confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
9,096
ترامیم
imported>E.musavi (←مآخذ) |
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (←1. آیت کا نزول مکہ میں: تمیز کاری) |
||
سطر 45: | سطر 45: | ||
بعض اہل سنت علما کا خیال ہے کہ یہ آیت مکہ میں پیغمبر اکرمؐ کی رسالت کے ابتدائی ایام میں نازل ہوئی ہے اور اس کے نزول کا مقصد مشرکین اور کفار کو حقائق دین پہنچانا تھا ۔بعض روایات کے مطابق دشمن کی شر سے محفوظ رکھنے کے لئے رسول اللہ کی حفاظت پر افراد معین کئے گئے تھے لیکن اس آیت کے نزول کے بعد ان افراد کو فارغ کیا اور فرمایا کہ اللہ تعالی مجھے دشمنوں کی شر سے محفوظ رکھے گا اسکے علاوہ دینی حقائق کو کسی خوف کے بغیر کفار اور مشرکین تک پہنچانے پر مامور ہوئے۔<ref>مراجعہ کریں: طبری، جامع البیان، ج۴، جزء ۶، ص۱۹۸ـ ۱۹۹؛ ثعالبی، ج۱، ص۴۴۲؛ سیوطی، ج۲، ص۲۹۸</ref> | بعض اہل سنت علما کا خیال ہے کہ یہ آیت مکہ میں پیغمبر اکرمؐ کی رسالت کے ابتدائی ایام میں نازل ہوئی ہے اور اس کے نزول کا مقصد مشرکین اور کفار کو حقائق دین پہنچانا تھا ۔بعض روایات کے مطابق دشمن کی شر سے محفوظ رکھنے کے لئے رسول اللہ کی حفاظت پر افراد معین کئے گئے تھے لیکن اس آیت کے نزول کے بعد ان افراد کو فارغ کیا اور فرمایا کہ اللہ تعالی مجھے دشمنوں کی شر سے محفوظ رکھے گا اسکے علاوہ دینی حقائق کو کسی خوف کے بغیر کفار اور مشرکین تک پہنچانے پر مامور ہوئے۔<ref>مراجعہ کریں: طبری، جامع البیان، ج۴، جزء ۶، ص۱۹۸ـ ۱۹۹؛ ثعالبی، ج۱، ص۴۴۲؛ سیوطی، ج۲، ص۲۹۸</ref> | ||
'''نقد''' | |||
اس نظرئے کی تردید میں کہا گیا ہے کہ: مفسرین اس بات پر متفق ہیں سورۂ مائدہ مدینہ میں نازل ہوئی ہے<ref>ابن عطیہ،المحرر الوجیز، ۱۴۲۲ق، ج۵، ص۵؛ قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ۱۹۶۵م، ج۳، ص۳۰.</ref> نیز [[عبد اللہ بن عمر]] کی روایات کے مطابق سورت مائدہ آخری نازل ہونے والی سورت ہے<ref>ترمذی، الجامع الصحیح، ۱۴۰۸ق، ج۵، ص۲۶۱، عبداللہ بن عمر سے منقول۔</ref>اس فرض کے مطابق آیت مکہ میں نازل ہوئی ہے اور کئی سال تک کسی بھی سورت سے ملحق ہوئے بغیر رہ گئی ہے جس کو اکیلے ہی تلاوت کی جاتی ہرے ہے۔ یا اس کو الگ کر کے رکھا گیا ہے؛ اور یہ فرض صحیح نہیں ہے۔ اکیلا تلاوت کیا جائے<ref>ابن عاشور،6/256</ref> ۔ بعض نے مکہ میں رسول اللہ کی جان کی حفاظت سے متعلق روایات کو غریب اور منکر کہا ہے ۔<ref>ابن عاشور، تفسیر التحریر، ۱۹۸۴م، ج۶، ص۲۵۶.</ref> | |||
اس کے علاوہ جو روایت پیغمبر اکرمؐ کی مکہ میں جان کی حفاظت کے بارے میں وارد ہوئی ہے بعض مفکروں نے اسے [[حدیث غریب]] اور [[حدیث منکر|منکر]] قرار دیا ہے۔<ref>ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، دار القلم، ج۲، ص۱۳۲.</ref> | |||
====۲. اہل کتاب کو ابلاغ==== | |||
جیسا کہ بعض نے لکھا ہے کہ یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی ہے<ref>ابوحیان، تفسیر البحر المحیط، ۱۹۸۳ق، ج۳، ص۵۲۹.</ref> اور اس کا مقصد رسول اللہ کو موظف کرنا تھا کہ وہ کسی واہمہ کے بغیر اہل کتاب کو وحی کے حقائق ابلاغ کریں <ref>طبری، جامع البیان، ۱۴۲۲ق، ج۴، جزء ۶، ص۱۹۸؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، دار احیاء التراث، ج۱۲، ص۴۰۱.</ref>محمد بن یوسف ابو حیان نے کہا ہے کہ رسول اللہ کو اس آیت کے ذریعے کہا گیا کہ وہ [[رجم|سنگسار]] اور [[قصاص]] کے حکم کو یہودیوں اور مسیحیوں کو پہنچائیں کیونکہ انہوں نے تورات و انجیل میں ان احکام میں تحریف کی تھی ۔ <ref>ابوحیان، تفسیر البحر المحیط، ۱۹۸۳م، ج۳، ص۵۲۹.</ref> | |||
ان کا یہ کہنا ہے کہ اس آیت سے پہلی اور بعد والی آیات اہل کتاب سے مربوط ہیں اور اس آیت کا موضوع بھی اس سے پہلے اور بعد والی آیات سے اجنبی نہیں ہونا چاہئے۔ | |||
تاریخی مآخذوں کے مطابق مسلمانوں کی یہودیوں سے جنگ خیبر اور جنگ بنی قریظہ میں انکے قلعوں پر قبضے ، کچھ کی مدینہ بدری کے بعد ان کا غرور اور زور ٹوٹ گیا تھا جبکہ مسیح عرب اور خاص طور پر مدینہ میں اس قدر قدرت مند نہیں تھے وہ صرف مباہلے میں مسلمانوں کے سامنے لیکن پھر خود ہی انکی فرمائش پر یہ مباہلہ بھی نہ ہوا ۔ پس ان حقائق کی روشنی میں رسول خدا کو انکی نسبت کسی قسم کا خوف اور پریشانی لاحق نہیں تھی کہ جو کسی قسم کے پیغام کو ان تک ابلاغ کرنے میں رکاوٹ بنے ۔اسکے علاوہ مذکورہ آیت موضوع کے لحاظ سے پہلی اور بعد والی آیات سے اجنبی نہیں بلکہ سازگار ہے کیونکہ مذکورہ آیت سے پہلی اور بعد والی آیات یہودیوں اور نصارا کی نکوہش بیان کر رہی ہیں چونکہ وہ یہ خیال کرتے تھے کہ رسول خدا کی رحلت کے ساتھ ہی مسلمانوں کی قدرت کا خاتمہ ہو جائے گا اور انہیں دوبارہ نفوذ و قدرت حاصل کرنے کا موقع فراہم ہو گا ۔ لیکن اس آیت تبلیغ میں امت اسلامیہ کی رہبری کے تعین کے ذریعے ان کے اس خیال کا بطلان کو ظاہر کیا گیا نیز یہ مطلب آیت تکمیل دین کے ساتھ مکمل طور پر سازگار ہے ۔<ref>طوسی، ج ۳، ص ۴۳۵ ۔ فضل طبرسی، ۱۴۰۸، ج ۳، ص ۲۴۶ ۔ حویزی، ج ۱، ص ۵۸۷ ـ۵۹۰</ref> | تاریخی مآخذوں کے مطابق مسلمانوں کی یہودیوں سے جنگ خیبر اور جنگ بنی قریظہ میں انکے قلعوں پر قبضے ، کچھ کی مدینہ بدری کے بعد ان کا غرور اور زور ٹوٹ گیا تھا جبکہ مسیح عرب اور خاص طور پر مدینہ میں اس قدر قدرت مند نہیں تھے وہ صرف مباہلے میں مسلمانوں کے سامنے لیکن پھر خود ہی انکی فرمائش پر یہ مباہلہ بھی نہ ہوا ۔ پس ان حقائق کی روشنی میں رسول خدا کو انکی نسبت کسی قسم کا خوف اور پریشانی لاحق نہیں تھی کہ جو کسی قسم کے پیغام کو ان تک ابلاغ کرنے میں رکاوٹ بنے ۔اسکے علاوہ مذکورہ آیت موضوع کے لحاظ سے پہلی اور بعد والی آیات سے اجنبی نہیں بلکہ سازگار ہے کیونکہ مذکورہ آیت سے پہلی اور بعد والی آیات یہودیوں اور نصارا کی نکوہش بیان کر رہی ہیں چونکہ وہ یہ خیال کرتے تھے کہ رسول خدا کی رحلت کے ساتھ ہی مسلمانوں کی قدرت کا خاتمہ ہو جائے گا اور انہیں دوبارہ نفوذ و قدرت حاصل کرنے کا موقع فراہم ہو گا ۔ لیکن اس آیت تبلیغ میں امت اسلامیہ کی رہبری کے تعین کے ذریعے ان کے اس خیال کا بطلان کو ظاہر کیا گیا نیز یہ مطلب آیت تکمیل دین کے ساتھ مکمل طور پر سازگار ہے ۔<ref>طوسی، ج ۳، ص ۴۳۵ ۔ فضل طبرسی، ۱۴۰۸، ج ۳، ص ۲۴۶ ۔ حویزی، ج ۱، ص ۵۸۷ ـ۵۹۰</ref> |