مندرجات کا رخ کریں

"نفس المہموم (کتاب)" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>E.musavi
imported>E.musavi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 36: سطر 36:
==تالیف کتاب کا مقصد==
==تالیف کتاب کا مقصد==


شیخ عباس قمی نے اپنی اس کتاب نفس المہموم کی تالیف کا مقصد [[امام حسین علیہ السلام]] کے سلسلہ میں معتبر روایات کی مدد سے مختصر مقتل کی جمع آوری بیان کیا ہے اور انہوں نے اس کام کو اپنی آخری آرزو قرار دیا ہے۔
شیخ عباس قمی نے اپنی اس کتاب نفس المہموم کی تالیف کا مقصد [[امام حسین علیہ السلام]] کے سلسلہ میں معتبر روایات کی مدد سے مختصر مقتل کی جمع آوری بیان کیا ہے اور انہوں نے اس کام کو اپنی آخری آرزو قرار دیا ہے۔<ref>قمی، نفس المهموم، المکتبة الحیدریة، ص۷.</ref>


==وجہ تسمیہ==
==وجہ تسمیہ==


اس کتاب کا یہ نام [[امام جعفر صادق علیہ السلام]] کی اس حدیث سے اخذ کیا گیا ہے جس میں آپ نے فرمایا: نَفَسُ المَهمومِ لِظُلمِنا تَسبیحٌ وَ هَمُّهُ لَنا عِبادَةٌ وَ کِتمانُ سِرّنا جِهادُ فی سَبیلِ اللهِ، ترجمہ: ہماری مصیبت پر غمگین ہونے والے کی سانس تسبیح کا ثواب رکھتی ہے، ہمارے غم میں مغموم ہونا عبادت ہے اور ہمارے راز کو کتمان کرنا اور چھپانا جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ اس کے بعد امام صادق (ع) فرماتے ہیں: واجب ہے کہ اس حدیث کو سونے کے پانی سے تحریر کیا جائے۔  
اس کتاب کا یہ نام [[امام جعفر صادق علیہ السلام]] کی اس حدیث سے اخذ کیا گیا ہے جس میں آپ نے فرمایا: نَفَسُ المَهمومِ لِظُلمِنا تَسبیحٌ وَ هَمُّهُ لَنا عِبادَةٌ وَ کِتمانُ سِرّنا جِهادُ فی سَبیلِ اللهِ،<ref>شیخ مفید، الأمالی، ۱۴۱۳ق، ص۳۳۸.</ref> ترجمہ: ہماری مصیبت پر غمگین ہونے والے کی سانس تسبیح کا ثواب رکھتی ہے، ہمارے غم میں مغموم ہونا عبادت ہے اور ہمارے راز کو کتمان کرنا اور چھپانا جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ اس کے بعد امام صادق (ع) فرماتے ہیں: واجب ہے کہ اس حدیث کو سونے کے پانی سے تحریر کیا جائے۔  


چونکہ یہ کتاب [[اہل بیت (ع)]] کے مصائب کو بیان کرتی ہے اس لئے محدث قمی نے اس کے لئے نفس المہموم کے نام کا انتخاب کیا ہے۔  
چونکہ یہ کتاب [[اہل بیت (ع)]] کے مصائب کو بیان کرتی ہے اس لئے محدث قمی نے اس کے لئے نفس المہموم کے نام کا انتخاب کیا ہے۔  
سطر 46: سطر 46:
==کتاب کے مطالب==
==کتاب کے مطالب==


یہ کتاب [[امام حسین علیہ السلام]] کی زندگی اور ان کے جہاد کے سلسلہ مختصر طور پر تحریر کی گئی ہے جس کی ابتداء ان کی ولادت سے ہوتی ہے اور اس کا اختتام توابین کے قیام، خروج [[مختار]] اور یزید کی موت پر ہوتا ہے۔ یہ کتاب پانچ ابواب اور ایک خاتمہ پر مشتمل ہے:
یہ کتاب [[امام حسین علیہ السلام]] کی زندگی اور ان کے جہاد کے سلسلہ مختصر طور پر تحریر کی گئی ہے جس کی ابتداء ان کی ولادت سے ہوتی ہے اور اس کا اختتام توابین کے قیام، خروج [[مختار]] اور یزید کی موت پر ہوتا ہے۔<ref>میر شریفی، برگ‌های بی‌خزان، ۱۳۸۲ش، ص۱۸۵.</ref> یہ کتاب پانچ ابواب اور ایک خاتمہ پر مشتمل ہے:


*پہلا باب: اس میں دو فصلیں ہیں:
*پہلا باب: اس میں دو فصلیں ہیں:
سطر 65: سطر 65:
==منابع کتاب==
==منابع کتاب==


نفس المہوم کی تالیف سے پہلے واقعہ [[کربلا]] کے نقل کرنے کے سلسلہ میں مقررین کے لئے مرجع و منبع کتب میں [[بحار الانوار]] کی دس جلدیں، ابن نمای حلی کی کتاب مثیر الاحزان، سید عبد اللہ شبر کی کتاب مہیج الاحزان، سید بن طاووس کی تالیف لہوف اور مقتل ابو مخنف وغیرہ کتابیں شامل تھیں۔ علی دوانی کی نظر میں ان میں سے کسی بھی کتاب سے واقعات کربلا کے سلسلہ میں تشفی نہیں ہوتی تھی اور ان میں کوئی بھی جامع و کافی نہیں تھی۔ اس لحاظ سے [[محدث قمی]] نے منبر کی تمام معتبر کتب سے جنہیں وہ اہنی زندگی میں معتبر و صحیح مانتے تھے، اس کتاب کی تدوین کی۔
نفس المہوم کی تالیف سے پہلے واقعہ [[کربلا]] کے نقل کرنے کے سلسلہ میں مقررین کے لئے مرجع و منبع کتب میں [[بحار الانوار]] کی دس جلدیں، ابن نمای حلی کی کتاب مثیر الاحزان، سید عبد اللہ شبر کی کتاب مہیج الاحزان، سید بن طاووس کی تالیف لہوف اور مقتل ابو مخنف وغیرہ کتابیں شامل تھیں۔ علی دوانی کی نظر میں ان میں سے کسی بھی کتاب سے واقعات کربلا کے سلسلہ میں تشفی نہیں ہوتی تھی اور ان میں کوئی بھی جامع و کافی نہیں تھی۔<ref>دوانی، مفاخر اسلام، ۱۳۷۷ش، ج۱۱، ص۶۲۴.</ref> اس لحاظ سے [[محدث قمی]] نے منبر کی تمام معتبر کتب سے جنہیں وہ اہنی زندگی میں معتبر و صحیح مانتے تھے، اس کتاب کی تدوین کی۔<ref>دوانی، مفاخر اسلام، ۱۳۷۷ش، ج۱۱، ص۶۲۴.</ref>


[[شیخ عباس قمی]] نے اس کتاب کی تالیف میں مندرجہ ذیل کتب منبر سے استفادہ کیا ہے:
[[شیخ عباس قمی]] نے اس کتاب کی تالیف میں مندرجہ ذیل کتب منبر سے استفادہ کیا ہے:
سطر 101: سطر 101:
*روضة الصفا، مولف خاوند شاه
*روضة الصفا، مولف خاوند شاه


*تسلیة المجالس، مولف محمد بن ابی طالب موسی حسینی
*تسلیة المجالس، مولف محمد بن ابی طالب موسی حسینی<ref>قمی، نفس المهموم، المکتبة الحیدریة، ص۷-۱۱.</ref>
{{ستون خ}}
{{ستون خ}}


سطر 112: سطر 112:
*نفس المہموم کا پہلا فارسی ترجمہ میرزا ابو الحسن شعرانی نے دمع السجوم کے نام سے کیا۔ انہوں نے 1396 ق میں اس کی تصحیح کا کام شروع کیا اور اس کے ایک سال بعد اس کا ترجمہ کیا۔ بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ اس ترجمہ کا نقص یہ ہے کہ انہوں ںے ترجمہ کے ساتھ ساتھ بہت سی توضیحات اور اضافات کا اس میں اضافہ کر دیا ہے اور کتاب کے متن کو اضافات سے جدا نہیں کیا ہے۔
*نفس المہموم کا پہلا فارسی ترجمہ میرزا ابو الحسن شعرانی نے دمع السجوم کے نام سے کیا۔ انہوں نے 1396 ق میں اس کی تصحیح کا کام شروع کیا اور اس کے ایک سال بعد اس کا ترجمہ کیا۔ بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ اس ترجمہ کا نقص یہ ہے کہ انہوں ںے ترجمہ کے ساتھ ساتھ بہت سی توضیحات اور اضافات کا اس میں اضافہ کر دیا ہے اور کتاب کے متن کو اضافات سے جدا نہیں کیا ہے۔


*محمد باقر کمرہ ای نے 1339 ش میں اس کا فارسی ترجمہ رموز الشہادۃ کے عنوان سے کیا ہے۔ انہوں ںے اس ترجمہ کے ساتھ [[شیخ عباس قمی]] کی کتاب نفثۃ المصدور کا بھی اس میں اضافہ کر دیا ہے کیونکہ وہ اسے نفس المہموم کا تکملہ سمجھتے ہیں۔ اس ترجمہ کی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں ںے اس میں موجود عربی اشعار کا ترجمہ کرنے کے بجائے اس کے آخر میں محمد حسین اصفہانی اور اختر طوسی کے اشعار کو پیش کیا ہے۔ علی دوانی نے اس ترجمہ کی تعریف کی ہے۔  
*محمد باقر کمرہ ای نے 1339 ش میں اس کا فارسی ترجمہ رموز الشہادۃ کے عنوان سے کیا ہے۔<ref>کاشفی خوانساری، گزیده نفس المهموم، ۱۳۸۴ش، ص۴۱.</ref> انہوں ںے اس ترجمہ کے ساتھ [[شیخ عباس قمی]] کی کتاب نفثۃ المصدور کا بھی اس میں اضافہ کر دیا ہے کیونکہ وہ اسے نفس المہموم کا تکملہ سمجھتے ہیں۔<ref>کمره‌ای، رموز الشهاده، ۱۳۹۱ش، ص۱۲.</ref> اس ترجمہ کی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں ںے اس میں موجود عربی اشعار کا ترجمہ کرنے کے بجائے اس کے آخر میں محمد حسین اصفہانی اور اختر طوسی کے اشعار کو پیش کیا ہے۔<ref>کمره‌ای، رموز الشهادة، ۱۳۹۱ش، ص۱۶.</ref> علی دوانی نے اس ترجمہ کی تعریف کی ہے۔<ref>دوانی، مفاخر اسلام، ۱۳۷۷ش، ج۱۱، ص۶۳۹.</ref>


*اس کا ایک ترجمہ بر امام حسین (ع) چہ گزشت؟ کے نام سے ہوا ہے جسے جواد قیومی اصفہانی نے کیا ہے۔
*اس کا ایک ترجمہ بر امام حسین (ع) چہ گزشت؟ کے نام سے ہوا ہے جسے جواد قیومی اصفہانی نے کیا ہے۔<ref>رجوع کریں: قمی، بر امام حسین چه گذشت؟: ترجمه نفس المهموم، تهران، دارالثقلین، ۱۳۸۷ش.</ref>


*نفس المہموم کا اردو ترجمہ نفس المہموم کے نام سے ہی ہوا ہے جسے علامہ سید صفدر حسین نجفی نے انجام دیا ہے اور یہ کتاب ولی عصر ٹرسٹ جھنگ کی طرف سے شائع ہوئی ہے۔
*نفس المہموم کا اردو ترجمہ نفس المہموم کے نام سے ہی ہوا ہے جسے علامہ سید صفدر حسین نجفی نے انجام دیا ہے اور یہ کتاب ولی عصر ٹرسٹ جھنگ کی طرف سے شائع ہوئی ہے۔
گمنام صارف