبانی اور  [[عثمان]] کی عظمت کے بیان کرنے پر عمل کرے۔<ref>طبری، تاریخ الطبری، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص۲۵۳.</ref> نیز اس نے مغیرۃ بن شعبہ  کو [[اصحاب امام علی]] کی تبعید کا توصیہ کیا۔<ref>طبری، تاریخ الطبری، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص۲۵۳؛ ذہبی، تاریخ الإسلام، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۲۳۱؛ </ref>  
معاویہ کی طرف سے امام علی کو لعن و سبّ کرنے کی روایات مذکور ہیں۔ جیسا کہ چوتھی صدی کے مؤرخ طبری کے مطابق جب  معاویہ نے [[سال ۴۱ ہجری قمری]] میں [[مغیرۃ بن شعبہ]] کو [[کوفہ]] کا والی مقرر کیا تو اس نے  علی کو برا بھلا کہنے  کا تقاضا کیا اور  [[عثمان]] کی عظمت کے بیان کرنے پر زیادہ  دباؤ ڈالا۔<ref>طبری، تاریخ الطبری، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص۲۵۳.</ref> نیز اس نے مغیرۃ بن شعبہ  کو [[اصحاب امام علی]] کے شہر بدر کرنے کا توصیہ کیا۔<ref>طبری، تاریخ الطبری، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص۲۵۳؛ ذہبی، تاریخ الإسلام، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۲۳۱؛ </ref>  


اسی طرح معاویہ نے [[نخیلہ]] میں  امام حسنؑ سے صلح کے بعد لوگوں سے [[بیعت]] کے موقع پر اپنے خطبے میں [[امام علی]] اور [[امام حسن(ع)]] کو برا بھلا کہا۔<ref>الحسینی الموسوی الحائری الکرکی، تسلیۃ المجالس و زینۃ المجالس، ۱۴۱۸ق، ج۲، ص۵۱-۵۲؛ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۱۹ق، ص۷۸.</ref>
اسی طرح معاویہ نے [[نخیلہ]] میں  امام حسنؑ سے صلح کے بعد لوگوں سے [[بیعت]] کے موقع پر اپنے خطبے میں [[امام علی]] اور [[امام حسن(ع)]] کو برا بھلا کہا۔<ref>الحسینی الموسوی الحائری الکرکی، تسلیۃ المجالس و زینۃ المجالس، ۱۴۱۸ق، ج۲، ص۵۱-۵۲؛ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۱۹ق، ص۷۸.</ref>


===مروان بن حکم===
===مروان بن حکم===
اہل سنت تاریخ نویس ذہبی کے مطابق  [[مروان بن حکم]]  ۴۱ہ میں حاکم مدینہ بنا اور چھ سال تک باقی رہا وہ نماز جمعہ میں منبر پر حضرت علی کو سبّ  کرتا تھا۔ اس کے بعد  [[سعید بن عاص]] دو سال کیلئے والی بنا تو وہ سبّ نہیں کرتا تھا۔ سعید بن عاص کے بعد دوبارہ  مروان حاکم بنا تو اس نے پھر امام علی کو سب کرنا شروع کر دیا۔<ref>ذہبی، تاریخ الإسلام، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۲۳۱.</ref>
اہل سنت تاریخ نویس ذہبی کے مطابق  [[مروان بن حکم]]  ۴۱ہجری قمری میں چھ سال تک مدینہ کا حاکم  رہا ۔ وہ [[نماز جمعہ]] میں منبر پر حضرت علی کو سبّ  کرتا تھا۔ اس کے بعد  [[سعید بن عاص]] دو سال کیلئے والی بنا تو وہ سبّ نہیں کرتا تھا۔ سعید بن عاص کے بعد دوبارہ  مروان حاکم بنا تو اس نے پھر امام علی کو سب کرنا شروع کر دیا۔<ref>ذہبی، تاریخ الإسلام، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۲۳۱.</ref>


===مغیرۃ بن شعبہ===
===مغیرۃ بن شعبہ===
تیسری صدی کا مصنف بلاذری کتاب أنساب الأشراف میں  مغیرۃ بن شعبہ کے متعلق نقل کرتا ہے کہ وہ ۹ سال تک معاویہ کی طرف سے والی کوفہ رہا اسے اچھے الفاظ سے یاد کرتا ہے لیکن صرف ایک اعتراض کے طور اس کی طرف سے علی کو برا بھلا کہنا اور سبّ کرنے کو ذکر کرتا ہے۔<ref> بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۵، ص۲۴۳.</ref>
تیسری صدی کا مصنف بلاذری کتاب أنساب الأشراف میں  مغیرۃ بن شعبہ کے متعلق نقل کرتا ہے کہ وہ ۹ سال تک معاویہ کی طرف سے والی کوفہ رہا ۔ وہ اسے اچھے الفاظ سے یاد کرتا ہے لیکن اس کی طرف سے علی کو برا بھلا کہے جانے کو ایک اعتراض کے طور پر  ذکر کرتا ہے۔<ref> بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۵، ص۲۴۳.</ref>


===حجاج بن یوسف===
===حجاج بن یوسف===
[[ابن ابی الحدید]] کے [[شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید)|شرح نہج البلاغہ]] میں منقول بیان کے مطابق [[حجاج بن یوسف]] خود علی پر لعن کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی اس کا حکم دیتا  اور اس سے خوشحال ہوتا۔<ref>ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، ۱۴۰۴ق، ج۴، ص۵۸.</ref> چنانچہ ایک شخص نے اسے کہا: میرے گھر والوں نے میرے حق میں ظلم کرتے ہوئے میرا نام علی رکھا پس تم میرا نام تبدیل کرو اور مجھے انعام سے نوازو کہ میں اس کے ساتھ زندگی گزاروں کیونکہ میں فقیر ہوں۔حجاج نے کہا: میں نے تمہارا یہ نام رکھا اور فلاں کام تمہارے سپرد کیا۔<ref>ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، ۱۴۰۴ق، ج۴، ص۵۸.</ref>
[[ابن ابی الحدید]] کے [[شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید)|شرح نہج البلاغہ]] میں منقول بیان کے مطابق [[حجاج بن یوسف]] خود علی پر لعن کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی اس کا حکم دیتا  اور اس سے خوشحال ہوتا۔<ref>ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، ۱۴۰۴ق، ج۴، ص۵۸.</ref> چنانچہ ایک شخص نے اسے کہا: میرے گھر والوں نے میرے حق میں ظلم کرتے ہوئے میرا نام علی رکھا پس تم میرا نام تبدیل کرو اور مجھے انعام سے نوازو کہ میں اس کے ساتھ اپنی گزر اوقات کر سکوں کیونکہ میں فقیر ہوں۔حجاج نے کہا: میں نے تمہارافلاں  نام رکھا اور فلاں کام تمہارے سپرد کیا۔<ref>ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، ۱۴۰۴ق، ج۴، ص۵۸.</ref>


دیگر روایات میں آیا ہے کہ حجاج سب علی کو فضیلت سمجھتا تھا۔<ref>عسکری، ترجمہ معالم المدرستین، ۱۳۸۶ش، ج۱، ص۴۱۵-۴۱۶.</ref>  [[عطیہ بن سعد بن جنادہ عوفی|عطیۃ بن سعد بن جنادۃ کوفی]] کے حالات میں آیا ہے: حجاج نے اسے کہا تم علی کو سبّ کرو ورنہ تمہیں ۴۰۰  شلاق (کوڑے) لگائیں جائیں گے۔ لیکن عطیہ نے اسے قبول نہیں کیا لہذا ۴۰۰ کوڑے مارے نیز اس کی ڈاڑھی اور سر کے بال مونڈھ دئے گئے۔<ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۶، ص۳۰۵.</ref>
دیگر روایات میں آیا ہے کہ حجاج کے نزدیک  علی کو گالیاں دینا  فضیلت تھی۔<ref>عسکری، ترجمہ معالم المدرستین، ۱۳۸۶ش، ج۱، ص۴۱۵-۴۱۶.</ref>  [[عطیہ بن سعد بن جنادہ عوفی|عطیۃ بن سعد بن جنادۃ کوفی]] کے حالات میں آیا ہے: حجاج نے اسے کہا تم علی کو سبّ کرو ورنہ تمہیں ۴۰۰  شلاق (کوڑے) لگائیں جائیں گےلیکن عطیہ نے اسے قبول نہیں کیا لہذا ۴۰۰ کوڑے مارے نیز اس کی ڈاڑھی اور سر کے بال مونڈھ دئے گئے۔<ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۶، ص۳۰۵.</ref>


==سبّ معاویہ پر امام علی کی مخالفت==
==سبّ معاویہ پر امام علی کی مخالفت==
معاویہ کی جانب سے منبروں سے [[امام علیؑ]] کو سب کرنے کے حکم سے پہلے  [[جنگ صفین]] میں اپنے اصحاب کو علی بن ابی‌ طالب نے معاویہ کو سب کرنے اور برا بھلا کہنے سے منع کیا اور  اس عمل  کی مخالفت کی۔ <ref>دینوری، الأخبار الطوال، ۱۳۶۸ش، ص۱۶۵.</ref> حضرت علی کی سپاہ میں سے [[حجر بن عدی]] اور [[عمرو بن حمق]] معاویہ اور اہل شام پر [[لعنت]]  کی تو امام نے انہیں ایسا کرنے سے روکا نیز کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ کے استفسار کے جواب میں فرمایا: ہم حق پر ہیں لیکن میں تمہارے لعن و دشنام کرنے کو پسند نہیں کرتا ہوں۔ امام علیؑ نے مزید فرمایا: وہ خدا سے ان کے خون اور اپنے خون کے حفظ و امان کے طلبگار ہوں نیز ہمارے درمیان صلح قائم ہو جائے اور خدا انہیں گمراہی سے نجات دے تا کہ جس نے بھی حق نہیں پہچانا ہے اسے حق پہچاننے کی توفیق دے اور جو کوئی بھی باطل پر مصر ہو اس سے اپنا ہاتھ اٹھا لے۔<ref>دینوری، الأخبار الطوال، ۱۳۶۸ش، ص۱۶۵.</ref>
[[معاویہ بن ابی سفیان|معاویہ]] کی جانب سے منبروں پر [[امام علیؑ]] کو سبّ کرنے کے حکم سے پہلے   حضرت علی نے  اپنے اصحاب کو[[جنگ صفین]] میں معاویہ کو سب کرنے اور برا بھلا کہنے سے منع کیا اور  اس عمل  کی مخالفت کی۔ <ref>دینوری، الأخبار الطوال، ۱۳۶۸ش، ص۱۶۵.</ref> حضرت علی کی سپاہ میں سے [[حجر بن عدی]] اور [[عمرو بن حمق]] نے  [[معاویہ بن ابی سفیان|معاویہ]] اور اہل شام پر [[لعنت]]  کی تو امام نے انہیں ایسا کرنے سے روکا نیز ان کی طرف سے  کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ کے استفسار کے جواب میں فرمایا: ہم حق پر ہیں لیکن میں تمہارے لعن و دشنام کرنے کو پسند نہیں کرتا ہوں۔ امام علیؑ نے مزید فرمایا: وہ [[خدا]] سے ان کے خون اور اپنے خون کے حفظ و امان کے طلبگار ہوں نیز ہمارے درمیان صلح قائم ہو اور خدا انہیں گمراہی سے نجات دے تا کہ جس نے بھی حق نہیں پہچانا ہے وہ حق پہچان لے  اور جو کوئی بھی باطل پر اصرار کرتا ہے  اس سے اپنا ہاتھ اٹھا لے۔<ref>دینوری، الأخبار الطوال، ۱۳۶۸ش، ص۱۶۵.</ref>


== متعلقہ رابط==
== متعلقہ رابط==
گمنام صارف