مندرجات کا رخ کریں

"تفسیر امام حسن عسکری (کتاب)" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
imported>Mabbassi
imported>Mabbassi
سطر 28: سطر 28:


پس اس بنا بعض روایات میں ان دونوں کے باپوں کا تذکرہ کتابت کی غلطی ہے ۔<ref>آقابزرگ طهرانی ، ج ۴، ص ۲۹۲</ref> لیکن یہ بات قابل قبول نہیں ہے کیونکہ  ابن سیار اور ابویعقوب کے باپوں کا نام  شیخ صدوق کے اکثر آثار میں  اس تفسیر سے نقل کردہ روایات میں آیا ہے <ref>من لا یحضرہ الفقیہ ۱۳۶۱ ش ، ص ۴، ۲۴، ۳۳</ref>
پس اس بنا بعض روایات میں ان دونوں کے باپوں کا تذکرہ کتابت کی غلطی ہے ۔<ref>آقابزرگ طهرانی ، ج ۴، ص ۲۹۲</ref> لیکن یہ بات قابل قبول نہیں ہے کیونکہ  ابن سیار اور ابویعقوب کے باپوں کا نام  شیخ صدوق کے اکثر آثار میں  اس تفسیر سے نقل کردہ روایات میں آیا ہے <ref>من لا یحضرہ الفقیہ ۱۳۶۱ ش ، ص ۴، ۲۴، ۳۳</ref>
<!--
سہل بن احمد کے متعلق نجاشی نے کسی قسم کا کوئی عیب و نقص ذکر نہیں کیا ۔<ref>نجاشی ص ۱۸۶</ref> نیز  خطیب بغدادی<ref>خطیب بغدادی ج ۹، ص ۱۲۲</ref> نے صرف اسکے تشیع ہونے کا ذکر کیا اور شیخ مفید کے اس پر نماز جنازہ ادا کرنے کا ذکر کیا ۔ یہ اسکی جلالت پر دلالت کرتا ہے ۔
در باره سهل بن احمد هم [[احمد بن علی نجاشی|نجاشی]]،<ref>نجاشی ص ۱۸۶</ref> ضمن معرفی او، وی را از جمله کسانی دانسته که بر آنها خرده ای نیست. [[خطیب بغدادی]]<ref>خطیب بغدادی ج ۹، ص ۱۲۲</ref> تنها به تشیع سهل بن احمد و نمازگزاردن شیخ [[مفید]] (متوفی ۴۱۳) بر جنازه وی اشاره کرده است که این مطلب بر جلالت مکان وی در بین امامیه دلالت دارد.


نکته جالب توجه دیگر قرار داشتن پدر ابن غضائری در طریق روایت تفسیر با همین سلسله سندِ متداول است.<ref>مجلسی، ج ۱۰۵، ص ۷۸</ref>
نکتۂ جالب کہ جو  توجہ کا باعث ہے وہ یہ ہے کہ اسی سلسلۂ سند میں ابن غضائری کے باپ کا نام آنا متداول ہے۔<ref>مجلسی، ج ۱۰۵، ص ۷۸</ref>


برخی گفته اند که طریق شیخ صدوق در روایت این تفسیر، متعدد است، زیرا در مواردی به جای محمدبن قاسم استرآبادی از محمدبن علی استرآبادی ، در طریق خود از دو راوی تفسیر ، یاد کرده است.<ref>صدوق، ۱۴۱۷، ص ۲۴۰؛ آقابزرگ طهرانی ، ج ۴، ص ۲۸۶، </ref> بعید نیست که این دو، یکی بوده باشند، زیرا ذکر نام جد به جای پدر متداول بوده است.
بعض نے کہا ہے کہ اس تفسیر کی روایت میں شیخ صدوق کے طرق متعدد ہیں کیونکہ بعض جگہوں پر وہ اپنی تفسیر میں  محمدبن قاسم استرآبادی کے بجائے  محمدبن علی استرآبادی کا نام ذکر کرتے ہیں .<ref>صدوق، ۱۴۱۷، ص ۲۴۰؛ آقابزرگ طہرانی ، ج ۴، ص ۲۸۶، </ref> البتہ یہ بھی  بعید نہیں کہ یہ دونوں ایک ہی ہوں کیونکہ جد کا نام باپ کی جگہ پر استعمال ہونا رائج تھا ۔


همچنین ذکر شده که [[حسن بن خالد برقی]] تفسیری در ۱۲۰ جزء به املای امام حسن عسکری(ع) نگاشته است،<ref>ابن شهرآشوب، معالم العلماء، ص ۳۴</ref> اما [[شیخ طوسی]] (متوفی ۴۶۰) <ref>طوسی، ص ۴۶۲</ref> حسن بن خالد برقی را جزو کسانی دانسته که [[ائمه]] را درک نکرده و از آنان به طور غیرمستقیم روایت کرده اند.
اسی طرح ذکر ہوا ہے کہ حسن بن خالد برقی نے امام حسن عسکری کی املا کروائی ہوئی ۱۲۰ اجزاء میں تفسیر لکھی تھی،<ref>ابن شہرآشوب، معالم العلماء، ص ۳۴</ref> لیکن دوسری جانب  [[شیخ طوسی]] (متوفی ۴۶۰) <ref>طوسی، ص ۴۶۲</ref> حسن بن خالد برقی کو ان افراد میں قرار دیتے ہیں جنہوں نے [[ائمہ]] کو درک نہیں کیا تھا اور یہ واسطے کے ساتھ امام سے روایت نقل کرتے تھے ۔
[[محدث نوری|محدّث نوری]] (متوفی ۱۳۲۰ق)،<ref> نوری ج ۵، ص ۱۸۸</ref>  [[ابن شہرآشوب]] متوفی (۵۸۸ق) سے استناد کرتے ہوئے قطعی طور پر  برقی کی تفسیر کو ایک اور طریق کی بنا پر  متن تفسیر امام عسکری(ع) سمجھتے ہیں ۔لیکن اس قول کے قبول نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس تفسیر  کی کوئی روایت ایسی نہیں ہے کہ جس میں برقی کا نام آیا ہو ۔


[[محدث نوری|محدّث نوری]] (متوفی ۱۳۲۰ق)،<ref> نوری ج ۵، ص ۱۸۸</ref> با استناد به گفته [[ابن شهرآشوب]] متوفی (۵۸۸ق) ، قاطعانه تفسیر برقی را طریق دیگر روایت متن تفسیر امام عسکری(ع) دانسته است، اما مشکل پذیرش این قول این است که هیچ روایتی از این تفسیر وجود ندارد که نام برقی در آن ذکر شده باشد.
اسی طرح [[آقابزرگ تہرانی]]<ref>آقابزرگ طہرانی ج ۴، ص ۲۸۳ـ ۲۸۵</ref> نے اشارہ کیا ہے کہ  عسکری سے  [[ابن شہرآشوب]]کی مراد [[امام ہادی علیہ السلام]] ہے اور حسن بن خالد کا امام حسن عسکری کے راویوں میں ہونا ناممکن ہے ۔ <ref> تستری ، ج ۳، ص ۲۲۸</ref>


همچنین [[آقابزرگ تهرانی]]<ref>آقابزرگ طهرانی ج ۴، ص ۲۸۳ـ ۲۸۵</ref> اشاره کرده که مراد از عسکری در قول [[ابن شهرآشوب]]،[[امام هادی علیه السلام]] است و حسن بن خالد نمی تواند از راویان امام حسن عسکری(ع) باشد.<ref> تستری ، ج ۳، ص ۲۲۸</ref>
در فهرست نسخه های عکسی و ریز فیلمهای کتابخانه سیدعبدالعزیز طباطبائی (متوفائےقم  بہمن ۱۳۷۴) کے کتابخانے کی خطی نسخوں کی فہرست اور فیلموں میں تفسیر کے عنوان سے تین کتابیں ابو علی حسن بن خالد برقی نام سے ذکر ہیں۔<ref>طیار مراغی، ص ۱۴۳۶، ۱۴۴۰، ۱۴۸۹</ref> لیکن مقالہ لکھنے والے کے لائبریری میں مراجعہ سے معلوم ہوا کہ وہ یہی تفسیر امام حسن عسکری ہی اور متداول سند والی ہی تفاسیر ہیں اور کم سے کم ان نسخوں میں  برقی سے منسوب ہونے پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔
 
در فهرست نسخه های عکسی و ریز فیلمهای کتابخانه سیدعبدالعزیز طباطبائی (متوفی بهمن ۱۳۷۴) در [[قم]] ، سه نسخه با عنوان تفسیر نگاشته ابوعلی حسن بن خالد برقی معرفی شده است؛<ref>طیار مراغی، ص ۱۴۳۶، ۱۴۴۰، ۱۴۸۹</ref> اما با مراجعه نویسنده مقاله و رؤیت نسخه ها مشخص شد که آنها همین تفسیر منسوب به امام حسن عسکری(ع) و با همین سلسله سندِ متداول اند و دلیلی برای انتساب این نسخه ها به برقی، حداقل در این نسخه ها، وجود ندارد.


==ناقلین کتاب ==
==ناقلین کتاب ==
<!--
پس از شیخ صدوق ، ابومنصور [[احمد بن علی طبرسی]] در کتاب [[احتجاج طبرسی|احتجاج]] ضمن معرفی منابع خود از تفسیر امام حسن عسکری(ع) یاد کرده، اما به عدم اشتهار آن اشاره نموده و به این دلیل ، سند روایت کتاب را به طور کامل آورده است.<ref>طبرسی ج ۱، ص ۶ـ ۸</ref>
پس از شیخ صدوق ، ابومنصور [[احمد بن علی طبرسی]] در کتاب [[احتجاج طبرسی|احتجاج]] ضمن معرفی منابع خود از تفسیر امام حسن عسکری(ع) یاد کرده، اما به عدم اشتهار آن اشاره نموده و به این دلیل ، سند روایت کتاب را به طور کامل آورده است.<ref>طبرسی ج ۱، ص ۶ـ ۸</ref>


گمنام صارف