گمنام صارف
"تفسیر امام حسن عسکری (کتاب)" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Mabbassi م (←ترجمہ) |
imported>Mabbassi مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 1: | سطر 1: | ||
'''تفسیر امام حسن عسکری (ع)''' | '''تفسیر امام حسن عسکری (ع)''' [[امامیہ]] کی روائی تفاسیر میں سے ہے جو تیسری صدی ہجری قمری میں لکھی گئی ۔ اس میں بعض [[آیات]] کی تاویل بیان ہوئی اور اکثر [[پیامبر (ص)]] اور [[ ائمہ اثناعشر|ائمہ]] کے معجزات کی تاویل بیان کی گئی ہے۔ آیات کے [[اسباب نزول]] کی طرف کم توجہ کی گئی اگرچہ آیات کے مصادیق بیان ہوئے ہیں ۔صرف ، نحو اور بلاغت جیسے ادبیات عرب کے علوم اس میں موجود نہیں ہیں ۔ اس کتاب کی سند کے سلسلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ چوتھی اور پانچویں صدی کے فقہا اور محدثین کے درمیان اس تفسیر سے مطالب نقل کئے جاتے تھے۔ یہ [[تفسیر]] [[سورہ بقرہ]] کی ۲۸۲ویں [[آیت]] کے آخر تک موجود ہے . | ||
==خصوصیات== | ==خصوصیات== | ||
*یہ تفسیر [[قرآن]] کے فضائل سے متعلق [[روایات]] ، تأویل اور آداب قرائت قرآن سے شروع ہوتی ہے نیز فضائل [[اہل بیت]](ع) کی احادیث <ref> رجوع کریں: حدیث سدالابواب، ص ۱۷</ref> اور دشمنان اہل بیت کے مثالب (ع)<ref>تفسیر امام عسکری (ع)، ص ۴۷.</ref> کے ساتھ اس کا تسلسل جاری رہتا ہے ۔ | *یہ تفسیر [[قرآن]] کے فضائل سے متعلق [[روایات]] ، تأویل اور آداب قرائت قرآن سے شروع ہوتی ہے نیز فضائل [[اہل بیت]](ع) کی احادیث <ref> رجوع کریں: حدیث سدالابواب، ص ۱۷</ref> اور دشمنان [[اہل بیت]] کے مثالب (ع)<ref>تفسیر امام عسکری (ع)، ص ۴۷.</ref> کے ساتھ اس کا تسلسل جاری رہتا ہے ۔ | ||
*سیرت نبوی خاص طور پر مناسبات [[پیامبر اسلام]] (ص) اور [[یہود]] سے متعلق متعدد ابحاث مذکور ہیں ۔<ref> تفسیر امام عسکری (ع)، ص ۱۶۱ـ۱۶۳، ۱۹۰ـ ۱۹۲، ۴۰۶ـ۴۰۷.</ref> مجموعی طور پر اس تفسیر میں ۳۷۹ حدیثیں منقول ہوئی ہیں۔ حجم کے لحاظ سے اکثر و بیشتر روایات اس طرح طولانی اور مفصّل ہیں کہ چند صفحات پر مذکور ہیں اسی وجہ سے ان میں بعض مقامات پر یہ روایات حدیثی خدوخال سے باہر نکل گئی ہیں ۔بعض روایات میں اضطراب پایا جاتا ہے ۔ | *سیرت نبوی خاص طور پر مناسبات [[پیامبر اسلام]] (ص) اور [[یہود]] سے متعلق متعدد ابحاث مذکور ہیں ۔<ref> تفسیر امام عسکری (ع)، ص ۱۶۱ـ۱۶۳، ۱۹۰ـ ۱۹۲، ۴۰۶ـ۴۰۷.</ref> مجموعی طور پر اس تفسیر میں ۳۷۹ حدیثیں منقول ہوئی ہیں۔ حجم کے لحاظ سے اکثر و بیشتر روایات اس طرح طولانی اور مفصّل ہیں کہ چند صفحات پر مذکور ہیں اسی وجہ سے ان میں بعض مقامات پر یہ روایات حدیثی خدوخال سے باہر نکل گئی ہیں ۔بعض روایات میں اضطراب پایا جاتا ہے ۔ | ||
*یہ تفسیر بعض[[آیت|آیات]] کی تاویل پر مشتمل ہے اور اکثر [[معجزه|معجزات]] پیامبر (ص) اور ائمہ کے معجزات کی تاویلیں بیان کرتی ہے <ref>رک: ص ۴۲۹ـ۴۴۱، ۴۹۷ـ۵۰۰.</ref> اس تفسیر میں آیات کے [[اسباب نزول]] کی طرف کم توجہ کی گئی ہے ۔ادبیات عرب کے علوم کی طرف اس تفسیر میں توجہ نہیں کی گئی ۔<ref>رضوی، ص ۳۱۳.</ref> | *یہ تفسیر بعض[[آیت|آیات]] کی تاویل پر مشتمل ہے اور اکثر [[معجزه|معجزات]] پیامبر (ص) اور [[ائمہ]] کے معجزات کی تاویلیں بیان کرتی ہے <ref>رک: ص ۴۲۹ـ۴۴۱، ۴۹۷ـ۵۰۰.</ref> اس تفسیر میں آیات کے [[اسباب نزول]] کی طرف کم توجہ کی گئی ہے ۔ادبیات عرب کے علوم کی طرف اس تفسیر میں توجہ نہیں کی گئی ۔<ref>رضوی، ص ۳۱۳.</ref> | ||
*اکثر آیات کی تفسیر آیت کے مفہوم کی شرح و توضیح سے شروع ہوتی ہے پھر [[معصومین]] (ع) سے منقول روایات آیات کی تفسیر میں بیان ہوئی ہیں ۔ بعض مقامات پر [[آیت]] کی تفسیر شان نزول کی روایات سے مخلوط ہیں ۔ <ref>رضوی، ص ۴۷۷-۴۷۹.</ref> [[شیعہ]]،<ref>رضوی، ص ۳۰۷-۳۱۰.</ref> [[رافضی]]،<ref>رضوی، ص ۳۱۰-۳۱۱.</ref> ، [[تقیہ]]،<ref>رضوی، ص ۳۲۰-۳۲۴.</ref> [[صحابہ]] کے فضائل اور [[خباب بن ارت|خبّاب بن ارّت]] اور [[عمار بن یاسر]]،<ref>رضوی، ص ۶۲۴-۶۲۵.</ref> کی مانند کچھ عناوین ہیں جو آیات کی تفسیر کے حاشیے پر ذکر ہوئے ہیں۔ شجرۀ ممنوعہ<ref>بقره، ۳۵.</ref> سے شجرۀ علم [[محمد (ص)]] اور [[اہل بیت (ع)]] <ref>رضوی، ص ۲۲۱-۲۲۲.</ref> کے فرق جیسے تفسیری نکات اس تفسیر کی خصوصیات میں سے ہیں ۔ | *اکثر آیات کی تفسیر آیت کے مفہوم کی شرح و توضیح سے شروع ہوتی ہے پھر [[معصومین]] (ع) سے منقول روایات آیات کی تفسیر میں بیان ہوئی ہیں ۔ بعض مقامات پر [[آیت]] کی تفسیر شان نزول کی روایات سے مخلوط ہیں ۔ <ref>رضوی، ص ۴۷۷-۴۷۹.</ref> [[شیعہ]]،<ref>رضوی، ص ۳۰۷-۳۱۰.</ref> [[رافضی]]،<ref>رضوی، ص ۳۱۰-۳۱۱.</ref> ، [[تقیہ]]،<ref>رضوی، ص ۳۲۰-۳۲۴.</ref> [[صحابہ]] کے فضائل اور [[خباب بن ارت|خبّاب بن ارّت]] اور [[عمار بن یاسر]]،<ref>رضوی، ص ۶۲۴-۶۲۵.</ref> کی مانند کچھ عناوین ہیں جو آیات کی تفسیر کے حاشیے پر ذکر ہوئے ہیں۔ شجرۀ ممنوعہ<ref>بقره، ۳۵.</ref> سے شجرۀ علم [[محمد (ص)]] اور [[اہل بیت (ع)]] <ref>رضوی، ص ۲۲۱-۲۲۲.</ref> کے فرق جیسے تفسیری نکات اس تفسیر کی خصوصیات میں سے ہیں ۔ | ||
==سند کتاب== | ==سند کتاب== | ||
اس کتاب کی سند کے سلسلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ چوتھی اور پانچویں صدی میں قم کے فقہا اور محدثین کے درمیان اس تفسیر سے مطالب نقل کئے جانے کا رواج تھا۔ <ref>تفسیر امام عسکری (ع)، ص ۷ـ ۸.</ref> خطیب اور مشہور مفسر جرجانی محمد بن قاسم استرآبادی جو شاید تفسیر تدوین کرنے والا ہو، نے اس تفسیر کے دو راویوں یعنی ابوالحسن علی بن محمدبن سیار (یسار؟) اور ابویعقوب یوسف بن محمدبن زیاد سے اس تفسیر کے مطالب نقل کئے ہیں ۔ | اس کتاب کی سند کے سلسلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ چوتھی اور پانچویں صدی میں [[قم]] کے فقہا اور محدثین کے درمیان اس تفسیر سے مطالب نقل کئے جانے کا رواج تھا۔ <ref>تفسیر امام عسکری (ع)، ص ۷ـ ۸.</ref> خطیب اور مشہور مفسر جرجانی محمد بن قاسم استرآبادی جو شاید تفسیر تدوین کرنے والا ہو، نے اس تفسیر کے دو راویوں یعنی ابوالحسن علی بن محمدبن سیار (یسار؟) اور ابویعقوب یوسف بن محمدبن زیاد سے اس تفسیر کے مطالب نقل کئے ہیں ۔ | ||
تفسیر کے مختصر مقدمے میں ان دونوں سے منقول ہے کہ حسن بن زید کی قدرت کے زمانے میں اپنے وطن سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور ہم [[امام حسن عسکری(ع)]] کی خدمت میں حاضر ہوئے <ref>التفسیر المنسوب الی الامام ابی محمد الحسن بن علی العسکری، ص ۹ـ۱۰؛ قس ابن جوزی، ج ۱۲، ص ۷۴؛ آقابزرگ طہرانی ،الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، ج ۴، ص ۲۸۶ـ ۲۸۸.</ref>۔اس لحاظ سے انکے [[سامرا]] میں پہنچنے کی تاریخ ۲۵۴ کے بعد کی ہونی چاہئے چونکہ یہ سال امام کی امامت کے آغاز کا سال تھا ۔ | تفسیر کے مختصر مقدمے میں ان دونوں سے منقول ہے کہ حسن بن زید کی قدرت کے زمانے میں اپنے وطن سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور ہم [[امام حسن عسکری(ع)]] کی خدمت میں حاضر ہوئے <ref>التفسیر المنسوب الی الامام ابی محمد الحسن بن علی العسکری، ص ۹ـ۱۰؛ قس ابن جوزی، ج ۱۲، ص ۷۴؛ آقابزرگ طہرانی ،الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، ج ۴، ص ۲۸۶ـ ۲۸۸.</ref>۔اس لحاظ سے انکے [[سامرا]] میں پہنچنے کی تاریخ ۲۵۴ کے بعد کی ہونی چاہئے چونکہ یہ سال امام کی [[امامت]] کے آغاز کا سال تھا ۔ | ||
پھر کہتے ہیں کہ اس تفسیر کا متن امام نے ہمیں سات سال میں املا کروایا۔ <ref>التفسیر المنسوب الی الامام ابی محمد الحسن بن علی العسکری ، ص ۱۲</ref> جبکہ ۲۶۰ قمری امام کی شہادت کا ذکر نہیں آیا ہے ۔ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ امام کی شہادت کے بعد یہ دونوں اپنے وطن واپس لوٹ گئے ۔ | پھر کہتے ہیں کہ اس تفسیر کا متن امام نے ہمیں سات سال میں املا کروایا۔ <ref>التفسیر المنسوب الی الامام ابی محمد الحسن بن علی العسکری ، ص ۱۲</ref> جبکہ ۲۶۰ قمری امام کی [[شہادت]] کا ذکر نہیں آیا ہے ۔ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ امام کی شہادت کے بعد یہ دونوں اپنے وطن واپس لوٹ گئے ۔ | ||
==اعتبار کتاب== | ==اعتبار کتاب== | ||
اس تفسیر کے | اس تفسیر کے قدیمی ہونے کے باوجود اس کی وثاقت علمائے [[امامیہ]] کے درمیان محل اختلاف ہے ۔ [[شیخ صدوق]] (متوفی ۳۸۱) نے اس کتاب سے اکثر مطالب اپنی کتابوں میں نقل کئے ہیں ۔اگرچہ اس کتاب کی وثاقت و عدم وثاقت کے متعلق کوئی بات نہیں کی ہے ۔البتہ [[شیخ صدوق]] نے اس تفسیر کا متن کسی واسطے کے بغیر استرآبادی سے ذکر کیا ہے ۔نیز اپنی فتاوا کی کتاب [[من لایحضره الفقیہ]]<ref>من لایحضره الفقیہ،ج ۱، ص ۳،</ref> اس بات کی جانب اشارہ کیا کیا ہے جو کچھ اس نے اس کتاب میں نقل کیا ہے اسکے نزدیک وہ صحیح ہے اور اس میں مذکور روایات معتبر اور مشہور کتب سے حاصل کیا ہے ۔ | ||
اسی طرح باب [[تلبیہ]] میں استرآبادی سے [[حدیث]] نقل کی ہے اور آخر میں کہا: باقی کتاب تفسیر میں ذکر کیا ہے ۔<ref>من لایحضره الفقیہ، ج ۲، ص ۲۱۱ـ۲۱۲</ref> اس بنا پر اگر [[شیخ صدوق]] خود اس تفسیر کو تدوین کرنے والے نہیں تو احتمال ہے کہ وہ اسے تہذیب کرنے والے ہیں ۔اس احتمال کے درست ہونے کی مؤید [[احمد بن علی نجاشی|نجاشی]] متوفی ۴۵۰<ref>نجاشی ص ۳۹۱ـ۳۹۲</ref> کی یہ بات ہے کہ وہ شیخ صدوق کے آثار میں دو اثر تفسیری: تفسیرالقرآن و مختصر تفسیر القرآن ذکر کرتا ہے ۔ | اسی طرح باب [[تلبیہ]] میں استرآبادی سے [[حدیث]] نقل کی ہے اور آخر میں کہا: باقی کتاب تفسیر میں ذکر کیا ہے ۔<ref>من لایحضره الفقیہ، ج ۲، ص ۲۱۱ـ۲۱۲</ref> اس بنا پر اگر [[شیخ صدوق]] خود اس تفسیر کو تدوین کرنے والے نہیں تو احتمال ہے کہ وہ اسے تہذیب کرنے والے ہیں ۔اس احتمال کے درست ہونے کی مؤید [[احمد بن علی نجاشی|نجاشی]] متوفی ۴۵۰<ref>نجاشی ص ۳۹۱ـ۳۹۲</ref> کی یہ بات ہے کہ وہ شیخ صدوق کے آثار میں دو اثر تفسیری: تفسیرالقرآن و مختصر تفسیر القرآن ذکر کرتا ہے ۔ | ||
اس نظر کا دوسرا شاہد یہ ہے کہ شیخ صدوق اسی روایت کو اسی سند کے ساتھ [[کتاب التوحید]]<ref>صدوق ،التوحید ص ۴۷</ref> میں ذکر کرتے ہیں ۔ نیز روایت کے آخر میں شیخ صدوق کہتے ہیں | اس نظر کا دوسرا شاہد یہ ہے کہ شیخ صدوق اسی [[روایت]] کو اسی سند کے ساتھ [[کتاب التوحید]]<ref>صدوق ،التوحید ص ۴۷</ref> میں ذکر کرتے ہیں ۔ نیز روایت کے آخر میں شیخ صدوق کہتے ہیں کہ اس حدیث کا کامل متن اپنی تفسیر میں لے کر آئے ہیں ۔ <ref>التفسیرالمنسوب الی الامام ابی محمد الحسن بن علی العسکری ، ص ۵۰ ـ۵۲</ref> | ||
== کتاب کا غیر معتبر ہونا == | == کتاب کا غیر معتبر ہونا == | ||
سب سے پہلے جس شخصیت نے اس کتاب پر تنقید کی وہ [[احمد بن حسین غضائری|احمدبن حسین بن عبیداللّه غضائری]] ہے جو ابن غضائری کے نام سے شہرت رکھتا ہے ۔اس نے [[الضعفاء]] میں محمدبن قاسم استرآبادی کو ایک ضعیف اور کذّاب شخص کہا ہے نیز کہا کہ سلسلۂ سند میں دو افراد جو اپنے باپ سے اور وہ امام | سب سے پہلے جس شخصیت نے اس کتاب پر تنقید کی وہ [[احمد بن حسین غضائری|احمدبن حسین بن عبیداللّه غضائری]] ہے جو ابن غضائری کے نام سے شہرت رکھتا ہے ۔اس نے [[الضعفاء]] میں محمدبن قاسم استرآبادی کو ایک ضعیف اور کذّاب شخص کہا ہے نیز کہا کہ سلسلۂ سند میں دو افراد جو اپنے باپ سے اور وہ امام حسن عسکری سے نقل کرتے ہیں ،مجہول ہیں ۔ | ||
ابن غضائری تفسیر کو '''موضوع''' اور جعلی سمجھتا ہے اسکے وضع کرنے والے کا نام سہل بن | ابن غضائری تفسیر کو '''موضوع''' اور '''جعلی''' سمجھتا ہے اسکے وضع کرنے والے کا نام سہل بن احمد بن عبداللّہ دیباجی (متوفی ۳۸۰) ذکر کیا ہے ۔<ref>علامہ حلّی، ص ۲۵۶ـ۲۵۷؛ آقابزرگ طہرانی، ج ۴، ص ۲۸۸،</ref> | ||
اس تفسیر کو معتبر جاننے والوں نے ابن غضائری کی کلام کے رد میں دلائل ذکر کئے ہیں مثلا ابن غضائری کی طرف اس کتاب الضعفاء کی نسبت میں تردید ہے <ref>آقابزرگ طہرانی، ج ۴، ص ۲۸۸ـ۲۸۹،</ref> نیز تفسیر کے متن کے مطابق ابن سیار اور | اس تفسیر کو معتبر جاننے والوں نے ابن غضائری کی کلام کے رد میں دلائل ذکر کئے ہیں مثلا ابن غضائری کی طرف اس کتاب الضعفاء کی نسبت میں تردید ہے <ref>آقابزرگ طہرانی، ج ۴، ص ۲۸۸ـ۲۸۹،</ref> نیز تفسیر کے متن کے مطابق ابن سیار اور ابو یعقوب تفسیر کے متن کو کسی واسطے کے بغیر امام سے نقل کیا ہے۔اسی طرح تفسیر میں صراحت موجود ہے کہ ان دونوں کے والد کچھ مدت [[سامرا]] میں سکونت اختیار کرنے کے بعد اپنے شہر واپس لوٹ گئے ۔<ref>تفسیر امام عسکری (ع) ص ۱۲</ref> نیز کتاب کی اسناد میں دونوں کے باپ کا تذکرہ نہیں ہے ۔<ref>تفسیر امام عسکری (ع) ص ۹</ref> | ||
پس اس بنا بعض [[روایات]] میں ان دونوں کے باپوں کا تذکرہ کتابت کی غلطی ہے ۔<ref>آقابزرگ طهرانی ، ج ۴، ص ۲۹۲</ref> لیکن یہ بات قابل قبول نہیں ہے کیونکہ ابن سیار اور ابو یعقوب کے باپوں کا نام شیخ صدوق کے اکثر آثار میں اس تفسیر سے نقل کردہ روایات میں آیا ہے <ref>من لا یحضرہ الفقیہ ۱۳۶۱ ش ، ص ۴، ۲۴، ۳۳</ref> | |||
سہل بن احمد کے متعلق نجاشی نے کسی قسم کا کوئی عیب و نقص ذکر نہیں کیا ۔<ref>نجاشی ص ۱۸۶</ref> نیز خطیب بغدادی<ref>خطیب بغدادی ج ۹، ص ۱۲۲</ref> نے صرف اسکے تشیع ہونے کا ذکر کیا اور شیخ مفید کے اس پر نماز جنازہ ادا کرنے کا ذکر کیا ۔ یہ اسکی جلالت پر دلالت کرتا ہے ۔ | سہل بن احمد کے متعلق نجاشی نے کسی قسم کا کوئی عیب و نقص ذکر نہیں کیا ۔<ref>نجاشی ص ۱۸۶</ref> نیز خطیب بغدادی<ref>خطیب بغدادی ج ۹، ص ۱۲۲</ref> نے صرف اسکے تشیع ہونے کا ذکر کیا اور شیخ مفید کے اس پر نماز جنازہ ادا کرنے کا ذکر کیا ۔ یہ اسکی جلالت پر دلالت کرتا ہے ۔ | ||
نکتۂ جالب کہ جو توجہ کا باعث ہے وہ یہ ہے کہ اسی سلسلۂ سند میں ابن غضائری کے باپ کا نام آنا متداول ہے۔<ref>مجلسی، ج ۱۰۵، ص ۷۸</ref> | نکتۂ جالب کہ جو توجہ کا باعث ہے وہ یہ ہے کہ اسی سلسلۂ سند میں ابن غضائری کے باپ کا نام آنا متداول ہے۔<ref>مجلسی، ج ۱۰۵، ص ۷۸</ref> | ||
بعض نے کہا ہے کہ اس تفسیر کی روایت میں شیخ صدوق کے طرق متعدد ہیں کیونکہ بعض جگہوں پر وہ اپنی تفسیر میں | بعض نے کہا ہے کہ اس تفسیر کی روایت میں [[شیخ صدوق]] کے طرق متعدد ہیں کیونکہ بعض جگہوں پر وہ اپنی تفسیر میں محمد بن قاسم استرآبادی کے بجائے محمد بن علی استرآبادی کا نام ذکر کرتے ہیں .<ref>صدوق، ۱۴۱۷، ص ۲۴۰؛ آقابزرگ طہرانی ، ج ۴، ص ۲۸۶، </ref> البتہ یہ بھی بعید نہیں کہ یہ دونوں ایک ہی ہوں کیونکہ جد کا نام باپ کی جگہ پر استعمال ہونا رائج تھا ۔ | ||
اسی طرح ذکر ہوا ہے کہ حسن بن خالد برقی نے امام حسن عسکری کی املا کروائی ہوئی ۱۲۰ اجزاء میں تفسیر لکھی تھی،<ref>ابن شہرآشوب، معالم العلماء، ص ۳۴</ref> لیکن دوسری جانب [[شیخ طوسی]] (متوفی ۴۶۰) <ref>طوسی، ص ۴۶۲</ref> حسن بن خالد برقی کو ان افراد میں قرار دیتے ہیں جنہوں نے [[ائمہ]] کو درک نہیں کیا تھا اور یہ واسطے کے ساتھ امام سے روایت نقل کرتے تھے ۔ | اسی طرح ذکر ہوا ہے کہ حسن بن خالد برقی نے امام حسن عسکری کی املا کروائی ہوئی ۱۲۰ اجزاء میں تفسیر لکھی تھی،<ref>ابن شہرآشوب، معالم العلماء، ص ۳۴</ref> لیکن دوسری جانب [[شیخ طوسی]] (متوفی ۴۶۰) <ref>طوسی، ص ۴۶۲</ref> حسن بن خالد برقی کو ان افراد میں قرار دیتے ہیں جنہوں نے [[ائمہ]] کو درک نہیں کیا تھا اور یہ واسطے کے ساتھ امام سے روایت نقل کرتے تھے ۔ | ||
[[محدث نوری|محدّث نوری]] (متوفی ۱۳۲۰ق)،<ref> نوری ج ۵، ص ۱۸۸</ref> [[ابن شہرآشوب]] متوفی (۵۸۸ق) سے استناد کرتے ہوئے قطعی طور پر برقی کی تفسیر کو ایک اور طریق کی بنا پر متن تفسیر امام عسکری(ع) سمجھتے ہیں ۔لیکن اس قول کے قبول نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس تفسیر کی کوئی روایت ایسی نہیں ہے کہ جس میں برقی کا نام آیا ہو ۔ | [[محدث نوری|محدّث نوری]] (متوفی ۱۳۲۰ق)،<ref> نوری ج ۵، ص ۱۸۸</ref> [[ابن شہرآشوب]] متوفی (۵۸۸ق) سے استناد کرتے ہوئے قطعی طور پر برقی کی تفسیر کو ایک اور طریق کی بنا پر متن تفسیر [[امام عسکری(ع)]] سمجھتے ہیں ۔لیکن اس قول کے قبول نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس تفسیر کی کوئی روایت ایسی نہیں ہے کہ جس میں برقی کا نام آیا ہو ۔ | ||
اسی طرح [[آقابزرگ تہرانی]]<ref>آقابزرگ طہرانی ج ۴، ص ۲۸۳ـ ۲۸۵</ref> نے اشارہ کیا ہے کہ | اسی طرح [[آقابزرگ تہرانی]]<ref>آقابزرگ طہرانی ج ۴، ص ۲۸۳ـ ۲۸۵</ref> نے اشارہ کیا ہے کہ امام عسکری سے [[ابن شہرآشوب]] کی مراد [[امام ہادی علیہ السلام]] ہے اور حسن بن خالد کا [[امام حسن عسکری]] کے راویوں میں ہونا ناممکن ہے ۔ <ref> تستری ، ج ۳، ص ۲۲۸</ref> | ||
سیدعبدالعزیز طباطبائی (متوفائے قم بہمن ۱۳۷۴) کے کتابخانے کی خطی نسخوں کی فہرست اور فیلموں میں تفسیر کے عنوان سے تین کتابیں ابو علی حسن بن خالد برقی نام سے ذکر ہیں۔<ref>طیار مراغی، ص ۱۴۳۶، ۱۴۴۰، ۱۴۸۹</ref> لیکن مقالہ لکھنے والے کے لائبریری میں مراجعہ سے معلوم ہوا کہ وہ یہی تفسیر [[امام حسن عسکری]] ہی اور متداول سند والی ہی تفاسیر ہیں اور کم سے کم ان نسخوں میں برقی سے منسوب ہونے پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ | |||
==ناقلین کتاب == | ==ناقلین کتاب == | ||
شیخ صدوق کے بعد ابومنصور [[احمد بن علی طبرسی]] نے کتاب [[احتجاج طبرسی|احتجاج]] میں اپنی کتاب کے منابع میں تفسیر امام حسن عسکری(ع) کا ذکر کیا ہے لیکن اس کتاب کے غیر مشہور ہونے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کتاب کی سند کو مکمل ذکر کیا ہے ۔<ref>طبرسی ج ۱، ص ۶ـ ۸</ref> | [[شیخ صدوق]] کے بعد ابومنصور [[احمد بن علی طبرسی]] نے کتاب [[احتجاج طبرسی|احتجاج]] میں اپنی کتاب کے منابع میں تفسیر امام حسن عسکری(ع) کا ذکر کیا ہے لیکن اس کتاب کے غیر مشہور ہونے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کتاب کی سند کو مکمل ذکر کیا ہے ۔<ref>طبرسی ج ۱، ص ۶ـ ۸</ref> | ||
[[قطب راوندی|سعیدبن ہبۃ اللّہ راوندی]] <ref>راوندی ج ۲، ص ۵۱۹ ـ۵۲۱</ref> نے بھی اس تفسیر کا نام لئے بغیر اس سے مطلب نقل کیا ہے ۔ [[ابن شہرآشوب]] نیز اس تفسیر کا نام لے کر سند کے ذکر کے بغیر مطلب نقل کرتا ہے ۔<ref>ابن | [[قطب راوندی|سعیدبن ہبۃ اللّہ راوندی]] <ref>راوندی ج ۲، ص ۵۱۹ ـ۵۲۱</ref> نے بھی اس تفسیر کا نام لئے بغیر اس سے مطلب نقل کیا ہے ۔ [[ابن شہرآشوب]] نیز اس تفسیر کا نام لے کر سند کے ذکر کے بغیر مطلب نقل کرتا ہے ۔<ref>ابن شہرآشوب ، ج ۱، ص ۹۲</ref> | ||
[[عبدالجلیل قزوینی]] نے۵۶۰ق میں [[کتاب النقض]] لکھی اس میں شیعہ مشہور تفاسیر میں تفسیر امام حسن عسکری(ع) کی طرف اشارہ کرتا ہے لیکن چونکہ اس سے کوئی | [[عبدالجلیل قزوینی]] نے۵۶۰ق میں [[کتاب النقض]] لکھی اس میں شیعہ مشہور تفاسیر میں تفسیر امام حسن عسکری(ع) کی طرف اشارہ کرتا ہے لیکن چونکہ اس سے کوئی مطلب ذکر نہیں کرتا لہذا اس بنا پر حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا اس سے مقصود یہی تفسیر امام حسن عسکری ہے ۔<ref>عبدالجلیل قزوینی ص ۲۱۲، ۲۸۵</ref> | ||
== ترجمہ == | == ترجمہ == | ||
سطر 54: | سطر 55: | ||
*قدرت اللّہ حسینی شاہمرادی نے اس تفسیر کی [[سورہ حمد|سورہ فاتحہ]] بعنوان '''تفسیر فاتحۃ الکتاب از امام حسن عسکری(ع)''' فارسی میں کیا اور اسکے بارے میں تحقیق (تہران ۱۴۰۴) سے ایک مبسوط مقدمے کے ساتھ چھاپا جس میں اس تفسیر کی وثاقت کو ثابت کیا ہے ۔ | *قدرت اللّہ حسینی شاہمرادی نے اس تفسیر کی [[سورہ حمد|سورہ فاتحہ]] بعنوان '''تفسیر فاتحۃ الکتاب از امام حسن عسکری(ع)''' فارسی میں کیا اور اسکے بارے میں تحقیق (تہران ۱۴۰۴) سے ایک مبسوط مقدمے کے ساتھ چھاپا جس میں اس تفسیر کی وثاقت کو ثابت کیا ہے ۔ | ||
*سیدحسین بریلوی ( متوفی ۱۳۶۱) نے اس تفسیر کو اردو زبان میں ترجمہ کیا اور '''آثار حیدریہ''' کے نام سے اسے | *سیدحسین بریلوی ( متوفی ۱۳۶۱) نے اس تفسیر کو اردو زبان میں ترجمہ کیا اور '''آثار حیدریہ''' کے نام سے اسے چھپوایا ۔<ref>بکائی ، ج ۱، ص ۳</ref> اس تفسیر کا عربی متن چند مرتبہ چاپ ہوا <ref>آقابزرگ طہرانی، ج ۴، ص ۲۹۲؛ بکائی، ج ۵، ص ۱۹۰۴</ref> یہ کتاب چھ نسخوں کی مطابقت کے ساتھ '''سیدمحمدباقر ابطحی''' نے ۱۴۰۹ میں قم سے چھپوائی ۔ | ||
==حوالہ جات== | ==حوالہ جات== | ||
سطر 67: | سطر 68: | ||
* ابن جوزی، المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم ، چاپ محمد عبدالقادر عطا و مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت ۱۴۱۲/ ۱۹۹۲. | * ابن جوزی، المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم ، چاپ محمد عبدالقادر عطا و مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت ۱۴۱۲/ ۱۹۹۲. | ||
* ابن شہرآشوب، معالم العلماء ، نجف ۱۳۸۰/ ۱۹۶۱. | * ابن شہرآشوب، معالم العلماء ، نجف ۱۳۸۰/ ۱۹۶۱. | ||
* ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب ، چاپ ہاشم رسولی محلاتی ، قم | * ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب ، چاپ ہاشم رسولی محلاتی ، قم بی تا. | ||
* رضا استادی، رسالۃ اخری حول التفسیر المنسوب الی الامام العسکری علیہ السلام در الرسائل الاربعہ عشرة، چاپ رضا استادی، قم: مؤسسہ النشر الاسلامی ، ۱۴۱۵. | * رضا استادی، رسالۃ اخری حول التفسیر المنسوب الی الامام العسکری علیہ السلام در الرسائل الاربعہ عشرة، چاپ رضا استادی، قم: مؤسسہ النشر الاسلامی ، ۱۴۱۵. | ||
* محمدحسن بکائی، کتابنامہ بزرگ قرآن کریم ،تہران ۱۳۷۴ ش. | * محمدحسن بکائی، کتابنامہ بزرگ قرآن کریم ،تہران ۱۳۷۴ ش. | ||
* حسن بن علی (ع) ، امام یازدہم، التفسیرالمنسوب الی الامام ابی محمدالحسن بن علی العسکری، چاپ | * حسن بن علی (ع) ، امام یازدہم، التفسیرالمنسوب الی الامام ابی محمدالحسن بن علی العسکری، چاپ محمد باقر ابطحی، قم ۱۴۰۹. | ||
* نگاہی بہ تفسیر منسوب بہ امام حسن عسکری علیہ السلام» ، فصلنامہ | * نگاہی بہ تفسیر منسوب بہ امام حسن عسکری علیہ السلام» ، فصلنامہ پژوہش ہای قرآنی، ش ۵ ـ۶، بہار و تابستان ۱۳۷۵. | ||
* محمدکاظم بن عبدالعظیم طباطبائی یزدی ، العروة الوثقی، بیروت ۱۴۰۹. | * محمدکاظم بن عبدالعظیم طباطبائی یزدی ، العروة الوثقی، بیروت ۱۴۰۹. | ||
* احمدبن علی طبرسی ، الاحتجاج ، چاپ ابراہیم بہاری و محمد ہادی بہ ، قم ۱۴۱۳. | * احمدبن علی طبرسی ، الاحتجاج ، چاپ ابراہیم بہاری و محمد ہادی بہ ، قم ۱۴۱۳. | ||
* محمدبن حسن طوسی ، رجال الطوسی ، نجف ۱۳۸۰/۱۹۶۱. | * محمدبن حسن طوسی ، رجال الطوسی ، نجف ۱۳۸۰/۱۹۶۱. | ||
* محمود طیارمراغی ، | * محمود طیارمراغی ، فہرست نسخہ ہای عکسی و میکروفیلم ہای کتابخانہ محقق طباطبائی ، در المحقق الطباطبائی فی ذکراه السنویہ الاولی ' ، ج ۳، قم: آل البیت، ۱۴۱۷. | ||
* عبدالجلیل قزوینی ، نقض ، چاپ جلال الدین محدّث ارموی، تہران ۱۳۵۸ ش. | * عبدالجلیل قزوینی ، نقض ، چاپ جلال الدین محدّث ارموی، تہران ۱۳۵۸ ش. | ||
* حسن بن یوسف علامہ حلّی ، رجال العلامہ الحلّی، چاپ محمدصادق بحرالعلوم، نجف ۱۳۸۱/۱۹۶۱، چاپ افست قم ۱۴۰۲. | * حسن بن یوسف علامہ حلّی ، رجال العلامہ الحلّی، چاپ محمدصادق بحرالعلوم، نجف ۱۳۸۱/۱۹۶۱، چاپ افست قم ۱۴۰۲. | ||
* | * سعید بن ہبۃ اللّہ قطب راوندی ، الخرائج و الجرائح ، قم ۱۴۰۹. | ||
* مجلسی. | * مجلسی. | ||
* احمدبن علی نجاشی، فہرست اسماء مصنّفی الشیعہ المشتہر ب رجال النجاشی، چاپ موسوی شبیری زنجانی، قم ۱۴۰۷. | * احمدبن علی نجاشی، فہرست اسماء مصنّفی الشیعہ المشتہر ب رجال النجاشی، چاپ موسوی شبیری زنجانی، قم ۱۴۰۷. |